بس کرو اب بس! روزانہ بجٹ؟

| تحریر: آدم پال |

ہر سال کی طرح اس سال بھی سالانہ بجٹ کی رسم ٹی وی چینلوں پر براہ راست دکھائی جائے گی۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اور جعلسازی کے نئے ریکارڈ قائم کرنے کا یہ اچھا موقع ہوتا ہے لیکن ستم یہ ہے کہ ایسے تاریخی لمحے اس انداز میں ریکارڈ ہی نہیں کیے جاتے۔ اگر تمام وزیروں میں ڈھٹائی ا ور بے شرمی سے جھوٹ بولنے کا مقابلہ کروایا جائے تو وزرائے خزانہ کے لیے اول انعام حاصل کرنا مشکل نہیں ہو گا۔ جس ملک میں روزانہ کی بنیاد پر نئے ٹیکس لاگو کیے جائیں اور محنت کش عوام کا پیسہ خوفناک رفتار سے لوٹا جارہا ہو وہاں بجٹ کی سالانہ رسم کو حکمرانوں کی خود فریبی ہی کہا جا سکتا ہے۔
ishaq dar budget 2015cartoonجو وزیر خزانہ صرف ایک دیہاڑی میں اپنے بیٹے کو چالیس لاکھ ڈالر بطور تحفہ بھیجتا ہو وہ سرکاری خزانے کا کیا استعمال کرتا ہے یہ کہنا مشکل نہیں۔ لیکن اس تمام تر کھلی لوٹ مار کے باوجود یہ ناٹک نہ صرف جاری ہے بلکہ عوام کو اس تمام تر عمل کی سچائی کا یقین دلانے کی بھی بھرپور کوشش کی جاتی ہے جس میں ملکی ذرائع ابلاغ بھی ملوث ہیں۔

اس ڈرامے کے اداکاروں میں نہ صرف وزیر خزانہ شامل ہے جو سنجیدہ چہرے کے ساتھ اسمبلی میں اعداد و شمار کی ایک جھوٹی فہرست پیش کریں گے بلکہ اسمبلی میں بیٹھے دوسرے تمام افراد بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے سے گریز نہیں کریں گے۔ ہر وزیراور ممبر اسمبلی یہی جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے حصے میں محض چھیچھڑے ہی آئے ہیں یا بھاری حصہ۔ گزشتہ سال وزیر داخلہ کے روٹھنے اور منانے کے سلسلے کے پیچھے بھی یہی وجہ تھی کہ ا سے عوام کے خون پسینے کی بہتی گنگا میں اشنان نہیں کرنے دیا گیا۔ اس سال کہا جا رہا ہے کہ اسے بھی راضی کر لیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ تقریباً چار ہزار ارب روپے کا آئندہ سال کے لیے جو بجٹ پیش کیا جا رہا ہے وہ تمام تر دولت کہاں سے آئے گی؟ یہ تمام تر دولت پاکستان کے تنگ دست، لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا شکار اور علاج، تعلیم اور دیگر ضروریات کے حصول کے لیے مارے مارے پھرنے والے محنت کش عوام پیدا کریں گے۔ لیکن اس دولت کی بندر بانٹ کا فیصلہ مقامی اور عالمی حکمران کریں گے۔ پر تعیش محلوں میں زندگیاں گزارنے والے اور بیرونی ممالک میں اپنے اثاثے منتقل کرنے والے ان حکمرانوں کی ترجیح یہی ہے کہ اس دولت کا بڑے سے بڑا حصہ کیسے ان کی ذاتی تجوریوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ عوام کے علاج، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات اس فہرست میں شامل نہیں۔
today-s-cartoon-1432934298-1964ہر سال کی طرح اس سال بھی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا اور عالمی سامراجی مالیاتی ادارے اس ملک کے عوام کی پیدا کی ہوئی دولت سرمایہ دارانہ نظام کے سود کے گھن چکر کے ذریعے لوٹ لیں گے۔ مالی سال 2014ء میں سود اور قرضوں کی ادائیگی میں 6.9 ارب ڈالر ادا کیے گئے جبکہ اس مالی سال کی تیسری سہ ماہی کے اختتام تک 3.557 ارب ڈالر ادا کیے جا چکے ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی سے بھی ان قرضوں کے حجم میں اضافہ ہو جاتا ہے اور قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ سابقہ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان عشرت حسین کے مطابق حکومت تقریباً 1500 ارب روپے داخلی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتی ہے۔ جبکہ تقریبا 800 ارب روپے دفاع پراور340 ارب روپے سول بیوروکریسی پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے لیے 400 ارب روپے بچتے ہیں۔ یعنی اسمبلیوں میں بیٹھے اراکین کی تمام تر سیاست صرف اس  400 ارب روپے میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے گرد ہی ہوتی ہے۔ اس تقسیم کے مطابق بجٹ کا 85 فیصد حصہ اسلحے، سود، افسر شاہی کی عیاشیوں پر خرچ ہو جاتا ہے اوربقایا 15 فیصد یہاں کے سیاسی و ریاستی جغادری اور ان کے حواری لے اڑتے ہیں۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کو ملنے والے بیرونی قرضوں کا مقصد یہاں غربت یا بیروزگاری کا خاتمہ نہیں اور نہ ہی عوام کو علاج، تعلیم کی سہولت دے کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے بلکہ ان تمام تر قرضوں کا مقصد سود سمیت ان کی واپسی ہے۔ اور یہ دنیا کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے۔ اسی کاروبار کے باعث یہاں کے عوام کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ لوگ غربت سے تنگ آ کر خود کشیاں کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کی جانب سے یہاں کے حکمرانوں کومعیشت کے متعلق دیے جانے والے احکامات کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان کے اس سودی کاروبار کو محفوظ بنایا جائے اور ان کے قرضے ڈوبنے نہ پائیں تاکہ ان کی آمدن کا سلسلہ جاری رہ سکے۔ قرضوں کے اسی سودی کاروبار کے باعث ہی اب یونان سمیت یورپ کے بہت سے ممالک کے محنت کش عوام کو بھی غربت اور بیروزگاری میں دھکیلا جا چکا ہے۔ ان سود خور بینکاروں اور حکمرانوں کی ہر ممکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی بھی معیشت کو مکمل دیوالیہ ہونے سے بچایا جائے تا کہ اپنی وصولیوں کا سلسلہ جاری رہے۔
556f7a04f1b40ان ہی سامراجی حکمرانوں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے یہاں ایسے بد عنوان مقامی حکمرانوں کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف ان کی اور ان کے نظام کی مکمل تابعداری کریں بلکہ ان کی یہاں کے عوام سے وصولیوں کے سلسلے کو بھی ٹوٹنے نہ دیں۔ یوں تویہ گماشتگی کرنے کے لیے یہاں تمام سیاسی پارٹیوں کے قائد تیار ہیں لیکن سامراجی آقا اکثرآزمائے ہوئے وفاداروں پر ہی بھروسہ کرتے ہیں جب تک کوئی غیر معمولی صورتحال نہ بن جائے۔ ان گماشتوں کے ذاتی اکاؤنٹ بھی اکثر غیر ملکی بینکوں میں ہی ہوتے ہیں جہاں بد عنوانی سے کمائی گئی دولت جمع ہوتی ہے۔ اس طرح ان سامراجی آقاؤں کے پاس ان کی گردن دبوچنے کا ایک اور ذریعہ موجود ہوتا ہے۔
اس سال دفاع کے لیے رکھی گئی 857 ارب روپے کی رقم کا بڑا حصہ بھی اسلحہ کی خریداری کی مد میں جائے گااور یہ رقم بھی امریکہ، چین اور دیگر سامراجی ممالک کی اسلحہ سازکمپنیوں کو ادا کر کے دفاعی کھلونے خریدے جائیں گے اور اس نظام کے رکھوالوں کی خون کی پیاس بجھانے کا سامان کیا جائے گا۔ حکمرانوں کے باہمی دوروں میں جب ملاقاتوں کے دوران جام سے جام ٹکراتے ہیں تواس مے میں محنت کشوں کے خون کی بو بھی ہوتی ہے۔ حالیہ چینی صدر کے دورے کے دوران پاکستان نے وعدہ کیا کہ وہ تقریبا 5ارب ڈالر کی آبدوزیں چین سے خریدے گا۔ اسی طرح اربوں ڈالر کے جدید جنگی طیارے بھی چین سے خریدے جائیں گے۔ اس دورے سے چند ہفتے قبل ہی پاکستان اور امریکہ میں تقریباً ایک ارب ڈالر کے ہیلی کاپٹر اور میزائیل خریدنے کا بھی معاہدہ ہوا تھا۔ اگر یہ دولت اس ملک کے عوام کی فلاح پر خرچ کی جائے تو اس ملک میں ہر شخص کو مفت علاج اور تعلیم کی جدید ترین سہولت فراہم کی جا سکتی ہے اور بیماری اور جہالت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس نظام زر میں حکمران طبقات اپنی دولت کے انباروں میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں جبکہ وسیع تر آبادی کو بھوک اور بیماری میں جھونک دیتے ہیں۔
today-s-cartoon-1430259024-2564اس ملک کے موجودہ حکمران جہاں دیگر ذرائع سے آمدن کے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں وہاں ترقیاتی اخراجات کی مد میں رکھی جانے والی رقم بھی ہڑپ کرنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ اس سال ترقیاتی اخراجات کا بڑا حصہ پاک چین راہداری پر خرچ کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے جس میں تعمیراتی کام، پُل، سڑکیں، ریلوے لائنیں اور دیگر انفرا اسٹرکچرشامل ہے۔ اسی طرح توانائی کے نئے منصوبے بھی لگانے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ نندی پور پلانٹ کے عظیم الشان افتتاح کے بعد جہاں ایک یونٹ بھی پیدا نہیں ہوا وہاں اربوں روپے تمام کمپنیوں کو ادا کر دیے گئے اور حکمرانوں نے اپنا کمیشن بھی بر وقت وصول کر لیا۔ اسی طرح میٹرو بس کے منصوبوں میں اربوں روپے کی کرپشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسلام آباد کے اس منصوبے کا افتتاح سے پہلے ہی ایک ستون دھڑام سے گر گیا لیکن اس کے باوجود بد عنوانی کے الزامات کو میڈیا کو اشتہار دے کر چھپا دیا گیا۔ اسی طرح نئے منصوبوں سے بھی بڑی کرپشن اور لوٹ مار کی تیاری کی جا رہی ہے۔
اسی دوران عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کئی گنا مزید لاد دیا جائے گا۔ ٹیلی فون کی کال پر ایک فیصد ٹیکس میں اضافے کے ساتھ دیگر اشیائے ضرورت پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ جبکہ تنخواہوں میں حقیقی طور پر کمی ہو گی کیونکہ خود حکمرانوں کے مطابق افراط زر میں اضافہ متوقع ہے۔
اسی طرح بجٹ سے ایک ہفتہ پہلے ہی گیس پر نیا ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی نے عوام دشمنی کا کھلا ثبوت دیتے ہوئے پہلے اس ٹیکس کی مخالفت کی لیکن بعد ازاں کسی ’نا معلوم‘ وجوہات کی بنیاد پر پلٹا کھاتے ہوئے اس ٹیکس کی حمایت کر دی۔ اس ٹیکس کے بعد گیس کی قیمت میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو جائے گا۔ جب موجودہ حکومت کی جانب سے یہ بِل اسمبلی میں پیش کیا گیا تو سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے اس کی زور و شور سے مخالفت کی اور اس بِل کے خلاف جوشیلی تقریریں کیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اس بل کو پیش کرنے پر پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی حکومتی اراکین کے ٹکڑے کر دیں گے۔ لیکن سب سے پہے اس بِل کو متعارف بھی 2011ء میں پیپلز پارٹی کے دور میں ہی کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے یہ بھی کہا کہ ن لیگ آمروں کے نقشِ قدم پر چلتی ہوئی اپوزیشن جماعتوں کو سائیڈ لائن کر رہی ہے اور چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے اراکین نے قلابازی کھاتے ہوئے اس بِل کی حمایت میں ووٹ دے کر اس کو پاس کروا دیا۔
556d0ef6132feاس بِل کے بعد گیس کی قیمتوں میں اضافے سے جہاں سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا وہاں زراعت بھی شدید متاثر ہو گی۔ GIDC ٹیکس لگنے سے یوریا کی ایک بوری کی قیمت میں 200 روپے تک اضافہ متوقع ہے۔ اس سے زرعی اجناس کی قیمتوں پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ چھوٹے کسان جو پہلے ہی متعدد فصلوں سے نقصان اٹھا رہے ہیں مزید متاثر ہوں گے۔ دوسری جانب یوریا کی صنعت بھی شدید نقصان سے دوچار ہو گی کیونکہ قیمت میں اس اضافے کے بعد مقامی یوریا اور غیر ملکی یوریا کی قیمتوں میں فرق ختم ہو جائے گا۔ اسی باعث مختلف درآمدی مافیااور اسمگلر غیر ملکی یوریا ملک میں منگوانے میں سرگرم ہوں گے جس کے بعد کالی معیشت کا ایک نیا شعبہ پروان چڑھنا شروع ہو گا۔ پہلے ہی یوریا کی صنعت یہاں سے افریقہ منتقل کرنے کا عمل ابتدائی مراحل میں داخل ہو چکاہے۔
اس سے پہلے ٹیکسٹائل سمیت بہت سی صنعت بجلی کے بحران اور دیگر مسائل کی وجہ سے بیرونی ممالک میں منتقل ہو رہی ہے۔ صرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث ہی لاکھوں صنعتی یونٹ بند ہو چکے ہیں۔ اب گیس مہنگی ہونے کے بعد رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ ایسے میں بیروزگاری کا عذاب مزید بڑے پیمانے پر پھیلے گا۔ پاکستان سے بیرونی ممالک میں جانے والے محنت کشوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس کی عکاسی بیرونی ممالک سے بھیجی گئی رقو م میں اضافے سے ہوتی ہے۔ حکومت کی آمدن کا اس پر انحصار بڑھتا جا رہاہے جو حکمرانوں کی کامیابی نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر یہاں کے عوام کو روزگار دینے میں ناکامی ہے۔ دوسرا برآمدات سے ہونے والی آمدن میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جسے اس آمدن میں اضافے نے سہارا دیا ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔
اس سارے عمل میں حکمران طبقات یہاں سے سرمایہ تیزی سے باہر لے جا رہے ہیں۔ ایان علی کا کیس پہاڑ کا سر اہے۔ ہر روز کروڑوں ڈالر یہاں سے غیر قانونی طریقے سے باہر منتقل کیے جاتے ہیں۔ ایگزیکٹ کا کاروبار ہو یا دبئی میں جائدادوں میں سرمایہ کاری کا بہانہ اصل مقصد کسی طریقے سے یہاں سے سرمایہ باہر منتقل کرنا ہے۔ ان حکمرانوں کی جانب سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کہیں زیادہ رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ یہاں سے لوٹ مار کر کے ڈالر باہر منتقل کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جائے۔
878691-CartoonSabirNazarthMay-1432573051-777-640x480 2013-14ء میں 4.3 ارب ڈالر کی جائیدادیں پاکستانی سرمایہ کاروں نے خریدیں جبکہ 2015ء کی پہلی سہ ماہی میں 37.9 کروڑڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ غیر قانونی طریقوں سے باہر منتقل ہونے والے سرمائے کے حجم کا اندازہ یہیں سے لگایا جا سکتا ہے۔ اتنی بڑی رقم پر اگر انتہائی معمولی سا ٹیکس بھی لگا ہو تو تمام بیرونی قرضے ادا کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ٹیکس صرف غریب افراد ہی ادا کرتے ہیں جو ماچس کی ڈبی سے لے کر چائے کی پیالی تک پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ جبکہ امیر افراد کے لیے نہ کوئی ٹیکس پہلے تھا اور نہ ہی اس نظام میں لگے گا۔
لیکن دوسری جانب پاکستان کی کالی معیشت کے ایک اور اہم ستون کے لیے بھی بری خبر آئی ہے۔ ہیروئین کی اسمگلنگ سے پاکستان اور افغانستان میں سالانہ اربوں ڈالر کمانے والوں کے لیے امریکی سائنسدانوں نے ایک برا اعلان کیا ہے۔ جس کے مطابق جلد ہی لیبارٹری میں مختلف کیمیکلز کو ملا کر ہیروئین کو تیار کیا جا سکے گا۔ اگر ہیروئین کا کاروبار اسٹاک ایکسچینج میں ہوتا تو اس خبر کے بعد اس کے حصص کی قیمت میں یقینابڑے پیمانے پر کمی آ جاتی۔ 23 مئی کی اشاعت میں اکانومسٹ لکھتا ہے:
’’اگر عالمی سطح پر تجارت کی جانے والی اشیا (کوکین اور ہیروئین) کو مقامی طور پر تیار کیا جا سکے تو وہ کارٹیل جو انہیں اسمگل کرتے ہیں کاروبار سے باہر ہو جائیں گے۔ منشیات کا کاروبار کرنے والے ہوشیار افراد اسی لیے نیچر کیمیکل بائیالوجی کا تازہ شمارہ غور سے پڑھیں گے، کیونکہ اس شمارے میں ایک تحقیق شائع ہوئی ہے جس کے مطابق ایک ایسی ٹیکنالوجی تیار ہو رہی ہے جو ان کے کاروبار کو تباہ کر دے گی‘‘۔
class exploitationلیکن اس سے پیشتر پاکستان کی سرکاری معیشت کی کشتی یونہی ڈگمگاتی ہوئی چلتی رہے گی اور قرضوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس دوران کروڑوں افراد غربت اور ذلت کی چکی میں پستے رہیں گے۔ کوئی سیاسی پارٹی اس عوام دشمن معیشت کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ سامراجی قرضوں سے لے کرنجکاری کی مزدور دشمن پالیسی تک سب متفق ہیں۔ صرف اختلاف اپنے حصے کی وصولی کا ہے اور اسی کے لیے قتل و خون کا بازار گرم ہے۔ رنگ، نسل، قوم، مذہب سمیت تمام تعصبات کو اسی حصوں کی بند ربانٹ کے لیے ابھار اجاتا ہے اور معصو م افراد کی قتل و غارت سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
ایسے سماجی معاشی نظام کا لمبا عرصہ چلنا نا ممکن ہے۔ اس کے خلاف ایک بغاوت کا ابھرنا ناگزیر ہے۔ ایسی بغاوت جوسامراجی قرضوں کو ضبط کر کے یہ تمام دولت عوام کے علاج، تعلیم، صاف پانی، روٹی، کپڑے اور مکان پر خرچ کرے۔ اس کے لیے ان تمام بینکوں میں موجود سرمایہ داروں کی دولت کو ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ ا ن کی بیرون ملک منتقل کی گئی دولت کو بھی واپس لانے کا سامان کرنا پڑے گا۔ تمام ملوں اور معیشت کے کلیدی شعبوں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دینا۔ اس کے علاوہ اس مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بیروزگاری، لاعلاجی اور جہالت سے نکلنے کا کوئی حل نہیں۔ یہ سب ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کیاجائے گا جواب اس سماج کی ضرورت بن چکا ہے۔

متعلقہ:

جو موسم شب ٹھہر گیا ہے…

بجٹ 2014-15ء: بھیک مانگتے رہو، بھکاری بناتے رہو!

پاکستان: کرائے کی معیشت اور بجٹ کا دھوکہ

دیوالیہ معیشت کی ’’بجٹ سازی‘‘

بدنصیبی کا جرم؟