[تحریر: آصف رشید]
سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقے کے پاس زندہ رہنے کا واحد ذریعہ روز گار (اجرتی غلامی) ہوتا ہے۔ محنت کش طبقہ اپنی قوت محنت کو سرمایہ دار کے ہاتھ فروخت کر کے اپنے زندہ رہنے کے وسائل تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ لیکن موجودہ بحران زدہ کیفیت میں یہ نظام اپنے غلاموں کو غلامی کی حالت میں بھی زندہ رکھنے سے قاصر ہو چکا ہے۔ کروڑوں انسان اس وقت کرۂ ارض پر روزگار سے محروم ہیں اور ان بیروزگاروں کی فوج ظفر موج میں روز بروزاضافہ یہ اشارہ کر رہا ہے کے نظام میں اب کسی قسم کی ترقی کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ یہ نظام اب اتنی کثیر تعداد کو پیداواری عمل میں شامل نہیں کر سکتا چنانچہ یہ لاکھوں لوگوں کو مستقل طور پر بیروزگاری کی طرف دھکیل رہا ہے اور اب یہ نظام ماضی کی طرح پیداواری قوتوں کا استعمال بھی نہیں کر سکتا۔ یہ بحران سرمایہ داری کا عمومی بحران نہیں جس میں معیشت کچھ دیر مندی کے بعدپھر سے بحال ہونا شروع ہو جاتی ہے، ایسے بحران کے دوران عمومی بیروزگاری ابھرتی ہے اور بحران ختم ہونے کے بعد غائب ہو جاتا ہے۔ موجودہ بحران ایک نامیاتی بحران ہے اور موجودہ بیروزگاری ایک سٹرکچرل، مستقل اور نامیاتی بیروزگاری ہے جو کسی عروج یا بحالی کے سامنے آنے سے بھی قطعی ختم نہیں ہوتی۔ یہ ایک بھاری پتھر بن جاتی ہے جو کہ پیداواری عمل کو سست کر کہ رکھ دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی علامت ہے جو ظاہر کرتی کہ نظام ایک اندھے راستے پر گامزن ہو چکا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔
نوجوانوں میں بیروزگاری بھیانک وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور ایک پوری نسل برباد ہورہی ہے۔ ILO کی ایک رپوٹ کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں 15 تا 24 سال عمر کے ساڑھے سات کروڑ نوجوان روزگار کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ یہ تعداد ان نوجوانوں کے علاوہ ہے جو کام نہ ملنے کی وجہ سے مایوس ہو کر محنت کی منڈی سے منہ موڑ چکے ہیں۔ اگر اس تعداد کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ 34 ترقی یافتہ اقوام OECD کے ممبر ممالک میں ایک اندازے کے مطابق دو کروڑساٹھ لاکھ نوجوان ایسے ہیں جو کسی بھی طرح کی تعلیم، روزگار یا تکنیک سے یکسر محروم ہیں۔
اسی طرح ترقی پذیر ممالک میں ورلڈ بینک کے سروے کے مطابق ایسے نوجوانوں کی تعداد 26 کروڑ سے زائد ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں 15 تا 24 سال کی عمر کے 29 کروڑ نوجوان ایسے ہیں جن کی لیبر مارکیٹ میں کوئی شرکت نہیں۔ تقریباً پوری دنیا کی کل نوجوان آبادی کے ایک چو تھائی حصے کو (جو کہ امریکہ کی کل آبادی کے حجم کے برابر ہے) دینے کے لیے اس نظام کے پاس کوئی کام موجود نہیں۔ اس سے پہلے کبھی انسانی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان بے روزگار نہیں رہے۔ یہ اس نظام کی بربریت ہے جو نوجوان نسل کے لیے زندگی کے تمام رستے بند کرتی چلی جا رہی ہے۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گاکہ لوگ کام کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ نظام ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے قابل نہیں ہے۔ ان 29 کروڑ بیروزگاروں میں ایک چوتھائی جنوبی ایشیائی خواتین ہیں جو مختلف ثقافتی وجوہات کے باعث کام نہیں کر سکتیں۔ یہ اس نظام کی پسماندگی اور متروکیت کی بہترین عکاسی ہے۔ 24 سال سے کم عمر تقریباً اتنی ہی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو عارضی ملازمت پر ہیں اورجن کے سروں پر ہر وقت ملازمت ختم ہونے کا خوف مسلط رہتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں 20 فیصد نوجوان غیر قانونی معیشت میں انتہائی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ مجموعی طور پر دنیا کی نصف نوجوان آبادی محنت کی منڈی میں اپنی صلاحیت سے کم صلاحیت پر کام کرنے پر مجبور ہے۔ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد میں بیروزگاری انکی صلاحیتوں اور زندگیوں کاضیاع ہے جو معاشرے کی تباہی اور عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ اسی وجہ سے نوجوانوں میں مستقبل کے بارے میں بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
OECD ممالک میں 2008ء کے بحران کے بعد بیروزگاری میں 30 فیصداضافہ ہوا ہے۔ صرف سپین میں اس عرصے کے دوران بیروزگاری میں 40 فیصداضافہ ہوا جہاں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 55 فیصد ہے۔ یونان میں یہ شرح 62 فیصد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2011ء میں یورپ میں نوجوانوں کی بیروزگاری سے معاشی نقصان GDP کے 1.2 فیصدکے برابر تھا۔ نوجوانوں کی ایک پوری نسل کو منافع کی کالی دیوی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ جو یہ سمجھتے تھے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اچھا مستقبل بنا ئیں گے انکو پتا چل رہا ہے کہ یہ راستہ بھی روکا جا رہا ہے۔ اب انہیں قرض لے کر تعلیم حاصل کرنی پڑے گی۔ بیروزگاری کا طاعون بے گھری، اعصاب شکن قرضے اور انتہاؤں کو پہنچی ہوئی سماجی نا برابری نے ایک پوری نسل کو ایسی اتھا بیزاری میں دھکیل دیا ہے جسکا تصور ہی احساس اور روح کو مجروح کر دیتا ہے۔ اس صورتحال نے ایک ایسی مہیب سماجیات پیدا کر دی ہے کہ جو ایک منظم غربت، بے یقینی، خود اذیتی اور مایو سی کے عفریت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
محنت کش طبقہ اپنی پیداوار کا خود ہی صارف بھی ہوتا ہے۔ اس عدم استحکام اور بے یقینی کی صورتحال میں ترقی یافتہ دنیا میں بحران سے نکلنے کے جو طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں وہ ایک طرف تو بے روزگاری میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں تو دوسری طرف بحران کی شدت میں بھی اضافہ کر رہے ہیں کیونکہ جب ٹریکل ڈاؤن معاشی پالیسیوں کے تحت لوگوں کو بیروزگار کیا جاتا ہے تو یہ عمل منڈی میں قوت خرید کے مزید گرنے کا باعث بنتا ہے۔ آج ترقی یافتہ دنیا میں پیداواری صنعت اپنی صلاحیت کے 60 فیصد سے بھی کم پر کام کر رہی ہے اور بحران کے بعد سے اس میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کے سرمایہ داری کے زوال کا عمل تیز تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے نسل انسانی کا مستقبل سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ اس کو ایک سوشلسٹ انقلاب سے تبدیل نہ کر دیا جائے۔
اس عالمی بیروزگاری کے بڑھتے ہوئے سمندر میں جو پوری دنیا کی نوجوان نسل کو نگل رہا ہے اب ذرا ہم پاکستانی سماج میں موجود ہولناک بیروزگاری کا جائزہ لیتے ہیں جہاں بیروزگاری کی خونی دیوی ہر دن سینکڑوں نوجوانوں کے خون سے اپنی پیاس مٹانے کی کوشش کرتی ہے لیکن ہر نیا سورج اس کی پیاس کو بڑھائے چلا جا رہا ہے۔ پاکستانی ریاست غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے اعداد و شمار شائع ہی نہیں کرتی لیکن سماج کے اندر بڑھتے ہوئے جرائم، خودکشیاں، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، دہشت گردی، جسم فروشی، منشیات کا استعمال اور دیگر سماجی مسائل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماج اور ریاست کی اصل صورتحال کیا ہے۔
پاکستان اکانامک واچ (PEW) کے مطابق پاکستان کی کل لیبر فورس(6.36 کروڑ) کا نصف بیروزگارہے جو تقریبا تین کروڑاٹھارہ لاکھ افراد بنتے ہیں۔ 80 فیصد برسرروزگار لوگ اپنے روزگار سے مطمئن نہیں۔ ہر دس میں سے چھ (61.6 فیصد) نوجوان اپنی صلاحیت سے کم پر کام کرنے پر مجبور ہیں، خواتین میں یہ شرح 78.3 فیصد ہے۔ اسٹیٹ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 73 فیصد روزگار بلیک اکانومی سے منسلک ہے۔ اس غیر قانونی کالی معیشت میں بیروزگار نوجوانوں کو خام مال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو بیروزگاری کی نخوست سے تنگ آ کر انتہائی کم اجرت پر کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ کالی معیشت ہے جس کو زندہ رکھنے کے لیے ہر روز درجنوں انسانی جانوں کی بلی دینی پڑتی ہے۔ یہ خونی ریاست اور اسکے گماشتے حکمران اس کھلواڑ میں حصے دار ہیں اور یہ کالا دھن اس معیشت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں پاکستان میں فزیکل اور سوشل انفراسٹریکچربہتر ہونے کی بجائے برباد ہوا ہے۔ اس بربادی نے روزگار کے موجودہ ذرائع کو بھی کم کر دیا ہے اور دوسری طرف سرمایہ داروں کے منافعوں کو پورا کرنے کے لیے نجکاری اور پرائیوٹازیشن جیسی سامراجی پالیسیوں کے ذریعے منافع بخش اداروں کو بیچ کر لاکھوں مزدوروں کو نوکریوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ ہر آنے والا دن اس بربریت کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں ہر سال بارہ سے پندرہ لاکھ نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں جن کو دینے کے لیے اس سماج کے پاس سوائے مایوسی اور نا امیدی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ لاکھوں نوجوان روزگار کی تلاش میں ہر سال عرب خطے یا دنیا کے دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں اور اس چکر میں ٹھگوں کا ایک اور ٹولہ ان کو سنہرے خواب دکھا کر لوٹتا ہے۔ اب تو پاکستان میں بیرون ملک روزگار دینے والے سوداگر ٹریول ایجنٹ اور ٹریڈ ٹسٹ سینٹر مالکان باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ اختیار کرتے جا رہے ہیں جو مجبور اور محکوم نوجوانوں کو خواب دکھا کر لاکھوں روپے بٹور رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کے پاس اور کوئی چارہ بھی تو نہیں لیکن دوسری طرف اس بحران زدہ کیفیت نے تمام ممالک میں بے روزگاروں کی ریزرو فوج میں اضافہ کیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سمیت ہر ملک اسی کیفیت سے گزر رہا ہوتا ہے لہذا تارکین وطن پر سرحدیں بند کی جارہی ہیں جس کے نتیجے میں انسانی سمگلنگ کے کاروبار میں اضافہ ہورہا ہے۔
لینن نے کہا تھا کہ غربت جب انقلاب پیدا نہیں کر سکتی تو یہ جرائم پیدا کرتی ہے۔ دہشت گردی، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان کی صنعتوں میں بے روزگار نوجوانوں کو بطور اوزر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسکے علاوہ سٹریٹ کرائمز میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعدادشامل ہے جن کو اس سماج نے دھتکار دیا ہے۔ بیروزگاری محض نوجوانوں کی صلاحیتوں کو ضائع نہیں کر رہی بلکہ اس نے پورے سماج کو ایک عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ بے چینی اور عدم تحفظ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سماج ایک نہ ختم ہونے والی وحشت بن چکا ہے۔ پاکستان میں 75 فیصد نوجوان ذہنی بیماریو ں میں مبتلا ہیں۔ مستقبل کا خوف ہر وقت انکے سروں پہ منڈلاتا رہتا ہے۔ ہر آنے والا دن انکی بقا کے لیے خطرے کا پیغام لے کر آتا ہے۔ منشیات کے استعمال میں گزشتہ چند برسوں کے دوران 200 فیصد اضافہ ہوا ہیس۔ لاکھوں روپے سے خریدی ہوئی تعلیم بھی انکے مستقبل کو روشن نہیں کر پارہی۔ کسی نسل کے ساتھ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اسکا مستقبل ہی اسکے لیے خوف بن جائے اور وہ ماضی کے اندھیرں، مایوسی، فرسودگی، پسماندگی اور بیگانگی میں پناہ تلاش کرنا شروع کر دے۔
سرمایہ دارانہ دانشور اور معیشت دان اپنے تجزیوں میں بیروزگاری کی وجوہات آبادی میں اضافہ، جہالت اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کی کمی کو قرار دیتے ہیں حالانکہ موجودہ حالات میں بے روزگاری کی سب سے زیادہ شرح کم آبادی والے ترقی یافتہ ممالک میں ہے اور جہاں تک جہالت کا تعلق ہے تو یہ بھی اس نظام کی ناگزیر پیداوار ہے۔ اس نظام میں تعلیم کو ایک کاروبار بنا دیا گیا ہے اور اس کی قیمت اتنی بڑھ چکی ہے کہ لاکھوں لوگ اسے ادا نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف بیروزگاری کی سب سے زیادہ شرح پڑھے لکھے نوجوانوں میں ہے۔ بیروزگاری کی اصل وجہ نجی ملکیت اور منافع پر مبنی یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں آبادی کی ایک بہت بڑی اکثریت کو جان بوجھ کر بیروزگار رکھا جاتا ہے۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ بیرزگاروں کی یہ فوج سرمایہ داروں کے لیے بہت کام کی چیز ہے جس سے ایک طرف برسرروزگار لوگوں کی اجرتوں میں کمی کرنے میں سہولت رہتی ہے تو دوسری طرف اس ریزرو فوج کو طبقاتی جدوجہد کو کاٹنے کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے کیونکہ یہ بھوکے، ننگے بیروزگار ہر اجرت اور ہر حالت میں کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام آج انسانیت کے لیے ایک ناسور بن چکا ہے۔ معاشی بربریت کا یہ ننگا ناچ محنت کش طبقے کے لئے زندگی کے تمام راستے بند کرتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن جب تمام راستے بند ہوتے ہیں تو ایک راستہ کھلتا ہے اور وہ راستہ انقلاب کا راستہ ہے۔ پچھلے عرصے میں پوری دنیا اور بالخصوص عرب اور یورپی ممالک میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں نے اس نظام کے خلاف کئی بغاوتیں برپا کی ہیں۔ عرب انقلاب کے پیچھے جہاں اور بہت سے عوامل کارفرما تھے وہاں ایک بنیادی وجہ بیروزگاری تھی۔ مصر میں 75 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں جس نے انقلابی کیفیت کو جنم دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں طالب علموں کا احتجاج، سپین میں انڈگناڈوس تحریک، یونان میں سکولوں پر قبضے، امریکہ میں آکوپائی مومنٹ، چلی میں طلباء کی سرکشی، برازیل اور ترکی میں مظاہرے، یہ تمام واقعات اس بات کی گواہی ہیں کہ عوام اس نظام کو چیلنج کرنے کی طرف جا رہے ہیں اور انسانیت اپنے مقدر کو بدلنے کے لیے تاریخ کے میدان میں اترنے کی تیاری کر رہی ہے۔ آج کے عہد میں بیروزگاری سے نجات اور انسانیت کی بقا کی جدوجہد دراصل سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد بن چکی ہے!