| تحریر: قمرالزماں خاں |
تنخواہ لے کر ایک مزدور گھر جانے کے لئے بس میں سوار ہو ہی رہا تھا کہ کسی جیب تراش نے اسکی جیب کاٹ کر اس کو مہینہ بھر کی کمائی سے محروم کردیا۔ مزدور اس واردات سے بے خبر بس میں سوار ہوکر اپنی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔ تھوڑی دیر بعدکنڈیکٹر نے آکر پوچھا کہ اس نے کہاں جانا ہے تو اس نے اپنے گاؤں کا نام بتایا تو بس کنڈیکٹر نے اس سے دس روپے کرایہ طلب کیا، مزدور نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب خالی تھی۔ وہ سٹپٹایا اور پوری جیب باہر کو الٹ دی۔ وہاں کچھ بھی نہیں تھا وہ حواس باختہ ہوگیا اس کی پورے مہینے کی کمائی غائب تھی، وہ کنڈیکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے بولا‘ لگتا ہے میری جیب کٹ گئی ہے ابھی میں فیکٹری سے تنخواہ لے کر آیا تھا۔ کنڈکٹرنے بے رحم ڈاکٹروں جیسا رویہ اپناتے ہوئے بے رخی سے کہا۔ ۔ ۔ کہانیاں مت سناؤ! دس روپے نکالو۔ ۔ مزدور کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا وہ منتو ں پر اتر آیا مگر بس کنڈکٹر کا رویہ اور زیادہ کرخت ہوتا گیا۔ وہ اونچی آواز میں مزدور کو برا بھلا کہنے لگا اور ساتھ ہی اس نے ڈرائیور کو بس روکنے کا کہا تاکہ مزدور کو بس سے اتار سکے۔ کنڈکٹر کے اونچا بولنے سے پوری بس کو ہی قصہ معلوم ہوچکا تھا۔ جونہی ڈرائیور نے بس روکنے کے لئے بریک لگانا شروع کی تو ایک سفید کپڑوں میں ملبوس، شکل سے ہی نیکی کا پیکر نظر آنے والا معزز شخص اپنی سیٹ سے اٹھااور اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کنڈیکٹر سے مخاطب ہواکہ وہ مزدور کو بس سے نہ اتارے، اس کے ساتھ ہی اس نے مزدور کا کرایہ ادا کیا اور بس پھر سے منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔ اس واقعہ کے بعد پوری بس میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ ساری بس نیک طبع معزز آدمی کے حسن سلوک اور انسان دوستی کی قائل ہوچکی تھی۔ بہت سے لوگ نسبتاََ اونچی آواز میں برملا کہہ رہے تھے کہ دنیا ابھی تک قائم ہے تو ایسے نیک لوگوں کی وجہ سے جو دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے اور انکی مدد کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرتے۔ بس کے ایک مسافر نے تو یہاں تک کہا کہ ’’یہ تواللہ جی کے بندے ہیں‘‘۔ ۔ ۔ یہ ’’ نیک‘‘ شخص وہی جیب کترا تھا جس نے ابھی کچھ دیر پہلے مزدور کی مہینہ بھر کی کمائی اس کی جیب سے نکالی تھی!
ہماری سوسائٹی میں ایسے جیب کتروں کی کمی نہیں ہے جو دونوں ہاتھوں سے لوگوں کی جیبیں، گھر، زندگیاں، ساری عمر کی محنت اور مقدر تک لوٹ لیتے ہیں۔ قتل، بلوہ، دھشت گردی، اغوا برائے تاوان، سرکاری اور نجی املاک پر بزور طاقت قبضہ، رشوت، چوری، ڈکیتی، ٹیکس چوری اور بنکوں کے قرضے ڈکارنے تک سب کچھ کرتے ہیں، مگر دوسرے لمحے ہی کچھ ایسا کرتے پائے جاتے ہیں جس سے وہ معاشرے میں نہایت عزت و احترم سے دیکھے جاتے ہیں اور سماجی طور پر ان کے وجود کو اس ’’مادی دور‘‘ میں ’’روحانی غنیمت‘‘ سمجھا جاتاہے۔ ان لوگوں کے بچے ’’بغیر وسائل‘‘ کے فرانس کے مہنگے جوا خانوں میں لاکھوں ڈالر کا جوا ء کھیل لیںیا شاپنگ کرلیں تو اعتراض پر مٹی ڈال دی جاتی ہے، اگر ایسے ہی بگڑے ہوئے امیر زادوں کی غیر قانونی کار ریس انسانی جانوں کی تلفی کا باعث بنیں تورات کو لگنے والی عدالتیں دن کے وقت بھی ایسے واقعات کو بھولنے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں، سلطنت کے سب سے بڑے عہدوں پر فائز شخصیات ملزموں کو ملک سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کرتی ہیں اور کچھ دنوں بعد ہی قیمتی جانوں کی تلفی کا معاملہ یوں بھلا دیا جاتا ہے جیسے یہ روپذیر ہی نہ ہوا ہو۔ ایسے بااثر افراد اگر کسی کی املاک پر قبضہ کرلیں تو اس قبضہ گیریت کے واقعات ان کی نیکی کی داستانو ں میں گم کردینے کے لئے کرایہ کے لکھاری اپنا پورا زور لگا دیتے ہیں۔ صومالیہ کے ڈکیت اگر پاکستانی ملاحوں کو تاوان کی غرض سے اغوا کرلیں تو یقینی طور پر یہ سنگدلانہ اور مجرمانہ فعل ہے مگر یہی فعل کسی اور مجرم کو ہیرو بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جب وہ اپنے اعانت کاروں کے کہنے پر مغویوں کو چھڑانے کے لئے تاوان کی رقم کا بھاری حصہ اپنی اس گرہ سے ادا کرتاہے جو کسی اور طریقے سے خلق خدا کو لوٹ کر بھری ہوتی ہے، ان نیکو کاروں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ کے پاس ٹوٹی ہوئی سائیکل تھی اب اربوں کھربوں کے مالک بنتے ہوئے کس کس کی جان لی؟ کس کس کی املاک پر قبضہ کیا؟ قانون کا بازو کہاں کہاں مروڑ کراپنی مرضی کا انصاف کروایا؟ اس دھن کے کھیل میں ’’کالے جادو‘‘ کا منتر پڑھنے والے کون کون سے لوگ تھے؟ اٹھارہ کروڑ عوام الناس پر ضابطے عائد کرنے والی ریاست اس ’’اللہ جی کے بندے‘‘ کے سامنے کب کب اور کیسے سجدہ ریز ہوتی رہی ہے؟
اللہ جی کے ایسے بندے ہمارے گرد و پیش میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں، ان کے ماتھوں پر گہرے نشانات ثبت ہوتے ہیں اور شلواریں ٹخنوں سے اوپر۔ ان کے خیرات و زکوٰۃ اور فلاح انسانیت کے چرچے خاص و عام میں مقبول ہوتے ہیں، بلکہ کچھ ’’منشی‘‘ تو انکی توصیف و تعریف کے لئے اپنے بھاری بھرکم قلم کو وقف کئے رکھتے ہیں۔ ان کی عبادات کا سفر خواہ گھر سے مسجد تک ہو یا حجاز مقدس کا، اس کو مشتہر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر سال کم از کم حج کے ساتھ ایک دو عمرے کرنے کی سعادت بھی ضرور حاصل کرلیں!ملازمین اور اہل خانہ کو ہدایت ہوتی ہے کہ وہ ہر صورت آتے جاتے ’’حاجی صاحب‘‘ کی گردان کرتے رہیں تاکہ آنے جانے والے بھی حاجی صاحب کے ’’ٹائٹل‘‘ سے آگاہ ہوسکیں۔ ایسے بیشترمعززین آٹے، چینی، چاول سے لیکر کھاد تک ر روزمرہ زندگی کی تمام اشیاء کاذخیرہ کرنے میں کسی طور بھی غفلت نہیں کرتے، عام طور پر یہ ’غازی یہ پراسرار بندے‘ چیزوں کے نرخوں میں اضافوں کی پیش گوئی کرنے اور اس پیش گوئی کو پھر حقیقت میں بدلنے کے ہنر میں طاق ہوتے ہیں۔ گناہ ثواب کا ہر دم خیال رکھتے ہیں مگر ادھار میں دی ہوئی جنس کا نرخ کئی گنا زیادہ لکھنا نہیں بھولتے۔ ایسے معززین پر ہی شہری اشرافیہ تشکیل پاتی ہے۔ ان کے حلیے، سفید براک ملبوسات، مہنگی کاریں اور بڑے بڑے گھرہی انکے عزت دار اور معزز ہونے کی دلیل ہوتے ہیں، پھر یہ شہر میں آنے والے ہر ڈی ایم جی آفیسر کی خدمت کرنے میں کسی طور بھی کوتاہی نہیں برتتے۔ کسی چور اچکے کی شامت اعمال آئی ہو اور وہ ’’اندھے ہاتھ بٹیرا‘‘ کے مصداق پولیس کے ہاتھوں پکڑا جائے تو یہ ’’حاجی صاحبان‘‘ شہر کے ہولڈنگ بورڈز پر اس ’’ کارنامے‘‘کو باتصویر، نمایاں کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے، ان کے عجز و انکساری کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اپنے پیسوں سے بنوائی ہوئے پینا فلیکس پر وردی والوں کی تصاویر بڑی بڑی اور انکے اپنے ’’روشن مہتاب نیک چہرے‘‘ کا عکس چھوٹا سا ایک کونے میں نظرآتا ہے!
ٹھگوں کا وہ دور کہیں بیت چکا جب ان کا تذکرہ حقارت اور بے زاری سے لیا جاتا تھا، اب وقت میں بدلاؤ آچکا ہے، اب ٹھگوں نے اپنا ’’گیٹ اپ‘‘ بھی بدل لیا ہے اور ٹھگی کا پہلا استعمال اپنی حقیقی اور اصل شکل کو چھپانے پرکرتے ہیں، ان کے محفوظ ٹھکانے اب ایسے’’معزز‘‘ شعبہ ہائے زندگی ہوتے ہیں جن پر حرف اٹھانا گویا اپنی ارتھی اٹھانے کے مترادف بن جاتا ہے۔ اب کسی کو ٹھگ کہنے کی بجائے ’’بڑے سیاست دان ہو‘‘ کی ’طرح ‘پڑ چکی ہے، سننے والا بھی خوش ہوجاتا ہے اور کہنے والے کے جذبات میں بھی کوئی تلخی یا طعنہ زنی نہیں ہوتی۔ لفظوں کے ارتقائی سفرنے بھی بہت کارنامے سرانجام دئے ہیں۔ متبادل ترکیبیں وضع کرتے ہوئے ان کے معنوں میں سے بدی اور برائی کے وصف غائب کرکے ان کو معمول کے لفظوں کی لغت کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ ’’دانشور‘‘ بڑے ’’پریٹکل‘‘ ہوگئے ہیں، برے کو برا کہنا اب شدت پسندی کے زمرے میں آتا ہے اور نظریات پر قائم رہنے پر ’’بنیاد پرستی‘‘ کا فتویٰ لازم ہوجاتا ہے۔ دغابازی کو قابلیت، منافقت کو عملیت پسندی اوربے غیرتی کو مفاہمت کہے جانے کی ضرورت بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔
انسانی تاریخ میں جب بھی پچھلے نظاموں کی باقیات کے مٹنے اور نئے سماجوں کے آنے میں تاخیر ہوتی ہے تو اس کے مضمرات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ ’’جو ہے اور جو ہونا چاہئے‘‘ میں جتنا فاصلہ بڑھتا جائے گا اتنی ہی گھٹن بھی بڑھتی جائے گی۔ ایسے وقت یا زمانے کو ’’ڈارک ایج‘‘ کہا جاتا ہے۔ تاریخ کے یہ تاریک عہد برے اور ظالم لوگوں کے اعمال کی وجہ سے ’’کالے‘‘ نہیں کہلاتے بلکہ اس دور کے عالموں، دانشوروں اور صاحب فکر لوگوں کی ناامیدی، فکری شکست اور تاریخ کی متروک قوتوں سے ’’مفاہمت‘‘ کرلینے کی وجہ سے تاریک ہوجاتے ہیں۔ پھر تاریخ بھی جدلیات کے اٹل قانون کا اطلاق کرتی ہے جو بالآخر سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ’’موجودہ وقت‘‘ بھی بدل رہا ہے، اگرچہ ’’درمیانے راستے‘‘ والی ’’مفاہمتی قوتیں‘‘ اس تبدیلی کی منکر ہیں۔ تبدیلی اپنے نتائج سے پہلے کے حصے میں آہستگی سے عمل پیرا ہے۔ نتائج والا حصہ جس دھماکے سے روبہ عمل ہوگا اس سے آج کے بنے ہوئے’’اللہ جی کے تمام بندے‘‘ اللہ جی کے اس قانون کا شکار ہوکر تاریخ میں نشان عبرت بن جائیں گے جوآگے والے کو پیچھے اور پیچھے والے کو آگے کردیتا ہے، اسی تبدیلی کوموجود عہد میں ’’انقلاب‘‘ کے نام سے پکارا جائے گامگر یہ انقلاب مراعات یافتہ اور حکمران طبقات کی پسند کا ’’برانڈ‘‘ شاید نہ ہو۔ انقلاب ان میلے کچیلے، دھتکارے اور صدیوں سے نظرانداز انسانوں کی مرضی کا ہوگا جن کے ذمے انکی پچھلی نسلوں کی صدیوں پر محیط ذلتوں کا بدلہ لینا باقی ہے۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!
متعلقہ:
کیاخیرات مسائل کا حل ہے؟
اداریہ جدوجہد: خیرات کی نمائش