[تحریر: لال خان]
19 جنوری کو بنوں میں ہونے والے بم دھماکے میں ایف سی کے 22 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ 15 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ 20 جنوری کی صبح راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے قریب آر اے بازار میں بم دھماکے سے تیرہ افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ بچوں سمیت انتیس سے زائد افراد زخمی ہیں۔ تحریک طالبان نے دونوں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ ’’حکومت خلوص ثابت کرے تو مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ ‘‘ اس بیان کا ہر لفظ اس ملک کے حکمرانوں کے منہ پر زور دارطمانچہ ہے۔
مذہبی دہشتگردی کے گھن چکر کی ڈور کسی ایک فرد، ادارے، حکومت یا ایجنسی کے ہاتھ میں نہیں بلکہ یہ ایک بے ہنگم سیاسی معاشیات ہے جو اداروں، افراد اور حکومتوں کی پالیسیوں کا تعین کر رہی ہے۔ افغان جنگ کے اخراجات کو برداشت کرنے کے لیے افغانستان اور پاکستان میں منشیات اور اسلحے پر مبنی جو متوازی معیشت امریکیوں نے یہاں استوار کی تھی اس کا حجم اور اس کے گرد شرحِ منافع میں اضافہ ہی وہ بنیادی محرک ہے جس کی وجہ سے وفاداریوں کی خریدو فرخت کے بے لگام ہونے کی وجہ سے گروہ در گروہ اور پھوٹ در پھوٹ کی کیفیت نے صورتحال کو یکسر بے قابو کر دیا ہے۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ نے افغانستان سے ہاتھ کھینچا تو مختلف نسلوں، قبائلوں اور قومیتوں کے ملغوبے پر مشتمل اس ملک کا خانہ جنگی کا شکار ہو جانا ناگزیر ہو گیا۔ حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے جو بھی طریقہ کار اپنائے گئے انہوں نے انتشار میں مزید اضافہ کیا۔ مختلف سردار وں کی خدمات کی خریدو فروخت جاری رہی مگر صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔ خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے گلبدین حکمت یار کی پشت پناہی کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا رہے تھے تو ’’مقدس قوتوں‘‘ کی معاونت اور مشاورت کے ذریعے طالبان کو منظم اور مربوط نیٹ ورک کے ذریعے 1994 ء میں قندھار میں حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ طالبان کی تشکیل میں پہلے دن سے ہی اسلامی بنیاد پرست نظریات کے ساتھ ساتھ پشتون قومی اور قبائلی پیچیدہ تعلقات کا عمل دخل موجود تھا۔ افغانستان میں مزید پیش قدمی کے لیے پاکستانی مدرسوں سے مسلسل نئے اور تازہ دم طالبان کے دستوں کی رسد کا سلسلہ بھی مسلسل جاری رہا اور بالآخر 1996 ء کے ستمبر میں طالبان دارالحکومت کو مسخر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس پیش رفت سے نہ صرف یہ کہ انڈیا بلکہ ایران کو بھی شدید تشویش لاحق تھی کیونکہ خطے میں سعودی اثرورسوخ سب سے زیادہ ایران کے لیے تشویش کا باعث تھا۔
اس سارے عرصے میں مختلف کمپنیوں کے تیل اور گیس کے معاہدوں کے کمیشنوں کے تنازعات میں طالبان اور امریکہ کے تعلقات مسلسل خراب ہوتے رہے اور پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ کے گھاگ افسران نے گریٹ گیم کو ڈبل گیم میں تبدیل کر کے ایک طرف طالبان کی پشت پناہی جاری رکھی تو دوسری طرف امریکہ کو نت نئے لاروں کے ذریعے وہاں سے مال بٹورنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا۔ 2001ء میں صورتحال امریکی سامراج کی برداشت سے باہر ہوگئی اور افغانستان پر امریکی حملے نے افغانستان میں طاقت کے عارضی توازن کو بگاڑ کر صورتحال کو ایک بار پھر پیچیدہ کر دیا۔ اس نئے تناظر میں پاکستان ریاست کے مختلف دھڑوں کے مابین اختلافات بھی شدید تر ہوگئے اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کے امریکہ دوست اور امریکہ مخالف حصوں کی باہمی چپقلش میں اضافہ ہوگیا جن کے اختلاف کی وجہ کالے دھن کی معیشت پر کنٹرول تھا۔ افغانستان میں تتر بتر ہونے والے طالبان کے مختلف دھڑوں کو، جن میں مختلف قبائلوں اور علاقوں سے تعلق کی بنیاد پر ایک کھچاؤ بھی موجود تھا، ایک مرکزی ڈھانچے کے تحت منظم کرنا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ بہرحال صورتحال کی نزاکت کے پیشِِ نظر ’’اسٹریٹجک گہرائی‘‘ کی حکمت عملی کو ازسر نو منظم کرتے ہوئے ریاست کے ایک مخصوص حصے کی جانب سے تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کی داغ بیل ڈالی گئی۔
’’پاکستانی طالبان‘‘ کوئی یکجا اکائی نہیں ہیں۔ منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کی ’’صنعت‘‘ سے وابستہ مذہبی جنونیوں کے درجنوں گروہ مختلف داخلی اور خارجی قوتوں کی پشت پناہی سے اپنے اپنے مالیاتی مفادات کے پیش نظر متعدد سمتوں میں سرگرم ہیں۔ وفاداریاں بدلتی رہتی ہیں۔ تحریک طالبان کی مرکزی قیادت میں روز اول سے اختلافات موجود ہیں۔ انہی نورا کشتیوں میں بیت اللہ محسود کے بعد نئے طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود سمیت حقانی نیٹ ورک کے کچھ اہم رہنما بھی ہلاک ہوئے۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور یہ خونی تصادم مزید شدت اختیار کرتا رہا۔ نئے کمانڈر فضل اللہ کو دیگر قبائل کے لوگوں اور خاص طور پر محسودوں کی اکثریت نے ابھی تک قبول ہی نہیں کیا کیونکہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان کو محسودوں کی وراثت قرار دیتے ہیں۔ یہ گروپ مالیاتی لڑائیوں کے ساتھ ساتھ مختلف مسالک اور فرقوں کی وجہ سے آپس میں بھی دست و گریبان رہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں طالبان سے مذاکرات کا ناٹک ایک بیہودہ ڈرامے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میڈیا پر جھوٹ کی نہ ختم ہونے والی اس گردان سے اب عوام کے کان پک چکے ہیں۔ وزیروں، مشیروں اور تجزیہ نگاروں کے چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن بیانات اور حل ایک ہی رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی بیچارگی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان کے پاس اب بولنے کے لیے کوئی نیا جھوٹ بھی نہیں ہے جس سے عوام کو دھوکہ دیا جا سکے۔ کالے دھن کی کمائی پر ہونے والی اس خونریزی میں لاشیں گرتی جا رہی ہیں، معصوم اور بے گناہ افراد کے لہو سے دھرتی سرخ ہو گئی ہے لیکن حکمران اپنی پر تعیش زندگی اور جھوٹ بولنے کی عادت میں مگن ہیں۔
اس خونی ڈرامے کا انت نہ تو مذاکرات کے ذریعے ہو سکتا ہے اور نہ ہی ریاستی یکجوئی پیدا کرکے ان کے خلاف کوئی کامیاب آپریشن کیا جا سکتا ہے۔ اگر ریاست اداروں اور دھڑوں میں کوئی ہم آہنگی موجود ہوتی تو حالات اس قدر نازک ہونے ہی نہ پاتے۔ مذاکرات اور آپریشن کے تمام تر دعوے پہلے کی طرح آئندہ بھی کھوکھلے ثابت ہوں گے اور بے رحم اور بے حس حکمران موت کا یہ کھلواڑ اسی طرح دیکھتے رہیں گے۔ اس نئے برس میں بھی یکے بعد دیگرے ’مذاکرات اور آپریشن‘ کے ڈرامے کی مختلف اقساط ریلیز ہوتی رہیں گی۔ انتشار مزید بڑھے گا اور فرقہ واریت میں بھی اضافہ ہوگا۔
حالیہ عرصے میں مذہبی اور فرقہ وارانہ خونریزی میں آنے والی شدت دراصل مذہبی جنونیوں کی قوت میں اضافے کی بجائے ان کی کمزوری کی علامت ہے۔ جماعتِ اسلامی، جمیعت علماءِ اسلام سمیت تمام مذہبی پارٹیاں پہلے سے بہت زیادہ کمزور ہوئی ہیں اور ان کے اندر داخلی تناؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں بھی ان کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پشتونخواہ میں درحقیقت جماعتِ اسلامی نے تحریکِ انصاف کے ساتھ اتحاد کر کے کسی حد تک اپنی سیاسی تنہائی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس اتحاد کے ذریعے تحریکِ انصاف بھی جمہوری خول کے اندر سے اپنے وحشی ملائیت والے چہرے کے ساتھ عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی بطور نظریہ متروک ہوچکی ہے۔ بظاہر مضبوط نظر آنے والے بنیاد پرست آپس میں لڑ لڑ کرنحیف ہوچکے ہیں۔ عوام اس خونی ڈرامے سے بیزار ہیں۔ یہ درست ہے کہ آبادی کی اکثریت میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے لیکن بنیاد پرستی کی سماجی بنیادیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ محض گاؤں سے روزگار کی تلاش میں شہروں میں آئے ہوئے بیروزگار نوجوانوں کا عدم اطمینان، بد عنوان نو دولتیوں کا احساسِ گناہ اور درمیانے طبقے اور لمپن پرولتاریہ کی فرسٹریشن اور جرائم پیشہ افراد کی ہوس کسی حد تک بنیاد پرستی کو سماجی مواد فراہم کر تی ہے۔ جیسے ٹھہرے ہوئے پانی پر کائی جم جاتی ہے اسی طرح فی الوقت پاکستان کے سیاسی طور پر ساکت معاشرے پر قومی اور مذہبی تعصبات کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ محنت کش عوام کی وسیع اکثریت کی طرف سے ہلکی سی بھی سیاسی ہلچل کے نتیجے میں یہ بادل بہت تیزی سے چھٹ جائیں گے اور عوام تمام رجعتی قوتوں کو رد کر کے روٹی، کپڑے، مکان، مہنگائی اور بیروزگاری کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے تاریخ کے میدان میں قدم رکھیں گے۔ وہ دن بے گناہوں کے بہنے والے لہو کے ہر قطرے کا انتقام لینے کا دن ہو گا۔ یہ انتقام صرف اس نظام زر کو اکھاڑ کر ہی لیا جا سکتا ہے۔