سامراجی جارحیت کی غارت گری

[تحریر: لال خان]
جوں جوں افغانستان سے نیٹو فوجوں کے جزوی انخلا کا وقت قریب آرہا ہے، پاکستان میں سول سوسائٹی کے لبرل دانشوروں اور سیکولر سیاستدانوں کی جانب سے امریکی سامراج کے ’’نسبتاً ترقی پسند‘‘ ہونے کا شور شرابا بھی بڑھتا جارہا ہے۔ کرہ ارض کی سب رجعتی اور خونخوار طاقت کو ’’نسبتاً ترقی پسند‘‘ ثابت کرنے کے لئے کئی طرح کی قلابازیاں لگائی جارہی ہیں اور سامراجیت کو مذہبی انتہاپسندوں کے مقابلے میں ’’کم تر برائی‘‘قرار دیا جارہا ہے۔ مذہبی انتہا پسندوں اور طالبان کے جرائم کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں، امریکی سامراج کی بربریت اور خونریزیوں کا جواز فراہم نہیں کرسکتے۔
مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سرمایہ‘‘ کی پہلی جلد میں لکھا تھا کہ ’’زر (پیسہ) اگر دنیا میں اپنے ایک گال پر خون کا دھبہ لے کر آتا ہے تو سرمایہ، سامراجیت کی شکل میں سر سے پیر تک، اپنے ہر ایک مسام سے خون ٹپکاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے۔‘‘ سامراجیت کی پوری تاریخ جارحیت، دوسرے ممالک پر قبضوں اور تسلط، لوٹ مار اور قتل عام سے عبارت ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں منڈیوں، سستے خام مال اور منافعوں کی ہوس کا ہی نتیجہ تھیں جن میں مجموعی طور پر دس کروڑ انسان لقمہ اجل بنے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے سابقہ نوآبادیاتی ممالک پر اپنا معاشی تسلط اور سیاسی اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لئے سامراجی قوتوں نے دونوں عالمی جنگوں سے بھی زیادہ خون بہایا ہے۔
پچھلی صدی کے آخری نصف حصے میں سامراجیوں کو سب سے واضح اور ذلت آمیر شکست ویت نام کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے ہاتھوں ہوئی۔ کارپوریٹ میڈیا اور لبرل دانشور ویت نام میں امریکی سامراج کے ظلم کاجواز تراشنے اور جنگی جرائم کو چھپانے کی کتنی ہی کوشش کریں حقائق کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ چھان بین کرنے والے امریکہ کے مشہور صحافی اور مصنف نک ٹرس اپنی کتاب ’’حرکت کرنے والی ہر چیز کو اڑا دو: ویت نام میں امریکی جنگ کی حقیقت‘‘ میں خفیہ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ویت نام میں عام شہریوں کا قتل عام معمول کی بات تھی۔ ۔ ۔ اس جنگ میں بیس لاکھ عام شہری ہلاک جبکہ 53 لاکھ زخمی اور پاہج ہوئے اور ایک کروڑ دس لاکھ لوگ پناہ گزین بنے۔ ۔ ۔ سب سے بڑھ کر چالیس لاکھ سے زائد انسان امریکی فوجوں کی طرف سے استعمال کئے گئے ’ایجنٹ اورنج‘ جیسے زہریلے کیمیکل سے متاثر ہوئے۔‘‘ ویت نام کی حکومت کے مطابق چار لاکھ لوگ ایجنٹ اورنج کے براہ راست اثرات سے ہلاک ہوئے جبکہ جنگ کے بعد پانچ لاکھ بچے پیدائشی نقائص اور معذوری کے ساتھ پیدا ہوئے۔ ذہنی و جسمانی طور پر معذور بچوں کی پیدائش کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

پہلی تصویر میں امریکی ہیلی کاپٹر ویت نام کے جنگلات پر ایجنٹ اورنج کا چھڑکائو کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ویت نام پر دو کروڑ گیلن ایجنٹ اورنج پھینکا گیا۔ دوسری تصویر ایجنٹ اورنج سے متاثر ہونے والے بچوں کی ہے۔ نیچے کی تصویر ایجنٹ اورنج سے تباہ ہونے والے جنگل کی ہے۔

جرمنی سے تعلق رکھنے والے تاریخ دان برنڈ گرینر Peers Commission اور Vietnam War Crimes Working Group کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’’امریکی فوج کے آپریشن سپیڈی ایکسپریس کے دوران بڑے پیمانے پر عام شہری یا تو حادثاتی طور پر ہلاک ہوئے یا پھر انہیں جان بوجھ کر قتل کیا گیا۔ جنگ کے دوران مرنے والے معصوم انسانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ‘‘امریکی فضائیہ کے کیپٹن برائن ولسن ویت نام پر امریکہ کی فضائی بمباری کے ہونے والے جانی نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’یہ بمباری بربریت کا نچوڑتھی۔ ۔ ۔ ایک دفعہ میں نے فضائی حملے سے ہونے والی ہلاکتوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ ہر فضائی حملے کے اختتام پر اپنی حدود میں آنے والی ہر چیز کو جلا کر خاکستر کردینے والے دو نیپام بم گرائے جاتے تھے۔ ۔ ۔ حملے کے بعد 62 انسانی لاشیں پڑی تھیں۔ میں نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ فضائی حملے میں پندرہ سے پچیس سال تک کی اتنی خواتین، اتنے بچے اور اتنے بوڑھے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والی مائیں مرتے دم تک بچوں کو اپنی آغوش میں لینے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ‘‘ بعد ازاں برائن ولسن نے اپنی رپورٹ کی بنیاد پر مرتب ہونے والا یہ سرکاری بیان پڑھ کر حیران رہ گیا کہ ’’فضائی حملے میں ویت کانگ کے 130 جنگجو ہلاک ہوئے۔‘‘
عراق میں سامراجی حملے سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد ویت نام سے کہیں زیادہ ہے۔ عراق پر امریکہ اور برطانیہ نے 13 سال تک معاشی اور تجارتی پابندیاں عائد کئے رکھیں۔ یہ پابندیاں صدام کے نام نہاد ’’بڑی تباہی کے ہتھیاروں‘‘ سے کہیں زیادہ تباہ کن تھیں۔ اس دوران اقوام متحدہ کے امدادی پروگرام کے دو منتظمین ان پابندیوں کو ’’انسانیت کے خلاف جرم‘‘ قرار دیتے ہوئے مستعفی بھی ہوئے۔ سامراج کی اس تجارتی بندش سے عراق میں خوراک کی 70 فیصد درآمدات بند ہوگئیں۔ ویکسین، جان بچانے والی ادویات حتیٰ کہ میڈیکل سے متعلقہ رسالے تک بھی عراق نہیں پہنچ سکتے تھے۔ انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے مشیر ڈینس ہیلیڈے کے مطابق ’’پابندیوں کے بارے میں امریکی حکومت کا مفروضہ یہ تھا کہ اگر (عراق کے) لوگوں کو نقصان پہنچایا جائے اور خاص طور پر بچوں کو مارا جائے تو عوام رد عمل میں صدام حسین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔‘‘ 1999ء میں شائع ہونے والی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ’’پچھلے آٹھ سالوں میں پانچ لاکھ عراقی بچے امریکی پابندیوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔‘‘ 2003ء میں عراق پر امریکی قبضے کے بعد خون ریزی اور قتل و غارت گری کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سماجی انفراسٹرکچر برباد کر دیا گیا، فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر نفرتوں کے بیج بوئے گئے، فضائی بمباری اور فوجی آپریشن میں بڑے پیمانے پر معصوم بچے، خواتین، بزرگ اور نوجوان ہلاک اور معذور ہوئے اور امریکی فوجیوں نے عراقی خواتین کی عصمت دری کا بازار گرم کیا۔ امریکی سامراج کو ’’نسبتاً ترقی پسند‘‘ قوت قرار دینے والے لبرل خواتین وحضرات کو چاہئے کہ ابو غریب جیل میں ہونے والے مظالم پر بھی ایک نظر دوڑائیں۔ حال ہی میں عراق جنگ کی مزید تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں امریکی فوجی شہریوں کے قتل عام کے بعد ان کی لاشوں کو جلا رہے ہیں۔ چھ لاکھ عراقی براہ راست طور پر سامراجی جارحیت کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ امریکی بموں میں استعمال ہونے والے یورینیم کے اثرات عراق میں کینسر کے بڑھتے ہوئے واقعات کی شکل میں نمودار ہورہے ہیں۔ 2011ء میں امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد بھی ہلاکتوں کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔ پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ 2013ء میں دس ہزار عراق شہری بم دھماکوں اور فرقہ وارانہ تشدد میں ہلاک ہوئے ہیں اور تا حد نظر اس قتل و غارت گری کا کوئی انت نظر نہیں آرہا۔
افغانستان کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ 13 سال سے جاری سامراجی جارحیت کے دوران ہزاروں کلسٹر اور ڈیزی کٹر بم اس بدنصیب ملک پر گرائے گئے ہیں۔ جنگ کا کوئی ایک مقصد بھی پورا نہیں ہوپایا ہے۔ حامد کرزئی کابل میں واقع اپنے بنکر نما صدارتی محل تک محدود ہے۔ طالبان کی کاروائیاں جاری ہیں۔ امریکی کی کٹھ پتلی حکومت کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں ہے۔ لاکھوں افغان شہری سامراج کے پاگل پن کا شکار ہو کر ہلاک اور معذور ہوئے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ تعداد دربدر کی ٹھوکریں کھانے والے پناہ گزینوں کی ہے۔ کینیڈا کے ’’گلوب اینڈ میل‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ’’بڑے پیمانے پر کئے جانے والے نئے سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ افغان شہری طالبان کو نیٹو فوجوں اور ان کی کٹھ پتلی حکومت پر ترجیح دیتے ہیں۔ ۔ ۔ امریکہ اب تک 641.7 ارب ڈالر اس جنگ میں جھونک چکا ہے۔ افغان حکومت کے مطابق 60 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ صاف پانی صرف 27 فیصد شہریوں کو مہیا ہے۔‘‘
معروف جریدے ’’انڈپینڈنٹ‘‘ میں پیٹرک کاک برن لکھتے ہیں کہ ’’میں نے (افغانستان میں) ایک پراپرٹی ڈیلر کا انٹرویو کیا۔ اس نے کھڑکی سے باہر ایک مزدور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے محنت کشوں کی روزانہ اجرت پانچ سے چھ ڈالر ہے جبکہ اس شہر میں ایک اوسط درجے کے گھر کا ماہانہ کرایہ ایک ہزار ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس نے مزید کہا اس صورتحال میں انقلاب ناگزیر ہے۔ الیکشن سراسر دھوکہ دہی ہیں۔ 2014ء کے انتخابات کے لئے دو کروڑ سات لاکھ ووٹر کارڈ تقسیم کئے گئے ہیں جبکہ کل دو کروڑ ستر لاکھ آبادی کا نصف حصہ اٹھارہ سال سے کم ہے۔‘‘
افغانستان اور عراق میں سامراج کی ننگی جارحیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ سامراجی دہشتگردی کے لبرل معذرت خواہان دراصل مذہبی دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ طالبان اور دوسرے مذہبی بنیاد پرست امریکی سامراج کے لئے نہ تو بیگانے ہیں اور نہ ہی ماضی کی طرح ضرورت پڑنے پر سامراج انہیں دوبارہ استعمال کرنے سے ہچکچائے گا۔ آخری تجزئے میں یہ دونوں رجعتی قوتیں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

متعلقہ:
ویڈیو: امریکہ، دوست یا دشمن؟
لبرل ازم اور قدامت پرستی
امریکی ریاست کی تالہ بندی