باکمال حکمران۔۔۔لاجواب نجکاری!

[تحریر: لال خان]
موجودہ دائیں بازو کی حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی جس شدت سے محنت کش عوام پر سرمائے کی یلغار کا آغاز کیا ہے اس کے پیش نظر محسوس ہورہا ہے کہ حکمران بہت جلدی میں ہیں۔ ہم نے کچھ ہفتے پہلے اپنے ایک آرٹیکل میں تحریر کیا تھا کہ یہ حکومت اپنے سامراجی آقاؤں کے احکامات بجا لاتے ہوئے بہت جلد ’’ریاستی اداروں کے ٹکڑے کر کے ان کی بولی لگائے گی، بالکل ایک قصائی کی طرح جوذبح شدہ گائے یا بکرے کے مختلف حصے اپنی دکان پر سجا کے بولی لگاتا ہے۔‘‘ قصائی کی یہ دکان سجا لی گئی ہے۔ پی آئی اے کے 26 فیصد شیئر فروخت کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ قومی ائیر لائن کا سونا مٹی کے بھاؤ خریدنے والوں کو ادارے کے انتظامی اختیارات دینے کا بھی قوی امکان ہے۔ دوسرے الفاظ میں موجودہ ’’جمہوری‘‘ حکومت پی آئی اے کے ساتھ وہی بلاد کار کرنے جارہی ہے جو مشرف آمریت نے پی ٹی سی ایل کے ساتھ کیا تھا۔ پی آئی اے کے علاوہ ریلوے، سٹیل مل، واپڈا اور دوسری ریاستی انٹر پرائزز کی نجکاری کے لئے بھی پر تولے جارہے ہیں۔ 6.68 ارب ڈالر کا قرضہ لینے کے بعد اب آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا وقت ہے۔ 12 ستمبر کو آئی ایم ایف کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’’درمیانے عرصے میں پاکستان کی معیشت کی کارکردگی خراب رہے گی۔ ۔ ۔ معیشت کی صحت کے لئے خطرات اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک مکمل اور دور رس ’اصلاحات‘ نافذ نہیں کی جاتیں۔ ۔ ۔ معاشی اور انتظامی شعبوں میں سپریم کورٹ کی مداخلتوں کا ریکارڈ موجود ہے جو اب غیر یقینی صورتحال کا باعث بن سکتا ہے۔ ‘‘ یہ سطورپڑھتے ہوئے اس بیان کے مفہوم پر غور کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنے ’’نسخوں‘‘ کو ہر حال میں مسلط کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ آئی ایم ایف کا نیا قرضہ دراصل پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں ہوا ہوجائے گا، تاہم اس کے ذریعے استحصال سے بدحال پاکستان کے محنت کشوں پر ایک اور سامراجی وار کا جواز تراش لیا گیا ہے۔
یہ درست ہے کہ ایک لمبے عرصے سے کئی سرکاری ادارے خسارے اور نقصان کا شکارچلے آرہے ہیں۔ مالیاتی ذرائع ابلاغ پر براجمان کرائے کے دانشور اور ’’معیشت دان‘‘ اس کا ایک ہی حل پیش کررہے ہیں: نجکاری۔ عدلیہ کی آزادی اور جمہوریت کی بحالی کے بعد اب نجکاری کو الہٰ دین کا ایسا چراغ بنا کر پیش کیا جارہاہے جو راتوں رات پاکستان کو جنت ارضی میں تبدیل کر دے گا۔ دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر صورتحال یہ ہے کہ 2008ء میں شروع ہونے والے سرمایہ داری کے عالمی بحران کے بعد سے ترقی یافتہ ممالک کے عوام کو کٹوتیوں اور بیروزگاری کی چکی میں پیسا جارہا ہے جس کی وجہ سے یورپی اور امریکی منڈی سکڑ رہی ہے، نتیجتاً ترقی پذیر ممالک میں ہونے والی سرمایہ کاری میں بھی واضح کمی ہوئی ہے۔ خاص کر ’’ابھرتی ہوئی معیشتوں‘‘ مثلاً چین، ہندوستان اور برازیل وغیرہ کی شرح نمو، کم ہوتی ہوئی بیرونی سرمایہ کاری کی وجہ سے تیزی سے گر رہی ہے۔ عالمی معاشی بحران نے پہلے سے لولی لنگڑی پاکستان جیسی معیشتوں کو اور بھی مفلوج کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہر طرف معاشی اور اقتصادی تباہ حالی کے اس عہد میں نجکاری کے گاہک میسر آسکیں گے؟ کیا منڈی میں سجائے گئے اداروں کے اچھے دام مل سکیں گے؟ امن و امان اور سیاست کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر پاکستان میں کون سرمایہ کاری کرے گا؟چنانچہ پی آئی اے، سٹیل مل اور ریلوے جیسے دیو ہیکل ریاستی اداروں کو مکمل طور پر خریدنے والا کوئی خریدار موجود نہیں ہے۔ ایسی ہی صورتحال 1980ء کی دہائی میں برطانیہ کی دائیں بازو کی حکومت کو درپیش تھی جب نجکاری کی جنونی ڈائین مارگریٹ تھیچر نے برٹش ٹیلی کام کو صرف ایک پاؤنڈ کی کاغذی قیمت پر فروخت کردیا تھا۔ تاہم ہمارے کمزور سرمایہ دار حکمرانوں کے لئے ایسا کرنا بھی ممکن نہیں ہے، چنانچہ کانٹ چھانٹ اور حصے بخرے کر کے ریاستی اداروں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بیچنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ ان حالات میں ریاستی انٹر پرائزز کے لذیذ اور گوشت سے بھرپور ’’پیس‘‘ یقیناًمقامی اور غیر ملکی مگر مچھوں کے منہ میں ٹھونسے جائیں گے، لیکن بچے کھچے’’ چھچھڑوں‘‘ پر چھوٹے گدھوں کے درمیان چھینا چھپٹی بھی ہوگی، بالکل اسی طرح جیسے سیاسی پارٹیوں کے جلسوں میں کھانا کھلنے کے بعد ’’کارکنان‘‘ کے درمیان ہوتی ہے۔ تاہم عوام کا گوشت نوچنے والے ان گدھوں کو ’’اختلاف‘‘ یا ’’مشاورت‘‘ کے ذریعے اپنا اپنا حصہ نکالنے میں خاص مہارت حاصل ہے اوراس بار بھی سب کے حصے میں کچھ نہ کچھ ضرور آئے گا۔
نجکاری کی پالیسی قیامت بن کر پاکستان کے محنت کشوں پر ٹوٹے گی اور مہنگائی، بیروزگاری، غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ بیچے جانے والے اداروں کی خدمات اور مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی۔ پی آئی اے اور ریلوے کے کرایوں میں اضافہ ہوگا۔ ان اداروں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی کوشش ہوگی کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جائے، اس مقصد کے تحت کئی دہائیوں میں پاکستانی عوام کے ٹیکسوں اور مزدوروں کی شب و روز محنت سے تعمیر کئے گئے ان اداروں کو اس بے دردی سے نوچ کر مسخ کیا جائے گا کہ ان کی پہچان کرنا بھی ممکن نہ رہے گا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بڑی نجکاری مسلم کمرشل بنک کی تھی۔ اس قیمتی ریاستی ادارے کو بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بیچا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت تمام تر کوشش کے باوجود اگرچہ بڑے پیمانے پر نجکاری نہیں کر سکی لیکن نجکاری کی وزارت اور پالیسی کو قائم رکھا گیا۔ اس پالیسی کے تحت مزدوروں کو اداروں میں حصہ داری دینے کا پراپیگنڈا کر کے ان کی طبقاتی یکجہتی کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ بنادیا گیا۔ یہ سراسر دھوکہ اور سراب تھا جس کا مقصد نجکاری کی راہ ہموار کرنا تھا، لیکن پیپلز پارٹی حکومت کی جانب سے پی آئی اے کو بیچنے کی بیہودہ کوشش کو محنت کشوں کی برق رفتار مزاحمت نے ناکام بنا دیا۔ موجودہ حکومت کی نجکاری کی پالیسی کے خلاف اگرچہ عوام میں غم و غصہ موجود ہے، لیکن پاکستان میں مزدور تحریک کی پسپائی اور ٹریڈ یونین قیادت کے دیوالیہ پن کی وجہ سے حکمرانوں کو بظاہر کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے۔ تاہم ٹریڈ یونین قیادتوں کی تمام تر مصالحتی پالیسیوں اور غداری کے باوجود ایک بار پھر عام محنت کشوں کے جانب سے آنے والا بڑا رد عمل حکمرانوں کو حیران کر سکتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نجکاری کے علاوہ تباہ حال اور خسارہ زدہ ریاستی اداروں کا علاج کیا ہے؟ لیکن اس سے بھی پہلے ہمیں ان وجوہات پر غور کرنا پڑے گا جو ان اداروں کی موجودہ حالت زار کی ذمہ دار ہیں۔ یہ درست ہے کہ مختلف ادوار میں ریاست کئی اداروں کو قومی تحویل میں لیتی رہی ہے یا ریاستی سرپرستی اور ملکیت میں کئی ادارے تعمیر کئے گئے لیکن یہ سب اقدامات سرمایہ دارنہ نظام کی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے کئے گئے۔ یہ نیشلائزیشن نہیں بلکہ بیوروکریٹائزیشن تھی جس کے تحت مالکان کی جگہ مٹھی بھر بیوروکریٹوں نے لے لی۔ اداروں کے انتظامی معاملات اور فیصلہ سازی میں محنت کشوں کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ اس کے باوجود یہ ایک ترقی پسندانہ قدم تھا اور ریاستی سرپرستی میں ایسے دیوہیکل اور کارگر صنعتی اور خدماتی ادارے تعمیر کئے گئے جن کا خواب پاکستانی بورژوازی اگلے سو سال میں بھی نہیں دیکھ سکتی۔ آج ان اداروں کی نجکاری کے لئے حکومت کی بے چینی اورعجلت کو دیکھ کر برطانوی لیبر پارٹی میں بائیں بازو کے سیاستدان جان میکڈونل کے الفاظ یاد آتے ہیں کہ ’’عوامی اداروں کی نجکاری، سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو ایک وقت کے کھانے کے لئے ذبح کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
یہ قومی ادارے ایک وقت میں معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ لاکھوں محنت کشوں کو روزگار فراہم کرنے والے یہ ادارے نہ صرف منافع بخش تھے بلکہ حکومتی آمدن کا اہم ذریعہ تصور کئے جاتے تھے۔ پی آئی اے کی بات کریں تو اس کا شمار دنیا کی بہترین ائیر لائنوں میں ہوتا تھا اور مختلف ممالک کی نجی کمپنیاں اپنے ملازمین اور عملے کی ٹریننگ کے لئے پی آئی اے کی خدمات حاصل کرتی تھیں۔ اسی طرح پی ٹی سی ایل کا شمار ایشیا کی بڑی اور منافع بخش ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ لیکن ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں مالیاتی سرمائے کا زہر سماج کے ہر رشتے، ہر ادارے میں سرایت کر جاتا ہے۔ ان اداروں میں ٹریڈ یونین قیادت رفتہ رفتہ بذات خود ایک مراعات یافتہ بیوروکریسی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ ٹریڈ یونین لیڈر مادی اور نفسیاتی طور پر حکمرانوں کی اخلاقیات، اقدار اور روایات میں ضم ہو کر ان کے مفادات کا آلہ کار بن گئے۔ ٹریڈ یونین آخری تجزئے میں اسی نظام کا حصہ ہوتی ہے۔ وہ مالکان اور منیجروں سے سودہ بازی کر کے مزدوروں کے لئے رعایات اور سہولتیں حاصل کرتے ہیں، لیکن دو طبقات کے درمیان پر امن لین دین کا یہ عمل اسی وقت جاری رہ سکتا ہے جب نظام میں اصلاحات کی گنجائش موجود ہو اور مزدوروں کو چند ایک سہولیات دینے سے سرمایہ داروں کی شرح منافع متاثر نہ ہو۔ آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام یہ صلاحیت کھو چکا ہے۔ لینن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سامراجیت:سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں ٹریڈ یونین اشرافیہ کا تجزیہ کچھ یوں کیا تھا:
’’دوسری انٹرنیشنل ( اصلاح پسند بایاں بازو) کی اصل بنیاد وہ مزدور اشرافیہ ہے جو اپنی آمدن اور نقطہ نظر کے لحاظ سے سرمائے کے رنگ میں رنگی ہوتی ہے۔ مزدور اشرافیہ کی یہی پرت بورژوازی کی سماجی بنیاد بھی ہے۔ یہ لوگ مزدور تحریک میں حکمران طبقے کے آلہ کار ہیں، مزدوروں کے بھیس میں سرمایہ داروں کے مددگار ہیں، اصلاح پسندی اور قومی تعصب کا حقیقی منبع و ماخذ ہیں۔‘‘
ایک طرف جہاں ٹریڈ یونین لیڈر بہت مراعات یافتہ اور کرپٹ ہیں تو دوسری طرف ریاستی اداروں پر بڑی تعداد میں براجمان بیوروکریٹوں اور’’ماہرین‘‘ کے مالی مفادات ان اداروں کو موجودہ حالت میں قائم رکھنے سے مشروط ہیں۔ اس کے علاوہ بے روزگاری کے اس سمندر میں مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے ’’ورکروں‘‘ کو رشوت کے طور پر ان اداروں میں ملازمتیں دے کر ان کی وفاداریاں خریدتی ہیں، یا پھر برسراقتدار پارٹیاں مصنوعی طور پر آسامیاں پیدا کرتی ہیں جنہیں بیچ کر پارٹی عہدہ داران اپنی جیبیں گرم کرتے ہیں۔ نتیجتاً افسر شاہی کی ایک فوج ظفر موج معرض وجود میں آجاتی ہے جو ادارے کو اندر ہی اندر چاٹ کر کھوکھلا کرنا شروع کردیتی ہے۔ اسی طرح بے روزگاری سے بدحال جب ایک نوجوان کو اپنا سب کچھ بیچ کر روزگارخریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو اس بات کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں کہ وہ ادارے میں کوئی تعمیری کردار ادا کرے گا۔
نجکاری کے اس عمل کے دوران تین قوتوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ ایک طرف وہ سرمایہ دار گدھ ہیں جو ان اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ خرید نا چاہتے ہیں، دوسری طرف ٹریڈ یونین اشرافیہ اور حکومتی بیوروکریسی ہے جن کی مراعات ان اداروں کے قومی تحویل میں رہنے سے وابستہ ہیں، تیسرا فریق ان اداروں کے محنت کش ہیں جن کے پاس اپنی قوت محنت بیچنے کے سوا زندہ رہنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور جن کے سر پر اب بے روزگاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ نجکاری کوپاکستان کے بجٹ اور مالیاتی خسارے میں کمی نسخہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے جو سراسر جھوٹ اور فریب ہے۔ اس نجکاری کا فائدہ صرف سامراجی اجارہ داریوں اور سرمایہ داروں کو ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے کسی بھی تعمیراتی یا معاشی منصوبے کا مقصد عوام کی فلاح نہیں ہے۔ اس نظام میں ہر معاشی یا پیداواری سرگرمی کی قوت محرکہ انسان کی سہولت نہیں بلکہ منافع اور شرح منافع ہوتی ہے۔
پی آئی اے کے ان ملازمین کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جو عام مزدوروں کو شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے سے حقیر سمجھتے ہیں۔ اس نظام میں جہاں رنگ، نسل، ذات پات، مذہب اور فرقے کے تعصبات محنت کشوں کے شعور پر مسلط کئے جاتے ہیں وہاں مزدوروں کے مابین اداروں اور اجرتوں میں اونچ نیچ کی تفریق بھی قائم کی جاتی ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کا اعلان صرف آغاز ہے، سرمایہ داروں کی یہ حکومت آنے والے دنوں میں محنت کشوں پر وحشیانہ حملے کرے گی۔ کسی بھی ادارے کے مزدور تنہا اس بربریت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پورے طبقے کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ غدار ٹریڈ یونین قیادتوں کے خلاف بھی لڑنا ہوگا اور ٹریڈ یونین کو اس طبقاتی لڑائی کے لڑاکا اداروں میں تبدیل کرنا ہوگا۔ جب محنت کش یکجا ہو کر طبقاتی جدوجہد کے میدان میں داخل ہوتے ہیں تو اصلاح پسندی بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ انکے معاشی مطالبات سیاسی مطالبات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اسی کو انقلاب یا قبل از انقلاب کی سماجی کیفیت کہا جاتا ہے۔ ایسی انقلابی صورتحال اگر پاکستان میں پیدا ہوتی ہے تومحنت کشوں کی جدوجہد کا دھارا ایک مکمل معاشی، سماجی اور سیاسی تبدیلی کی طرف بھی مڑ سکتا ہے۔ طبقاتی جنگ کا میدان سجنے کو ہے۔ اس معرکے میں محنت کشوں کی فتح سے نہ صرف اداروں کے خسارے ختم ہوں گے بلکہ سامراجی اور مقامی حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت واپس چھین کر معاشرے کی تعمیر نو اور اس کے باسیوں کی نجات اور خوشحالی پر صرف کی جائے گی۔

اک کھیت نہیں، ایک دیس نہیں
ہم  ساری  دنیا  مانگیں  گے!