ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ: ہوئے تم دوست جس کے۔ ۔ ۔

[تحریر: لال خان]
جون 2011ء میں جسٹس ریٹائرڈجاوید اقبال کی سربراہی میں تشکیل پانے والے ایبٹ آباد کمیشن کی لیک ہونے والی رپورٹ سے کئی سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ اس رپورٹ نے پاکستانی ریاست، سیاست اور سفارت کے دیوالیہ پن کو بے نقاب کر دیا ہے۔ رپورٹ میں دو سو سے زائد فوجی افسران، سیاست دانوں اور اونچے عہدوں پر فائز ریاستی اہلکاروں کے بیانات قلم بند کئے گئے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سابقہ سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا نے اپنے بیان میں تسلیم کیا ہے کہ ’’ہم ایک انتہائی کمزور اور خوفزدہ ریاست ہیں۔ ۔ ۔ یہ کسی ایک فرد یا ادارے کی ناکامی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر پورے نظام کی شکست ہے اور ہم ایک ناکام ہوتی ہوئی ریاست ہیں۔‘‘ جنرل شجاع پاشا نے ایک امریکی اہلکار کے یہ الفاظ بھی کمیشن کو قلمبند کروائے کہ ’’تم لوگ اتنے سستے ہو کہ ایک ویزے میں بک جاتے ہو۔ ۔ ۔ ہم تمہیں امریکہ کا دورہ کروا کے یا کھانا کھلا کے خرید سکتے ہیں۔‘‘ اسی طرح کمیشن رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ امریکی ڈرون حملے ’’غیر تحریر شدہ مگر سیاسی سمجھوتے‘‘ کے تحت کیے جارہے ہیں۔ پاکستانی حدود کے سو میل اندر امریکی حملے اور اسامہ بن لادن کے قتل کو ’’1971ء کے بعد ملک کی بدترین تذلیل قرار دیا گیا ہے۔‘‘ رپورٹ میں شائع ہونے والا ایک نوٹ بھی قابلِ توجہ ہے جس کے مطابق ’’پاکستان کی حکومتیں شاید ہی کبھی عوام سے ایماندار رہی ہیں۔‘‘ تاہم ایک دہائی تک اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی، جس کے دوران کئی سال اس نے انتہائی حساس علاقے میں گزارے، سے متعلق رپورٹ میں کوئی تسلی بخش وضاحت موجود نہیں۔ ’اندر‘ کے کچھ لوگوں کی شمولیت کے بارے میں اشارے ضرور موجود ہیں تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں جان بوجھ کر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ مزید برآں رپورٹ میں سے کچھ صفحات غائب بھی ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ ریاست یا کسی خفیہ ادارے کے ایک مخصوص دھڑے نے اپنے مفادات کے مد نظر اسے لیک کروایا ہے۔
’کوئی بتلائے کہ ہم بتائیں کیا‘ کے مصداق یہ رپورٹ پاکستانی ریاست کی تنزلی اور داخلی ٹوٹ پھوٹ کے سرکاری اقرار نامے کا درجہ رکھتی ہے۔ معیشت کا گہرا ہوتا ہوا بحران ریاست کی ٹوٹ پھوٹ اور سماجی و سیاسی انتشار کی صورت میں اپنا اظہار کرہا ہے لیکن گلگت بلتستان سے لیکر کوئٹہ اور کراچی تک، پورے ملک میں جاری اس بربریت اور انتشار میں بھی ایک نظم موجود ہے۔ جن سپولیوں کو امریکی دودھ پلا کر پالنے پوسنے کا عمل آج سے تین دہائیاں قبل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے شروع کیا تھا آج وہ اژدھے بن چکے ہیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی بھوک کے سامنے ہزاروں انسانوں کے جسم بھی ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر یہ درندے اپنے آقاؤں کو نگلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
1980ء اور 90ء کی دہائی میں سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی نے دنیا بھر میں نظریاتی اور سیاسی خلا کو جنم دیا تھا۔ پاکستان میں ماسکو نواز اور بیجنگ نواز بائیں بازو کے انہدام سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو ریاست نے مصنوعی طور پر مذہبی رجعتیت کے ذریعے پُر کروایا۔ ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہبی بنیاد پرستی کوخوب استعمال کیاجبکہ امریکیوں نے اس سفاک آمر کو افغانستان میں جاری ’ڈالر جہاد‘ کو چلانے اور اس خطے میں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے استعمال کیا۔ اسامہ بن لادن بھی تو امریکی سی آئی اے کا خاص ایجنٹ تھا جو 1980ء کی دہائی میں افغانستان میں اپنے آقاؤں کے ایجنڈے پر عمل درآمد کروا رہا تھا۔ خاص طور پر سر د جنگ کے آخری عرصہ میں بنیاد پرست قوتوں کو پروان چڑھانے کی یہ پالیسی شدت اختیار کر گئی کیونکہ امریکیوں کو خود سوویت یونین کے انہدام کی توقع نہیں تھی اور وہ مذہبی بنیاد پرستی کو لمبے عرصے تک سوویت یونین کے سٹریٹجک مفادات کے خلاف استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کئے ہوئے تھے۔ لیکن سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی سی آئی اے نے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے مذہبی جنونیوں کے جس نیٹ ورک کو پروان چڑھایا تھا وہ پاکستانی ریاست کے مختلف دھڑوں کی سرپرستی میں بڑی حد تک خودمختیار ہوچکا تھا۔ افغان ڈالر جہاد کے دوران امریکیوں نے ان بنیاد پرست عناصر اور ریاست میں موجود ان کے سر پرستوں کی خوب تربیت کی تھی کہ کس طرح منشیات کی خریدوفروخت اور دوسرے ناجائز طریقے اپنا کر نہ صرف لامحدود دولت کمائی جا سکتی ہے بلکہ ’مقدس جنگ‘ کے خرچے بھی پورے کئے جا سکتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر دوسرے خطوں میں سامراجی جنگوں کے دوران یہی طریقہ کار استعمال کئے جاتے رہے ہیں۔ اربوں ڈالر کے اس کالے دھن کی بندر بانٹ پر سامراج، پاکستانی ریاست اور بنیاد پرستوں کے مختلف دھڑوں اور گروہوں کے درمیان تنازعات کا ابھرنا ناگزیر تھا۔ نام نہاد ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
آج بھی طالبان کے ایک سے زیادہ دھڑے ایسے ہیں جن کے امریکی سامراج کے ساتھ ہمیشہ سے قریبی مراسم استوار رہے ہیں۔ طالبان کوئی یکجا اکائی نہیں ہیں۔ اپنے سامراجی عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مذہبی بنیاد پرستی کا استعمال اگرچہ ’امریکی ایجاد‘ ہے لیکن موجودہ عہد میں پاکستان کے ’قریبی دوستوں‘ سمیت کئی دوسری سامراجی قوتیں بھی اس ’فن‘ میں ماہر ہوچکی ہیں۔ تضاد تب پیدا ہوتا ہے جب متضاد مفادات رکھنے والی مختلف سامراجی قوتیں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے مختلف مذہبی گروہوں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ پاکستانی ریاست کے کئی دھڑے عوامی تحریکوں کو دبانے اورسماجی انتشار پیدا کر کے کسی ممکنہ انقلابی موج کا رخ موڑنے کیلئے ان عناصر کو استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ’مقدس جنگجوؤں‘ کے کسی گروہ کے اندر بھی ’مالِ غنیمت‘ کی تقسیم اور حصہ داری پر دھڑے بندی اور تصادم کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ تاہم کوئی بھی عوامی تحریک جو ان تمام تر رجعتی قوتوں کے مشترکہ سرمایہ دارانہ معاشی مفادات کے لئے خطرہ بنتی ہے تو اسے کچلنے کے لئے یہ ہمیشہ متحد رہتے ہیں اور رہیں گے۔
انسانی سماج میں مذہب کا کردار ہمیشہ سے ایک سا نہیں رہا۔ سرمایہ داری نے اپنے زوال کے اس عہد میں اسے بھی ایک کاروبار میں تبدیل کردیا ہے، نہایت منافع بخش کاروبار!غربت کی چکی میں پس رہے کروڑوں لوگوں کو سادگی کا درس دینی والی ملا اشرافیہ اور مذہبی پارٹیاں بہت امیر ہیں۔ گاؤں کا مولوی اب جاگیردار کے اناج اور مذہبی رسومات کی آمدن سے گزارہ نہیں کرتا۔ سائیکل سے پجارو تک کا سفر اس نے بہت تیزی سے طے کیا ہے۔ مسجدیں خوب پھل پھول رہی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف مذہبی منافرت کا زہر اگل کر چندہ جمع کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہمارے ’آزاد خیال‘، سیکولر اور جمہوری حکمران بھی سماجی بغاوتوں کا رخ موڑنے کیلئے مذہبی تعصب کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ اعتدال پسند سمجھے جانے والے بہت سے مذہبی گروہ تشدد پسندوں کی نرسریاں بن چکے ہیں۔ ایک جدید سرمایہ دار انہ ریاست کو سیکولر ہونا چاہئے تاہم سرمایہ داری کے نامیاتی بحران میں ریاست رجعتیت اور ترقی مخالف عناصر کو ہوا دینے پر مجبور ہو گئی ہے۔
ایسے میں ایبٹ آباد کمیشن جیسی رپورٹ صرف چند مسلمہ حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے اور مذہبی رجعتیت کے گھناؤنے استعمال کے ایک رخ کو عوام پر آشکار کرتی ہے۔ اسامہ جو خود ایک وقت میں سی آئی اے کا ایجنٹ تھا وہ اتنے لمبے عرصے تک بغیر کسی خفیہ ایجنسی کی مدد کے روپوش نہیں رہ سکتا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اسامہ بن لادن نے پاکستان میں چھ بار اپنی رہائش تبدیل کی، مختلف شہروں میں رہتا رہا اور اپنی زندگی کے آخری چھ سال ایبٹ آباد کے انتہائی حساس فوجی علاقے میں گزارے۔ یہ سب کیا ثابت کرتا ہے؟ پاکستان میں ایک عام آدمی کو گھر سے بازار یا دفتر تک پہنچنے کے دوران کئی بار پولیس کے ناکوں پر رکنا پڑتا ہے جہاں کاغذات کی ’’جانچ پڑتال ‘‘کے نام پر اسے ذلیل و رسواکیا جاتا ہے۔ لیکن دنیا کے مطلوب ترین مقامی اور غیر مقامی دہشت گردوں کو یہی ریاست تحفظ فراہم کرتی ہے اور ان کے ’’قیام و طعام‘‘ کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ دہشت گرد جب یہاں کے معصوم عوام کا کھلے عام قتلِ عام کرتے ہیں تو میڈیا پر براجمان سرکاری دانشور اور مذہبی جماعتیں اس سب کو سازشی تھیوریوں کے نیچے دبانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکہ سے لے کر پاکستان تک  ایسی رپورٹوں کا لیک ہو کر منظر عام پر آنا بھی در حقیقت ان سامراجی قوتوں اور ریاستوں کی کمزوری اور داخلی ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہوئی ہے کہ یہ نظام اور اس کے رکھوالے کسی بھی طور عوام کے مفادات کے محافظ نہیں بلکہ ان کے بد ترین دشمن ہیں اور جب تک ان حکمران طبقات اور رائج الوقت نظام کا سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ بربریت سماج کو تاراج کرنا جاری رکھے گی۔