| تحریر: چنگیز ملک |
آج ہم معاشی اور سیاسی طور پر گلوبل لائزڈ دنیا میں رہ رہے ہیں۔ سرمائے کی اس گلوبلائزیشن کے نتائج یہ مرتب ہو رہے ہیں کہ صرف 147 ملٹی نیشنل کمپنیاں عالمی معیشت پر قابض ہیں جبکہ ڈیڑھ ارب سے زائد لوگ انتہائی خط غربت سے نیچے گزارنے پر مجبور ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں بھوک ننگ، بیماری، بے روزگاری، لاعلاجی، دہشت گردی، کا اژدہا روزانہ ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کے چراغ گل کر رہا ہے۔ صرف بھوک اور غذائی قلت سے ہر روز 35000 انسان ہلاک ہوتے ہیں۔ وسائل کم نہیں بلکہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہیں۔ انسانیت کی ہزار وں، لاکھوں سالوں کی مشترکہ محنت سے وہ تکینک آج میسر ہے کہ کرۂ ارض پر بسنے والے ہر انسان کو قلت اور مانگ سے پاک ایک خوبصورت زندگی دی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ذائع پیداوار کی نجی ملکیت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑپھینکا جائے جس میں چیزوں کی پیداوار کا مقصد انسانیت کی ضرورت پوری کرنے کی بجائے منافع اورشرح منافع کا حصول ہے۔ منافعوں کی اسی ہوس نے دنیا پر دو عالمی جنگیں مسلط کیں جن میں کروڑوں انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ سامراجی جنگوں کی بربریت آج بھی جاری وساری ہے اور انسانیت کو تاراج کر رہی ہے۔
اس پس منظر میں پاکستان کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو زخموں، دکھوں، غموں سے نڈھال غریب عوام کی حالت زار پر رحم کرنے کے بنائے ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑکاجارہا ہے۔ آئے روز اشیاء خوردونوش سے لے کر بجلی، سوئی گیس اور پیڑول کی قیمتوں میں اضافہ زندگی کو تلخ کرتا چلا جارہا ہے۔ نواز لیگ کی موجودہ حکومت نے الیکشن مہم کے دوران بہت سارے خدائی دعوے کئے تھے کہ ہم IMF کے پاس نہیں جائیں گے، کشکول توڑدیں گے وغیرہ وغیرہ، لیکن بر سراقتدار آتے ہی وزیراعظم نواز شریف نے کہاکہ انتخابی مہم کے نعرے سیاسی شعلہ بیانی کا نتیجہ تھے، مسائل کو حل کرنے کے لئے بہت وقت درکارہے۔ کشکول توڑنے کی باتیں کرنے والی نواز لیگ نے IMF سے 6.58 ارب ڈالر قرضہ جن شرائط پر لیا ہے ان میں نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ، مختلف سبسڈیز کا خاتمہ جیسی عوام دشمن پالیسیاں شامل ہیں۔ نجکاری کمیشن نے 65اداروں کی نجکاری کی فہرست جاری کی ہے۔ پی آئی اے، ریلوے اور واپڈا سرفہرست ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان اداروں کی فروخت سے کیا معاشی مسائل حل ہو جائیں گے ؟ جواب سو فیصد نفی میں ہے۔ اس سے پہلے MCB ،HBL ،PTCL ،KESC، کھاد کے کارخانے اور دیگر اداروں کی نجکاری سے عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے زیادہ تیزی سے بڑھے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر PIA جیسے قیمتی ادارے کو فروخت کو کیا جاتا ہے تو ہزاروں ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے اور PIA کو خریدنے والے سرمایہ دار اس کا وہی حشر کریں گے جو اس سے پہلے PTCL جیسے اداروں کا ہوچکا ہے۔
مارکس نے 165 برس پہلے پیشن گوئی کی تھی کہ ’’سرمایہ دارانہ بحران کا سب سے پہلا شکار محنت کش طبقہ ہی ہوتا ہے۔‘‘ آج ترقی یافتہ ممالک سمیت پوری دنیا میں آزادی منڈی کی ایسی پالیسیاں لاگو کی جارہی ہیں جن سے ایک طرف مٹھی بھر سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہورہے ہیں جبکہ دنیا کی وسیع تر آباد ی غربت کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔ یقیناً سرمایہ داری نظام کے زیر اثر ذرائع پیدوار کی جو ترقی ہوئی اس کی مثال ہمیں پوری انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی لیکن آج چیزیں اپنے اُلٹ میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ پیدواری تعلقات اور ذرائع پیداورار کے درمیان تضادات واضح ہو چکے ہیں۔ پیدواری رشتے، ذرائع پیداوار کے پیروں کی بیڑیاں بن چکے ہیں اور ان رشتوں کی تبدیلی صرف ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کے ذریعے ممکن ہے۔
13 ستمبر کو تمام اخبارات میں PIA کی نجکاری کے حوالے سے شہ سرخیاں لگائی گئیں کہ حکومت نے ادارے کے 26 فیصد شئیر نجی شعبہ کو فروخت کرنے کی منظوری دے دی۔ حکومت نے پی آئی اے انتظامیہ کو ہدایت جاری کیں کہ وہ فوری طور پر ایسے اقدامات (ڈاؤن سائزنگ وغیرہ) کریں جن سے خسارہ کم کیا جا سکے اور نجی شعبے کے لئے پرکشش ماحول تیار کیا ہو۔ 13 اگست ہی کے دن ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ترجمان زبیر عمر نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ’’ہم 26 فیصد شیئر خریدنے والے ادارے یا فرد کو مکمل انتظامی اختیارات بھی دیں گے تاکہ وہ اپنے راستے کی تمام رکاوٹیں آسانی سے ہٹا سکے، حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ ملک کے انتظام وانصرام کو دیکھنا ہے۔‘‘ دوسرے الفاظ میں سرمایہ داروں کو کھلی چھٹی ہونی چاہئے کہ وہ جس طرح چاہیں محنت کشوں کا استحصال کریں اور حکومت کا کام محض تماشا دیکھنا ہے۔ اس بیان سے نواز لیگ حکومت کے عزائم واضح ہوجاتے ہیں اور پتا چلتا ہے کہ یہ حکومت آنے والے دنوں میں پی آئی اے سمیت دوسرے تمام اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ کیا سلوک پرتنے والی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک وقت میں دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں شمار ہونے والا ادارہ آج کیوں 170 ار ب روپے کے خسارے کا شکار ہے؟ 1960ء اور 70ء کی دہائی میں بھاری منافع دینے والا ادارہ آج کیوں حکومت کے کندھوں پر بوجھ بن چکا ہے؟آج 48 جہازوں میں سے صرف 18 کیوں چل رہے ہیں؟ اربوں روپے کے جہاز کیوں اور کیسے ناکارہ ہو گئے؟ منافع بخش روٹس نجی کمپنیوں کے حوالے کیوں کئے گئے؟
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پی آئی اے کی تباہی کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں ہوا جب ادارے کے چیئرمین اور ایم ڈی ایسے نااہل، کرپٹ اور نان ٹیکنیکل لوگ لگائے گے جنہوں نے ادارے کے حصے بخرے کرنے شروع کئے۔ آرمی افسران کے لئے کرائے میں پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ کا اعلان کیا گیا۔ جہازوں کی خریداری میں اربوں روپے کے کمیشن حاصل کیے گئے۔ جہازوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے کبھی بروقت اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے جہازوں کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کی نمائندہ یونین پر پابندی عائد کر دی گئی اوریونین سے وابستہ مزدوروں کو نوکریوں سے نکال باہر کیا گیا۔
ضیاء الحق کی وحشیانہ آمریت کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں نے لوٹ گھسوٹ کی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ اپنی مرضی کے چیئر مین اور ڈائریکٹر لگا کر پی آئی اے کو نوچنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ یہ عمل آج تک جاری ہے۔ 70ء کے بعد آنے والے تمام فوجی آمروں اور جمہوری حکمرانوں نے پی آئی اے کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ایک عیاش بیٹا اپنے باپ کی زندگی بھر کی کمائی کے ساتھ کرتا ہے۔
کیا پی آئی اے بے کار ادارہ ہے؟
درحقیقت پی آئی اے کو دانستہ طور پر موجودہ حالت تک پہنچایا گیا ہے۔ اپنے جیبیں گرم کر کے اس ادارے کو برباد کرنے والی بیوروکریسی کو حکومتی اور ریاستی آشیر آباد حاصل ہے۔ سرمایہ داروں کی ایما پر ادارے کو جان بوجھ کر خسارے میں چلایا جارہاہے تاکہ اس کی نجکاری کا جواز تراشا جاسکے۔ حکومت اگر چاہے تو اب بھی انتہائی قلیل عرصے میں پی آئی اے کو منافع بخش بنا سکتی ہے۔ پی آئی اے ایک انتہائی قیمتی ادارہ ہے۔ جہازو ں اور تکنیکی سہولیات سے ہٹ کر دنیا بھر میں کئی قیمتی ہوٹل اس ادارے کی ملکیت ہیں۔ پی آئی اے کی ملکیت میں چلنے والے نیویارک کے ’ہوٹل روز ویلٹ‘کی قیمت 300 ملین ڈالر (تقریباً31ارب روپے) سے زیادہ ہے۔ پیرس کے مرکز میں واقع ’ہوٹل سکرائیب‘ بھی پی آئی اے کی ملکیت ہے جس کی قیمت 140 ارب ڈالر (تقریباً پونے 15 ارب روپے) ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں کئی دوسرے ہوٹل اورجائیدادیں پی آئی اے انوسٹمنٹ لمیٹڈ (پی آئی اے کا ذیلی ادارہ) کی ملکیت ہیں۔ یوں پی آئی اے سفید ہاتھی نہیں بلکہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے جس پر ملکی اور غیر ملکی سرمایہ دار نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور میڈیا پر نجکاری کے حق میں بے ہودہ دلائل دینے والے ان سرمایہ داروں کی دلالی کر رہے ہیں۔
نجی ائیر لائن اور نجی ائیر پورٹ سروسزکو دی گئی مراعات
جہاں ایک طرف پی آئی اے کو ملٹری اور سول حکومتیں لوٹتی رہیں وہیں مختلف ملکی و غیر ملکی نجی ائیر لائنز کو پاکستان کے کم وبیش تمام شہروں تک رسائی دی گئی۔ منافع بخش روٹس پر پی آئی اے کے نئے جہاز چلانے کی بجائے بیوروکریسی نے کمیشن اور رشوت لے کر یہ روٹس نجی کمپنیوں کے حوالے کر دئیے۔ آج یہ ائیرلائنز انہی روٹس سے اربوں روپے کما رہی ہیں جبکہ پی آئی اے ’’خسارے‘‘ کا شکار ہوچکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پی آئی اے کے اپنے روٹس بھی دوسری ائیر لائنز کو بیچنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ کسی بھی ملک میں نجی ائیر لائنز کے لیے کڑی شرائط اور چھان بین کے بعد مخصوص روٹس متعین کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں تو گنگا الٹی بہتی ہے۔ منافع کی ہوس میں اندھی نجی ائیر لائنز کے ناقص جہازوں کی وجہ سے سینکڑوں لوگ حادثات کی صورت میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ چند دنوں تک میڈیا اور اخبارات میں ان حادثات کی خبریں گردش کرتی ہیں اور پھر تمام فائلز بند کردی جاتی ہیں۔ یہی صورت حال ائیر پوٹ سروسز کی ہے جہاں اپنے دستِ نگر لوگوں کو مراعات دے کر لوٹ گھسوٹ کی کھلی اجازت دے دی جاتی ہے۔
کرپشن
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ایک بات کا شوروغوغا ہے کہ کرپشن کی وجہ سے اداروں کی تباہی ہورہی ہے۔ میڈیا پر بیٹھے ان دانش وروں اور تجزیہ نگاروں سے کوئی پوچھے کہ جس ملک میں کالے دھن کی معیشت سرکاری معیشت سے دوگنا ہو اور 74 فیصد روزگار فراہم کرتی ہو وہاں ’’کرپشن‘‘ ختم ہوسکتی ہے؟ 1978ء تک پاکستان میں کالے دھن پر مبنی معیشت صرف 5 فیصد تھی جو آج 70 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس غیر سرکاری کالی معیشت کی شرح نمو9 فیصد سالانہ ہے جبکہ سرکاری معیشت کی شرح نمو صرف 1.5 فیصد ہے۔ اس کالے دھن میں منشیات، اغواہ برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی کی صنعتیں سرفہرست ہیں۔ کرپشن صرف بیماری کی علامت ہے، بیماری کی بنیادی وجہ پاکستانی سرمایہ داری کی کمزوری اور عالمی سطح پر اس نظام کی متروکیت ہے۔
عدلیہ کا کردار
ایک طبقاتی معاشرے میں عدلیہ کا کردارکبھی بھی منصفانہ اور غیر جانب دارانہ نہیں ہوسکتا۔ جب مشرف دور میں سٹیل مل کی نجکاری کی کوشش پر عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے کیا جانے والا اعتراض یہ نہیں تھا کہ نجکاری نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس نجکاری کو اس لئے روکا گیا کہ’’ ادارہ بہت سستابیچا جارہا ہے۔ ‘‘اسی طرح پی ٹی سی ایل کے محنت کشوں کی شنوائی آج تک نہیں ہوسکی ہے اور ان کے متعدد مقدمات خارج کردیئے گئے ہیں۔ پی آئی اے کے محنت کشوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔ اس نظام میں عدلیہ، حکمران طبقات کی خدمت گزار ہوتی ہے اور اس کا حتمی مقصد محنت کشوں کے استحصال کو قانونی جواز فراہم کرنا ہوتا ہے۔
12 فیصد شیئرز اورپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی حقیقت
پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت نے پی آئی اے، OGDCL اور IESCO سمیت کئی دیگراداروں کے محنت کشوں کو12 فیصد شیئرز دئیے۔ یہ ایک دھوکہ تھا جس کا مقصد نجکاری کی راہ ہموار کرنا تھا۔ شیئرز دینے جیسے سطحی اقدامات کے باوجود محنت کشوں کو کبھی بھی ادارے کی پالیسیوں اور فیصلہ سازی میں حصہ دار نہیں بنایا گیا۔ اس طرح کے اقدامات حکومت کو یہ جواز فراہم کرتے ہیں کہ ہم نے12 فیصد شیئر مزدوروں کودے دئیے ہیں باقی مانندہ 88 فیصد شیئرز کے ساتھ ہم جو بھی کریں اس سے مزدوروں کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ مزید برآں بوقت ضرورت سٹاک ایکسچینج کی سٹی بازی کے ذریعے شیئرز کی قیمتوں کو گراکر مزدوروں کو فارغ کردیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ ریاستیں نجکاری کے لئے اس دھوکہ بازی کا استعمال کرتی ہیں۔
کیا نجکاری مسائل کا حل ہے؟
پوری دنیا میں جہاں بھی قومی اداروں کو فروخت کیا گیا اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور لوگوں کے معیار زندگی میں گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ پاکستان میں HBL ،MCB اور PTCL کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں نجکاری کے بعد ہزاروں محنت میں فروخت کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا۔ PTCLمیں نجکاری سے پہلے 72ہزار ملازمین کام کرتے تھے، جس سال PTCL کو بیچا گیا اس کامنافع 30 ارب روپے تھا۔ آج حالت یہ ہے کہ صرف 18 ہزار ملازمین PTCL میں رہ گئے ہیں جبکہ اتصالات سالانہ 8 ارب روپے منافع کی صورت میں کما رہا ہے۔ MCB اورHBL کو خریدنے والے میاں منشاء نے حکومت کے ساتھ معاہدوں میں بینکوں میں ٹریڈ یونین پر پابندی عائد کرنے کی شرط رکھی جس کے نتیجے میں حکومت نے 27-Bکا کالا قانون پاس کیا اور تمام بینکوں میں یونین سازی پر پابندی عائد کردی گئی۔ KESC کے ملازمین کی حالت اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے۔ KESC کے ڈائریکٹر نے کہا تھا ہم نے KESCکو روزگار دینے کے لئے نہیں خریدا، ہم محنت کشوں کو ہر صورت میں نکال باہر کریں گے اور پھر ہم نے دیکھا کہ ہزاروں محنت کشوں کو نکال دیا گیا اور ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ نجکاری کے بعد پی آئی اے میں بھی محنت کشوں کو اسی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا۔
آگے کیسے لڑا جائے
کوئی بھی ادارہ محنت کشوں کی محنت کے بغیر نہیں چل سکتا۔ محنت کشوں کے ہاتھ چلتے ہیں تو کسی بھی سماج کا پہیہ گھومتا ہے۔ آج پاکستانی عوام کے ٹیکسوں اور محنت کشوں کی شب و روز محنت سے تعمیر ہونے والے ریاستی اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اس مشکل اور کٹھن وقت میں کوئی بھی ادارہ اپنی لڑائی نہ اکیلے لڑ سکتا ہے اور نہ ہی جیت سکتا ہے۔ وقت اور حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ تمام وہ ادارے جن کی نجکاری حکومت کرنا چاہ رہی ہے ان میں ٹریڈ یونین قیادت کو محنت کشوں کا کھویا ہوا اعتماد بحال کر کے جدوجہد کے لئے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اداروں کے اندر جوائنٹ ایکشن کمیٹیاں ہنگامی بنیادوں پر بنانے کی ضرورت ہے۔ مزدوروں کو اپنی ٹریڈ یونین قیادت دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اداروں میں مزدوروں کو منظم کرنے کے بعد دیگر اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ یونائیٹڈ فرنٹ بنائے جائیں۔ پی آئی اے کی ٹریڈ یونین پیپلز یونٹی (CBA)کو ہنگامی بنیادوں پر اپنے ادارے کے محنت کشوں کو منظم اور متحرک کرنا پڑے گا۔ محنت کشوں کو یہ بات باور کرانے کی ضرورت ہے کہ نجکاری کی صورت میں ہزاروں محنت کش نوکریوں سے نکا ل دیئے جائیں گیااور ذلت و بیروزگاری ان کا مقدر بن جائے گی۔ پی آئی اے کے محنت کشوں نے 2011ء میں اپنے اوپر ہونے والے حملے کے خلاف ایک شاندار جدوجہد کی اور حکومتی عزائم کو خاک میں ملایا۔ آج پھر اسی جذبے کی ضرورت ہے۔
موجودہ حکومت ہر صورت میں نجکاری جیسے گھناؤنے اقدامات کی طرف جائے گی۔ اس صورت میں پی آئی اے کے محنت کشوں اور ملازمین کو تمام تر تعصبات کی زنجیریں توڑتے ہوئے طبقاتی جڑت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ انہیں باقی اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر ان سامراجی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی۔ ایک مشترکہ جدوجہد ہی پی آئی اے سمیت تمام اداروں کے محنت کشوں کو سرمایہ داری اور نجکاری کی بربریت سے نجات دلا سکتی ہے۔
متعلقہ:
باکمال حکمران۔۔۔لاجواب نجکاری!
PIA میں بیوروکریسی کی لوٹ مار اور محنت کشوں کا بدترین استحصال
نجکاری۔۔۔ایک جرم!