گھر کے برتنوں کی نیلامی

[تحریر: لال خان]
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں ریاستی اداروں کی نجکاری کے سب سے بڑے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ 68 ریاستی اداروں کو نیو لبرل سرمایہ داری کی چھری سے زبح کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا کی طرف سے پھیلائی جانے والی ’’رائے عامہ‘‘ کے برعکس نجکاری کی فہرست میں شامل زیادہ تر ریاستی ادارے خسارے کا شکار نہیں ہیں۔ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ (OGDCL)، بڑے بینک، آئل ریفائنریاں اور ایسے کئی دوسرے ادارے انتہائی منافع بخش ہیں اور پچھلی کئی دہائیوں سے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ریاستی آمدن کا اہم ذریعہ رہے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو’’خسارے‘‘ کو کم کرنے کے لئے نجکاری کا حکومتی دعویٰ سراسر جھوٹ ثابت ہوجاتا ہے۔ یہ نجکاری موجودہ حکومت کی سرپرستی کرنے والے ان سرمایہ دار گدھوں کی بھوک مٹانے کے لئے کی جارہی ہے جو لمبے عرصے سے ریاستی اداروں پر منڈلارہے ہیں اور پاکستانی عوام کے خون پسینے سے تعمیر ہونے والے منافع بخش اثاثوں کی بوٹیاں نوچنے کے لئے بے تاب ہیں۔
موجودہ حکومت کا زیادہ تر حصہ سرمایہ داروں پر مشتمل ہے جن کے لئے نجکاری کی پالیسی انتہائی فائدہ مند اور منافع بخش ثابت ہوگی۔ نجکاری کی فہرست میں بینکنگ اور فنانس کا شعبہ، آئل گیس اور توانائی کا شعبہ، کھاد بنانے کی فیکٹریاں، انجینئرنگ سے وابستہ ادارے، معدنیات اور قدرتی وسائل کے شعبہ، سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA)، کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT)، پورٹ قاسم اتھارٹی (PQA)، نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA)، ریلوے اور اس سے وابستہ تمام تر فیکٹریاں اور ورک شاپس، ریپبلک موٹرز اور گاڑیاں بنانے کے دوسرے ریاستی ادارے، سیر و سیاحت کے ادارے، ٹیلیفون انڈسٹریز آف پاکستان، پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان، نیشنل بُک فاؤنڈیشن، پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PIDC)، یوٹیلٹی سٹورزکاپوریشن اور شالیمار ریکارڈنگ کمپنی جیسے ادارے شامل ہیں۔ حتیٰ کہ کنونشن سنٹر اسلام آباد کی بھی بولی لگائی جائے گی۔ ریاست کے پاس صرف فوج، پولیس، جیل خانے اور کچھ دوسرے شعبے بچیں گے۔ یہ محنت کشوں کے معاشی قتل عام کا کھلا منصوبہ ہے۔
عالمی سطح پر سرمایہ داری کے گہرے بحران کے پیش نظر دنیا میں کہیں بھی بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے۔ سرمائے کا بہاؤکم ہوگیا ہے، بنک قرضے دینے سے ہچکچا رہے ہیں اور 2008ء کے بعد سے نام نہاد ’’ابھرتی ہوئی معیشتیں‘‘ گہری کھائی کی طرف گامزن ہیں۔ کون احمق ہے جو توانائی کے بحران، پیداواری لاگت میں اضافے، تباہ حال انفراسٹرکچر اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں یہاں سرمایہ کاری کرے گا؟چنانچہ نجکاری میں نقلی شناختوں، جھوٹے ناموں اور جعلی فرموں کا استعمال کر کے ادارے بیچنے والا حکمران ٹولہ بولی لگا کر خود ہی انہیں خرید بھی لے گا۔ شروع سے آخر تک یہ تمام تر عمل ایک ڈھونگ اور ناٹک ہوگا۔ ایک ایسے سماج میں ’’منصفانہ‘‘ اور ’’شفاف‘‘ جیسے الفاظ کوئی حیثیت نہیں رکھتے جہاں ریاست بذات خود اوپر سے نیچے تک کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہے۔
1980ء کی دہائی میں برطانوی وزیر اعظم مارگرٹ تھیچر کی جارحانہ نجکاری نے دائیں بازو کے کئی تجربہ کار اور سینئر سیاستدانوں کو بھی ششدر کر دیا تھا۔ 1957ء سے 1963ء تک برطانیہ کے وزیر اعظم رہنے والے کنزرویٹو پارٹی کے سیاستدان ہیرلڈ میکملن نے اس نجکاری کو ’’گھر کے برتنوں کی فروخت‘‘ قرار دیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے 1970ء کی دہائی کے وسط تک یورپ میں ہونے والی تیز ترین ترقی اور معاشی نمو دراصل معیشت میں بڑے پیمانے کی ریاستی مداخلت کا نتیجہ تھی۔ جنگ کے بعد شروع ہونے والا یہ ’’سرمایہ داری کا سنہری دور‘‘ دراصل ریاستی سرمایہ داری اور کینشین ازم کی اصلاحات کا نتیجہ تھا جن کے ذریعے زائد پیداوار کے بحران کو وقتی طور پر ٹالا گیا۔ جنوبی کوریا اور جاپان جیسی بڑی ایشیائی معیشتیں بھی ریاستی منصوبہ بندی کے ذریعے تعمیر کی گئی تھیں۔ جنوب ایشیائی ممالک میں بھی یہی ماڈل اپنایاگیا۔ نام نہاد ’’نہرووین سوشلزم‘‘ کے تحت بھارت کی 74فیصد معیشت کو قومی تحویل میں لیا گیا۔ پاکستان میں 1960ء کی دہائی میں ہونے والی معاشی ترقی بھی معیشت میں ریاست کی مداخلت اور انفراسٹرکچر کے بڑے ریاستی منصوبوں کا نتیجہ تھی۔ تاہم بھارت اور پاکستان جیسے ممالک میں اس عہد کی بلند شرح نمو عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے میں ناکام رہی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں صحت، تعلیم اور دوسرے شعبوں میں کی جانے والی اصلاحات بڑے پیمانے کی نیشلائزیشن کا نتیجہ تھیں، تاہم پاکستان جیسے تیسری دنیاکے ممالک کی مفلوج اور بوسیدہ سرمایہ داری میں اصلاحات کی گنجائش موجود نہ تھی۔ 1970ء کے دہائی کے اواخر میں ریاستی سرمایہ داری اور کینشین ازم کا ماڈل ترقی یافتہ یورپی ممالک میں بھی ناکام ہونا شروع ہو گیاجس کے بعد ریگنامکس اور تھیچر ازم کی شکل میں پرانی طرز کے مانیٹرسٹ اور ٹریکل ڈاؤن معاشی ماڈل کے نفاذ کا عمل شروع ہوا۔ آزاد منڈی کی انہی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ 2008ء میں عالمی سطح پر معاشی تباہی کی صورت میں برآمد ہوا۔ کمزور سرمایہ داری اور ’غیر ہموار و مشترک ترقی‘کا طرز ارتقاء رکھنے والے پاکستان جیسے معاشروں میں آزاد منڈی کی نیو لبرل معاشی پالیسیوں سے غربت کی چکی میں پسنے والے کروڑوں لوگوں کی محرومیوں اور مفلسی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم، صحت، رہائش اور دوسری ضروریات زندگی تک ہر شہری کی رسائی کوئی رعایت نہیں بلکہ بنیادی انسانی حق ہے لیکن بالخصوص 1980ء کے بعد سے ان شعبوں میں نجی سرمائے کا کردار بہت بڑھ گیا ہے کیونکہ ریاست یہ سہولیات فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے۔ نجی شعبے کی مہنگی خدمات خریدنے کی صلاحیت نہ رکھنے والی عوام کی اکثریت بنیادی سہولیات سے بالکل محروم ہے۔
نجکاری کے نئے حملوں سے مہنگائی اور بیروزگاری کے مسائل شدت اختیار کر جائیں گے، امیر اور غریب کے درمیان خلیج مزیدگہری ہو گی اور عوام کی معاشی و سماجی بدحالی میں اضافہ ہوگا۔ یہ درست ہے کہ کچھ ریاستی اداروں میں کرپشن اور بدانتظامی بہت بڑھ چکی ہے لیکن بحران زدہ سرمایہ داری اور مالیاتی سرمائے کی آمریت کے پیش نظر یہ ناگزیر ہے۔ جس ملک میں کالی معیشت کا حجم سرکاری معیشت سے تین گنا ہو جائے وہاں کرپشن، بدعنوانی اور دھوکہ بازی سماجی و اخلاقی اقدار بن جاتی ہیں۔ دوسری طرف مزدور تحریک عارضی پسپائی کا شکار ہے اور ٹریڈ یونین قیادت کی اکثریت سرمایہ داروں کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہے۔ عوام کی سیاسی روایت پیپلز پارٹی کی قیادت 1980ء کے اوائل سے ہی سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست سے مصالحت کر کے پارٹی کے سوشلسٹ پروگرام سے منحرف ہو گئی تھی۔ ’’پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘‘ والی پی پی پی حکومت نے عوام کو مہنگائی اور غربت کے سوا کچھ نہیں دیا لیکن سرمایہ داروں کی موجودہ حکومت ہر حد پار کرکے پورا ملک ہی بیچ دینا چاہتی ہے۔ یہ حکمران سمجھتے ہیں کہ طبقاتی جدوجہد ختم ہو گئی ہے اور انہوں نے محنت کش طبقے کو ہمیشہ کے لئے مغلوب کر لیا ہے۔ یہ ان کی بھول ہے۔ عوام کی برداشت آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ محنت کش عوام کب تک یہ استحصال، یہ ذلت برداشت کر سکتے ہیں؟
کینشین ازم اور مانیٹرازم، سرمایہ داری کو چلانے کے دو مختلف طریقے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے نیشلائزیشن جیسے ادھورے اقدامات عوام کے معاشی مسائل کا کوئی مستقل حل پیش نہیں کرتے۔ مارکسسٹ نیشلائزیشن جیسے ہر اس اقدام کی مشروط حمایت کرتے ہیں جو محنت کشوں کی زندگی کو سہل بنائے لیکن ساتھ ہی ساتھ اصلاح پسندی کے اس مغالطے پر بے رحم تنقید کرنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں جس کے مطابق بتدریج اصلاحات کے ذریعے سرمایہ داری کو ’’ٹھیک‘‘ کیا جاسکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کی گنجائش بہت پہلے سے ختم ہوچکی ہے۔ یورپ سمیت پوری دنیا میں وہ اصلاحات بھی واپس چھینی جارہی ہیں جو محنت کش طبقے نے لمبی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی تھیں۔ انسانیت کے لئے آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ لالچ اور ہوس پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر اکھاڑ کر سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت تعمیر کی جائے جس میں پیداوار کا مقصد منافع اور شرح منافع کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل ہو۔

متعلقہ:
باکمال حکمران۔۔۔لاجواب نجکاری!
لاہور: واسا کی نجکاری، 1500 ملازمین جبری برطرف، بلوں میں 3 گنا اضافہ
نواز لیگ حکومت کی جانب سے نجکاری کا پہلا وار
قرض خور حکمران، بدحال عوام
نجکاری۔۔۔ایک جرم!