[تحریر: لال خان]
کئی ہفتوں بلکہ مہینوں کی قیاس آرائیوں، خبروں، بیانات اور افواہوں کے بعدآخر کار نیویارک میں ہندوستانی اور پاکستانی وزرائے اعظم کی مختصر ملاقات ہوئی ہے۔ میڈیاپر ایک شور برپا ہے، سطحی تجزئے کئے جارہے ہیں اور دانشور حضرات پرفریب امیدیں وابستہ کررہے ہیں۔ ملاقات کے بعد جاری کیا جانے والا اعلامیہ مضحکہ خیز ہے کہ ’’ہماری کاوش کامحور بات چیت کے ایک وسیع عمل کی جانب بڑھنا ہے۔ لیکن ابھی تک وہ مرحلہ نہیں آسکا۔‘‘ اگر 66 سال بعد بھی وسیع مذاکرات کا مرحلہ نہیں آسکا تو پھرکب آئے گا؟
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں۔ محنت کش عوام کے لہو، پسینے اور آنسو کونچوڑ کر جنگی اسلحہ اور وسیع بربادی کے آلات پر خرچ کی جانے والی رقم کے لحاظ سے بھارت اور پاکستان دنیا کے تقریباً 200 ممالک میں سے چوتھے اور پانچویں نمبر آتے ہیں۔ دوسری طرف تعلیم، علاج اور معیار زندگی کے دوسرے اعشاریوں کی فہرست میں دونوں ممالک آخری نمبروں پر آتے ہیں۔ افریقہ سے زیادہ غربت جنوب ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ منموہن سنگھ اورنواز شریف اس مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے میں جتنے نحیف اور لاغر ہیں، دونوں ممالک میں مذہبی بنیاد پرستی، دشمنی اور حقارتوں کو قومی اور مذہبی شاونزم کے زہر سے شدید تر کرنے والے رجعتی عناصر ایک جنگی جنون کا ماحول قائم کررکھنے کے لیے اتنی ہی رعونت اور وحشت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات کے دوران نواز شریف کے کسی جارہانہ بیان پر ہندوستان میں بی جے پی کے وزارتِ اعظمیٰ کے امیدوار نریندرا مودی (جس کا حقیقی تعلق اور حمایت مذہبی جنونی تنظیم راشٹریہ سیوک سوائم سنگھ سے ہے) نے دہلی کے صوبائی انتخابات کی مہم میں اپنے پہلے جلسے عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’اس کی جرات کیسے ہوئی؟ ہم ہندوستان کے خلاف کوئی بیان بھی برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ دوسری جانب پاکستان میں مذہبی شاونزم کی روایتی پارٹی جماعتی اسلامی کے امیر سید منور حسن نے اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر’’منصورہ‘‘ میں پارٹی کے عہدہ داروں سے اسی روز خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’دوستی کی ہر کوشش میں تکبر، رعونت اور نفرت کا ہی جواب ہندوستان سے ملے گا۔ ۔ ۔ ہندوستان کو پسندیدہ ترین تجارتی قوم (MFN) کا رتبہ دینا شرم کا مقام ہے۔ ‘‘
دشمنی اور جنگی جنون کو ان معاشروں پر مسلسل مسلط رکھنے کے پیچھے پاکستان اور بھارت کی ریاستی بیوروکریسی، فوجی اشرافیہ اور سیاستدانوں کے وہ دھڑے کارفرما ہیں جن کے داخلی، خارجی اور مالی مفادات اسلحہ سازی کی صنعت اور بنیاد پرستی کی سیاست سے وابستہ ہیں۔ سامراجی اسلحہ ساز فوجی صنعت (Military Industrial Comlex) ان ممالک کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کر کے ہوشربا منافعے کماتی ہے۔ اس وقت دنیا کی سب سے منافع بخش صنعت اسلحہ سازی کی ہے۔ پاکستان میں اسلحے کے کاروبار سے تاجروں اور سرمایہ داروں کے علاوہ عسکری اور سویلین بیوروکریسی کے حصے شامل ہیں جو برسراقتدار سیاست دانوں سے مل کر کمیشنوں، کک بیکس اور دوسرے ہتھکنڈوں سے بے تحاشا مال بناتے ہیں۔ اس لیے امن قائم ہونے میں ان کا نقصان ہی نقصان ہے۔ سامراجیوں نے20 ویں صدی کے آغاز سے ہی مشرقِ وسطیٰ سے لے کر برصغیر ہند میں جو بٹوارے کروائے تھے ان کا مقصد براہِ راست نوآبادیاتی راج کے خاتمے کے بعد بھی مطیع خطوں پر معاشی اور اقتصادی کنٹرول قائم رکھنا تھا۔ انگریز سامراج نے مسئلہ کشمیر اور دوسرے ایسے ایشوز کو برصغیر کی تقسیم میں جان بوجھ کر مبہم اورمتنازعہ چھوڑا تھاتاکہ ان کے جانے کے بعد بھی یہ مسئلے خطے میں مسلسل تناؤ، عدمِ استحکام اور نفرتوں کو قائم رکھیں اور ’’تقسیم کے ذریعے حاکمیت‘‘ کا فارمولا چلتا رہے۔ 200 سال کی براہِ راست حکمرانی کے دوران کئے جانے والے برصغیر کے نوآبادیاتی استحصال سے کئی گنا زیادہ مال نام نہاد آزادی کے چھیاسٹھ برسوں میں لوٹا گیاہے۔ لیکن سامراج جہاں اپنی اجارہ داریوں کی اس خطے میں موجود سرمایہ کاری کو کسی قسم کے نقصان سے بچانے کیلئے دونوں ممالک کو کسی بڑی جنگ سے روکتاہیں وہاں وہ تناؤ اور کشیدگی کو بھی ایک مخصوص پیمانے سے کم نہیں ہونے دیتا تاکہ اسلحے کا کاروبار جاری رہ سکے اور دونوں ممالک کے استحصال زدہ عوام کے درمیان فاصلے کم نہ ہونے پائیں۔ چنانچہ 1997ء سے لیکر اب تک جنگی حالات اور امن کے امکانات کی کیفیات باری باری مسلط کی جاتی رہی ہیں۔
دوسری جانب سیمنٹ، کپڑے، زرعی اجناس اور سروسز وغیرہ کے کاروبار سے وابستہ حکمران طبقات کے کچھ حصے ایسے ہیں جن کے لئے ’’امن‘‘ سے مراد محض ان کی تجارت میں آسانی اور منڈیوں میں اضافہ ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے مذاکرات، امن اور دوستی کے ناٹک میں ہم یہ سنتے آرہے ہیں کہ تجارت میں اضافے سے ہی امن ہوسکتا ہے۔ اس خطے کے ڈیڑھ ارب غریب لوگ میں تجارت اور کاروبار کرنے سے محروم ہیں لیکن ان محنت کش عوام کے لیے کسی امن اور دوستی کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ ہندوستان یا پاکستان کے عام آدمی کے لئے ویزے کا حصول تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے تاہم حکمران اور ریاستی اشرافیہ کے افراد برے سے برے حالات اور تناؤ کی بدترین کیفیتوں میں بھی آسانی سے ’’دشمن ملک‘‘ کے ویزے حاصل کرلیتے ہیں۔ یورپین یونین کی طرز پر سارک ممالک کو ایک معاشی اکائی بنا دینے کا خواب موجودہ نظام میں محض خواب ہی رہے گا۔ آج سرمایہ داری کا بحران اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ خود یورپی یونین کا وجود خطرے میں ہے۔
سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران اور اس خطے میں مختلف سامراجی قوتوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے پیش نظر آنے والے سالوں میں ایک بڑی جنگ اور یہاں تک کہ ایٹمی تصادم کو مکمل طور پر ردِازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم ہندوستان اور پاکستان کے حکمران خود بھی جنگ کی تباہ کاریوں سے مکمل طور پر بچ نہیں سکیں گے چنانچہ وہ اس سے اجتناب کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس نظام سے ان حکمرانوں کی مالیاتی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی بالادستی مشروط ہے وہ اندر سے اتنا گل سڑ چکا ہے کہ اس میں کسی بہتری کی گنجائش نہیں۔ دونوں ممالک کے عوام بھوک، افلاس، محرومی، بیماری، بے روزگاری اور دہشت گردی کے عذابوں سے برباد ہورہے ہیں۔ ایک عوامی بغاوت کے فقدان کے عہد میں عوام کی اس محرومی کو مذہبی جنونی اور قومی شاونسٹ عناصر اپنے مفادات کے لئے استعمال کریں گے، لیکن یہ ایک نہایت ہی مخدوش تناظر ہے۔ یہ 1933ء کا جرمنی یا 1937ء کا اسپین نہیں ہے کہ ہٹلر سے لے کر مسولینی اور فرانکوجیسے فسطائی آمر طاقت پر قبضہ کرلیں گے۔ ہندوستان اور پاکستان میں ایک وسیع اور شعوری طور پر ہراول محنت کش طبقہ موجود ہے۔ دونوں ممالک کے محنت کشوں کی کوئی آپسی دشمنی نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ان کی محرومی کی وجوہات اور اس کا حل مشترک ہیں۔
تاریخ گواہ کہ داخلی طور پر عوام کو بہتر زندگی دینے میں ناکام ہوجانے والے حکمران اپنے خلاف ابھرنے والی عوامی بغاوتوں کو ز ائل کرنے کے لیے مصنوعی طور پر خارجی تضادات اور جعلی دشمن تراشتے ہیں، لیکن تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ جنگوں کی کوکھ سے انقلابات پھوٹتے ہیں۔ 1965ء کی جنگ کے بعد ہمیں پاکستان میں 1968-69ء کی انقلابی بغاوت ملتی ہے جس نے اس ملک کی تاریخ کی سب سے مضبوط اور جاہ وجلال والی حاکمیت کو پاش پاش کردیا تھا۔ 1971ء کی جنگ کے بعد 1974ء میں ہمیں اس جنگ کی فاتح اندرا گاندھی کے خلاف بھارتی محنت کشوں شاندار بغاوت نظر آتی ہے جس نے اس کے مضبوط اقتدار کو اکھاڑ پھینکا تھا۔ یہ دونوں انقلابی تحریکیں مارکسی قیادت کے فقدان کی وجہ سے اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ پائیں لیکن اس مرتبہ حکمرانوں کے جنگی جنون کی کوکھ سے جنم لینے والے انقلابات شاید ادھورے نہیں رہیں گے۔ برصغیر کے محنت کش ہی وہ واحد قوت ہیں جو اس خطے سے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر امن و اشتراک اور سماجی و معاشی خوشحالی پر مبنی انسانی معاشرہ تعمیر کر سکتے ہیں۔
متعلقہ:
پاک بھارت تعلقات: کشیدگی کی بیہودگی
ایٹمی طاقت کی مفلسی
سربجیت سنگھ کا قتل: تخریب یا ترکیب؟
اداریہ جدوجہد: سرحدوں کا تناؤ