[تحریر: قمرالزماں خاں]
پنتیس سال پہلے 27 اپریل 1978ء کو پاکستان سے ملحق مملکتِ افغانستان میں سینکڑوں سالہ غلام داری، جاگیر داری، قبائلیت اور ادھوریے سرمایہ دارانہ رشتوں کا خاتمہ کردیا گیا۔ ایک حکم کے ذریعے لڑکیوں کی خرید وفروخت، سود خوری، بردہ فروشی اور جاگیر داری کا خاتمہ کردیا گیا۔ تمام سطحوں تک مفت اور لازمی تعلیم اور صحت کو ہر کسی کے لئے بلامعاوضہ فراہمی کے منصوبوں کا آغاز کردیا گیا۔ جاگیروں اور زمینوں کی تقسیم کافرمان جاری کردیا گیا، سرمایہ داری نظام کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا اور اونچ نیچ کے نظام کی بجائے تمام شہریوں کی برابری کا اعلان کردیا۔ سرداری سسٹم کے خاتمے، سرداروں کے خصوصی اختیارات، انکی ذاتی جیلوں اور عدالتوں کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے قراردیا گیا کہ تمام شہریوں کے ایک جیسے حقوق ہیں اور کسی کو کسی پر سبقت یا برتری حاصل نہیں ہے۔ یہ تبدیلی سردار داؤد کی حکومت کے خلاف ایک مسلح بغاوت کے ذریعے بروئے کار لائی گئی تھی جو تمام تر نظریاتی غلطیوں کے باوجود ناگزیر ہوگئی تھی اور ایک ترقی پسندانہ قدم تھا۔
سترہ اپریل 1978ء کو افغانستان کے صدر محمد داؤد خان کی حکومت نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے پرچم دھڑے کے نظریاتی راہنما اورپرچم شمارے کے ایڈیٹرمحمد اکبر خیبر کو قتل کروا دیا، حکومتی سرگرمیوں سے یہ تاثر تقویت پکڑ رہا تھا کہ صدر داؤد پوری پارٹی قیادت کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ 19 اپریل کو پارٹی نے کابل میں محمد اکبر خیبر کے جنازے کے موقع پردسیوں ہزار افراد کی ایک ریلی نکالی۔ ریلی نے امریکی سفارت خانے کے سامنے امریکہ مخالف نعرے لگائے، امریکی سی آئی اے اور امریکی سامراج کے اس خطے میں سب سے بڑے ایجنٹ ایران کی خفیہ ایجنسی ساواک اور شاہ ایران کے خلاف زبردست نعرے بازی کی گئی۔ طاقت کے اس مظاہرے سے صدر داؤد بپھر گیا، اس نے اس باغیانہ روش کو کچل دینے کا حکم جاری کیا جو بالآخر اسکی اپنی موت کا باعث بنا۔ اس نے پی ڈی پی اے کے بانی نورمحمد ترکئی سمیت پارٹی کی اعلی قیادت کو گرفتار کرلیاگیا۔ اسی دوران پارٹی کے خلق دھڑے کا راہنما حفیظ اللہ امین جس نے افغان فوج کے اندر انقلابی تعلیمات کو کامیابی سے پروان چڑھایا تھا، نے اپنی گرفتاری سے قبل ہی بغاوت کا پیغام اپنے انقلابی ساتھیوں تک پہنچادیاتھا۔ حفیظ اللہ امین کو 26 اپریل کو جیل بھیج دیا گیا، مگر اس صدر داؤد کی حکمرانی مضبوط ہونے کی بجائے ریت کے گھروندے کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئی۔ ستائیس اپریل سے شروع ہونے والی بغاوت نے اٹھائس اپریل 1978ء کی صبح تک مکمل انقلاب کی شکل اختیار کرلی تھی۔ دری زبان اور کیلنڈر کے دوسرے مہینہ کے نام کی مناسبت سے اس کو ’’انقلاب ثور‘‘ یعنی’’ انقلاب بہار‘‘ یا Spring Revolution کہہ کے پکارا گیا۔ افغانستان میں صنعتی اور قومی جمہوری انقلاب کے وقوع پذیر نہ ہونے، کارخانوں اور صنعتی مزدوروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے افغانستان میں یہ اپنی طرز کا فوجی انقلاب تھا جہاں انقلابی نظریات کی سرائیت دانشور طبقے اور فوجی افسروں تک محدود تھی لہٰذا یہ سویت یونین طرز کا کوئی کلاسیکل مارکسی انقلاب نہیں تھا اور نہ ہی سوشلزم کے بنیادی اصولوں کے مطابق انقلابی نظریات عوام میں سرائیت کرپائے تھے (صنعتی پرولتاریہ کی غیر موجودگی میں اس کے امکانات بھی بہت محدود تھے) مگرا سکے باوجود یہ ایک آگے کا قدم تھا جس نے معاشرتی پسماندگی اور سینکڑوں سالوں کی قبائلیت کو چیلنج کیا تھا۔ اس انقلاب نے عورتوں کی غلامی اور بردہ فروشی، ملا کی مکمل آشیر آباد سے چلنے والے غلیظ سود خوری نظام کو للکارا۔ ہزاروں سالوں سے ہر غاصب، حملہ آور سامراج کو راہ داری مہیا کرنے والے وار لارڈز اور انکے نئے آقاؤں کے لئے یہ تبدیلی بہت ہولناک تھی جس نے سرے سے طبقات کی تقسیم کے ہی خاتمے کا اعلان کردیا تھا اور برابری کو انسانی اساس قرار دے دیا تھا۔ یہ بغاوت نہ صرف افغان طبقہ اشرافیہ، ملائیت، بادشاہت کی باقیات، قبائیلی وحشت اور سود خوروں کے لئے لمحہ فکر تھی بلکہ خود سویت یونین کی سٹالنسٹ بیوروکریسی کی نام نہاد ’’بقائے باہمی‘‘ کی پالیسی سے صریحاََ انحراف تھا۔ خود سویت یونین کے کرتا دھرتا افغانستان میں اشتراکی بغاوت سے حیران و پریشان رہ گئے تھے۔ ’ان کے نزدیک ان کی مرضی اور کنٹرول سے باہر کسی قسم کی جدوجہد ناقابل قبول تھی۔ لہذ ا ہم دیکھتے ہیں کہ ’ثور انقلاب‘‘ کے فوراََ بعد اس کے خلاف سب سے پہلے سویت بیوروکریسی نے افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کی۔ پرچم اور خلق کے خلفشار کی بنیاد پر اپنے ٹروپس افغانستان میں داخل کرکے سامراجی مداخلت کا جواز پیدا کیا۔ اپنی 9 اپریل 1979ء کی تقریر میں ترکئی نے اعلان کیاکہ ’’کوئی بھی غیر ملکی قوت اپریل انقلاب میں شامل نہیں تھی۔ افغانستان نہ تو انقلاب درآمد کرتاہے نہ ہی برآمد۔ افغانستان اب تاریخ کے ایک نئے عہد میں قدم رکھ چکاہے، ایک ایسا عہد کہ جو ایک ایسے سماج کا آغاز ہے جس میں کسی انسان کے ہاتھوں دوسرے کسی بھی انسان کا استحصال ختم ہو جائے گا۔‘‘ نور محمد ترکئی کی یہ خواہش پوری ہو سکتی تھی، نہ صرف افغانستان سے ہمیشہ کے لئے استحصال ختم ہوسکتا تھا بلکہ افغان انقلاب کا دفاع اگر لینن کے طریقہ کار کے تحت کیا جاتا اور افغانستان کے انقلاب کو ڈیونڈر لائن کے اس پار اور ایران میں پنپنے والی انقلابی تحریک کے ساتھ جوڑ دیا جاتا تو پھرمشرق وسطی اور برصغیر میں سرمایہ داری کی تاریکی کو سرخ انقلاب کی روشنی سے منور کرکے پوری دنیا میں تبدیلی کا راستہ دکھایا جاسکتا تھا۔
افغانستان کے انقلاب کے کو کچلنے کے لئے حکمران طبقے میں جس قسم کا طبقاتی اتحاد معرض وجود میں آیا یہ بھی محنت کش طبقے کے لئے ایک سبق ہے کہ کس طرح آپس میں بظاہر متصادم اور برسرپیکار قوتیں سرمایہ داری کے خلاف اس اقدام کی سرکوبی کے لئے اکھٹی ہوگئیں۔ افغانستان کے انقلاب کی ہزار خامیاں اپنی جگہ مگر ملکیت کے رشتوں کی تبدیلی کے اعلان نے سامراج اور اسکے حلیفوں میں ایسی کھلبلی مچائی کہ امریکی سلامتی کا مشیر زبیگنو برزنسکی نعرہ تکبیر تک لگانے پر مجبور ہوگیا۔ ان دنوں اسامہ بن لادن نامی سی آئی کا ایجنٹ روس کو ملحد اور امریکہ کو سنی العقیدہ ملک سمجھ کر جہاد میں اپنے دیگر کرائے کے قاتلوں سمیت اترا جن کو ہیروئن کی کمائی اور سامراجی اسلحے سے لیس کرکے افغانستان کو تاراج کرنے کا فریضہ سونپا گیا تھا۔
اس سب کا مقابلہ کیا جاسکتا تھا اگرثور انقلاب کو افغانستان کی حدوں میں محدود کرنے کی بجائے عالمی محنت کش طبقے کو اسکے تحفظ کے لئے متحرک کیا جاتا اور یہ قومی اور علاقائی سوچوں کی بجائے انٹرنیشنلزم کی بنیاد پر کیا جاسکتا تھا۔ اس نظریاتی انقلابی وسعت کے، جو کسی عالمی مارکسی قیادت کا وصف ہوتی ہے کے فقدان کی وجہ سے افغان انقلابی قیادت قومی اور قبائلی حدوں تک محدود ہوکر رہ گئی تھی جو اس انقلاب کو دنیا بھر میں تنہا کرنے اور عالمی سامراجی یلغار کے سامنے نحیف بنانے کا باعث بنا۔ خلق اور پرچم دھڑوں کی لڑائیاں اور کامریڈز کی باہم قتل وغارت گری کا سارا سماں قومی تنگ نظری، نسلی محدودیت کا شاخسانہ تھا جس نے اس عظیم مقصد کو سامراج کے سامنے ترنوالہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سامراج کی وحشت نے منڈی کی معیشت کی بحالی اور افغانستان کے وسائل کو لوٹنے کی غرض سے اس پر وسیع جنگ مسلط کرکے اسکو راکھ کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ اس جنگ میں بالآخر امریکہ اور اسکے حلیفوں کو شکست فاش ہونا ہے جس کا سب کو ادراک ہے۔ افغانستان محض طالبان اور جنونی ملاؤں کا ملک نہیں ہے بلکہ اس افغانستان میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے لاکھوں اراکین، ترقی پسند اور سامراج دشمن عوام موجود ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کے نکلنے کے بعد اس کو خانہ جنگی کی نئی وحشت کا شکار بنانے اور اس جلتے بلتے ملک کو انسانوں کی سرزمین بنانے کے لئے پھر ایک سوشلسٹ انقلاب کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ ایک ایسا سوشلسٹ انقلاب جو قوم پرستی کی بجائے بین الاقوامیت پر مبنی ہو اور جو افغانستان کی سرحدوں کے چہار اطراف ہمسایہ ممالک کے محنت کش طبقے کے اشتراک سے نہ صرف برپا ہو بلکہ پھیل کر پورے خطے کو ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں تبدیل کردے۔
متعلقہ:
افغان ثور انقلاب کے چونتیس سال۔ جب تخت گرائے اور تاج اچھالے گئے
27اپریل ،افغانستان کا ثور انقلاب
مذہبی جنون کے کاروبار
مذہبی بنیاد پرستی اور انقلابی سوشلزم
وزیرستان: جدیدیت کی جانب لانگ مارچ