پاک بھارت تعلقات: کشیدگی کی بیہودگی

’’امن مذاکرات امن کی ضمانت دینے سے عاری ہیں جبکہ جنگ کی دھمکیاں کبھی کھلی جنگ پر منتج نہیں ہوں گی۔ جب تک بحران کا شکار سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے یہ منافقت، یہ خونی چکر جاری و ساری رہے گا اور خطے کے عوام کو تاراج کرتا رہے گا‘‘

[تحریر: لال خان]
لائن آف کنٹرول پر ہونے والی فائرنگ میں پانچ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت نے ایک بار پھر اس خونی تنازعے کو منظر عام پر لا کھڑا کیا ہے جس نے پچھلی چھ دہائیوں سے کشمیر کے عوام کو کرب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس واقعے نے گل سڑ کر متروک ہو چکے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے کشمیر اور پورے جنوبی ایشیا میں’امن‘ اور ’ترقی‘ کی تمام تر کوششوں کی ناکامی کو عیاں کیا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے سیاستدانوں کی جانب سے ’صلح صفائی‘ کی لفاظی کا خالی پن ایک بار پھر آشکار ہوا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں ملوث رجعتی قوتیں دونوں ممالک کے حکمرانوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں اور پالیسی سازی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔
خون میں ڈوبے اس طرح کے ہر واقعے کے بعد دونوں اطراف سے سفارت کار ایک دوسرے سے بڑھ کر جھوٹ بولتے ہوئے الزام تراشی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک معمول بن چکا ہے جس میں کشمیر سمیت دونوں ممالک کے عوام کو، کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بھارتی فوج نے الزام لگایا ہے کہ پاکستانی فوج نے پونچھ کے علاقے میں گھس کر اس کے فوجیوں کو نشانہ بنایا جبکہ پاکستانی کشمیر کے وزیراعظم نے بھارتی فوج پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے میر پور کے علاقے میں گھس کر چار شہریوں کو اغوا کیا ہے۔ بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ منگل کے روز پاکستانی فوج کے کمانڈوز نے کنٹرول لائین عبور کر کے پونچھ سیکٹر میں گشت پر معمور بھارتی فوج کے دستے کو نشانہ بنایا۔ ‘‘ بھارتی افسر نے مزید کہا کہ ایک اورواقعے میں ادھم پور کے علاقے میں پاکستانی فوجیوں کی بلا اشتعال فائرنگ سے ایک بھارتی فوجی زخمی ہوا ہے جبکہ پاکستانی فوجی حکام نے تمام تر بھارتی بیانات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے فائرنگ نہیں کہ گئی۔
یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا ہے جن دونوں ممالک ’امن مذاکرات‘ کی تیاری میں مصروف ہیں۔ بھارتی جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ’’ایسے واقعات پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے یا بہتر کرنے کی بجائے پاکستانی حکومت کی نیت پر سوالات کو جنم دیتے ہیں۔‘‘ بھارتی وزیر دفاع اے کے اینٹونی نے پارلیمنٹ کو بتایا ہے کہ ’’بھارتی حکومت نے سفارتی ذرائع کے ذریعے سے پاکستان سے سخت احتجاج کیا ہے۔‘‘
2003 ء میں پاکستان اور بھارت دونوں نے کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا لیکن اس کے بعد بھی دونوں ممالک ایک دوسرے پر ’’بلا اشتعال‘‘ کاروائیوں کے الزامات لگاتے رہے ہیں جن میں دونوں اطراف پر درجنوں فوجی اور عام شہری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ جنوری 2013ء میں ہی لائن آف کنٹرول پر ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں تین پاکستانی اور دو بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ دونوں ممالک نے ان واقعات کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی تھی تاہم دو طرفہ تعلقات میں تلخی کے مختصر عرصے کے بعد مشترکہ طور پر تناؤ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیاتھا۔
1989ء میں شروع ہونے مسلح بغاوت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں ہزاروں لوگوں کو ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنا کے قتل کیا چکا ہے۔ 1947ء کی تقسیم کے بعد سے کشمیر کے تنازعے پر دونوں ممالک کے درمیان ایک چھوٹی اور تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں۔ تقسیم کے وقت انگزیزوں اور مقامی حکمران طبقے کی جانب سے وضع کردہ قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔ یہ ایک خونی تقسیم تھی جس میں پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانی تہذیب کو مذہب کی بنیادوں پر کاٹ دیا گیا۔ نتیجے میں پھوٹنے والے مذہبی اور لسانی فسادات میں27 لاکھ بے گناہ لوگ ہلاک ہوئے۔ تاہم پنجاب اور بنگال کے برعکس کشمیر کی تقسیم کسی معاہدے کی بجائے ایک جنگ کا نتیجہ تھی۔ موجودہ لائن آف کنٹرول اقوام متحدہ کی نگرانی میں 1948ء کی جنگ بندی کے بعد پاکستانی اور بھارتی افواج کے زیر قبضہ علاقوں کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی۔
تین جنگوں، اقوام متحدہ کی درجنوں قرادادوں اور دونوں ممالک کے حکمرانوں کے درمیان ہونے والے ان گنت مذاکرات کے باوجود صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ کشمیر کے استحصال زدہ عوام آج بھی اذیت سے دوچار ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات کے تمام تر دعووں کے برعکس کشمیری عوام غربت اور محرومی کا شکار ہیں۔ المناک بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کی فوجی اور سویلین اسٹیبلشمنٹ نے اس ایشوکو دفاعی بجٹ، ہتھیاروں کی خریداری اور اپنی مراعات میں اضافے کے لئے استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ سامراج اس مسئلے کو خطے میں اپنے مفادات کی ترویج کے لئے استعمال کرتا رہا ہے۔ دونوں ممالک کی فوجی اشرافیہ اس تنازعے کو ختم نہیں کرنا چاہتی کیونکہ یہ انہیں سامراجی اسلحہ ساز صنعت سے مہنگے اسلحے کی خریداری کا جواز فراہم کرتا ہے۔ اس خریداری سے اسلحہ ساز صنعت بھاری منافعے جبکہ فوجی اشرافیہ موٹے کمیشن بناتی ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ عالمی آبادی کا 22 فیصد رکھنے والے ان دو ممالک میں دنیا کی 44 فیصد غربت پلتی ہے جبکہ پاکستان اور بھارت کا شمار جدید اسلحہ خریدنے والے دنیا کے پہلے پانچ ممالک میں ہوتا ہے۔ قومی سلامتی کے نام پر دونوں ممالک ایٹمی قوتیں بن چکے ہیں اور کروڑوں محنت کشوں کے خون پسینے سے نچوڑے ہوئے اربوں ڈالر ایٹمی اثاثوں کی ترویج پر خرچ کئے جارہے ہیں۔
تاہم دونوں ممالک کو اسلحہ بیچ کر ہوشربا منافعے کمانے والے سامراجی ممالک دو ایٹمی قوتوں کے درمیان کھلی جنگ بھی نہیں چاہتے کیونکہ ایسی جنگ کی صورت میں خطے میں ہونے والی ہولناک تباہی ان کی سرمایہ کاری اور اثاثوں کو بھی غرق کر دے گی۔ حقیقت یہ ہے دونوں ممالک نہ تو جنگ کرسکتے ہیں اور نہ دیرپا امن قائم رکھ سکتے ہیں۔ ہر ’امن مذاکرات‘ کے بعد جنگی دھمکیوں کا عہد آتا ہے، جس کے بعد پھر مذاکرات شروع ہوجاتے ہیں۔ امن مذاکرات امن کی ضمانت دینے سے عاری ہیں جبکہ جنگ کی دھمکیاں کبھی کھلی جنگ پر منتج نہیں ہوں گی۔ جب تک بحران کا شکار سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے یہ منافقت، یہ خونی چکر جاری و ساری رہے گا اور خطے کے عوام کو تاراج کرتا رہے گا۔ دونوں ممالک سے حکمران عوام کی توجہ حقیقی مسائل اور ان کی وجوہات سے ہٹا کر طبقاتی جدوجہد کو ماند کرنے کے لئے قومی اور مذہبی تعصبات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ہندو اور مسلمان بنیاد پرست ایک دوسرے کا سہارا لے کر برصغیر کی سیاست میں سرایت کئے ہوئے ہیں۔ کشمیر کے عوام برباد ہورہے ہیں۔ قومی آزادی کی منزل ساٹھ سال پہلے کی نسبت اور بھی زیادہ دور ہوچکی ہے۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف سے اٹھنے والی حالیہ عوامی تحریکوں میں سماجی و معاشی مسائل اور طبقاتی جدوجہد کے نعرے زیادہ واضح ہو کر سامنے آئے ہیں۔ اس نظام اور اس پر قائم ریاستوں کو اکھاڑ کے ہی کشمیر کے مظلوم عوام قومی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ خطے کی دوسری مظلوم قومیتوں کے پاس بھی صرف یہی واحد راستہ ہے۔ پچھلے ساٹھ سالوں نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات قومی جمہوری انقلاب کا ایک بھی فریضہ پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ تیسری دنیا کی سرمایہ داری میں سکت نہیں ہے کہ یہ سماج کو جدید انفراسٹرکچر فراہم کر کے سماجی اور معاشی مسائل کا خاتمہ کر سکے اور ان مماک میں قومی جمہوری انقلاب کے فرائض سوشلسٹ ریاست کے تحت منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی پورے کئے جاسکتے ہیں۔ مظلوم قومیتوں کے سامنے طبقاتی جدوجہد ہی وہ واحد راستہ ہے جو انہیں قومی آزادی کی منزل تک لے جا سکتا ہے!

متعلقہ:
ایٹمی طاقت کی مفلسی
سربجیت سنگھ کا قتل: تخریب یا ترکیب؟
اداریہ جدوجہد: سرحدوں کا تناؤ
پاک بھارت ویزے کا گھن چکر
کشمیر: سامراجیوں کے شکنجے میں
کشمیر کی آزمائش؛ ایک انقلابی حل