[تحریر:لال خان]
لاہور میں مال روڈ پر یکم دسمبر کو منعقد ہونے والی ’’دفاع پاکستان کونسل‘‘ کی ریلی میں شریک افراد کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ شرکاء کی اکثریت مدرسوں کے طلبا پر مشتمل تھی۔ نیلے گنبد سے ریگل چوک تک کے گنجان علاقے میں یہ ریلی کافی بڑی نظر آرہی تھی لیکن 36 مذہبی پارٹیوں اور گروپوں کے اتحاد، مدرسوں کے وسیع و عریض نیٹ ورک، کالے دھن کے مالیاتی وسائل، ’’دوست ممالک‘‘ سے آنے والی امداد اور بالواسطہ یا بلاواسطہ ریاستی آشیر آباد کو مدنظر رکھا جائے شرکا کی تعداد بہت کم تھی۔ دفاع پاکستان کونسل اور جے یو آئی (ف) جیسی مذہبی جماعتوں کی سیاسی گرمیوں میں تیزی دراصل مستقبل قریب میں افغانستان میں متوقع تبدیلیوں کی تیاری ہے۔ اس سال جولائی میں امریکی سفیر کا اکورہ خٹک میں قائم ’’دارالعلوم حقانیہ‘‘ کا دورہ اور دفاع پاکستان کونسل کے رہنما مولانا سمیع الحق سے مذاکرات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکی افغانستان سے انخلا کے لئے ملاؤں سے گٹھ جوڑ کرنے کی آپشن کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ تمام تر امریکہ دشمن نعرے بازی کے ساتھ ساتھ ’’ملاقاتوں کے یہ سلسلے‘‘ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ حصول اقتدار، ’’مال‘‘ کی حصہ داری میں اضافے اور مشترکہ مفادات کے پیش نظر کسی بھی مرحلہ پر مصالحت ہوسکتی ہے۔
فرقہ وارانہ انتہا پسندی پر مبنی مولوی سمیع الحق کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے مسلک کی آمریت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ 25مارچ 2013ء کو مولانا نے جو ’’انتخابی منشور‘‘ پیش کیا تھا اس کے مطابق ’’صدر، وزیر اعظم، چیف جسٹس اور مسلح افواج کے سربراہان سمیت ریاست کے تمام اعلیٰ عہدوں پر صرف سنی مسلمان ہی فائز ہو سکیں گے۔ ‘‘ اس منشور میں مخلوط تعلیم کے خاتمے اور تمام بالغ مسلمانوں کو جہاد کی تربیت دینے کا اعادہ بھی کیا گیا تھا۔ طالبان کے بیشتر نمایاں لیڈر مولانا سمیع الحق کی سر پرستی میں چلنے والے دیوبندی مدارس سے فارغ التحصیل ہیں۔ امریکی سامراج، پاکستانی ریاست اور طالبان کے تانے بانے میں مولانا کا کردار ہمیشہ کہیں نہ کہیں موجود رہا ہے۔ افغانستان کے بارے میں انہوں نے حل پیش کیا ہے کہ ’’طالبان کو صرف ایک سال دیں، وہ افغانستان کو خوشیوں کا گہوارہ بنا دیں گے۔ ۔ ۔ ایک بار امریکی چلے گئے تو یہ سب ایک سال میں ہو جائے گا۔ ‘‘طالبان نے اپنے دور حکومت میں افغانستان کے عوام کو جو ’’راحت‘‘ دی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس دور میں شیعوں اور مخالف عقیدے کے عوام کے قتل عام اور خواتین پر تشدد کے واقعات کا سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔
دفاع پاکستان میں بہت سے ’’پابندی یافتہ‘‘ مسلح گروہ بھی مختلف ناموں سے شامل ہے۔ جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید پر امریکہ نے دس لاکھ ڈالر کا انعام رکھا ہوا ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ملکی اور غیر ملکی طور پر مطلوب شخصیات کو بھی پورے ’’پروٹوکول‘‘ کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مذہبی دھڑے کے نمائندے اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی ایسوسی ایشن کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہونے والے جنرل حمید گل بھی دفاع پاکستان کونسل کی قیادت میں شامل ہیں۔ ان کی پوری کوشش اور کاوش ہے کہ بنیاد پرستوں کے اس اتحاد کو مزید وسیع کیا جائے اور فوج کی وسیع تر پرتوں کو اس رجعتی یلغار کا حصہ بنایا جائے۔ لاہور میں خطاب کرتے ہوئے موصوف فرماتے ہیں کہ ’’دفاع پاکستان کونسل پر مذہب کا لیبل لگانا غلط ہے۔ میں ایک سپاہی ہوں جس نے دفاع پاکستان کا اعادہ کیا ہوا ہے۔‘‘ دفاع پاکستان کونسل کے مطالبات اور نعرے گزشتہ کئی دہائیوں کی عمومی مذہبی سیاست سے مختلف نہیں ہیں۔ مثلاً ہندوستان دشمنی، امریکہ مردہ باد، نیٹو سپلائی بند کرو، شریعت کا نفاذ، جہاد کشمیر وغیرہ وغیرہ۔
حکمران طبقات اور ریاست کے کچھ دھڑوں کی جانب سے ایک ’’یکجا مذہبی قوت‘‘ کی تشکیل کی کوششیں لمبے عرصے سے جاری ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 1960ء میں امریکی سامراج نے اسلامی بنیاد پرستی کو مسلمان اکثریتی ممالک میں اپنے سٹریٹجک مفادات کے پیش نظر پروان چڑھایا تھا۔ افغان ڈالر جہاد کے دوران ضیا الحق کی آمریت میں یہ پالیسی شدت اختیار کر گئی۔ طالبان اور امریکی کمپنی یونوکول کے درمیان گیس کی پائپ لائن کے معاملات طے پانے ہی والے تھے 9/11 کا واقعہ ہو گیا اور پہلے سے ترش تعلقات بالکل بگڑ گئے۔ 1977ء میں پی این اے سے لیکر 1988ء میں آئی جے آئی اور 2002ء میں متحدہ مجلس عمل تک، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بوقت ضرورت دائیں بازو کے مختلف اتحاد بناتی اور پروان چڑھاتی رہی ہے۔ لیکن جس امت کی یکجہتی اور اخوت کا اتنا چرچہ کیا جاتا ہے اس کے مختلف مسالک اور فرقوں کے پیشوا ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے اور فتوے بازی میں مصروف ہیں۔ ان اختلافات کی بنیاد بھی وہ کالا دھن اور ’’غیر ملکی امداد‘‘ ہے جس پر یہ بنیاد پرست تنظیمیں چلتی ہیں۔ دوسرے مذاہب اور فرقوں کے خلاف نفرتوں کو ہوا دینا ان مذہبی گروہوں کی مجبوری ہے جس کے پیچھے مالیاتی مفادات کارفرما ہیں۔
اگر دفاع پاکستان کونسل میں دوسرے مذاہب کے نام نہاد گروپ شامل ہیں تو ہندوستان کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی کئی مسلمان گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ سب مفاد پرستی کے مختلف انداز ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں ہندو اور اسلامی بنیاد پرست ایک دوسرے کے بالواسطہ حمایتی ہیں۔ ایک حریف کے بغیر دوسرے کی سیاست ادھوری ہے اور ایک کا جنون دوسرے کی وحشت کو ہوا دیتا ہے۔ پاکستان میں اگر مذہبی بنیاد پرستی ظاہری طور پر سماج پر حاوی ہے تو ہندوستان میں نرندرا مودی کا ابھار سیاست پر حاوی ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ دونوں طرف محنت کش طبقے کی تحریک کا فقدان، سماجی جمود اور معاشی و اقتصادی بحران اس رجعت کو بنیادیں فراہم کررہے ہیں۔ دونوں ممالک کے حکمران طبقات ایک جدید قومی ریاست اور ترقی یافتہ سماج تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں۔
یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ہندو بنیاد پرستی زیادہ رجعتی ہے یا اسلامی بنیاد پرستی۔ بھارتی سرکار کاکشمیری بارڈر پر 198 میل کلو میٹر لمبی دیوار بنانے کا منصوبہ مغربی کنارے کی اسرائیلی دیوار سے مختلف نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس دیوار کی تعمیر میں استعمال ہونے والا سیمنٹ سابقہ فلسطینی وزیر اعظم کی فیکٹری سے حاصل کیا جارہا ہے۔ تقسیم کی یہ دیوار بھارت کے حکمرانوں کی رجعتی سوچ اور تاریخی استرداد کی غمازی کرتی ہے۔ بھارت کے 74بڑے سرمایہ دار اگر بنیاد پرست نرندرا مودی کی حمایت کر رہے ہیں تو پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ بھی اسلامی بنیاد پرستی کو فنانس کر کے اپنے مفادا ت کے لئے استعمال کرتا ہے۔
آزاد منڈی کی معیشت کے گن گانے والی فیشن ایبل سوسائٹی اپنے لبرل ازم کے ذریعے مذہبی بنیاد پرستی کا خاتمہ تو کیا اس کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتی۔ قدامت پرستی کی یہ قوتیں نہ صرف اس نظام کی پیداوار ہیں بلکہ اسے قائم رکھنے کی بنیادی ضرورت بن چکی ہیں۔ سرمایہ داری کو حتمی نظام سمجھنے والے لبرل اور سیکولر دانشور اور سیاستدان مذہبی جنونیت کو بنیاد بنا کر سامراج کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ لیکن سامراج کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ کب وہ ماضی کی طرح اسلامی بنیاد پرستی کو اپنا سب سے اہم اوزار بنا لے۔ شام کی خانہ جنگی میں مذہبی جنونیوں کی حمایت، ایرانی ملاؤں سے امریکہ کی حالیہ ڈیل اور سعودی حکمرانوں سے سامراج کے پرانے یارانے ہمارے سامنے ہیں۔ سرمایہ کی اس سیاست اور سفارت میں نظریہ ’’ڈسپوزایبل‘‘ ہوتا ہے۔ سامراجی اپنے مالیاتی اور سٹریٹجک مفادات کے لئے بڑے سے بڑے ظلم اور خون ریزی سے بھی گزیر نہیں کرتے۔ تاریخ شاہد ہے۔ مغربی لبرل ازم کے ثنا خواں سول سوسائٹی کے خواتین و حضرات یا تو اصل کھیل کو ہی نہیں سمجھتے یا پھر سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے مال بنانے میں مصروف ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی کا گڑھ سمجھے جانے والے اس ملک میں عوام نے مذہبی پارٹیوں کو کبھی 5 فیصد سے زائد ووٹ نہیں دئیے ہیں۔ محنت کشوں کی روایتی قیادت نے غداریاں کی ہیں، معاشی حملوں نے محنت کش عوام کو گھائل کر رکھا ہے لیکن وہ مرے نہیں ہیں۔ اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ عوامی تحریکوں کے سیلاب رجعت اور مذہبی تعصبات کو تنکوں کی طرح بہا لے جاتے ہیں۔ جس نسل نے 1989-69ء کی انقلابی تحریک اور 1970ء کے انتخابات دیکھے ہیں وہ اس حقیقت کی گواہی دے سکتی ہے۔