[تحریر: منشی پریم چند]
پہلی بار: ہندی میں اسی عنوان سے ’’چاند ‘‘نومبر 1924میں شائع ہوا۔
کتابی صورت میں: اردو میں 1929(فردوس خیال)
(1)
کسی گاؤ ں میں شنکر نامی ایک کسان رہتا تھا۔ سیدھا سادا غریب آدمی تھا۔ اپنے کام سے کام، نہ کسی کے لینے میں، نہ کسی کے دینے میں، چھکاپنجا نہ جانتا تھا۔ چھل کپٹ کی اسے چھو ت بھی نہ لگی تھی۔ ٹھگے جا نے کی فکر نہ تھی۔ ود یانہ جانتا تھا۔ کھانا ملا تو کھا لیا نہ ملا تو چربن پر قنا عت کی۔ چر بن بھی نہ ملا تو پانی لیا اور راما کا نام لے کر سو رہا۔ مگر جب کوئی مہمان درواز ے پر آ جاتا تو اسے یہ غنا کا راستہ تر ک کر دینا پڑ تا تھا۔ خصوصاً جب کوئی سادھومہا تما آ جاتے تھے تو اسے لا زماً دنیا وی باتو ں کا سہا را لینا پڑ تا۔ خود بھو کا سو سکتا تھا مگر سادھو کو کیسے بھو کا سلا تا۔ بھگو ان کے بھگت جو ٹھہرے۔
ایک روز شام کو ایک مہاتما نے آکر اس کے درواز ے پر ڈ یر ا جمادیا۔ چہرے پر جلال تھا۔ پیتا میر گلے میں، جٹا سر پر، پیتل کا کمنڈ ل ہاتھ میں، کھڑ اؤ ں پیر میں، عینک آنکھوں پر، غر ض کہ پو را بھیس ان مہا تما کا ساتھا جو رؤسا کے محلو ں میں ریاضت، ہوا گاڑیوں پر مندروں کا طواف اور یو گ (مراقبہ ) میں کمال حال کرنے کے لیے لذیذ غذائیں کھا تے ہیں۔ گھر میں جو کا آ ٹا تھا وہ انہیں کیسے کھلا تا؟ زمانۂ قدیم میں جو کی خواہ کچھ اہمیت رہی ہو، مگر زمانہ حال میں جو کی خورش مہاتما لوگو ں کے لیے ثقیل اور دیر ہضم ہوئی ہے، بڑی فکر ہوئی کہ مہا تما جی کو کیا کھلاؤں؟ آخر طے کیا کہ کہیں سے گیہوں کا آٹا ادھا ر لا ؤ ں۔ گاؤ ں بھر میں گیہوں کا آٹا نہ ملا۔ گاؤں بھر میں سب آدمی ہی آدمی تھے، دیو تا ایک بھی نہ تھا، دیوتا ؤ ں کو خورش کیسے ملتی؟ خوش قسمی سے گاؤں کے پر وہت جی کے یہاں تھو ڑے سے گیہوں مل گئے۔ ان سے سوا سیر گیہوں ادھار لیے اور بیوی سے کہا کہ پیس دے۔ مہا تما نے کھا یا۔ لمبی تا ن کر سوئے اور صبح آشیر واددے کر اپنا راستہ لیا۔
پر وہت جی سال میں دوبار کھلیانی لیا کرتے تھے۔ شنکر نے دل میں کہا کہ سوا سیر گیہوں کیا لوٹا ؤں۔ پنسیر ی کے بدلے کچھ زیادہ کھلیانی دے دوں گا۔ وہ بھی سمجھ جائیں گے، میں بھی سمجھ جاؤں گا۔ چیت میں جب وہ پر وہت جی پہنچے تو انھیں ڈیڑ ھ پنسیر ی کے قریب گیہوں دے دیے اور اپنے کو سبکد وش سمجھ کر اس کا کوئی تذکرہ نہ کیا۔ پروہت جی نے بھی پھر کبھی نہ مانگا۔ سید ھے سادھے شنکر کو کیا معلوم کہ یہ سوا سیر گیہوں چکانے کے لیے مجھے دوبارہ جنم لینا پڑے گا۔
سات سال گذ ر گئے۔ پر وہت جی برہمن سے مہاجن ہوئے۔ شنکر کسان سے مزور ہو گیا۔ اس کا چھو ٹا بھائی منگل اس سے الگ ہو گیا تھا۔ ایک ساتھ رہ کر دونو ں کسان تھے، الگ ہو کر دونو ں مزدور ہوگئے تھے۔ شنکر نے بہت چاہا کہ نفا ق کی آگ بھڑ کنے نہ پاوے۔ مگر حالت نے اس کو مجبور کر دیا۔ جس وقت الگ چولھے جلے وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ آج سے بھائی بھا ئی دشمن ہو جائیں گے۔ ایک روئے تو دوسر ا ہنسے گا، ایک کے گھر میں غمی ہو گی تو دوسرے کے گھر گلگلے پکیں گے۔ محبت کا رشتہ، دودھ کا رشتہ آج ٹو ٹا جاتا ہے۔ اس نے سخت محنت کر کے خاندانی عزت کا یہ درخت لگایا تھا۔ اسے اپنے خون سے سینچا تھا، اس کا جڑ سے اکھڑ نا دیکھ کر اس کے دل کے ٹکڑ ے ہو ئے جاتے تھے۔ سات روز تک اس نے دانے کی صورت بھی نہ دیکھی۔ دن بھر جیٹھ کی دھو پ میں کا م کرتا اور رات میں لپیٹ کرسورہتا۔ اس سخت رنج اور ناقابل برداشت تکلیف نے خون کو جلا یا دیا، گوشت اور چربی کو گھُلا دیا۔ بیمار پڑا تو مہینوں چار پائی سے نہ اٹھا۔ اب گزر بسر کیسے ہو؟ پانچ بیگھے کے آدھے کھیت رہ گئے، ایک بیل رہ گیا۔ کھیتی کیا خاک ہوتی۔ آخر یہا ں تک نوبت پہنچی کہ کھیتی صرف نام بھر کو رہ گئی۔ معاش کا سارا بھار مزدوری پر آپڑا۔
سا ت سال گزر گئے۔ ایک دن شنکر مزدوری کر کے لو ٹا تو راستہ میں پر وہت جی نے ٹو ک کر کہا۔ شنکر کل آکے اپنے بیج بینک کا حساب کر لے۔ تیرے یہاں ساڑھے پانچ من گیہوں کب سے باقی پڑے ہیں اور تو دینے کا نام نہیں لیتا۔ کیا ہضم کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘۔
شنکرنے تعجب سے کہا’’میں نے تم سے کب گیہوں لیے تھے کہ ساڑھے پانچ من ہو گئے؟تم بھو لتے ہو، میرے یہاں نہ کسی چھٹانک بھرا ناج ہے، نہ ایک پیسہ ادھار‘‘۔
پروہت۔ ’’اسی نیت کا تو یہ پھل بھو گ رہے ہو کھانے کو نہیں جڑتا۔
یہ کہہ پر وہت جی نے اس کا سوا سیر گیہوں کا ذکر کیا جو آج سے سال قبل شنکر کو دیے تھے۔ شنکر سن کر ساکت رہ گیا۔ میں نے کتنی بار انہیں کھلیانی دی۔ انہوں نے میرا کون سا کا م کیا۔ جب پو تھی پتر اد یکھنے، ساعت شگون بچارنے دوار پر آتے تھے تو کچھ نہ کچھ دچھنا لے ہی جا تے تھے۔ اتنا سوارتھ۔ سوا سیر اناج کولے انڈے کی طرح یہ بھو ت کھڑا کر دیا۔ جو مجھے نگل ہی جائے گا۔ اتنے دنوں میں ایک بار بھی کہہ دیتے تو گیہوں دے ہی دیتا۔ کیا اسی نیت سے چپ بیٹھے رہے۔ بولا۔ ’’مہا راج نام لے کر تو میں نے اتنا انا ج نہیں دیا، مگر کئی با ر کھلیانی میں سیر سیر، دودوسیر دے دیا ہے۔ اب آپ آج ساڑھے پانچ من مانگتے ہو، میں کہاں سے دوں گا؟
پروہت۔ ’’لیکھا جَو جَو بکسیں سوسو۔ تم نے جو کچھ دیاہوگا، کھلیانی میں دیاہوگا، اس کا کوئی حساب نہیں۔ چاہے ایک کی جگہ چار پنسیر ی دے، تمہارے نام ہی میں ساڑھے پانچ من لکھا ہوا۔ جس سے چاہے حساب لگو ا لو۔ دے دو تو تمہارا نام جھیک (کاٹ )دوں، نہیں تو اور بڑھتا رہے گا‘‘۔
شنکر’’پانڈ ے، کیوں ایک غریب کو ستانے ہو میر ے کھانے کا ٹھکا نا نہیں، اتنا گیہوں کس کے گھر تو دو گے‘‘۔
پر وہت۔ ’’جس کے گھر سے چاہے لا ؤ، میں چھٹا نک بھر بھی نہ چھوڑوں گا۔ یہاں نہ دوگے، بھگوان کے گھر تو دو گے‘‘۔
شنکر کا نپ اٹھا۔ ہم پڑھے لکھے لو گ ہوتے تو کہہ دیتے۔ ’’اچھی بات ہے، ایشو ر کے گھر ہی دیں گے وہا ں کی تو ل یہاں سے کچھ بڑی تو نہ ہو گی۔ کم سے کم اس کا کو ئی ثبو ت ہمارے پاس نہیں۔ پھر اس کی کیا فکر؟ ‘‘مگر شنکر اتنا عقل مند، اتنا چالاک نہ تھا۔ ایک تو قرض، وہ بھی بڑہمن کا! بہی میں نام رہے گا تو سید ھے نرک میں جاؤں گا۔ اس خیال سے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ بو لا۔ مہاراج تمہار اجتنا ہو گایہیں دوں گا۔ ایشو ر کے یہاں کیوں دوں؟ اس جنم میں تو ٹھو کر کھا ہی رہاہوں اُس جنم کے لیے کیوں کا نٹے بو ؤں؟ مگر یہ کو ئی نیا ئے نہیں ہے۔ تم نے رائی کا پر بت بنا دیا۔ برہمن ہو کے تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہتے تھا۔ اسی گھڑی تقاضا کر کے لیا ہوتا تو آج میر ے اوپر بڑا بوجھ کیوں پڑتا؟ میں تو دے دوں گا، لیکن تمہیں بھگوان کے یہاں جواب دینا پڑے گا؟
پر وہت:’’وہاں کا ڈر تمہیں ہوگا۔ مجھے کیوں ہونے لگا۔ وہاں تو سب اپنے ہی بھائی بند ہیں۔ رشی مُنی سب تو برہمن ہی ہیں۔ کچھ بنے بگڑے گی، سنبھال لیں گے۔ تو کب دیتے ہو؟۔ ‘‘
شنکر۔ ’’میرے پاس دھرا تو ہے نہیں، کسی سے مانگ جا نچ کر لا ؤ ں گا تبھی دوں گا‘‘۔
پروہت۔ ’’میں یہ مانوں گا۔ سات سال ہو گئے۔ اب ایک کا بھی ملا حظہ نہ کر وں گا۔ گیہوں نہیں دے سکتے تو دستاو یزلکھ دو۔
شنکر۔ ’’مجھے تو دینا ہے۔ چاہیے گیہوں لے لو۔ چاہے دستاویزلکھاؤ کس حساب سے دام رکھو گے؟
پروہت۔ ’’جب دے ہی رہا ہوں تو بازار بھاؤ کا ٹوں گا۔ پاؤ بھر چھڑا کر کیوں بُر ا بنوں ‘‘۔
حساب لگایا گیا توگیہوں کی قیمت ساٹھ روپیہ بنی۔ سا ٹھ کا دستاویز لکھا گیا۔ تین روپیہ سیکڑہ سود۔ سال بھر میں نہ دینے پر سود کی شر ح ساڑہے تین روپے سیکڑہ۔ آٹھ آنے کا اسٹا مپ، ایک روپیہ دستاویز کی تحر یر شنکر کو علیحدہ دینی پڑی۔
سا رے گاؤں نے پروہت جی کی مذمت کی مگر سامنے نہیں۔ مہاجن سے سبھی کو کام پڑتاہے اس کے منہ کون لگے؟
(3)
شنکرنے سال بھر تک سخت ریاضت کی میعاد سے قبل اس نے روپیہ ادا کرنے کابرَت سا کرلیا۔ دوپہر کو پہلے بھی چولھا نہ جلتا تھا، صرف چربن پر بسر ہوتی تھی۔ اب وہ بھی بند ہوا۔ صرف لڑکے کے لیے رات کو روٹیاں رکھ دی جاتیں۔ ایک پیسہ کی تمباکو روزپی جاتا تھا۔ یہی ایک لت تھی جسے وہ کبھی نہ چھو ڑ سکا تھا۔ اب وہ بھی اس کٹھن برت کے بھینٹ ہو گئی۔ اس نے چلم پٹک دی، حقہ تو ڑ دیا اور تمبا کو کی ہانڈی چور چور رکرڈالی۔ کپڑے پہلے بھی تر ک کی انتہا ئی حد تک پہنچ چکے تھے۔ اب وہ باریک ترین قدر تی کپڑوں میں منسلک ہو گئے۔ ماگھ کی ہڈیو ں تک میں سیرایت کر جانے والی سردی کو اس نے آگ کے سہارے کا ٹ دیا۔
ا س اٹل ارادے کا نتیجہ امید سے بڑھ کر نکلا۔ سال کے آخر تک اس کے پا س ساٹھ روپے جمع ہو گئے۔ اس نے سمجھا کہ پنڈت جی کواتنے روپے دے دوں گااور کہوں گامہاراج باقی روپے بھی جلدی آپ کے سامنے حاضر کردوں گا۔ پندرہ کی تو اور بات ہے۔ کیا پنڈت جی اتنا بھی نہ مانیں گے۔ اس نے روپے لیے اور لے جا کر پنڈت جی کے قدموں پر رکھ دیے۔
پنڈ ت جی نے متعجب ہو کر پوچھا۔ ’’کسی سے ادھار لے کیا؟‘‘
’’شنکر‘‘۔ نہیں مہاراج !آپ کی اسیس سے اب کی مجوری اچھی ملی‘‘۔
پنڈ ت جی، ’’لیکن یہ تو ساٹھ ہی ہیں‘‘۔
شنکر۔ ’’ہاں مہاراج !اتنے ابھی لے لیجیے۔ باقی دوتین مہینے مین دے دوں گا۔ مجھے ارن کر دیجیے‘‘۔
پنڈ ت جی۔ ’’ارن تو جبھی ہوں گے، جب میری کوڑی کوڑی چکا دوگے؟جاکر میرے پندرہ او رلاؤ‘‘۔
شنکر۔ ’’مہاراج !اتنی دیا کرو۔ اب سانجھ کی روٹیوں کا بھی ٹھکانا نہیں ہے۔ گاؤ ں میں ہوں توکبھی نہ کبھی دے ہی دوں گا‘‘۔
پنڈت۔ ’’میں یہ روگ نہیں پالتا۔ نہ بہت باتیں کرنا جانتاہوں۔ اگر میرے پورے روپے نہ ملیں گے تو آج سے ساڑے تین روپے سیکڑہ کا بیاج چلے گا۔ اتنے روپے چاہے اپنے گھر میں رکھو چاہے میر ے یہاں چھوڑ جاؤ‘‘۔
شنکر۔ ’’اچھا، جتنالایا ہوں، اتنا رکھ لیجیے۔ میں جاتاہوں، کہیں سے پندرہ اور لانے کی فکر کرتا ہوں ‘‘۔
شنکر نے سارا گاؤ چھان مارا مگر کسی نے روپے نہ دیے۔ اس لیے نہیں کہ اس کا اعتبا ر نہ تھا، یا کسی کے پاس روپے نہ تھے، بلکہ پنڈت جی کے شکار کو چھیڑنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔
(4)
عمل کے بعد رد عمل کا قدرتی قاعدہ ہے۔ شنکر سال بھر تک تپسیاکرنے پر بھی جب قر ض بیباق کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو اس کی احتیاط مایوسی کی شکل میں تبدیل ہوگئی۔ اس نے سمجھ لیاکہ جب اتنی تکلیف اٹھا نے پر سال بھر میں ساٹھ روپے سے زیادہ نہ جمع کر سکا تو اب کون سا اپا ئے ہے جس سے اس کے دونے روپے جمع ہوں۔ جب سرپر قر ض کا بو جھ ہی لدنا ہے توکیا من بھر اور کیا سوا من کا۔ اس کی ہمت پست ہوگئی محنت سے نفرت ہوگئی۔ امید ہی حوصلہ کی پیدا کرنے والی ہے۔ امید میں رونق ہے، طاقت ہے، زندگی ہے، امید ہی دنیا کی متحرک کرنے والی قوت ہے۔ شنکر مایوس ہوکر بے پر وا ہوگیا۔ وہ ضرور تیں جن کو اس نے سال بھر تک ٹال رکھا تھا۔ اب دروازے پر کھڑی ہونے والی بھکارنیں نہ تھیں، بلکہ سر پر سوار ہونے والی چڑیلیں تھیں جو اپنا چڑھا وا لیے بغیر جان ہی نہیں چھوڑتیں۔ کپڑوں میں پیوندلگنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اب شنکر کو حساب ملتا تو روپے جمع نہ کرتا۔ کبھی کپڑے لاتا اور کبھی کھانے کی کوئی چیز۔ جہاں پہلے تمباکو پیا کرتا تھاوہاں اب گانجہ اور چرس کا چسکا بھی لگا۔ اسے اب روپے ادا کرنے کی کوئی فکر نہ تھی۔ گویا اس پر کسی کا ایک پیسہ بھی نہ تھا۔ پہلے لرزہ آجانے پر بھی وہ کا م کرنے ضرور جاتا تھا۔ اب کام پر نہ جانے کا بہانہ تلاش کیا کرتا۔
اس طرح تین سال گزر گئے۔ پنڈت جی مہاراج نے ایک بار بھی تقاضانہ کیا۔ وہ ہوشیاری شکاری کی طرح تیر بہد ف نشانہ لگانا چاہتے تھے۔ پہلے سے شکار کو بھڑ کا دینا ان کے شیوہ کے خلاف تھا۔
ایک روز پنڈ ت جی نے شنکر کوبلایا۔ حساب دکھایا۔ ساٹھ روپے جمع تھے وہ منہا کرنے پر بھی اب شنکر کے ذمے ایک سو بیس روپے نکلے۔
’’اتنے روپے تو اُسی جنم میں دوں گا۔ اس جنم میں نہیں ہوسکتا؟‘‘
پنڈ ت۔ ’’میں اسی جنم میں لوں گا۔ اصل نہ سہی سود تو دینا ہی پڑ ے گا ‘‘۔
شنکر۔ ’’ایک بیل ہے وہ لے لیجیے۔ ایک جھو نپڑی ہے، وہ لے لیجیے ‘‘اور میر ے پاس رکھاکیاہے؟‘‘۔
پنڈت۔ ’’مجھے بیل بد ہیالے کریکا کرنا ہے۔ مجھے دینے کو تمہارے پاس بہت کچھ ہے‘‘۔
شنکر۔ ’’اورکیا ہے مہاراج‘‘۔
پنڈت۔ ’’کچھ نہیں ہے، تم تو ہو؟ آخر تم بھی کہیں مزدوری کرنے ہی جاتے ہو۔ مجھے بھی کھیتی کرنے کے لیے ایک مزدور رکھناہی پڑتا ہے۔ سود میں تم ہما رے یہاں کام کیا کرو۔ جب سبھیتاہواصل بھی دے دینا۔ سچ تویہ ہے کہ اب تم دوسری جگہ کام کرنے کے لیے جانہیں سکتے۔ جب تک میر ے روپے نہ چکادو۔ تمہارے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے۔ اتنی بڑی گٹھری میں کس اعتبار پر چھوڑدوں؟ کون اس کاذمہ لے گاتم مجھے مہینے مہینے سود دیے جاؤ گے۔ اور کہیں کما کر جب تم مجھے سود بھی نہیں دے سکتے تو اصل کی کو ن کہے؟‘‘۔
شنکر۔ ’’مہاراج !سود میں تو کا م کروں گا اور کھاؤ گاکیا؟‘‘۔
پنڈت ’’تمہاری گھر والی ہے، لڑکے ہیں۔ کیا وہ ہاتھ پیر کٹا بیٹھیں گے، تمہیں آدھ سیر جور وز چربن کے لیے دے دیا کروں گا۔ اوڑھنے کے لیے سال میں کمبل پاجاؤ گے۔ ایک سلوکا بھی بنو ادیا کروں گا، اورکیا چاہیے؟ یہ سچ ہے کہ اور لو گ تمہیں چھ آنے روز دیتے ہیں لیکن مجھے ایسی غرض نہیں ہے۔ میں تو تمہیں اپنے روپے بھر انے کے لیے رکھتا ہوں‘‘۔
شنکر نے کچھ دیر تک گہر ے سوچ میں پڑے رہنے کے بعد کہا۔ ’’مہاراج !یہ تو جنم بھر کی گلامی ہوئی؟۔
پندت۔ ’’غلامی سمجھو، چاہے مجوری سمجھو۔ میں اپنے روپے بھرائے بنا تمہیں نہ چھوڑوں گا۔ تم بھا گو گے تو تمہارا لڑکا۔ ہا ں جب کوئی نہ رہے گاتب کی بات دوسری ہے‘‘۔
اس فیصلہ کی کہیں اپیل نہ تھی۔ مزدور کی ضمانت کون کرتا؟ کہیں پناہ نہ تھی؟ بھاگ کر کہاں جاتا؟ دوسرے روز سے اس نے پنڈت جی کے ہاں کام کرنا شروع کردیا۔ سوا سیر گیہوں کی بدولت عمر بھر کے لیے غلامی کی بیڑ یا ں پاؤں میں ڈالنی بڑیں۔ اس بد نصیب کو اب اگر کسی خیال سے تسکین ہوتی تھی۔ تو اسی سے کہ یہ سب میرے پچھلے جنم کا بھو گ ہے۔ عورت کووہ کا م کرنے پڑے تھے جو اس نے کبھی نہ کیے تھے۔ بچے دانے دانے کو ترستے تھے، لیکن شنکر چپ دیکھنے کے سوااور کچھ نہ کر سکتا تھا۔ وہ گیہوں کے دانے کسی دیوتا بد ھا کی طرح تمام عمر اس کے سر سے نہ اترے۔
(5)
شنکر نے پنڈت جی کے یہاں بیس برس تک غلامی کرنے کے بعد اس غم کدے سے رحلت کی۔ ایک سو بیس ابھی تک اس کے سر پر سوار تھے۔ پنڈت جی نے اس غریب کو ایشور کے دربار میں تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا۔ پس انہوں نے اس کے جوان بیٹے کی گردن پکڑی۔ آج تک وہ پنڈت جی کے یہاں کام کرتا ہے۔ اس کا ادھار کب ادا ہو گا، ہو گا بھی یا نہیں، ایشور ہی جانے۔
ناظرین! اس قصہ کوفرضی نہ سمجھئے، یہ سچا واقعہ ہے ایسے شنکروں اور ایسے پروہتوں سے دنیا خالی نہیں ہے۔