افغانستان: سامراجی ’گریٹ گیم‘ کی بربادیاں

| تحریر: حسن جان |

نکولو میکاولے نے ایک دفعہ کہا تھا کہ جنگ آپ کی مرضی سے شروع ہوتی ہے لیکن ختم آپ کی مرضی سے نہیں ہوتی۔ اس حقیقت کی سب سے اچھی مثال افغانستان کی موجودہ کیفیت ہے۔ امریکی سامراج اور اس کے علاقائی گماشتوں نے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے جن ڈالری مجاہدین کو تخلیق کیا، جو بعد میں طالبان بن گئے اور ایک حصہ موجودہ حکمرانوں کی شکل اختیار کرگیا، وہ اب اس ملک میں مسلسل بربادی اور بربریت پھیلا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے کے دوسرے ممالک بالخصوص پاکستان بھی ان بنیادپرست اور رجعتی قوتوں کی وجہ سے مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ سامراجی ممالک کی تمام تر فوجی کاروائیوں، ’ترقیاتی کاموں‘ اور امن مذاکرات کے باوجود افغانستان کے اندر خلفشار مسلسل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہر فوجی کاروائی مزید خونریزی، ہر مذاکرات مزید دھڑے بندیوں اور مختلف مسلح گروہوں (بشمول طالبان) کے درمیان باہمی لڑائیوں اور چپقلشوں کو جنم دیتے ہیں۔ تین دہائیوں کی اس خانہ جنگی اور خلفشار سے اب تک لاکھوں غریب افغان اپنی جان گنوا چکے ہیں اور ملک معاشی، سماجی اور ثقافتی طور پر برباد ہو چکا ہے۔ ایسے میں امن ایک سراب بن گیا ہے۔ اس نظام زر کے اندر رہتے ہوئے اور آس پاس کے سرمایہ دارانہ ریاستوں کی موجودگی میں افغانستان میں امن، ترقی اور خوشحالی قائم کرنا ایک ناممکن عمل ہے۔

reuters_afghanistan_destroyed_building_03Aug11-878x618
’تین دہائیوں کی اس خانہ جنگی اور خلفشار سے اب تک لاکھوں غریب افغان اپنی جان گنوا چکے ہیں‘

عمومی طور پر بورژوا میڈیا اور ان کے زر خرید دانشور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ افغانستان میں خانہ جنگی اور خلفشار کا آغاز سوویت یونین کی فوجی مداخلت سے ہوا۔ پھر سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے خلاف خطے کے دوسرے ممالک اور امریکہ بھی اس جنگ میں کھود پڑے۔ لیکن تاریخ کا معمولی سا علم بھی اس دعوے کو جھٹلا دیتا ہے۔ ثور انقلاب کے خلاف رد انقلابی جہاد کا باقاعدہ آغاز 03 جولائی 1979ء کو ہوا جب اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے ایک صدارتی فرمان کے تحت افغانستان کے بنیادپرست ’’مجاہدین‘‘ کو مالی اور عسکری امداد فراہم کرنا شروع کی۔ یعنی سوویت یونین کی فوجی مداخلت سے چھ مہینے پہلے۔ یہ مہم بد نام زمانہ ’آپریشن سا ئیکلون‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس آپریشن کا بنیادی مقصد خلق پارٹی کی قیادت میں بننے والی انقلابی حکومت کا خاتمہ تھا کیونکہ اس انقلابی حکومت نے افغانستان سے سرمایہ داری اور جاگیرداری اور پسماندہ قبائلیت کے خاتمے کا آغاز کر دیا تھا۔ سامراج اور اس کے حواریوں کو یہ ڈر تھا کہ کہیں یہ انقلابی شعلہ دوسرے ممالک تک نہ پھیل جائے۔
ان رد انقلابی جہادیوں نے انقلابی خلق حکومت کی جانب سے غریب افغان عوام کے لیے تعمیر کئے گئے سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں، سڑکوں وغیرہ کو نشانہ بنا کر افغانستان کو تباہ و برباد کردیا اور افغانستان کے انفراسٹرکچر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ افغانستان کی کمزور ریاست میں مرکزی حکومت پہلے سے چند شہروں تک محدود تھی اور اس کی اتھارٹی نہایت کمزور تھی۔ اس جہاد اور خانہ جنگی سے وہ اتھارٹی بھی ختم ہوگئی اور پورا ملک مختلف جنگی سرداروں اور جہادی لیڈروں کے حلقہ ہائے اثر میں تبدیل ہوگیا۔ ان جنگی سرداروں اور جہادیوں کی ڈوریں زیادہ تر پاکستان، ایران، سعودی عرب، چین اور امریکی سامراج کے ہاتھوں میں تھیں۔ جب کابل میں نجیب اللہ کی حکومت گر گئی تو مختلف جہادی گروہ کابل پر قبضے کے لیے آپس میں لڑ پڑے۔ اس خانہ جنگی سے کابل کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔

طالبان
پاکستان میں موجود دائیں بازو کے دانشور دیوار برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے انہدام کی وجہ مجاہدین کی افغانستان میں فتح کو قرار دیتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی سطحی تجزیہ ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کا تناظر روسی انقلاب کے معمار لیون ٹراٹسکی نے 1936ء میں اپنی کتاب ’انقلاب سے غداری‘ میں پیش کیا تھا۔ جس میں اس نے کہا تھا کہ سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت پر بیوروکریٹک کنٹرول جلد ہی اس معیشت کو بربادکرکے سرمایہ داری کی بحالی کی طرف لے جائے گا۔ لیکن سی آئی اے اور بالخصوص پاکستان کے حکمران مجاہدین کی اس رد انقلابی فتح سے بہت مدہوش ہوگئے تھے۔ جنرل ضیاالحق اس خام خیالی میں اتنا پاگل ہوگیا تھا کہ ایک امریکی صحافی سیلیگ ہیریسن سے گفتگو کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ پاکستان بہت جلد افغانستان، ازبکستان، تاجکستان اور حتیٰ کہ ایران اور ترکی کو بھی اپنے دائرہ اثر میں لے آئے گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آمرانہ اور جابر حکمرانوں کو اپنے آخری دنوں میں اپنی ہی جھوٹ پر یقین آنا شروع ہوجاتا ہے کیونکہ اپنے زوال کے وقت وہ ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔
اس خانہ جنگی اور بربادی کے عالم میں پاکستانی ریاست نے افغانستان کو اپنے پانچویں صوبے میں بدلنے کے لیے طالبان کی تشکیل کی جنہوں نے اپنی کاروائیوں کا آغاز 1994ء میں قندھار سے کیا۔ احمد رشید کے مطابق طالبان کی صفوں میں لڑنے والے زیادہ تر پاکستانی ہی تھے جنہوں نے یہاں کے مدرسوں میں تربیت حاصل کی تھی جن کی تعداد 80,000 سے 100,000 تھی۔ اسی طرح پاکستان کی مسلح افواج کے ہزاروں اہلکار بھی ان میں شامل تھے۔ اس کاروائی کو سی آئی اے کی حمایت اور کمک بھی حاصل تھی کیونکہ امریکی سامراج اور یونوکال کارپوریشن جیسی سامراجی کمپنیوں کو وسطی ایشیائی ریاستوں کی تیل اور گیس کی لوٹ مار کے لیے افغانستان میں کسی حد تک استحکام درکار تھا۔ 2001ء تک طالبان افغانستان کے 90 فیصد علاقے پر قابض ہوچکے تھے۔ جبکہ باقی علاقے شمالی اتحاد سے منسلک مجاہدین گروہوں کے پاس تھے۔ جن کے تانے بانے ایران، روس، ترکی وغیر ہ سے جڑتے تھے۔

تزویراتی گہرائی (Strategic Depth)
پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ’’تذویراتی گہرائی‘‘ یا Strategic Depth کی پالیسی کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ مشرقی سرحد پر ہندوستان کے ساتھ جنگ کی صورت ملک کی کم چوڑائی اور نسبتاً کم عسکری طاقت کے پیش نظر پاکستانی افواج کو افغانستان میں پسپائی کی ضرورت پڑ سکتی ہے تاکہ افغانستان کے وسیع رقبے اور مخصوص سنگلاخ جغرافیے کو استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کو ایک پیچیدہ جنگ میں لمبے عرصے تک الجھایا جا سکے۔ یہ وہ بنیادی تھیسز ہے جس کی بنیاد پر پاکستانی حکمران افغانستان میں ایک ’’دوست‘‘ حکومت کے قیام اور اسے اپنی کالونی بنانے پر گزشتہ کئی سالوں سے تلے ہوئے ہیں۔
اپنے آغاز سے ہی کمزور اور نحیف پاکستانی ریاست کے خوف زدہ حکمران طبقات اپنی ریاست کے چھین جانے کے خوف میں مبتلا تھے کیونکہ یہ ریاست انتہائی مصنوعی بنیادوں پر بنی تھی۔ ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کی وجہ سے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف واحد پڑنے والا ووٹ افغانستان کا تھا۔ ڈیورنڈ لائن 1893ء میں برطانوی سامراج کی کھینچی گئی ایک لکیر ہے جس نے ہزاروں سالوں سے ایک ساتھ رہنے والے پشتونوں کو تقسیم کردیا۔ افغانستان کے حکمران ڈیورنڈ لائن کے اس پار پاکستان کے پشتون علاقوں کو فطری طور پر افغانستان کا حصہ سمجھتے تھے اور اس مسئلے کی وجہ سے پاک افغان بارڈر پر کئی مرتبہ جھڑپیں بھی ہوئیں اور پاکستان اور افغانستان کے سفارتی تعلقات بھی منقطع ہوئے۔ عسکری حوالے سے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر دو دشمن ہمسایوں سے بیک وقت لڑنا ناممکن ہے۔ اسی لیے افغانستان میں اپنی بنیاد پرست پراکسیوں کے ذریعے مداخلت پاکستانی ریاست کے وجود کا مسئلہ ہے اور یہ مداخلت ثورانقلاب اور سوویت یونین کے حملے سے بھی پہلے کی چل رہی تھی۔ مثلاً 1973ء میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے حزب اسلامی کے گلبدین حکمت یار کو ہزاروں دہشت گردوں کے ساتھ تربیت دے کر افغانستان بھیجا جس نے افغانستان میں جاکر بربریت اور بربادی کی مثالیں قائم کی۔ سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے بعد پاکستانی ریاست کی مداخلت نے سامراجی حمایت اور کمک بھی حاصل کر لی۔ سوویت یونین کے آنے کے بعد افغانستان میں پاکستان کی مداخلت امریکی سامراج کی ضرورت بھی بن گئی۔
1992ء میں ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں ریاست کی رہی سہی مرکزی اتھارٹی بھی ختم ہوگئی اور پورا ملک مختلف جنگی سرداروں اور جہادی گروہوں کے زیر تسلط مختلف نیم خودمختار علاقوں میں تبدیل ہوگیا۔ خطے کے ممالک نے اپنی اپنی جہادی پراکسیوں کے ذریعے افغانستان کے زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ کرنے اور اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردیں۔ ایرانی ملاؤں نے اپنی جہادی پراکسی حزبِ وحدت کے ذریعے افغانستان میں اثرورسوخ کے لیے کوششیں کیں جس میں اسے پہلے پہل کچھ کامیابیاں بھی ملیں۔ پاکستانی ریاست نے گلبدین حکمت یار کی حزبِ اسلامی کے ذریعے افغانستان کے شہر جلال آباد میں حکومت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن دوسرے مجاہدین گروہوں کی مزاحمت کی وجہ سے وہ ناکام ہوگئے۔ اس کوشش کی ناکامی کے بعد طالبان کو تخلیق کیا گیا جس نے بہت ہی کم عرصے میں سی آئی اے اور پاکستانی ریاست کی آشیرباد سے افغانستان کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔

امریکی جارحیت
بظاہر تو افغانستان پر امریکی حملے کا مقصد القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن اور ان کے میزبان طالبان کو گیارہ ستمبر کے حملوں کی سزا دینا تھالیکن درپردہ اور بھی بہت سے عوامل تھے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی روس سے الگ ہونے والی نئی وسط ایشیائی ریاستوں کے تیل اور گیس کے ذخائر کی لوٹ مار کی نیت بھی ان بڑے عوامل میں سے ایک تھی۔ ان تیل اور گیس کے ذخائر کو بحیرہ عرب سے منسلک ممالک کی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے ایک پائپ لائن کی تعمیر درکارتھی جو کہ ترکمانستان سے افغانستان، پاکستان اور پھر انڈیا تک جاتی۔ اس پائپ لائن کے ٹھیکے کے لیے ارجنٹائن کی ایک کمپنی بریڈاس اور امریکی یونوکال طالبان حکومت سے مذاکرات کر رہے تھے۔ بالآخر ٹھیکہ یونوکال کو مل گیا۔ لیکن اگست 1998ء میں کینیا اور تنزانیا میں امریکی سفارت خانوں پر بم حملے ہوئے جس کا الزام امریکہ نے القاعدہ پر لگا دیا اور چونکہ اسامہ بن لادن طالبان حکومت کی پناہ میں تھا اس لیے امریکی حکومت کے دباؤ پر یونوکال کمپنی نے پائپ لائن منصوبے سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ افغانستان میں عدم استحکام اور خانہ جنگی کی وجہ سے یہ پائپ لائن منصوبہ سامراجی کمپنیوں کے لیے ناقابل عمل تھا۔ اس لیے جارج بش نے افغانستان پر ایک اور جنگ مسلط کرکے یہاں’ امن‘ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جنگ کی اپنی معیشت اور جنگوں سے وابستہ منافعے بھی اس جارحیت کی وجوہات میں شامل تھے۔
گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بمشکل ایک مہینے کے بعد ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں ’جمہوریت‘ لانے کے لیے حملہ کردیا۔ شمالی اتحاد اور دوسرے جنگی سرداروں اور جہادیوں کی مدد سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ شمالی اتحاد کی حمایت حاصل کرنے کے لیے سی آئی اے نے ان کے لیڈروں میں 70 ملین ڈالر تقسیم کیے۔ طالبان کی حکومت کا خاتمہ کرکے سابقہ مجاہدین اور شمالی اتحاد سے منسلک جنگی سرداروں کو اقتدار میں لایا گیا۔ لیکن ان میں اور طالبان میں کوئی فرق نہیں تھا۔ صرف ان کے آقا مختلف تھے۔ امریکی سامراج اور نیٹو کی براہ راست فوجی مداخلت سے افغانستان میں مختلف علاقائی سامراجی طاقتوں کی مداخلت کے راستے بھی کھلے۔ اس طرح معاشی اور سیاسی اثرورسوخ اور پراکسی جنگوں کا ایک اور سلسلہ شروع ہوا جس سے افغان عوام کی محرومیوں اور مصیبتوں کا ایک اور باب کھل گیا۔
اسی طرح معاشی اور سماجی طور پر بھی افغانستان میں حالات پہلے کی طرح ہی رہے۔ امریکی سامراج نے افغانستان میں انفراسٹرکچر کے شعبے میں جو سرمایہ کاری کی وہ صرف اپنی فوج کی نقل و حرکت کو مدنظر رکھ کر کی۔ مثلاً ایک رنگ روڈ تعمیر کی گئی جو 2200 کلومیٹر طویل ہے جو افغانستان کے بڑے شہروں ہرات، کابل، قندھار، جلال آباد اور مزار شریف کو جوڑتی ہے۔ یہ شہر فوجی اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ سیاسی میدان میں وہی پرانے جنگی سردار اور پرانے جہادی اقتدار میں بیٹھے ہیں جنہوں نے افغانستان کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ امریکہ نے افغان جنگ میں اب تک ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کیے ہیں جبکہ اس کے برعکس اس کی تعمیر نو پر بمشکل سو ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اور اس رقم کا بھی بڑا حصہ کرپشن اور بدعنوانی کی نظر ہوجا تا ہے۔

علاقائی مفادات کا ٹکراؤ
افغانستان اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے ہمیشہ سے بڑی طاقتوں کی گریٹ گیم کا میدان رہا ہے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی شروعات تک یہ زارِ روس اور برطانوی سامراج کے درمیان سفارتی اور سیاسی چپقلش کا میدان رہا۔ لیکن صورت حال اب مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سامراجی ریاستوں کے لیے افغانستان نے مزید اہمیت اختیار کر لی ہے۔ یہ اہمیت معاشی، سیاسی اور عسکری حوالوں سے ہے۔ افغانستان کے رد انقلابی ڈالر جہاد کے دوران بننے والے ان گنت جہادی گروہوں کے بعد کی شکلوں نے صورت حال کو نہایت گھمبیر بنا دیا ہے جس میں تمام تر گروہوں (بشمول طالبان) کی ڈوریں کسی نہ کسی ریاست کے پاس ہیں اور جن کی وفاداریاں کرائے پر دستیاب ہیں۔
پاکستان کی سٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ لیکن طالبان بھی کوئی منظم اور یکجا تنظیم نہیں ہیں بلکہ مختلف جرائم پیشہ گروہوں پر مشتمل ہیں جو افیون کی سمگلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے دھندوں میں ملوث ہیں۔ اس لیے ان کی وفاداریاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ برطانوی اخبار دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق کچھ طالبان گروہوں کو ایران کی مالی اور عسکری حمایت حاصل ہے اور ایران کے شہروں تہران، مشہد اور زاہدان میں ان کے تربیتی کیمپ موجود ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق 2012ء میں طالبان نے ایران کے شہر زاہدان میں ایک دفتر بھی کھولا تھا۔ ان کو ایران دوسرے طالبان گروہوں کے خلاف استعمال کرتا ہے اور کابل کی حکومت کے ساتھ سودا بازی کے لیے بھی بروئے کار لاتا ہے۔ ایران کی افغانستان میں سرمایہ کاری زیادہ تر مغربی افغانستان یعنی ہرات اور آس پاس کے علاقوں میں ہے۔ یہ سرمایہ کاری زیادہ تر انفراسٹرکچر، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، تعلیم، توانائی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبوں میں ہے۔ کچھ طالبان گروہوں کی حمایت اس سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے لیے بھی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کی موجودہ پرانتشار صورت حال اور ’اتحادی حکومت‘ کی غیر یقینی کیفیت میں ایرانی ملاں اپنے لیے تمام ممکنہ راستے کھلے رکھنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں بھی داعش کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کی نئی صورت حال کے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ایسے میں کچھ طالبان گروہ، جن کو سعودی عرب اور خلیج فارس کے عرب ممالک اور ان کے خیراتی اداروں کی مالی حمایت حاصل ہے، افغانستان میں ایران کے مفادات پر کاری ضرب لگا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایران طالبان کے کچھ دھڑوں کی حمایت کر رہا ہے۔
پاکستان کے ساتھ ماضی کا حساب برابر کرنے اور علاقائی اثر و نفوذ کے لیے ہندوستان بھی افغانستان میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ جس کی حالیہ مثال ایران، افغانستان اور ہندوستان کے درمیان چابہار بندرگاہ کی تعمیر کا معاہدہ ہے۔ اسی طرح ہندوستان نے 218 کلومیٹر لمبی زرنج دلارام ہائی وے تعمیر کی ہے جو ایرانی بارڈر کے قریب افغانستان کے شہر زرنج کو فرح صوبے کے شہر دلارام سے جوڑتی ہے۔ زرنج سے یہ سڑک بارڈر کے اس پار ایران کے شہر زابل سے منسلک ہے جبکہ زابل سڑکوں کے ایک وسیع جال کے ذریعے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے جڑا ہوا ہے۔ اس طرح ہندوستان کو پاکستان سے گزرے بغیر افغانستان سے جڑنے اور وہاں اور اس سے آگے وسطی ایشیائی ریاستوں تک اپنی مصنوعات اور ان سے تجارت بڑھانے کا راستہ ملا ہے۔ اس طرح افغانستان میں ہندوستان نے متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد 2012ء تک افغانستان میں ہندوستان کی سرمایہ کاری 10.8ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ یہ سرمایہ کاری خام لوہے کے کانوں، سٹیل پلانٹ، بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں، ٹرانسمشن لائن وغیر ہ کے شعبوں میں ہے۔ اس سے ہندوستان کا اثرو رسوخ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے کابل اور دوسری جگہوں میں ہندوستان کے سفارت خانے اور دوسرے مشنز پر حملے بھی ہو رہے ہیں۔ ان حملوں کا الزام ہندوستان نے پاکستانی پروردہ طالبان گروہوں پر عائد کیا ہے۔ اس تناظر میں ان سرمایہ کاریوں اور مداخلتوں سے مزید تضادات جنم لیں گے اور پاکستان کے ساتھ اسکی پراکسی جنگ مزید شدید ہوگی۔
امریکی جیالوجیکل سروے کے مطابق افغانستان میں تقریباً تین ہزار ارب ڈالر ( ٹریلین) کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔ ان ذخائر کی لوٹ مار کے لیے اس وقت چین پیش پیش ہے جس میں مس عینک (Mes Aynak) کے کاپر کے ذخائر کا ٹھیکہ اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس کی مالیت دو ارب ڈالر ہے۔ چین کی طالبان کے ساتھ ’امن‘ مذاکرات میں دلچسپی کی ایک وجہ انہی وسائل کو ہتھیانا بھی ہے۔ طالبان کے کچھ گروہوں کی چین یاترا کی خبریں ایک با ر پھر گردش کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ چین اپنے مغربی صوبے سنکیانک میں موجود انتہا پسند یوغر علیحدگی پسندوں اور افغانستان میں ان کی پناہ گاہوں سے بھی پریشان ہے۔ وسائل کی اس جنگ میں افغانستان افریقی ممالک کانگو اور لائبیریا کی طرح برباد ہورہا ہے اور یہی وسائل یہاں کے باسیوں کے لیے عذاب بن گئے ہیں۔

تناظر
افغانستان کی تیس سالہ جنگ میں اب تک تیس لاکھ افغان اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ مزید سٹیک ہولڈرز کے آنے سے یہ جنگ مزید شدت اختیار کرے گی۔ مختلف سامراجی ریاستوں کی جانب سے ہونے والی سرمایہ کاری سے افغانستان میں ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا بلکہ ان سرمایہ کاریوں کی وجہ سے چپقلشوں اور تضادات کے نئے میداں سجیں گے۔ یہ سرمایہ کاری تعمیر سے کہیں زیادہ تخریب، تباہ کاری اور لوٹ مار کرتی ہے۔ ویسے بھی مختلف مسلح گروہوں اور طالبان کے مختلف متحارب گروہوں کی موجودگی میں اس سرمایہ کاری کا فائدہ افغان عوام کو ملنے کے امکانات ناپید ہیں۔ ان تمام متحارب قوتوں کی موجودگی میں افغانستان کبھی بھی ایک صحت مند سرمایہ دارانہ ریاست نہیں بن سکتا۔ امریکی تسلط کے پندرہ سالوں میں افغان سماج کے مسئلے مزید گھمبیر ہوگئے ہیں۔ معاشی بنیادیں انتہائی کمزور ہیں۔ ملک کی صنعتی بنیادیں نہیں ہیں۔ جی ڈی پی کا سائز تقریبا 20 ارب ڈالر ہے جس میں سب سے بڑا حصہ بیرونی امداد پر مبنی ہے۔ روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ ملکی آبادی کا صرف 38 فیصد بجلی کے نیشنل گریڈ سے مستفید ہوتا ہے۔ باقی آبادی بجلی سے محروم ہے۔ مرکزی حکومت کے پاس نہ تو اہلیت اور نہ ہی وہ وسائل ہیں کہ وہ ملک میں بجلی کی پیداوار کے منصوبے شروع کرسکے جس سے پوراملک مستفید ہوسکے۔ اس کیفیت میں مختلف ممالک اور سامراجی کمپنیوں کی جانب سے بجلی کی فراہمی کے لیے مجوزہ سرمایہ کاری نے افغانستان میں قومی محرومی کو ایک دفعہ پھر بھڑکا دیا ہے جس کی واضح شکل ہمیں کابل میں ہزارہ عوام کی جانب سے کیے جانے والے مظاہروں میں ملتی ہے۔
افغانستان کا تناظر ہمسایہ ممالک میں ہونے والی انقلابی تبدیلی سے جڑا ہوا ہے جس میں پاکستان اور ایران میں ہونے والی تبدیلیاں انتہائی اہم کردار ادا کریں گی۔ دہائیوں سے ان دونوں ممالک کے حکمران طبقات نے اپنے سامراجی مفادات کی خاطر افغانستان کو خون میں نہلایا ہے، بالخصوص پاکستانی حکمرانوں نے افغانستان کی بربادی میں ایک مجرمانہ کردار ادا کیاہے۔ ایسے میں پاکستان اور ایران میں ابھرنے والی انقلابی تحریک اگر اپنے سوشلسٹ منطقی انجام تک پہنچتی ہے تو اس سے نہ صرف ان ممالک کے محنت کش اپنے حکمرانوں اور ان کے نظام سے آزادی حاصل کریں گے بلکہ افغان محنت کشوں کی آزادی کا راستہ بھی کھلے گا۔

متعلقہ:

تورخم میں سرکاری تصادم!