پاک چین معاشی راہداریاں: ہمالیہ سے بلند دوستی یا لوٹ مارکے نئے راستے؟

[تحریر: لال خان]
چین کے وزیر اعظم لی کیکوانگ سے مذاکرات کے آغاز پر پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے الفاظ تھے کہ’’یہاں بیجنگ کے دورے میں مجھے وہ بیان یاد آرہا ہے کہ ہماری دوستی ہمالیہ سے اونچی، دنیا کے گہرے ترین سمندر سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔‘‘
اس دورے میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے آٹھ اہم معاہدوں پر دستخط کیے۔ ان میں پاکستان میں توانائی کے شعبوں میں چینی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ چین کے شہر کاشغر سے لے کر گوادر تک ایکسپریس سٹرک کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مستقبل بعید میں ریلوے لائن بچھانے کا اعادہ بھی کیا گیا ہے۔ ان آٹھ معاہدوں کو عمومی طور پر’’معاشی راہ داری کے معاہدوں‘‘ کا نام دیا گیا ہے جنہیں ذرائع ابلاغ اور حکمرانوں کے تجزیہ نگار نواز لیگ حکومت کے بہت بڑے کارنامے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ عوام کو خوشحال مستقبل کے خواب دکھائے جارہے ہیں۔ کوئی ذی شعور انسان اس بات سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ بڑے انفراسٹرکچر کی تعمیرکے پراجیکٹ شروع ہونے چاہئیں تاکہ ملک میں جدید صنعتی انفراسٹرکچر تعمیر ہوسکے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام ترمنصوبوں کاسب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوگا؟ کیا اس سے پاکستان اور چین کے محنت کش عوام کا مقدر بدلے گا؟ دہائیوں سے پاکستانی ریاست کے جبر و استحصال کا شکار بلوچ عوام کی زندگی میں کوئی بہتری آئے گی؟ان کو غربت، محرومی اور ذلت سے نجات ملے گی یا پھر چین اور پاکستان کے حکمران طبقات، ان کی صنعتی ومالیاتی اجارہ داریاں اور بڑی بڑی ٹھیکیداریاں عوام کو سبز باغ دکھا کر اپنے شرح منافع میں اضافہ کریں گی؟
کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس کی داخلی پالیسیوں اور سماجی ومعاشی ساخت کا تسلسل ہوتی ہیں۔ اس پس منظر میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جدید تاریخ میں چین کا سماج کن معاشی و سماجی نظاموں سے گزرا ہے اور ان نظاموں کے معاشی وسیاسی تقاضے کیا تھے؟ پچھلی صدی میں چینی سماج نے تین انقلابات اور ایک رد انقلاب کا سفر طے کیا ہے۔ سب سے پہلا انقلاب 1911ء میں سن یات سین کی قیادت میں برپا ہوا۔ یہ ایک بورژوا انقلاب تھا جس میں چین کی دو ہزارسال قدیم شہنشائیت کو ختم کیا گیا اور کیونگ خاندان کے آخری بادشاہ کو معزول کرکے چین کو ایک ریپبلک بنانے کا اعلان کیا گیا لیکن یہ انقلاب چین میں قومی جمہوری انقلاب کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا۔ دوسرا انقلاب 1924-25ء کا سوشلسٹ انقلاب تھا جو چین کی نومولود کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں ابھرا۔ قیادت کی بھیانک نظریاتی غلطیوں اور سٹالن کی تباہ کن پالیسیوں کی وجہ سے اس انقلاب کو چیانگ کائے شیک نے خون میں ڈبو دیا۔
تیسرا انقلاب 1949ء میں ماؤ زے تنگ کی قیادت میں کسانوں کی گوریلا جنگ کے ذریعے برپاہوا۔ یہ انقلاب اگرچہ کلاسیکی مارکسسٹ لین اسٹ خطوط پر برپانہیں ہوا تھا لیکن اس کی کامیابی کے بعد چین میں مزدوروں کے دباؤ کے زیر اثر سرمایہ داری، جاگیرداری اور سامراجی تسلط کا خاتمہ کیا گیا۔ اس انقلاب کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود منڈی کی معیشت کے خاتمے کے بعد منصوبہ بند معیشت کے اجراء نے چین کو بے پناہ ترقی دی اور پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں سے باہر نکالالیکن مزدور جمہوریت کی بجائے افسر شا ہانہ کنٹرول کے باعث معیشت جمود اور گھٹن کا شکار ہوگئی۔ اس جمود سے معیشت کو نکالنے کے لیے ڈینگ ژیاؤپنگ کی زیرقیادت برسرا اقتدار آنے والے افسرشاہی کے دھڑے نے چین میں سرمایہ داری اور منڈی کی معیشت کو دوبارہ استوار کرنے کا ردانقلابی راستہ اختیار کیا۔ لیون ٹراٹسکی نے روس کے متعلق نشاندہی کی تھی کہ سوویت بیوروکریسی سرمایہ داری تو بحال کر دے گی لیکن اقتدار مزدور طبقے کے حوالے نہیں کرے گی۔ چین کے بارے میں بھی درست ثابت ہوا چنانچہ سامراجی اجارہ داریوں کی سرمایہ دارانہ یلغار ہمیں 1990ء کی دہائی میں نظر آتی ہے۔ اس سرمایہ کاری کی بنیادی وجہ ماؤزے تنگ کے عہدکی منصوبہ بند معیشت کے تحت جنم لینے والا ہنر مند مزدور طبقہ تھاجس کی قوت محنت سامراجی اجارہ داریوں کوسستے داموں میسر آئی۔ امریکی اور یورپی اجارہ داریوں نے چین میں سرمایہ کاری سے بہت منافع حاصل کیے لیکن ا س دور میں چین میں طبقاتی تفریق بہت بڑھ گئی اور دنیا میں غربت اور امارت کی سب سے بڑی خلیج اس وقت چین میں موجود ہے۔ 2008ء میں شروع ہونے والے عالمی سرمایہ داری کے بحران کے بعد سے چین کی معاشی شرح نمو 14 فیصد سے گر کر 7.2 فیصد پر آگئی ہے اور اس سے جنم لینے والے عدم استحکام پر قابو پانے کے لئے چینی بیوکریسی اور اشرافیہ بڑے پیمانے پر داخلی اور خارجی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
اسی طرح چین کا حکمران طبقہ بھی دیگر تمام ممالک کی طرح آج تاریخ کی بد ترین کرپشن میں ملوث ہے۔ چند ماہ قبل سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم وین جی باؤ کی دولت کا اندازہ 2.7 ارب ڈالر لگایا جا رہا ہے۔ وین جی باؤ کی ماں چین میں انقلاب کے وقت سکول ٹیچر تھی اور خاندان شدید غربت میں رہتا تھا۔ لیکن 1990ء کے بعد ہیروں کے کاروبار سے آغاز کرنے والا یہ خاندان آج امارت کی انتہاؤں پر موجود ہے۔ صرف وین جی باؤ کی ماں نے اب 90سال کی عمر میں ایک چینی فنانشل سروس کمپنی میں 12کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔
اس سال چین کی پیپلز کانگریس کے 70 امیر ترین مندوبین کی کل دولت 89.8 ارب ڈالر بنتی ہے۔ اس کانگریس میں 34 سرمایہ دار ہیں جبکہ 2007ء کی کانگریس میں 17تھے۔ ان سرمایہ داروں میں سنی گروپ کا چئیرمین لیانگ وینگن بھی شامل ہے جس کی دولت کا اندازہ 5.9ارب ڈالر لگایا جاتا ہے۔ منصوبہ بند معیشت سے سرمایہ دارانہ نظام کی جانب سفر کے دوران اہم ریاستی اہلکاروں نے دولت کے وسیع انبار جمع کیے ہیں۔ چینی محنت کشوں کے خون پسینے سے تعمیر کئے گئے ریاستی ادارے کوڑیوں کے بھاؤ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بیچے ہیں اور لوٹ مار کا لا امتناعی سلسلہ جاری ہے۔ شی جن پنگ کے صدر بنتے ہی اس کے خاندان نے معدنیات، پراپرٹی او ر موبائل فون کے کاروبار میں بڑی سرمایہ کاری کر دی ہے جس کا حجم ڈیڑھ ارب ڈالر کے قریب ہے۔ گزشتہ سال شی نے بیجنگ میں پارٹی سکول کے 2200 کیڈرز سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’بہت سے لوگ یہاں شاید اس لیے آگئے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں آنا دولت کمانے کا ٹکٹ ہے‘‘۔ گزشتہ سال کمیونسٹ پارٹی کے ایک اہم راہنما بو ژی لائی کا سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد اہم ریاستی عہدیداروں پر اربوں ڈالر کے کرپشن کے بہت سے الزاما ت سامنے آئے ہیں جن میں وہ اپنے بچوں اور دیگر رشتے داروں کے ذریعے مختلف کاروباری سودے کرواتے ہیں یا انہیں اہم کمپنیوں پر فیصلہ ساز عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف چین میں غربت کی انتہائیں بھی عام نظر آتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 15 کروڑ لوگ ایک ڈالر سے بھی کم روزانہ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور بیجنگ اور شنگھائی کی سڑکوں پر ہزاروں لوگ فٹ پاتھ پر زندگی گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ داخلی ویزوں کے باعث ایک صوبے سے دوسرے میں جانے کے لیے ویزے کی ضرورت ہے جس کے باعث لاکھوں محنت کش غیر قانونی طور پر انتہائی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ مشکل ترین حالات میں کام کرنے والے محنت کش دنیا کے جدید ترین آلات تیار کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس ٹریڈ یونین کے بنیادی حقوق بھی موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ عرصے میں پورے چین میں بڑے پیمانے پر مزدوروں کی ہڑتالیں نظرآئیں جس میں وہ اجرتوں میں اضافے کے علاوہ دیگر مطالبات منوانے میں بھی کامیاب ہوئے۔
چین اور پاکستان کے سفارتی تعلقات مئی 1951ء میں قائم ہوئے تھے۔ اس کے بعد چین اور پاکستان کی ریاستوں کے درمیان باہمی مفادات کے باعث قربتیں بڑھتی گئیں لیکن چین میں ایک منصوبہ بند معیشت کی موجودگی میں یہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات بالکل مختلف نوعیت کے تھے۔ 1978ء تک پاکستان کو ملنے والی چینی امداد، امریکی سامراج کے خلاف چین کے سٹریٹیجک اور خارجی اثرورسوخ کو پروان چڑھانے کے لیے تھی لیکن چین میں سرمایہ داری کی استواری سے ان تعلقات اور ’’امداد‘‘ کی نوعیت ہی بدل گئی ہے۔ موجودہ دور میں چین بذات خود ایک ابھرتا ہوا سامراج ہے۔ چین اس وقت افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے۔ اس کی سرمایہ کاری کا کردار مغربی سامراجیت کی سرمایہ کاری سے زیادہ مختلف نہیں۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر سرمایہ کاری کا واحد مقصد منافعوں کا حصول ہوتا ہے اور منافعوں کے حصول اور انکی شرح میں مسلسل اضافہ استحصال کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان میں بھی ’’معاشی راہ داری کے معاہدوں‘‘ کے تحت جو چینی سرمایہ کاری ہوگی وہ محض چینی ا جارہ داریوں کے منافعوں میں اضافے کے لیے کی جائے گی۔ اس لیے ’’ہمالیہ سے اونچی‘‘ یہ دوستی چین اور پاکستان کے حکمرانوں کی دوستی ہے۔ عوام ا س دوستی سے مبرا ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس دوستی کا ’شکار‘ ہیں۔ چین کی مصنوعات کو دبئی اور مشرق وسطیٰ کی دوسری منڈیوں تک فضائی ترسیل کے لئے کم از کم 2000 میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتاہے جس سے ان مصنوعات کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور چینی سرمایہ داروں کی شرح منافع میں کمی آتی ہے۔ اسی طرح سمندری راستہ تقریباً 4000 ناٹیکل میل بنتا ہے۔ تجویز کردہ سنکیانگ گودار ہائی وے (نئے سلک روٹ) کے ذریعے چینی سرمایہ داروں کو ایک منافع بخش تجارتی روٹ میسر آئے گا اور منڈیوں تک مصنوعات کی رسد پر ہونے والا خرچ آدھے سے بھی کم ہوجائے گا۔ پاکستان میں ہونے والی چینی سرمایہ کاری کا مقصد صاف ظاہرہے لیکن یہ سرمایہ کاری اس خطے، خاص کر بلوچستان میں نئے تضادات کو جنم دے گی۔ معدنیات کی دولت سے مالا مال بلوچستان میں چین کا بڑھتا ہوا اثروروسوخ اور دنیا کے اہم ترین تجارتی روٹ پر واقع گوادر بندرگاہ پر اس کا تصرف کیا امریکہ کے کئے قابلِ قبول ہو گا؟ یقیناًنہیں! بلوچستان میں امریکہ و چین اور سعودی عرب و ایران کے درمیان جاری پراکسی وار پہلے سے ہی بلوچ عوام کو تاراج کر رہی ہے۔ پاکستانی ریاست کا چین کی طرف بڑھتا ہوا جھکاؤ سامراجی طاقتوں کے تضادات کو تیز تر کرے گا جس کے اثرات نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان پر پڑیں گے۔ متحارب سامراجی قوتوں کے لئے کام کرنے والے ریاست اور دہشتگرد گروہوں کے مختلف دھڑوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، نئے کھلاڑی بھی مارکیٹ میں لائے جائیں گے، اب تک ’’پر امن‘‘ خیال کئے جانے والے شہروں میں بھی دہشتگردی بڑھے گی اور مجموعی طور پر پاکستان کے سماجی اور ریاستی خلفشار میں اضافہ ہوگا۔
اس وقت چین پاکستان کو اسلحہ سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ 1960-70ء کی دہائیوں میں پاکستان کو اسلحے کی فروخت بڑی حد تک کمیشنوں اورمنافعے سے پاک تھی کیونکہ چین میں ایک ریاستی ملکیت کی منصوبہ بندمعیشت رائج تھی جس میں نجی دولت اور جائیداد کا بڑا اجتماع ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی بحالی چین اس نظام کی تمام تر غلاظتیں بھی ساتھ لائی ہے۔ ان میں بدعنوانی، سٹہ بازی، جسم فروشی اور حرص ولالچ سرفہرست ہیں۔ اس پس منظر میں بڑے پراجیکٹوں کے سائے تلے دونوں ممالک میں میں غربت اور محرومی بڑھے گی۔ ان پراجیکٹوں کو زیادہ سے زیادہ منافع بخش بنانے کے لئے پاکستان کے محنت کشوں کو مزید محروم کیا جائے گا۔ مہنگائی بڑھے گی کیونکہ اس نظام میں بے بہا اخراجات کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن چین میں محنت کش طبقہ اس معاشی تفریق کے خلاف سرگرم ہورہا ہے۔ ان کی بغاوت اس نظام کو بدلنے کا پیام بن کر پاکستان کے محنت کشوں کی نجات کے لیے مشعل راہ بنے گی جس کی ان کو کئی نسلوں سے تلاش ہے۔ چین میں سرمایہ داری اور کرپٹ بیوروکریسی کے خلاف محنت کش طبقے کی انقلابی تحریک پاکستان میں ان کے طبقاتی ساتھیوں کے ساتھ بھائی چارے اور نسل انسانی کی یکجائیت کو جنم دے گی۔ حکمرانوں کی ہوس، لالچ اور منافقت سے پاک محنت کشوں کا یہ رشتہ درحقیقت ہمالیہ کی اونچائیوں سے بلند ہوگاجو اس خطے کے اربوں انسانوں کو سرمایہ داری کی اذیت سے نجات دلائے گا!

متعلقہ:
’’ابھرتی‘‘ معیشتوں کی لڑکھراہٹ
چین: سرمایہ داری کی طرف لانگ مارچ
ویڈیو: چین کس راستے پر گامزن؟