[تحریر: آفتاب اشرف]
7 جولائی کو افغان صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے ابتدائی نتائج کا اعلان ہوتے ساتھ ہی ’’شکست‘‘ کھانے والے امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کابل میں اپنے حمایتیوں کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کیا اور نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ اس کا ساتھ ہی کابل سے لے کر واشنگٹن تک اس بحران کو حل کرنے کے لئے انتہائی مضطرب سفارتی کوششوں کا آغاز ہو گیا جس کا نتیجہ جان کیری کے حالیہ دورۂ افغانستان کی صورت میں برآمد ہوا۔ جس میں کیری نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں سے ملاقاتیں کیں اور تمام ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور مکمل ’’جانچ پڑتال‘‘ کا اعلان کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کیری نے اپنی اس دھمکی کو بھی دہرایا کہ غیر آئینی طریقے سے اقتدار حاصل کرنے کی کسی بھی کوشش پر افغانستان کو امریکہ کی جانب سے ملنے والی معاشی اور اور فوجی امداد فوراً بند کر دی جائے گی۔ دھاندلی زدہ صدارتی انتخابات کا یہ کھلواڑ ایک ایسے پس منظر میں ہو رہا ہے جب ایساف افواج کا بڑا حصہ 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے انخلا کی تیاری کر رہا ہے اور 13 سال جنگ لڑنے کے باوجود سامراجی فوج اور سیاسی حکمت عملی کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 5 سے 8 جولائی کے درمیان عسکریت پسندوں نے حملہ کر کے ایساف افواج کے 400 آئل ٹینکروں کو تباہ کر دیا اور اس کے چند روز بعد بگرام ائیر بیس کے نزدیک ہونے والے ایک خود کش حملے میں 4ایساف فوجیوں سمیت 14 افراد ہلاک ہوئے۔
افغان صدارتی انتخابات کے دونوں مرکزی امیدوار اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ 2001ء میں طالبان حکومت کے گرنے کے بعد سامراجی پشت پناہی سے قائم ہونے والی افغان حکومت میں اہم وزارتوں پر فائز رہ چکے ہیں اور دونوں کا ماضی بھی مختلف سامراجی قوتوں کے ساتھ قریبی مراسم سے لتھڑا ہوا ہے۔ اشرف غنی جہاں پہلے ورلڈ بینک کا ملازم رہ چکا ہے اور امریکی سامراج کے لئے زیادہ قابلِ اعتماد ہے، وہاں پر عبداللہ عبداللہ کو بھارتی اور ایرانی سامراج کا خاصا اعتماد حاصل ہے۔ اور اسی مناسبت سے عام تاثر یہ ہے کہ وہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے لئے خاصا ناپسندیدہ ہے یہاں تک کے بہت سے حلقے (بشمول حامد کرزئی) عبداللہ عبداللہ پر جون میں ہونے والے قاتلانہ حملے کا ذمہ دار پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو ٹھہراتے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے میں پاکستانی ریاست کے انتہائی دائیں بازو کے دھڑے کی جانب سیعبداللہ عبداللہ کی خفیہ حمایت کے اشارے بھی ملتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دھڑا سمجھتا ہے کہ 2014ء کے بعد طالبان اور شمالی اتحاد، حزبِ اسلامی کے مابین کوئی ’’سمجھوتہ‘‘ کروانے میں عبداللہ عبداللہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس حمایت کا اندازہ ہمیں حالیہ عرصے میں ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کی جانب سے عبداللہ عبداللہ کے حق میں دیئے گئے بیانات سے ہوتا ہے۔
انتخابات کے اس گورکھ دھندے میں جہاں مختلف سامراجی قوتوں کے مفادات کا باہم ٹکراؤ شامل ہے وہیں پر جنگجو علاقائی سرداروں، کالے دھن کے بڑے کھلاڑیوں اور بدعنوان سنیئر ریاستی اہلکاروں پر مشتمل افغانستان کی مقامی اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے باہم تضادات نے صورتحال کو اور بھی زیادہ پیچیدہ اور خوفناک کر دیا۔ دونوں امیدواروں نے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے جنگجو سرداروں اور اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے ساتھ الحاق بنائے جن میں وفاداریوں کو کھل کر بیچا اور خریدا گیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مقامی سطح پر افغان انتخابات نئے صدر کے چناؤ کی بجائے اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے مابین علاقائی کنٹرول کو بڑھانے اور اور اپنے اپنے مالیاتی مفادات کے تحفظ کی لڑائی تھی۔ اشرف غنی کا نائب صدر کا امیدوار جنرل عبدالرشید دوستم (ازبک) ہے۔ جو اپنے مالیاتی مفادات کے تحفظ کے لئے مسلسل وفاداریاں بدلنے اور اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں میں وحشیانہ جبر کی وجہ سے خاصا بدنام ہے لیکن ازبک آبادی کے، بندوق کے بل پر ووٹ حاصل کرنے کے لئے اشرف غنی کو اس وحشی جنگجو سردار سے الحاق کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی۔ دوسری طرف عبداللہ عبداللہ کا شمالی افغانستان میں سب سے طاقتور سپورٹر تاجک جنگجو سردار عطا محمد نور ہے جو صوبہ بلخ کا گورنر ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ بلخ میں کوئی کاروبار کرنا عطا محمد کو بھتہ دیئے بغیر ناممکن ہے۔ شمالی افغانستان میں علاقائی غلبے اور کالے دھن میں حصہ داری کے مفادات پر مبنی دوستم اور عطا محمد نور کی پرانی لڑائی ہے اور موجودہ صورتحال میں جہاں دوستم اپنا پورا وزن اشرف غنی کے پلڑے میں ڈال رہا ہے وہیں عطا محمد نور عبداللہ عبداللہ پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو رد کرتے ہوئے اپنی متوازی حکومت کا اعلان کرے۔ اس تمام پس منظر میں کرزئی انتظامیہ اور اس سے منسلک حکمران اشرافیہ کے دھڑے کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ مستقبل میں جو کچھ بھی ہو انہوں نے پچھلی ایک دہائی میں کرپشن اور بیرونی امداد کی لوٹ مار سے جو اربوں ڈالر اپنی تجوریوں میں اکٹھے کئے وہ محفوظ رہنے چاہئیں۔ اور مستقبل میں ان پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں لگنا چاہئے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے کرزئی انتظامیہ کے کچھ حصے اشرف غنی کی حمایت کر رہے ہیں جب کہ کچھ عبداللہ عبداللہ کی۔ لیکن کرزئی انتظامیہ کا غالب رجحان (بشمول حامد کرزئی کے) اشرف غنی کی طرف ہے جس کا اندازہ پچھلے سال کے آخر میں اشرف غنی کی طرف سے ’الجزیرہ‘ نیوز نیٹ ورک کے دیئے جانے والے ایک انٹرویو سے ہوتا ہے جس میں اس نے حامد کرزئی کا افغانستان کے لئے کی گئی ’’خدمات‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ افغانستان کے نئے صدر منتخب ہوئے تو وہ حامد کرزئی کو ایک سینئیر مشاورتی رول دیتے ہوئے نئی حکومت میں ان کے کردار کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ دوسری طرف کابل میں عبداللہ عبداللہ کے حامیوں کا حامد کرزئی کے پوسٹرز کو پھاڑ دینا اور عبداللہ عبداللہ کا کھل کر کرزئی انتظامیہ پر اشرف غنی کے حق میں دھاندلی کرانے کا الزام دینا بھی ہمیں اس سلسلے میں بہت کچھ بتاتاہے۔ بہت سے حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ عوامی سطح پر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے اس صورتحال کے حل کے لیے آپس میں کوئی بھی سمجھوتے کرنے سے انکار کیا ہے لیکن جان کیری سے ملاقات سے پہلے ہی دونوں امیدواروں کی خفیہ طور پر حامد کرزئی اور موجودہ دونوں نائب صدور یونس قانونی اور کریم خلیلی سے ملاقاتیں ہوئیں اور اس بات کا غالب امکان ہے کہ دونوں کے مابین اقتدار کی حصے داری پر مبنی کوئی سمجھوتہ طے پا جائے گا۔ سنجیدہ تجزیہ کاروں نے 2009ء کے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد عبداللہ عبداللہ کے الیکشن کے دوسرے مرحلے سے دستبردار ہو جانے کو بھی حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کے مابین ہونے والی ایک ڈیل کا حصہ قرار دیا تھا اگر چہ یہ واضح نہیں ہے کہ عبداللہ عبداللہ کو اس ڈیل کے بدلے میں پیشکش کی گئی تھی۔
عام تاثر کے بر عکس افغانستان ایک کثیر القومی ملک ہے جس کی آبادی تقریباً 40 فیصد پختون، 33 فیصد تاجک، 11 فیصد ہزارہ، 9 فیصد ازبک اور 7 فیصد دیگر قومیتوں (ترک، بلوچ، نورستانی) کے لوگ شامل ہیں۔ قومی جمہوری انقلاب کے برپا نہ ہو سکنے اور سرمایہ داری کے نہایت تاخیر اور مسخ شدہ شکل میں آنے کے سبب افغانستان میں ایک جدید قوم اور قومی ریاست کی تشکیل نہ ہو سکی۔ آج سرمایہ داری کے عالمی سطح پر زوال کے عہد میں افغانستان پر حاوی کالے دھن پر مبنی مافیا سرمایہ داری اور سامراجی مداخلتوں نے افغانستان میں قومی سوال کو اور بھی زیادہ پیچیدہ اور مسخ کر دیا ہے۔ مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو سردار اور منشیات کے تاجر علاقائی حکمرانی اور کالے دھن میں حصے داری کی اپنی لڑائیوں پر قومی شاونزم کی نعرے بازی کا پردہ ڈال دیتے ہیں۔ اسی طرح ماضی اور حال میں مختلف سامراجی قوتوں کی طرف سے اپنے سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے مختلف قومی دھڑوں کو استعمال کرنے کی حکمت علی نے غیر حل شدہ قومی مسئلے کی شدت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اگر چہ افغانستان کے محنت کش عوام میں قومی شاونزم کی بنیادیں بہت تھوڑی ہیں لیکن دہائیوں کی بھوک، غربت اور جنگ و جدل سے تنگ افغان عوام بد عنوان، جابر اشرافیہ اور مختلف سامراجی قوتوں کے نمائندہ دونوں صدارتی امیدواروں کے اقتدار کی خاطر ایک دوسرے سے نہیں لڑنے والے لیکن اس تناظر کو مکمل طور پر خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اگر اشرف غنی ( پختون) اور عبداللہ عبداللہ (تاجک) میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہو پاتا جس کے امکانات بہت کم ہیں۔ تو دونوں امیدواروں اور ان کے حامی دھڑوں کی جانب سے اپنے مفادات کے لیے قومی تعصبات کوافغان سماج (خصوصاً شمالی افغانستان) پر مسلط کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں قتل و غارت گری کا ایک نیا سلسلہ شروع و جائے گا۔
’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نعرے کے تحت افغانستان پر سامراجی قوتوں کی یلغار کو تیرہ سال بیت چکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تیرہ سالہ سامراجی مہم جوئی کے نتیجے میں افغانستان میں دہشت گردی کم ہونے کی بجائے بڑھی ہے۔ افغانستان کا وسیع حصہ (خصوصاً جنوبی اور مشرقی افغانستان) بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی لپیٹ میں ہے۔ عمومی تاثر کے بر عکس تمام عسکریت پسند طالبان نہیں ہیں اور نہ ہی طالبان بذاتِ خود کوئی ایک متحد اکائی ہیں۔ یہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پھیلاہوا پوست کی کاشت، ہیروئین، چرس اور اسلحے کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور دیگر جرائم پر مشتمل کالے دھن کا وسیع نیٹ ورک ہے جس میں بے شمار چھوٹے بڑے گروہ اور جنگجو سردار ہیں جو نہ صرف کالے دھن میں زیادہ سے زیادہ حصے داری کے لیے آپس میں بر سر پیکار رہتے ہیں بلکہ مختلف علاقائی اور عالمی سامراجی طاقتوں کے لیے کرائے پراپنی خدمات بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض گروپ پاکستانی سامراج اور ISI کی پراکسی کے طور پر کام کرتے ہیں تو بعض بھارتی اور ایرانی ریاستوں سے پیسے لیتے ہیں۔ کوئی کرزئی انتظامیہ کے پے رول پر ہیں تو کئی ایسے ہیں جن کی ’’خدمات‘‘ وقتاً فوقتاً امریکی سامراج نے بھی حاصل کی ہیں لیکن یہ وفاداریاں اور تعلقات مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ جرائم پر مبنی اس کالی معیشت میں زیادہ بولی لگ جانے پر یا مالیاتی مفادات تبدیل ہو جانے پر وفاداریاں بھی فوراً تبدیل ہو جاتی ہیں۔ دہشت گردی ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور ایسی صورتحال میں ’’پاکستانی‘‘ اور ’’افغان طالبان‘‘ یا ’’طالبان‘‘ اور ’’غیر طالبان‘‘عسکریت پسندوں جیسی اصطلاحات بے معنی اور سطحی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایساف افواج کا مکمل انخلا ممکن نہیں کیونکہ امریکی سامراج کے بعد اپنے بل بوتے پر افغانستان کی بد عنوان اور نا اہل اشرافیہ چند ماہ بھی معاملات کو نہ چلاپائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سامراج 2014ء کے آخر تک یادہ تر فوج کے انخلاکے بعد بھی ’’دو طرفہ سیکیورٹی معاہدے‘‘ (Bilaterlal Security Agreement BSA) کے تحت کم از کم 12 ہزر ایساف فورسز کو افغانستان میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کو ملنے والی بیرونی امداد کے جاری رکھنے کے لیے بھی 2014ء کے بعد کسی نہ کسی شکل میں امریکی سامراج کی افغانستان میں موجودگی ضروری ہے۔ اگرBSA طے نہیں ہوپاتا، جس کے امکان بہت کم ہیں تو 2014ء کے بعد افغانستان کے لیے بیرونی امداد میں نمایاں کمی ہو جائے گی اور اس امداد کے بغیر افغان حکومت کے لیے فوج اور پولیس کی تنخواہیں دینا بھی نا ممکن ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے با ر بار اپنی الیکشن کمپین میں BSA پر دستخط کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ افغان حکومت اور فوج کے امریکی سامراج پر اس معاشی اور فوجی انحصار کی بدولت غالب امکانات یہی ہیں کہ امریکی سامراج بہت جلد دونوں صدارتی امیدواروں کے مابین کوئی ’’مناسب‘‘ سمجھوتہ کروانے میں کامیاب ہو جائے گا۔
صدارتی انتخابات کے اس سارے کھلواڑ میں سب سے زیادہ گھاٹے میں افغانستان کے محنت کش عوام ہیں خواہ وہ کسی بھی ر نگ یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔ افغانستا ن کی مافیا سرمایہ داری کے پاس آبادی کی ایک وسیع ترین اکثریت کو دینے کے لیے صرف بھوک، غربت، محرومی، لاعلاجی، بیروزگاری اور دہشت گردی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے 2014ء کے بعد کا تناظر بھی اشرافیہ اور عسکریت پسندوں کے مختلف دھڑوں کے مابین خونریز تصادم پر مشتمل ہے جس میں کسی ایک دھڑے کے غالب آجانے کے امکانات بہت کم ہیں اور نتیجتاً ایک طویل خانہ جنگی افق پر نظر آ رہی ہے۔ افغانستان کا محنت کش طبقہ جہاں اپنے تلخ تجربات کی بنیاد پر سامراج کے کردار کو بخوبی سمجھتا تو وہیں اسے طالبان کی نام نہاد ’’ اسلامی حکومت‘‘ کی بربریت بھی یاد ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے جسے دہائیوں کی غربت اور بربادی نے طبقے میں لڑنے کی سکت ختم کر دی ہے لیکن افغانستان کے عوام بھی 1978ء کے ثور انقلاب کی روایات کے امین ہے جس کے بارے میں خلق پارٹی کے لیڈر نور محمد ترکئی نے کہا تھا کہ، ’’یہ صرف افغانستان کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے محنت کشوں، کسانوں اور سپاہیوں کا انقلاب ہے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے دو الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی انقلاب ہے جو انگریز سامراج کی کھینچی ہوئی ڈیورنڈ لائن کو چیر پھاڑ کر رکھ دے گا۔ پاکستان اور افغانستان کے محنت کش عوام طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہوتے ہوئے دونوں سماجوں سے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ بد عنوان اور ظالم اشرافیہ کو اکھاڑ پھینکیں گے اور یہ اس خطے کے محنت کش طبقے کا جنوبی ایشیا کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کی جانب پہلا قدم ہو گا۔
متعلقہ:
افغانستان: سنگیوں کے سائے تلے انتخابات
افغانستان کے صدارتی انتخابات
ثور انقلاب: تاریخ افغانستان کا درخشاں باب