[تحریر: جاوید نقوی (بھارت میں ڈان کے نمائندے)، ترجمہ: آدم پال]
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
مجاز لکھنوی کی یہ نظم 1930ء کی دہائی میں لکھی گئی تھی لیکن اس میں تحریر سے نصف صدی قبل افغانستان کے ایک واقعے کی گونج سنائی دیتی ہے۔میوند کی ملالئی جولائی 1880ء میں میدان جنگ میں ماری گئی جب اس کی عمر صرف 17سال تھی اور وہ برطانوی اور ہندی افواج کے خلاف دوسری افغان جنگ میں برسرِ پیکار تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ملالئی نے، جسے ملالہ بھی کہا جاتا ہے،اپنے دوپٹے سے عَلم بنایا اور زندگی و موت کی جدوجہد میں اپنے افغان ساتھیوں قیادت کی۔
وہ سب کی محبوب شاعرہ بھی تھی۔ اس کی ولولہ انگیز شاعری جو اس نے معطل شدہ امیر کے بیٹے اور کرشماتی شخصیت کے مالک کمانڈر ایوب خان کے لئے حمایت اکٹھی کرنے کی غرض سے لکھی تھی آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ ہے۔
’’نوجوان محبوب، اگر تم میوند کی جنگ میں شہید نہیں ہوتے
تو خدا قسم، کوئی تمہیں ندامت کی علامت بنانے کیلئے بچا رہا ہے‘‘
اس تاریخی جنگ میں ہندی اور برطانوی مشترکہ افواج کو شکستِ فاش ہوئی۔1857ء کے بعد پہلی دفعہ ان کی صفوں سے ماہر جنگوؤں کا صفایا ہو گیا۔کئی سال تک میوند کی جنگ سینئر کیمبرج میں تاریخ کے نصاب کا لازمی حصہ رہی۔
مجاز جو میوند کی جنگ کی کئی دہائیوں کے بعد یہ لکھ رہا تھا واقعی ملالئی کی شجاعت سے متاثر ہو کر اپنی محبوبہ، اور تمام خواتین سے اپیل کر رہاتھا یا نہیں، اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔لیکن اس نے ہندوستانی خواتین کی ایک پوری نسل کو ضرور متاثر کیا کہ وہ اپنے دوپٹے پھاڑ کر عَلم بنا لیں اور بیرونی قبضے کے خلاف جدوجہد کریں۔ میوند کی جنگ کی پکار افغان خواتین کی کئی نسلوں کو متاثر کرتی رہی۔دو سال قبل ملالہ یوسفزئی کے دیے گئے ایک انٹرویو کے مطابق وہ میوند کی ملالئی سے متاثر تھی اور اس کا نام بھی اسی پر رکھاگیا تھا۔
سوات کی 15 سالہ ہیروئین کو ایک اور ملالہ نے بھی متاثر کیا۔ملالئی جویا کی مرد بربریت کے خلاف جدوجہد آج کی افغان لوک کہانیوں میں کثرت سے موجود ہے۔
2005ء میں پارلیمنٹ میں ایک نشست جیتنے والی ملالئی جویابھی ایک آسان اور پر آسائش زندگی کا انتخاب کر سکتی تھی۔لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی طاقتور آواز کو پارلیمنٹ میں موجود دیگر خواتین دشمن اور رجعتی جنگی سرداروں کے خلاف بلند کرے۔اس کے دشمنوں نے اس پر کمیونسٹ ہونے کا الزام لگایا اور اسے پارلیمنٹ سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔گزشتہ ماہ آسٹریلیا میں ایک عالمی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشہور ملالئی جویا، جو افغان خواتین پر ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہیں،نے اپنے ملک پر نازل ہونے والے عذاب میں عالمی سازشوں کی موجودگی کو نمایاں کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔
اس نے سوان جزیرے کے امن اجتماع کو بتایا کہ ’’جنگ کے کالے بادل ہماری زمین پرچھائے ہوئے ہیں۔امریکہ نے القاعدہ اور اس جیسی دیگر غلیظ ترین بنیاد پرست قوتوں پر انحصار کرتے ہوئے لیبیا، عراق اور افغانستان کو تباہی میں دھکیل دیا ہے اور بنیاد پرستی اور آمریتوں کے خلاف ابھرنے والی مزاحمتوں کی قیادت اپنے بنیاد پرست پٹھوؤں کو سونپتے ہوئے انہیں غلط رستے پر ڈال دیا ہے۔اور اب وہ شام کو تباہ کرنے کے عمل کا آغاز کر چکے ہیں‘‘۔
یوسفزئی قبیلے کی نوجوان فرزند صرف ملالئی جویا کو ہی قابل تقلید نہیں جانتی بلکہ نو عمر لڑکی ملالہ کی نظریاتی تشکیل میں مارکسی بنیادوں کی موجودگی کے ثبوت بھی ہیں جنہیں نظر انداز کیے جانے کا خدشہ موجود ہے۔
ایک تصویر جس میں وہ لینن اور ٹراٹسکی کے پوسٹر کے ساتھ نظر آرہی ہے واضح طور پر اشارہ کرتی ہے کہ وہ سوات کے نظریاتی طور پر سب سے زیادہ تربیت یافتہ مرد و خواتین سے قریبی تعلقات رکھتی ہے۔یہ مارکس وادی عالمی مارکسی رجحان(IMT) کے ممبران ہیں، جو مذہبی بنیاد پرستی اور سامراج کی یکساں مذمت کرتا ہے۔
ہمیں عالمی خبر رساں اداروں کے ساتھ ملالہ کے انٹرویو اور بلاگ کے متعلق تو بتایا جاتا ہے لیکن سوات(اور دوسری جگہوں کے) کے مارکس وادیوں کے ساتھ اس کے تعلق کو نظر انداز کیے جانے کا رجحان نظر آتا ہے۔
IMT کے بیان کے مطابق اس سال جولائی میں سوات میں ہونے والے ان کے نیشنل یوتھ مارکسی سکول میں ملالہ نے شرکت کی تھی۔پاکستان کے تمام صوبوں سے بھی بڑی تعداد میں حاضرین نے اس سکول میں شرکت کی تھی۔ان کی وابستگی انتہائی قابل ستائش ہے۔لیکن یہاں ایک مضحکہ خیز تضاد بھی نظر آتا ہے۔اسلام آباد میں بیٹھے طاقتور ترین سیاستدان، جوسکیورٹی کی کئی تہوں کے باوجود تاک میں بیٹھے قاتلوں سے خوفزدہ نظر آتے ہیں اور اسی دھکم پیل میں پاکستانی سیاست کے آسمان پر ابھرتے ستارے (عمران خان) کی متاثرہ علاقوں کے دورے کی خواہش تاخیر کا شکار ہو چکی ہے۔لیکن یہاں ہمیں لڑکے اورلڑکیوں، مرد و خواتین کا وہ گروہ نظر آتا ہے جن کے پاس سوائے تبدیلی لانے کی غیر متزلزل لگن کے کوئی اسلحہ نہیں اور وہ اس جگہ جا رہے ہیں جہاں طاقتور بھی جانے کی جرات نہیں کرتے۔لیکن سوات جانے پر جو تشہیر کی جاتی ہے وہ یہاں موجود نہیں اور وہ بڑی خاموشی سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔
یہ لوگ مجھے مرحوم کمیونسٹ کارکن ہریدے ناتھ وانچھو کی یاد دلاتے ہیں جو سرینگر میں ان مشکل حالات میں کھڑا رہا جب اس کے دوسرے کشمیری پنڈت ساتھی وادی کو چھوڑ رہے تھے اور اس کے پاس کچھ نہیں تھا سوائے اس جذبے کے جس کے ساتھ وہ ہندووں اور مسلمانوں کے انسانی حقوق کے لئے لڑرہا تھا۔
’’طالبان کے علاقے میں سرخ جھنڈے‘‘کے عنوان سے IMT کی ویب سائیٹ پر عمران کامیانہ کی رپورٹ بہت کچھ بتاتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ سوات مذہبی بنیاد پرستی اور طالبان کے لیے جانا جاتا ہے۔’’بہت سے کامریڈ خود اس مذہبی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ایک کامریڈ کے جسم میں G3کی آٹھ گولیاں اتار دی گئیں۔صرف اس کی قوت ارادی اور ریاست اور طالبان کے مظالم سے نفرت نے اسے زندہ رکھا‘‘۔ایک اور واقعے میں طالبان نے ایک گاؤں میں 14افراد کو قتل کر دیااور ان کی نعشیں درختوں سے لٹکا کر اعلان کیا کہ کوئی ان کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔صرف دو افراد نے جرات کر کے نعشوں کو دفن کیا۔وہ دونوں آج IMTکے سرگرم رکن ہیں۔
واضح طور پر ملالہ کا جنگی منصوبہ ایک مختلف نظریاتی نقطۂ نظر سے حملہ کرنے کا تھا۔اس منصوبے میں غیر انسانی ڈرون حملوں اورمسلح جنونیوں کی کوئی جگہ نہیں۔ ملالہ کے انقلابی جذبات کسی فوجی لشکر کی طرح طاقتور ہیں۔میرے خیال میں ملالہ کی مماثلت امریکی لڑکی راچیل کوری سے ہے جس نے ایک سچے مقصد کے لیے بلڈوزروں سے کچلے جانے کے خوف کو رد کر کے تنِ تنہا اسرائیلی فوج کو دہلا دیاتھا۔میوند کی ہیروئین کا بھی جنگ کے لیے یہی منصوبہ تھا۔
ڈان ڈاٹ کام، 25اکتوبر 2012ء