[تحریر: کرشن چندر]
میں نے سو روپے کا کام کیا تھا۔ مجھے سو روپے ملنے چاہیے اس لیے میں نے سیٹھ سے بات کی۔
سیٹھ نے کہا:’’سولہ تاریخ کو آنا۔‘‘
میں سولہ تاریخ کو گیا۔
سیٹھ وہاں نہیں تھا۔ اس کا بڈھا منیجر جس کی چند یا صاف تھی اور جس کا ایک دانت باہر نکلا ہوا تھا اور جو اپنے اسیسٹنٹ کو کسی غلطی پر ڈانٹ رہا تھا،مجھ سے بڑی شفقت سے کہنے لگا:’’تم نے سو روپے کا کام کیا ہے،تم کو برابر سو روپے ملیں گے۔ مگر سیٹھ یہاں پر نہیں ہے کل آنا۔‘‘
میں نے پوچھا:’’اگر سیٹھ کل بھی یہاں نہیں ہوا تو ؟‘‘
منیجر بولا:’’تو میں انتظام کر رکھوں گا،تم فکر نہ کرو تمھارا پیسہ تم کو مل جائے گا۔
میں نے دفتر سے باہر نکل کر دو پیے کا پونا پتہ، سکیلی مسالا اور ہری پتی والا پان کھایا۔ دو پیسے میں دیسی کالا کانڈی اور ٹھنڈی والا پان بھی کھا سکتا تھا اور ملٹھی،لال مسالا والا پان بھی اور بنارسی چھوٹا پتہ، گیلی ڈلی اور الائچی والا پان یا مو ہنی تمباکو والا،مگرمیں نے صرف پونا پتہ سکیلی مسالا اور ہری پتی والا ہی کھایا کیو ں کہ مجھے بھوک بہت لگ رہی تھی اور میری جیب میں صرف ڈیڑ ھ دو آنے تھے اور یہ پان جو میں نے کھایا کا فی موٹا ہے اور دیر تک منہ میں رہتا ہے۔ پھر میں ایک آنے کا ٹرام کا ٹکٹ لیا اور ٹرام میں بیٹھ کر میں نے زور سے سیٹھ کی بلڈنگ کی طرف تھوک دیا۔ دوسرے دن پھر سیٹھ وہاں نہیں تھا۔ اس کے منیجر نے کہا:’’سیٹھ آج بھی یہاں نہیں ہیں اور پھر تمہارے حساب میں کچھ غلطی بھی ہے۔‘‘
مجھے غصہ آیا۔ میں حساب کر چکا تھا۔ منیجر اسے دس بار چیک کر چکا تھا پھر بھی کہیں غلطی نکل آتی ہے مگر میں کچھ نہ کہہ سکا کیونکہ منیجر کا لہجہ بہت نرم تھا اور اس کا ہر فقرہ ریشم میں لپٹا ہوا تھا۔ اس لیے میں نے بھی نرمی سے کہا:’’میراحساب تو بہت صاف ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر میں نے اپنی خاکی پتلون کی جیب سے ایک میلا پرزہ نکالا اور منیجر کے ساتھ گیارھویں دفعہ تفصیلات چیک کرنے بیٹھ گیا:اتنے پیسے ریگ مال پھیرنے کے،اتنے پیسے روغن کے، اتنے پیسے مزدوری کے، ریگ مال اور روغن کی رسیدیں میرے پاس تھیں۔ مزدوری پہلے سے طے ہو چکی تھی۔ سیٹھ کا فرنیچر میری محنت سے جگ مگ،جگ مگ کر رہا تھا۔
منیجر نے کہا:’’ہاں حساب ٹھیک ہے،اچھا کل آنا۔‘‘
’’ہاں کل ضرور۔‘‘منیجر نے چند یا کو سہلاتے ہوئے کہا۔
باہر آکر میں نے دو پیسے کا پان بھی نہیں کھایا، ایک آنے کا ٹرام کا ٹکٹ بھی نہیں لیا اور فیروز شاہ مہتا روڈسے سائین تک پیدل گیا۔
مگر دوسرے دن میں پھر سیٹھ کے دفتر گیا۔
آج دفتر میں سیٹھ موجود نہیں تھا،منیجر بھی غائب تھا۔
منیجر کا اسسٹنٹ چندھیائی ہوئی آنکھوں سے ایک سنگل چائے اپنے سامنے رکھے کچھ سوچ رہا تھا۔ اس کا چہرہ بہت زرد تھا۔ ماتھے کے قریب،سفید رخساروں کے قریب پیلا اور تھوڑی کے قریب مٹیلا سا تھا۔ ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے کسی نے ان کے چہرے کی ہڈیوں پر کھال کے بجائے میلے میلے، پیلے پیلے کاغذ تراش کے منڈھ دئیے ہوں۔ میں اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔
اسسٹنٹ نے پیا لی سے نگاہ اٹھا کر میری طرف دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ میں نے پوچھا :’’سیٹھ کہاں ہیں؟‘‘ وہ بولا:’’سیٹھ اپنے دوسرے دفتر گیا ہوا ہے۔‘‘
’’اور منیجر کہاں ہے؟‘‘ ’’منیجر سیٹھ کے تیسرے دفتر گیا ہے۔‘‘
’’تو مجھے یہاں چوتھی منزل پر کس لیے بلایاہے؟‘‘میں نے ذرا غصے میں تیز ہوتے ہوئے کہا۔
اسسٹنٹ نے چائے کا آخری گھونٹ بھی نگل لیا۔ آہستہ سے بولا:’’تم یہاں بیٹھ جاؤ منیجر ابھی آتا ہو گا۔ اس سے بات کر لینا۔‘‘
میں ایک کرسی پر ساڑھے دس بجے سے لے کر پونے دو بجے تک بیٹھا رہا۔ پہلے میں نے سوچا کہ کسی شیشے کا ٹکڑا لے کر سارے روغن کو اتاردوں جو میں نے اتنی محنت سے اس فرنیچر پر چڑھایا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اسسٹنٹ کے نقلی چہرے سے پیلے پیلے کا غذ کے ٹکڑوں کو اتار تا جاؤں حتیٰ کہ اندر کی ہڈی ننگی ہو جائے۔ بھر میں نے سوچا :منیجر کو جان سے مار دینا بہتر ہو گا۔ بہت دیر تک سیٹھ کے لیے سزا سوچتا رہا۔ آخر خیال آیا کہ اس کے سارے جسم پر بی نمبر کی موٹی ریگ مال پھیردوں گا تو اس کی ساری کھال ادھڑ کر ننگی ہو جائے گی۔ بھر منیجر آگیا۔
مسکرا تے ہوئے بولا:’’تمہاراکام ہو گیا ہے، مگر چیک ملا ہے سو روپے کا اور اب پونے دو بج چکے ہیں اور دو بجے بنک بند ہوتا ہے اور بنک یہاں سے دو میل دور ہے اور کل چھٹی ہے اور پرسوں اتوار ہے۔‘‘
میں نے مایوسی سے کہا:’’ہاں۔‘‘ منیجر مسرت سے ہاتھ ملتے ہوئے بولا۔ میں نے بے حد رکھائی سے کہا:’چیک مجھے دے دو۔‘‘
پانچ منٹ اور چیک لینے میں گزر گئے کیو نکہ چیک پر میرا نام غلط لکھا ہوا تھا محمد شفیع کے بجائے محمد رفیع لکھا ہوا تھا۔ ’’چچ چچ‘‘منیجر نے کہا۔ ’’بڑی غلطی ہو گئی، محمد شفیق لکھتے لکھتے محمد رفیع لکھا گیا مگر کو ئی حرج نہیں،اب تم سوموار کو آ کے نیا چیک لے لینا۔‘‘میں نے کہا:’’مگر یہ بیررچیک ہے۔ نام کی غلطی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم میرے نام کی رسید لے لو اور چیک مجھے دے دو،سوموار کو میں کہاں آؤں گا کہیں اور دھندا کروں گا۔‘‘
’’اچھا لے جاؤ۔‘‘ منیجر نے رکتے رکتے کہا۔ چیک لے کر باہر آیا تو دو بجنے میں پونے دو منٹ تھے کسی صورت پیدل چل کے بنک نہیں پہنچ سکتا۔ سو روپے کا چیک میرے ہاتھ میں تھا مگرابھی کا غذ کا پْرزہ تھا۔ اسے سو روپوں میں تبدیل کرنے کے لیے بنک تک پہنچنا ضروری تھا۔ دو بجے سے پہلے صرف ایک ہی صورت ہو سکتی تھی۔ میں نے فیصلہ کر لیا اور چِلا کر کہا :’’ٹیکسی۔‘‘
پیلی چھت اور سیاہ جسم والی زوم سے میرے قریب آکر رک گئی۔ میں نے اندر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کالبادیوی روڈ کے نا کے پر چلو اور ذرا تیز چلو۔‘‘جب کالبادیوی ناکے پر پہنچا تودو بجنے میں دو منٹ تھے۔ مگر بنک کا لبادیوی روڈ پر نہیں تھا، گو چیک پر یہ لکھا تھا مگر بنک کا لبا دیوی روڑ کے ناکے پر نظر نہ آیا۔ دو ایک دکاندارو ں سے پوچھا،کسی کو اتنی فرصت نہیں تھیں،کوریا میں جنگ تیز تھی،بھاؤ بھی تیز جارہے تھے،کس کو وارنش کرنے والے کے سو روپوں کی فکر تھی؟
ہار کر میں نے ایک پنجابی سکھ ہار مونیم بنانے والے کی دکان میں گھس گیا۔ ’آئیے آ ئیے کیا چاہیے آپ کو ؟سردار نے اپنی اس آری کو چھوڑ کر جس سے وہ لکڑی کا ٹ رہا تھا مجھ سے مسکرا کر کہا۔
میں نے کہا:’’سردار مجھے باجا نہیں چاہیے،مرکنٹائل بنک کا پتا چاہیے چیک پر تو لکھا ہے کالبادیوی روڈ اور یہاں کہیں نہیں ملتا۔‘‘ سردار جی نے مسکرا کر کہا:’’بادشاہو! وہ بنک ساتھ والی گلی میں ہے، ادھر سے گھوم کرسٹہ بازار سے اس طرف پرانے چاندی والے مندر کے پاس۔‘‘
میں نے سردا رجی کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا بھا گا واپس ٹیکسی کے پاس،جب بنک میں پہنچا تو دو بج کر چار منٹ تھے۔ اصولاً میرا چیک کلرک کو نہیں لینا چاہیے تھا مگر معلوم ہو تا ہے کہ کلرک چیک پڑھنے کے علاوہ چہرہ پڑھنا بھی جانتا تھا۔ اس نے خاموشی سے چیک مجھ سے لے لیا۔ پھر الٹا کر کے دیکھا،مجھ سے کہنے لگا:’’اس پر دستخط کرو۔‘‘
میرا نا م شفیع تھا لیکن میں نے محمد رفیع لکھا۔ یہ محمد رفیع کون تھا؟یہاں کہاں سے آیا تھا؟ کب پیدا ہوا؟اسکی صورت کیسی تھی؟اسکے ماں باپ کون تھے؟کون جانتا ہے؟ کچھ زندگیاں ایسی ہوتی ہیں جو چیک پر لکھی جاتی ہیں اور چیک پر ہی کاٹ دی جاتی ہیں۔ میں ٹیکسی والے کا چکتا کرنے لگا۔ دورروپے دو آنے ٹیکسی چھوٹی تھی اس لیے میٹر بڑھا نہیں۔ ٹیکسی بڑی ہوتی تو پانچ سات روپے کھل جاتے۔ میں نے خوشی سے اطمینان کا سانس لیا۔ اتنے میں کسی نے آکے میرے شانے پر زور سے ہاتھ مارا اور کہا:’’کہو میرے یار،بڑ ے ٹیکسی میں گھوم رہے ہو آج۔‘‘ میں نے گھوم کر دیکھا:میرا دوست اسحاق تھا۔ اسحاق بڑے کھلے دل کا آدمی تھا۔ وہ خود توعبدالرحمٰن سٹریٹ کے اندر ایک خوجے کے مکان کے ایک تنگ سے کمرے میں رہتا ہے اور وہی دھندا کرتا ہے جو میں کرتا ہوں یعنی وارنش کا اور پرانے فرنیچر کو پھر سے نیا کر دینے کا لیکن اس کی محبوبہ محمد علی روڈ اور کرافورڈمارکیٹ کے ناکے پر ایک اچھے ہوٹل میں رہتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے بڑی خوبصورت عورت ہے،بڑے بڑے سیٹھوں کے پاس جاتی ہے۔ یہ اسحاق اس سے پہلے اس کے پاس ڈرائیور تھا۔ اسحاق کویہ کام پسند نہیں آیا اور وہ اس سے الگ ہو گیا۔
وہ عورت اس کو بہت پسند کرتی ہے،یہ بھی اس کو چاہتا ہے مگر وہ اس کو اپنے دھرے پر لانا چاہتی ہے اور یہ اس کو اپنے طریقے پر رکھنا چاہتا ہے۔ دونوں میں ہمیشہ لڑائی ہوتی ہے۔ بھر یہ اس سے دس بارہ روز نہیں ملتا، پھر وہ اس سے ملنے آتی ہے۔ ایسے ہی یہ چکر چلتا رہتا ہے کبھی کبھی اسحاق جب کوئی موٹی رقم کما لیتا ہے تو اسے جا کر دے آتا ہے اور اسے ایک لیکچر بھی جھاڑ آتا ہے۔ مگر جس عورت کے پاس اچھا ہوٹل ہو گا، اچھی جوانی،صحت اور خوبصورتی ہو گی اور سونے چاندی والے سیٹھ ہوں گے۔ وہ وارنش کرنے والے اسحاق کی بات کیوں سننے لگی، سوچنے کی بات ہے یارو!
میں نے اسحاق سے پوچھا :’’مجھے بھوک لگی ہے، کچھ کھاؤ گے؟‘‘
وہ بولا:ہاں بھوکا تو میں بھی ہوں،چلو فیروز ے کبابیے کی دکان پر۔‘‘فیروز ے کبابیے کی د کان سے فارغ ہو کر اسحاق نے مجھ سے دس روپے ادھار لیے اور اپنے رستے پر چلا گیا۔ مجھے اسحاق بہت پسند ہے۔ اس کے پاس ہوں تو نا نہیں کرے گا،سب کو کھلائے پلائے گااور جب پیسے نہیں ہوں گے۔ تو میرے سوا کسی سے قرض نہیں مانگے گا۔
بھوکا مر جائے گا مگر کسی سے ادھار نہیں لے گا۔ ایسا دوست جو دنیا میں میرے سوا کسی سے ادھار نہ لے کہاں ملتا ہے؟مجھے اسحاق کی دوستی پر فخر ہے۔ میں جب بھی اسحاق سے ملتا ہوں،ایک عجیب سی خوشی لا پروائی، بچوں کی سی مسرت محسوس کرتا ہوں۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دل میں کوئی غم نہیں ہے،کوئی تکلیف نہیں۔ جیسے ساری دنیا کھلونوں سے بھری پڑی ہے اور اس کے سارے بازار میرے لیے سجے پڑے ہیں۔ بعض آدمیوں میں کچھ ایسی ہی طاقت ہوتی ہے۔ بعض آدمیوں میں کچھ ایسی ہی بات ہوتی ہے۔ اس وقت اسحاق سے مل کر میراجی ہلکاپھلکا ہو گیا۔ میں نے کرافورڈمارکیٹ سے دوسیب خرید کر کھائے، ایک بھکاری کو دو آنے دئیے وہاں سے چلتا بوری بندر آگیا۔ لیکن جیب میں روپے تھے اور ابھی گھر جانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ اس لیے بوری بندر سے ہارن بی روڑپر ہو گیا۔
ہارن بی کی دکانیں مجھے بہت پسند ہیں، خاص طور پر ان کے نمائشی دریچے میں آئینے لگے ہوئے ہیں اور نی آن کی روشنیاں اور قد آدم کانچ کی بڑی بڑی شفاف سلوں کے پیچھے کیسی کیسی خوبصورت چیزیں پڑی ہوئی ہیں۔ خوبصورت ٹائیاں،موزے،جراب،پتلون کے کپڑ ے مفلر،جوتے،ہر ہفتے ان دریچوں کے اندر خوبصورت چیزیں بدل جاتی ہیں اور پرانے ڈیزائنوں کی بجائے نئے ڈیزائن آ جاتے ہیں۔ شام کو گھر جانے سے پہلے میں اکثر ہارن بی روڈ کے نمائشی دریچے دیکھا کرتا ہوں۔ جیب میں پیسے ہوں یا نہ ہوں اس سے کوئی غرض نہیں میں اکثر اپنا کام ختم کر کے بوری بندر جانے کے لیے ہارون بی روڈ سے گزرتا ہوں اور ایک دریچے سے ناک رگڑ کر اندر کی خوبصورت چیزیں دیکھا کرتا ہوں۔ اس میں مجھے اتنا لطف حاصل ہوتا ہے جتنا بچپن میں نئے کھلونے دیکھ کر حاصل ہوتا تھا۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر نئے نئے کر کرے نوٹو ں کو تھپتھپایا اور بڑی شان سے ایوان اینڈ فریزر کے نمائچی دریچوں کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ آہ!کس قدر خوبصورت قمیض تھی۔ بادامی رنگ کی صاف شفاف قمیض پر نیلیاور سْرخ دھاریاں میرا تو جی مچل گیا،میں نے اپنی قمیض کے پھٹے ہوئے کالر کو سہلایا۔ اس نیلی اور سْرخ رنگ کی دھاری دار قمیض کو پہن کر میں کیسا دکھائی دوں گا۔ میں نے تخیل میں اپنے آپ کو قمیض پہن کر قد آدم آئینے کے سامنے دیکھا،واہ!کیا ٹھاٹ تھے اور قمیض کے دام تھے صرف تیس روپے اس سے تگنے روپے اس وقت میری جیب میں تھے،میں قمیض خرید سکتا تھا مگر کچھ اور بہتر دیکھنے کی خاطر آگے چلا گیا۔
اگلے دریچے میں خوبصورت صابن تھے، جھاگ والے، اسپنچ اور تولیے جنھیں دیکھ کر خود بخود نہانے کی خواہش پیدا ہوتی تھی۔ یہ سب میں خرید سکتا تھا۔ اس سے اگلے دریچے میں مردوں کے لیے شب خوانی کے گاؤن تھے :بھڑکیلے،ریشمی،منقش گاؤن جنھیں پہن کر وارنش والا بھی مصر کا پاشا معلوم ہو۔ سترروپے کا گاؤن اور اس سے زیادہ رقم میرے پاس تھی۔ میں نے اس گاؤن کو اپنے تخیل میں پہنا اور ایک ایرانی غالیچے پر اڑتا ہوا دور جلا گیا۔ ہوا صاف تھی،میرے نیچے خوبصورت باغوں والی زمین گھوم رہی تھی اور ہری ہری دوآب میں ایک چھریری نازک اندام ندی ایک پہاڑی حسینہ کی طرح دھوپ سینک رہی تھی۔ میں نے اس غالیچے کو اس ندی کے کنارے اترنے کاحکم کیا۔ غالیچہ ندی کے کنارے اتر آیا اور خود بخود کہیں سے ایک صراحی آگئی اور ایک مرمریں ہاتھ اور دو آنکھیں اور ایک حسین چہرہ۔ پھر مجھے کسی نے ٹہو کاکیا کر خت لہجے میں بولا:’’آگے بڑھو،اب کسی اور کو بھی دیکھنے دو،آدھے گھنٹے سے یہیں کھڑا ہے نہ لینا نہ دینا۔‘‘میں نے مسکراکر ایوان اینڈ فریزر کے وردی پوش غلام کی طرف دیکھا جو مجھے ڈانٹ رہا تھا اور آگے چل دیا۔ بے چارے کو معلوم تھا کہ میرے پاس ایک اڑنے والا ایرانی غالیچہ ہے اور جیب میں ستر روپے سے بھی زیادہ کی رقم ہے۔ میں اس وقت اندر جا کے اس گاؤن کو خرید سکتا تھا،مگر میرا جی نہیں مانا۔ ہارون بی روڈ پر اس سے بہتر بھی کوئی چیز ہوگی۔ آگے چل کر دیکھا جائے،اس وردی پوش غلام کو تو کسی وقت بھی شکست دی جا سکتی ہے۔ آگے چلتا چلتا بہت سی دکانیں دیکھتا بھالتا میں جگدمبالال پائل کی دکان پر پہنچ گیا۔ یہاں نمائشی دریشے میں کیمرے پڑے تھے جنھیں میں خرید سکتا تھا۔ کیمرے خرید کے میں ان فرنیچروں کی تصویرلے سکتا تھا جو پرانے تھے۔ میں نے سوچا یہ کیمرہ لے کر میں اسحاق کے پاس جاؤں گا اور اس سے کہوں گا:
’’چل،آج تیری اور تیری محبوبہ کیاکٹھی تصویرلیں گے۔‘‘میں نے اپنا ایرانی غالیچہ منگوایا اور کیمرہ ہاتھ میں لے کر سارے جہان کے خوبصورت مناظر کی تصویریں اتارنے لگا۔ کیمرے کے ساتھ جادوبین پڑی تھی جس میں دیکھنے سے تصویریں بالکل اپنی گہرائی کے ساتھ نظر آتی ہیں یعنی جیسے آدمی بالکل آپ کے سامنے چل پھر رہے ہوں اور مکان آپ کے سامنے ہو بہو جیسے آپ کا۔ تصویر اپنی لمبائی چوڑائی اور موٹائی کے ساتھ اتنی اچھی دکھائی دیتی کہ سینما میں بھی اتنی اچھی معلوم نہیں ہوتی۔ بچپن میں ایک بڑھیا ایک بڑی سی جادو بین ہمارے محلے میں لایا کرتی تھی اور ہم لوگ ایک پیسہ دے کر تماشا دیکھتے تھے۔ اس جادو بین کو دیکھ کر میرا دل خوشی سے کا نپنے لگا اور دکان کے اندرداخل ہو گیا۔ کونٹر پر میں نے ایک نوجوان سے پوچھا:’’یہ جادوبین کتنے کی ہے؟‘‘’’ساڑھے پینتیس روپے‘‘
نوجوان بڑی خوبصورت قمیض پہنے تھا۔ اس کے بال گھنگھریا لے اور پیچھے کو گھومے ہوئے ٹی آئرن کو روشنی میں نئے فرنیچر کے وارنش کی طرح چمکتے تھے۔ اس کے ہونٹوں پر بھی جوانی کی وارنش تھی۔ اس کے لبوں پر ایک مغرور مسکراہٹ تھی جو صرف چیک لکھتے وقت پیدا ہوتی تھی۔ اس نے میری طرف نگاہ اٹھا کر ایک خوبصورت لڑکی کی طرف دیکھا جو ابھی ابھی دکان میں داخل ہوئی تھی۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہو گیا اور ایک میلے میلے چہرے والانا آسودہ گجراتی جو غالباًاسکا اسسٹنٹ تھا،میری طرف آگیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے کا وارنش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا ہے اور اس نے مسکرانے کی کو شش بھی نہیں کی۔
میں نے کہا:’’جادوبین مجھے دکھاؤ۔‘‘ اس نے جادوبین میں ایک مدورفیتہ رکھ کر میرے ہاتھ تھما دیا اور مجھ سے کہا:’’اسے گھماتے جاؤ،یوں سوئچ دباکر،نئی نئی تصویریں تمہارے سامنے آتی جائیں گی۔‘‘میں نے بٹن آن کیا:’’ٹارزن ہاتھی پر سوار سامنے سے چلا آرہا تھا۔ میں نے بٹن دبادیا۔ ٹارزن آبشار میں چھلانگ لگا رہا تھا۔ نیچے مگر مچھ کتنے خوف ناک معلوم ہو رہے تھے، میں نے بٹن دبا دیا۔ پھولوں کے گجرے،پھولوں کے ہار اور پھولوں کے لہنگے پہنے ہوئے ہوائی جزیرے کی لڑکیاں ناچ رہی تھیں۔ میں نے بٹن دبا دیا۔
ساحل کی ریت پر شراب اور پھل او ر بسکٹ اور کھانے کی چیزیں ایک شفاف طشتری میں پڑی تھیں اور ایک عورت ریت پر آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔ اس کا منہ میرے اس قدر قریب تھ کہ میں نے جلدی سے بٹن دبا دیا۔ ایرانی غالیچہ زمین پر آگیا۔
میں نے گجراتی خارش زدہ کلرک سے کہا:’’یہ جادو بین تو بہت اچھی ہے،میرے بچپن کی جادوبین سے ہزار درجے بہتر ہے،کتنے میں دو گے؟‘‘ وہ مسکرائے بغیر بولا:’’ساڑے پینتیس روپے کی جادوبین آتی ہے،مدورنگین تصویروں والے فتیلے ایک درجن اس کے ساتھ لینا پڑیں گے۔ دس روپے کے یہ ہوں گے،سیلزٹیکس اس کے علاوہ پچاس کے اوپر رقم جائے گی۔ میں جب ہاتھ ڈال کر دس دس کے نئے کر کرے نوٹوں کو تھپتھپایا۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا۔
لیکن یہ بالکل سچ ہے کہ اس سے پہلے میرے دل میں جادوبین کے سوا اور کوئی تصویر نہ تھی۔ لیکن نوٹو ں کو ہاتھ لگانے سے ایک دم مجھے دھچکا سا لگا اور بہت سی تصویریں بٹن دبائے بغیر میرے سامنے گھوم گئیں۔ ایک بچہ پھٹی ہوئی قمیض پہنے گلی کے فرش پر بیٹھا ہے اور رو رہا ہے۔ میں نے پہچانا میرا بچہ تھا۔ ایک عورت کی شلوار کا پائینچہ دوسرے پائینچے سے اونچا ہے۔ اس کی اوڑھنی سے اس کے سر کے الجھے ہوئے بال باہر نکلتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ ایک آدمی دروازے پر کھڑا ہے۔
اس کی صورت ہر لمحہ بدلتی جاتی ہے۔ اس کا غصہ ہر لمحہ بڑھتا جاتا ہے۔ کبھی یہ مالک مکان کا منیجر بن جاتا ہے۔ کبھی دودھ والے سیٹھ کا نوکر۔ کبھی بجلی والی کمپنی کا عہدیدار۔ کبھی پانی والے دفتر کا۔ میں نے بٹن دبا دیا:اب میرے سامنے گھر کے فرش پر ایک خالی طشتری پڑی تھی جس پر ایک گلاس اوندھا پڑا ہوا ہے۔ نوٹ میری جیب سے باہر نکلے،پھر وہیں ہاتھ رہ گئے۔ خوبصورت کلرک،خوبصورت لڑکی کو کیمرہ بیچ کر کونٹر پر واپس آگیا۔ میں جلدی سے گھوم کر دکان سے واپس جانے لگا۔ باہر جاتے جاتے میں جانتا تھا کہ وہ کلرک اپنی بہترین وارنش شدہ مسکراہٹ سے میرے پھٹے ہوئے کالر دیکھ رہا ہے،میری خاکی زین کی پتلون دیکھ رہا ہے،جس کی پیٹھ میں دوجگہ ٹکڑے سلے ہوئے ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھ پر ہنس رہا ہے۔ میں نے اچھی طرح دانت پیس لیے،اچھی طرح جیبوں میں ہاتھ ڈال کر نوٹوں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور نمائشی دریچوں سے نگاہ اٹھا کر سیدھابوری بندر کی طرف چلنے لگا۔ چلتے چلتے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے مجھ سے شدید دھوکا کیا ہے،کسی نے مجھے سو روپے دے کر دو سو چھین لیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میرا ایرانی غالیچہ اور جادوبین بھی چھین لی ہے۔ کسی نے زور سے میرے منہ پر چپت ماری ہے۔ کسی نے میرے ہر نوٹ پر لکھ دیا ہے۔ ’’تمہارے لیے نہیں‘‘میرے قدم بھاری ہوتے گئے اور میں نے محسوس کیا کہ میری محنت کا ہر نوٹ اداسی کی ایک لمبی زنجیر ہے،جسے میں خود اپنے ہاتھوں سے کھینچ رہا ہوں۔ بوری بندر پہنچ کر یکا یک میں نے فیصلہ کیا کہ میں آج گاڑی سے اپنے گھر واپس نہیں جاسکتا۔ آج پیدل ہی بوری بندر سے سائین جاؤں گا۔ بہت رات گئے میں تھکا ماندہ اپنے گھر لوٹا۔ میری بیوی متفکر تھی اور میر ا انتظار کر رہی تھی لیکن جب اس نے نوٹ دیکھے تو خوش ہوگئی۔ اس لیے وہ میری اداسی کا مطلب نہ سمجھ سکی۔ بولی:’’لیکن یہ کیا بات ہے، تم آج خوش ہونے کی بجائے اداس ہو؟‘‘ میں نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا :’’جان من !آج مجھے پتہ چلا ہے کہ یہ دنیا بوڑھی ہو چکی ہے اور مجھے ایسی دنیا چاہیے جو بچوں کی طرح مسکرا سکے۔‘‘وہ بولی:’’میں نہیں سمجھی تم کیا کہہ رہے ہو۔‘‘
میں نے کہا :’’جان من !میں کہہ رہا ہوں کہ اب پرانے فرنیچر پر وارنش کرنے سے کا م نہیں چلے گا۔ اب نیافرنیچر لانا ہوگا‘‘۔