افسانہ: ’’پروفیسر‘‘

گھر پہنچ کر وہ بستر پر سید ھا لیٹ گیا۔ اس کی ٹانگوں میں شدید درد تھا۔ اس کا دل تو چاہتا تھا کہ بستر پر لیٹے اور سو جائے، لیکن اسے ٹیوشن بھی تو جانا تھا۔ ٹیوشن سے واپس آتے آتے وہ اس قدر تھک چکا تھا کہ آتے ہی دھڑام سے بستر پر گِرا اور سو گیا۔ آدھی رات کے وقت وہ بھوک کی شدت سے جا گا۔ بریڈ پڑی تھی۔ وہ کھا کر اس نے لیکچر کی تیاری کرنے کا سوچا۔ سٹاف روم میں تو سب خوش گپیوں میں مشغول ہوتے ہیں بندہ ایک لفظ بھی پڑھ نہیں سکتا۔ ابھی اس نے ایک لیکچر ہی تیار کیا تھا کہ بجلی بند ہوگئی۔ وہ پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا۔ الارم بجنے سے قبل وہ خواب دیکھ رہاتھاکہ وہ کلاس میں کھڑا لیکچردے رہا ہے اور۔ ۔ ۔ ۔ وہ نیند سے جاگ گیابھا گا بھاگا کپڑے استری کرنے ہی لگا تھا کہ بجلی چلی گئی۔ اب کیا کروں۔ ۔ ۔؟ احد یار۔ ۔ ۔ ۔ بس پانی کے چھینٹوں سے بل نکال لے۔ تیرے کپڑوں کو کون دیکھنے والا ہے۔ ناشتہ کرکے وہ پھر سے تیاری میں مصروف ہو گیا۔ اس وقت وہ چاند گاڑی کے انتظار میں کھڑا خاصا مطمئن تھا کہ اس کی ا چھی تیاری ہو گئی ہے چاند گاڑی والا وہی شخص تھا جس پر وہ گزشتہ دو دن سے کالج جا رہا تھا۔ باؤجی! آج آپ نے کپڑے استری نہیں کرائے۔ نہیں، اس نے مختصر سا جواب دیا۔ کروالیتے تو اچھا ہو تا، بھلا کوئی ایسے بھی کالج جاتا ہے۔ کوئی ٹور شورہونی چاہئے۔ آپ تو افسر بندے ہیں۔ میرے کپڑے استری نہ ہوں تو میں تو کام پر نہیں آتا۔ روز نہا کر، بال دھو کر آتا ہوں، لوگ مجھے شاہ رخ خان کہتے ہیں۔ ویسے میرا نام نعمان ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ ملتی ہے نا میری شکل شاہ رخ خان سے؟ نعمان، شاہ رخ خان کی طرح ٹیڑھا منہ کر کے مسکرایا۔ ۔ پھر پوچھنے لگا۔ ۔ ویسے آپ کا نام کیا ہے باؤ جی!؟ ۔ ۔ احد۔ سڑک پر جاتی ہوئی دوشیزہ کو دیکھ کر اس نے بڑی ادا سے اپنے بالوں کو سنوارا۔ باوٗ جی! آپ نے۔ ۔ ۔ ۔ بتا یا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ لیکن وہ تو اس وقت ایک خواب دیکھ رہاتھا جو اس کے مزدور باپ نے دیکھا تھاکہ ا ن کا بیٹا بڑا ہو کر مزدور نہیں بنے گابلکہ پروفیسر بنے گا۔ پروفیسر۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسر۔ ۔ کیا؟ اس نے نعمان کے ہلانے سے بھوکھلا گیا اور گرتے گرتے سنبھلا۔ ۔ ۔ میں وہ میں۔ ۔ ۔

وہ پھر سے خاموش ہو گیا۔ اور آج کے دن کی منصوبہ بندی میں لگ گیا۔ آج اس کی اچھی تیاری تھی اس نے وہ پوائنٹ بھی سمجھ لئے تھے جو زمانہ طالب علمی میں اس کی نظر سے اوجھل رہ گئے تھے۔ کلاس کو میرا لیکچر ضرور پسند آئے گا۔ وہ جلد ہی اپنا گھر بسا لے گااور مریم اس کے پہلو میں بیٹھی ہو گی او ر وہ اپنے لیکچر تیا ر کر رہا ہو گا اور ا س کی ماں گود میں لئے اس کے ننھے کو لوری سنا رہی ہو گی جیسے وہ بچپن میں اسے سناتی تھی۔ اب میری ماں کا برسوں کا خواب شرمندہ ء تعبیر ہو گا۔
اگر آپ ڈھنگ کے کپڑے پہن کر نکلیں تو آپ بھی کوئی شاہ رخ خان سے کم نہیں ہیں۔ اور لڑکیاں۔ ۔ ۔ چاند گاڑی والا نعمان بغیر رکے بولے چلا جا رہا تھا۔ لیکن وہ ابھی بھی اپنے سپنوں کی دنیا میں ہی تھااور بار بار اس کے سامنے مریم کا اداس چہرہ آکر اس کو دکھی کر دیتا۔ باؤجی! اتریں گے نہیں۔ ۔ ۔ کالج آگیا ہے۔ اور ایک بات اور۔ ۔ ۔ میں آپ کو روز اسی ٹائم پہ لے لیا کروں گا۔ مجھے لڑکیوں کو چھوڑ کر اسی وقت یہاں سے ہر روزگزرنا ہوتا ہے۔ احد اترا اور کرایہ اد کرکے اپنی منزل کی طرف بڑھ گیا۔ وہ اس نے حاضری رجسٹر میں انٹری کی وہ واپس مڑنے ہی والا تھا کہ ایک پروفیسر نے بڑے معنی خیز انداز میں پوچھا۔ ۔ سلیکٹی یا سی۔ ٹی۔ آئی۔ ۔ جی۔ ۔ میں سمجھا نہیں۔ اس نے بڑی سادگی سے پوچھا۔ تم یہ بھی نہیں جانتے کہ سلکیٹی اور سی۔ ٹی۔ آئی میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس نے سی۔ ٹی۔ آئی کالفظ قدرے تحقیر آمیز انداز میں ادا کیا۔ جی۔ ۔ ۔ نہیں،Would you like to explain it اس کا لب وہ لہجہ سن کر اس کے اندر کا سلیکٹی کہیں جا کر مر گیا، وہ اسلامیات کا پروفیسر تھا اس کی انگریزی سن کر دہل گیا۔ ۔ ۔ ۔ آئی۔ ۔ ۔ ام۔ ۔ ۔ ۔
I can understand urdu
اب اس کا رہا سہا اعتماد بھی پھُر سے اڑ گیا۔
Sir pleas I am getting late
اچھا جاؤجاؤ۔ ۔ میں بھی لیٹ ہو رہا ہوں۔ پھر کبھی سہی۔ ۔ ۔ پھر کھبی سہی۔ ۔ اس نے اپنی خفت چھپانے کے لئے مصنوعی مسکراہٹ کا سہارہ لیا۔ اور چلتا بنا۔
اپنے لیکچر روم میں پہنچا تو چند لڑکے کلاس میں موجود تھے اور کچھ سست رفتاری سے لیکچر روم مین داخل ہو رہے تھے۔ اس نے اپنے لیکچر کا آغاز طلباء کے تعارف سے کیا اور انگریزی میں سوال کر تا رہا۔ پہلے تو لڑکے تعارف کے لفظ سے بھو کھلا گئے اور پھر انگریزی میں جواب دینے سے۔ اس نے کہا کہ یہی سوال لڑکے اس سے پو چھیں لیکن ایک ایک سوال اور باری باری۔ لڑکوں نے استاد سے سوال کرنے کا سن کر ہمت دکھا ئی اور ڈرے سہمے لہجے میں سوال پوچھنے لگے اس نے تعارفی سوالات انگریزی میں تختہ سیا ہ پر بھی لکھ دئے۔ اب لڑکوں کو خاصی آسانی ہوگئی اور انھوں نے اعتماد سے پو چھا اور دھیان سے جواب سنے۔ بار بار اس نے یہ سرگرمی کلاس میں دہرائی تو جلد ہی کلاس میں موجود لڑکے تعارفی سوالوں کے جواب دینے کے قابل ہو گئے۔ آہستہ آہستہ باقی لڑکے بھی اسی دوران کلاس میں شامل ہو تے رہے۔ اب تمام لڑکے بڑی توجہ سے احد کی بات سننے کو تیار تھے۔ اس کے بعد اس نے لڑکوں سے انگریزی میں سوال کئے لیکن ان کو اردومیں جواب دینے کی چھوٹ دے دی۔ زبان کیسے سیکھی جاتی ہے؟ اس کے متعلق لڑکوں کو بتایا۔ پھر اس کے بعد اس نے بتایا کہ وہ کل کیا پڑھیں گے۔ اور کہا کہ وہ کل سبق کو دیکھ کر آئیں۔ لڑکے دلچسپی سے اس کی باتیں سنتے رہے تھے۔ شاید پہلی دفعہ کسی استاد نے ان کی اپنی زندگی سے متعلق ان سے بات کی تھی۔ پھر اس نے حاضری لی۔ اتنی دیر میں پیریڈ ختم ہو گیا اور احد واپس اپنے سٹاف روم پہنچ گیا۔
وہاں جا کر اس نے اگلے لیکچر کو دیکھنے کے لئے ابھی کتاب کھولی ہی تھی کہ ایک سینئر پروفیسر نے اسے بتایا کہ اسے سر راشد کی کلاس لینی ہے۔ لیکن۔ ۔ ۔ میں تو ابھی کلاس لے کر آرہا ہوں اور میں نے ابھی ناشتہ بھی کرنا ہے۔ ۔ اس نے ہولے ہولے اپنا مدعا بیان کردیا۔ اب وہ ناشتہ کرنے کے لئے کینٹین جانے کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں وائس پرنسپل صاحب کا پیغام آگیا کہ وہ اس کو یاد کر رہے ہیں۔ وہاں جا کر اس نے اجازت لی۔ اور کہا، جی۔ ۔ سر۔ ۔ ۔ کون؟ میں احد۔ ۔
احد تمھاری بہت شکا یتیں مل رہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وائس پرنسپل نے اس کوبغور دیکھتے ہوئے کہا۔
سر۔ ۔ ۔ کس قسم کی۔ ۔ ۔ ا سکے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے پھر بھی اس نے حوصلہ کر کے پوچھا۔ تم اپنے سینئر اساتذہ کا احترام نہیں کرتے۔ ان کی بات نہیں مانتے۔ لیکن سر! میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ اس نے پر اعتماد لہجے میں اپنی صفائی پیش کی۔ آئندہ مجھے ایسی کو ئی شکایت نہ ملے۔ ورنہ ہمارے پاس ایک بڑی لسٹ موجود ہے اورتمھارا نام بھی۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ہاتھوں میں پسینے آنے لگے۔ اسکو اپنامستقبل ڈولتا سا محسوس ہوا۔ سر! میںآئندہ ایسی شکائت کاموقع نہیں دوں گا۔ I am extemly sorry اوروہ مطلوبہ کلاس میں جا پہنچا۔ اس نے غنیمت سمجھا کہ فلسفے کی کلاس نہیں ملی۔ اس نے وہ سر گرمی دہرائی اور یوں وہ یہ پیریڈ پڑھانے میں بھی کامیاب ٹھہرا۔ وہ سٹاف روم پہنچا باقی تما م سی ٹی آئیز اپنے اپنے لیکچر تیا کرنے میں مصروف تھے لیکن سینئر اساتذہ کا کہیں کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ اس کے گلے میں سخت خراش آگئی تھی۔ اس نے اگلی کلاس کی کتابیں سنبھالیں اور چلتا بنا۔ آپ میں جو جو فری ہے وہ شمس بلا ک میں چلا جائے وہاں پر لڑکوں کا گرینڈ ٹیسٹ ہے۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے اوراشارہ کرتے اٹھ کر چلے گئے۔ ٹیسٹ تین پیریڈ پر مشتمل تھا۔ جب وہ فارغ ہوئے تو ان کی کلاس گراؤنڈ میں مٹر گشت کر رہی تھی۔ اس وقت تک پرنسپل بھی تشریف لا چکے تھے۔ سب کو پرنسپل آفس میں بلوایا گیا۔ اور بغیر کسی پوچھ گچھ کے پرنسپل صاحب ان پر برس پڑے۔ ان میں سے ایک ٹیچر نے بتا یا کہ ان کو فلاں ٹیچر نے کہا تھا کہ انھوں نے شمس بلا ک میں جاکر ڈیٹو ٹی دینی ہے۔ پرنسپل نے ان کو بھیج کر متعلقہ ٹیچر کو بلوایا تو معلوم ہوا کہ اس نے اپنی ڈیوٹی پر سب سی ٹی آئز کو بھیج دیا تھا۔