مہنگائی کا ذمہ دار کون؟

[تحریر: لال خان]
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت میں بڑھتا ہوا افراط زر اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والی مہنگائی عام آدمی کے لئے گزر بسر کو ناممکن بناتی چلی جارہی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ عوام کے قوت خرید بھی مسلسل کم ہورہی ہے۔ افراط زر کی شرح میں اضافے کے سنجیدہ معاشی و سماجی نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ محنت کش عوام کی حقیقی آمدن اور اجرتوں میں کمی واقع ہورہی ہے جبکہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بڑے کاروباری حضرات کی شرح منافع میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان اتنی وسیع خلیج پہلے کبھی موجود نہ تھی اور یہ طبقاتی تفریق شدت اختیار کررہی ہے۔ اس معاشی بربریت کے خلاف عوام میں پائے جانے والے نفرت اور غصے کو باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن حکمران بے حس ہوچکے ہیں۔ حکمرانوں کی بے مہری اذیت ناک ہے۔
تحریک انصاف نے اپنی ہم آہنگ مذہبی بنیاد پرست جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر 22دسمبر کو لاہور میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور حکمرانوں کی ’’اپوزیشن‘‘ میں شامل دوسری سیاسی جماعتیں بھی بالواسطہ یا براہ راست طور پر عمران خان کی حمایت کر رہی ہیں۔ عمومی نقطہ نظر سے یہ ایک مثبت قدم ہے کیونکہ لمبے عرصے بعد عوام کے ایک بنیادی مسئلہ کو کسی بڑی سیاسی جماعت نے اہمیت دی ہے اور اس عمل کو عوام میں کچھ پزیرائی ضرور ملی ہے۔ تاہم مہنگائی کا مسئلہ عملی طور پر حل ہونے کے امکانات مخدوش ہیں۔ تلخ معاشی حقائق کا سامنا براہ راست طور پر اپنی روزمرہ زندگیوں میں کررہے ہیں۔
عمران خان کے اصرار پر نواز شریف حکومت بھلا مہنگائی کیسے کم دے گی؟ اقتدار اگر عمران خان کے پاس ہو تو وہ خود بھی ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ کسی ایک فرد یا حکومت کی ’’گڈ گورنس‘‘ کا مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت اپنی خوشی سے مہنگائی یا معاشی حملے نہیں کرتی ہے۔ حکمرانوں کی کوشش ہوتی ہے جب تک ممکن ہو عوام کو نہ ’’چھیڑا‘‘ جائے اور پر امن طریقے سے استحصال جاری رہے۔ نواز شریف کی حکومت بھی افراط زر کو قابو میں رکھنا چاہتی ہے لیکن سرمائے کا یہ نظام جس کی بنیاد پر ان حکمرانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہے خود اس قابل نہیں ہے کہ محنت کش عوام پر معاشی حملے کئے بغیر قائم رہ سکے۔ پاکستانی معیشت مستقل طور پر خساروں، افراط زر اور انفراسٹرکچر میں عدم سرمایہ کاری کا شکار چلی آرہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت بھی انہی مسائل کا شکار تھی اور اس زوال پزیر نظام کے زیر اثر مستقبل میں آنے والی ہر حکومت اس سے بھی زیادہ جارحانہ معاشی حملے کرے گی۔ اس ملک کی تاریخ میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں کبھی بھی حقیقی کمی ہوئی ہی نہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں اجناس کی پیداوار کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل نہیں بلکہ ذرائع پیداوار کے مالکان کا منافع ہوتا ہے۔ پیداواری عمل میں دو طرح کا ’سرمایہ‘ شامل ہوتا ہے۔ پہلا ’متغیر‘ سرمایہ، جس سے مراد قوت محنت یا آسان الفاظ میں مزدوروں کی مجموعی اجرت ہے۔ دوسرا ’’مستقل‘‘ سرمایہ ہے جس سے مراد مشینیں، عمارت اور ٹیکنالوجی وغیرہیں۔ سرمایہ دار، سرمایہ کاری کا پیسہ عمومی طور پر بینک سے ادھار لیتا ہے جو مجموعی طور پر پورے معاشرے کی ملکیت ہوتا ہے۔ سرمایہ داری کی قوت محرکہ منافع نہیں بلکہ ’’شرح منافع‘‘ ہے۔ اگر کوئی سرمایہ دار اپنی شرح منافع میں مسلسل اضافہ نہیں کر پاتا تو جلد یا بدیر وہ مقابلہ بازی میں ہار کر منڈی سے باہر ہو جائے گا۔ شرح منافع میں مسلسل اضافے کے لئے ضروری ہے کہ سرمایہ دار ’’متغیر سرمائے‘‘ کو کم سے کم رکھے۔ یعنی کم سے کم اجرت پر، کم سے کم محنت کشوں سے، کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرے۔ لیکن سرمایہ داری کا بنیادی تضاد یہ ہے کہ محنت کشوں کی اجرت ہی منڈی میں اپنا اظہار قوت خرید کی شکل میں کرتی ہے اور محنت کش طبقے کی مجموعی اجرت کے ساتھ ساتھ منڈی میں طلب بھی کم ہوتی ہے۔ اجناس پیدا تو ہوتی ہیں لیکن انہیں خریدنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اسی صورتحال کو مارکس ’’زائد پیداوار کا بحران‘‘ کہتا ہے۔ ان حالات میں ریاست نوٹ چھاپ کر یا بینکوں سے ادھار لے کر پیسہ (Liquidity) منڈی میں پھینکتی ہے تاکہ طلب کو بہال کیا جاسکے۔ اس معاشی پالیسی کو کینشئین ازم کہا جاتا ہے لیکن اس کا نتیجہ افراط زر کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، منافعے مزید کم ہوجاتے ہیں اور معاشی بحران بڑھ جاتا ہے۔ کینشئین ازم کا متبادل ’’مانیٹر ازم‘‘ ہے جس میں ریاستی اداروں کی نجکاری کے ذریعے سرمایہ داروں کو شرح منافع میں اضافے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ یہ دراصل 1860ء کے دنوں کی ’’کلاسیکل سرمایہ داری‘‘ پر واپس جانے کی کوشش ہے جو یورپ میں 1970ء میں کینشئین ازم کی ناکامی کے بعد کی گئی تھی۔ 2008ء میں سرمایہ داری کی تاریخ کا سب سے بڑا بحران اسی ’’مانیٹر اسٹ‘‘ ماڈل کا نتیجہ تھا۔
مختصر الفاظ میں محنت کش طبقے کو محروم رکھتے ہوئے اجناس کی قیمت میں اضافہ شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ چنانچہ مہنگائی اس سرمایہ دارنہ نظام کی پیداوار ہے جس کے علمبردار عمران خا ن اور جماعت اسلامی بھی ہیں۔ تحریک انصاف کی معاشی پالیسی کا بنیادی ستون ہی غیر ملکی سرمایہ کاری ہے جو تب ہی ہوتی ہے جب زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول یقینی ہو۔ نواز لیگ اور باقی سیاسی جماعتیں بھی اسی معاشی ڈاکٹرائن پر کاربند ہیں۔ تو پھر مہنگائی کرنے والوں اور مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں فرق کیا ہے؟ یہ صرف سیاسی تماشا ہے جس کا مقصد عوام کو دھوکہ دینا ہے نا کہ انہیں مہنگائی کے عذاب سے چھٹکارہ دلانا۔
جماعت اسلامی کو ادراک ہے کہ وہ کبھی بھی پاکستان میں عوامی بنیادیں حاصل نہیں کر پائے ہیں اور نہ ہی کر سکتے ہیں۔ اسی لئے جماعت ہمیشہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی کرتی رہی ہے یا پھر نواز شریف سمیت اسٹبلیشمنٹ کے حمایت یافتہ دائیں بازو کے رہنماؤں کی’’اتحادی‘‘ رہی ہے اور آج کل تحریک انصاف کے ساتھ نتھی ہے۔ جماعت اسلامی کھلی مذہبی رجعت میں ناکامی کے بعد اب عمران خان کے ’’سول سوسائٹی گلیمر‘‘ سے مستفید ہونا چاہتی ہے۔ عمران خان کچھ زیادہ ہی دریا دل ثابت ہوئے ہیں اور انہوں نے جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کی شکل میں نیا سیاسی آلہ کار فراہم کر دیا ہے۔ خیبر پختونخواہ حکومت کی تمام پالیسیوں پر جماعت اسلامی کی رجعتی چھاپ واضح نظر آتی ہے۔ عمران خان کی جانب سے عبدالقادر ملا کے ’’معصوم‘‘ ہونے کاحالیہ بیان تحریک انصاف کے اصل کردار کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے۔
سرمایہ داری کا بڑھتا ہوا بحران دنیا بھر میں انسانی سماج کو پرانتشار بناتا چلا جارہا ہے۔ انسانی تاریخ میں امارت اور غربت کی تفریق اتنی زیادہ کبھی نہ تھی۔ ’’Credit Suisse‘‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 0.7 فیصد امیر ترین لوگ 98 ہزار ارب ڈالر (کل دنیاوی دولت کا 41 فیصد) پر قابض ہیں اور دنیا کی 68.7 فیصد بالغ آبادی کا کل دولت میں حصہ صرف 3 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار مارکس کی اس پیش گوئی کو ڈیڑھ سو سال بعد بھی سچ ثابت کر رہے ہیں کہ
’’ایک طرف دولت کے ارتکاز کا مطلب دوسری طرف بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کا ارتکاز ہے۔‘‘ (سرمایہ جلد اول، باب 25)
پاکستان میں دولت کا ارتکاز اور اس کے سماجی نتائج کہیں زیادہ خوفناک ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور انفراسٹرکچر کی بدحالی عوام کے لئے عذاب مسلسل بن چکی ہے۔ یہ نظام زندہ رہنے کے بنیادی انسانی حق کے لئے ہی خطرہ بن چکا ہے۔