نجکاری کی بربریت

[تحریر: کامریڈفضل قادر]
پاکستان تاریخ کے سنگین معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کا شکار ہے۔ ہر معاشی بحران، سماجی بحران کو جنم دیتاہے اور سماجی بحران جدلیاتی طور پر معاشی بحران کو گہرا کرتا چلا جاتا ہے۔ اس ستم ظریفی میں مستقبل تاریک اور ماضی کے تلخ عہد بھی سہانے لگتے ہیں۔ آنے والے کل سے گزرا ہوا کل بہتر محسوس ہوتا ہے۔ یہ بحران اچانک رونما نہیں ہوا۔ پاکستان کا بڑھتا ہوا معاشی بحران اس خطے کے نااہل حکمران طبقات کی نااہلی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ ہمارے تقریباًتمام پیداواری سر چشمے سرمایہ داری کی معیشت نے سوکھ کر خشک کر دئیے ہیں۔ یہاں کے حکمران طبقات پیداواری اور صنعتی اداروں کو ترقی تو کیا دیتے الٹا یہ ادارے وہ معیار بھی کھو چکے ہیں جو برطانوی سامراج سے ورثے میں ملا تھا۔ تقسیم کے بعد اس خطے میں جب مقامی سرمایہ دار طبقہ نے آزادانہ جنم لیا تو اس وقت سرمایہ دارای یا منڈی کا نظام معیشت قومی حدود سے باہر نکل کر عالمی حیثیت اور کردار اپنا چکا تھا۔ یہاں کے حکمران طبقات (سرمایہ دار، جاگیردار) عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی سکت سے محروم اور مالیاتی و تکنیکی اعتبار سے خصی تھے۔ وقت اور تاریخ نے سرمایہ داری کے استحصال کو جاری رکھنے کے لئے پاکستانی ریاست اور حکمرانوں کے سامنے ایک ہی راستہ متعین کیا تھا اوروہ راستہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی سامراجی اداروں کی اطاعت کا تھا۔ یہاں کے حکمران طبقات نے روز اول سے ہی عالمی استحصالی اورانسان دشمن مالیاتی اداروں کے امدادی قرضوں کا فیڈر منہ سے لگا یااور یہ بھوک آج تک بھی نہیں مٹ سکی ہے۔
آج اس سامراجی امداد اور اس کے ساتھ آنے والی معاشی بدحالی کا انجام یہ ہے کہ سٹیل مل، واپڈا، پی آئی اے اور ریلوے جیسے عظیم صنعتی ادارے بستر مرگ پر اپنی بے وقت موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسٹیل مل جو پاکستان کی صنعت کو بام عروج پر پہنچاسکتی تھی، آج خسارے کی دلدل میں ڈوب چُکی ہے۔ واپڈا جو اس ملک کے ہر شہر اور دیہات کو منور کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک بھی بجلی بیچ کر زر مبادلہ کا ذریعہ بن سکتا تھا، آج اس سرزمین کو روشن کرنے سے بھی قاصر ہے۔
پاکستان ریلوے 1975ء تک منافع بخش ادارہ تھا۔ آج اس ادارے کے 936 ریلوے اسٹیشنز میں 500 سے زیادہ کھنڈرات میں بدل چکے ہیں۔ ریلوے ہی نہیں، ریاست کے تمام ادارے چارہ گروں کی چارہ گری اور مسیحائی کے منتظر ہیں مگر کیا کیاجائے کہ چارہ گروں کے پاس ایسا کوئی مر ہم، کوئی دوا نہیں ہے جس سے یہ ادارے صحت یاب ہوسکیں۔ آج سے 53 برس قبل 1960ء میں عوامی جمہوریہ چین کے رہنماچواین الائی نے پاکستان کا دورہ کیاتھا۔ اس دورے کے دوران جب انہوں نے ریلوے ورکشاپ مغل پورہ لاہور کو جب دیکھاتو بے ساختہ کہہ اٹھے کہ ’’ایک دن آئے گا جب چین بھی ایسی ترقی کرے گا۔‘‘ سرزمین لاہور پر چواین لائی کے عزم بھرے جملے کو چین کی منصوبہ بند معیشت کے نظام نے دنیا کے سامنے ایک حقیقت کی شکل میں پیش کر دیا اور پاکستان آج اُسی چین سے ریلوے کے انجن اورکوچز وغیرہ خرید رہا ہے۔
آج اسٹیل مل، پی آئی اے، واپڈا، جی پی او، ریلوے، سوئی گیس اور دیگر صنعتی اداروں کو بحال کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کرپٹ بیوروکریسی کو فارغ کیا جائے اور ان اداروں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔ ماضی میں سرکاری اداروں کو دانستہ طور پر برباد کیا گیا ہے اور سیاستدانوں نے بیوروکریسی کی مدد سے اربوں روپوں کی کرپشن کی۔ آج ان اداروں کی ناکامی اور خسارے کو جواز بنا کر آئی ایم ایف کے حکم پر نجکاری کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ماضی میں جن اداروں کی نجکاری کی گئی ہے، ان کا حشر ہم سب کے سامنے ہیں۔ پی ٹی سی ایل اس کی واضح مثال ہے جو نجکاری کے بعد برباد ہوچکا ہے اور ہزاروں ملازمین کو بے دخل کر کے بیروزگاری کی اذیت سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ مزید نجکاری سے مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا، قوت خرید گرے گی اور معاشی بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومتی آمدن کے ذرائع مزید محدود ہو جائیں گے اور سامراجی قرضوں پر انحصار بڑھ جائے گا، نتیجتاً قرضوں پر سود اور شرائط مزید تلخ ہوجائیں گے جس کا تمام تر بوجھ دوبارہ پھر عوام پر ڈالا جائے گا۔
یہ ادارے آج بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر سفید ہاتھی کی بجائے سونے کا انڈہ دینے والے مرغی ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن اہل جہاں جس کو عقل ودانش کہتے ہیں ہمارے حکمران اس سے یکسر محروم ہیں۔ حرص و لالچ نے انہیں اندھا، بہرا اور بے حس کر دیا ہے۔ پاکستانی ریاست سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کے ساتھ اس حد تک گل سڑ چکی ہے کہ ان اداروں کو کبھی بحال نہیں کر سکتی۔ ’’معیشت کی بحالی‘‘ کا جو جو حل موجودہ حکومت تجویز کررہی ہے وہ مکمل معاشی تباہی اور سماجی بدحالی کا نسخہ ہے۔ ان عوام دشمن معاشی پالیسیوں کے نتائج حکمرانوں کی توقعات کے برعکس آئینگے۔ یہ جو قدم بھی اٹھائینگے وہ غلط ہوگا کیونکہ وقت اورتاریخ نے سرمایہ دارانہ نظام کے حکمرانوں سے کوئی منطقی قدم اٹھانے کا جواز ہی چھین لیا ہے۔ غلط نظام پر جو بھی حکمرانی کرے گا وہ غلط ہی کرے گا۔
ایک اچھے سے اچھا کاریگر بھی برے لوہے سے عمدہ تلوار نہیں بنا سکتا۔ انسان کو درجوں اور طبقوں میں تقسیم کرنے والا سرمایہ داری نظام کرہ ارض کے ہر خطے، ہر ملک میں رسوا اور مسترد ہورہا ہے۔ اس نظام معیشت کے تھنک ٹینک، ماہرین، دانشور اور معیشت دان آج خود مستقبل میں بہتری کی کسی امید سے مایوس ہوچکے ہیں۔ یہ حکمران اور ان کے پالیسی ساز سب کچھ کرسکتے ہیں مگر قدرت اور فطرت کے قوانین کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ سماجی جدلیات کا قانون کہتا ہے کہ ہر شے اپنے الٹ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ نظام زر اپنی زندگی پوری کرچکاہے اور سماج کو ترقی دینے سے یکسر قاصر ہے۔ مسئلہ کسی ایک یا دوسری حکومت کا نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کا ہے۔ یہ نظام اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں بڑے سے بڑے معیشت دان بھی کسی بہتری یا سماجی آسودگی کی پالیسیاں وضع کرنے سے قاصر ہیں۔ بربریت پاکستانی سماج کے سامنے پھن پھیلائے کھڑی ہے۔ نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اس نظام کی تعفن زدہ لاش سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے دفن کر کے نجی ملکیت اور منافع کی ہوس سے پاک ایک نئے سماج کی تعمیر کا عمل شروع کیا جائے۔