گلوبل وارمنگ: پورے کرہ ارض کو تباہ کرتی سرمایہ داری

[تحریر: جاوید ملک]
اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ ایک حتمی وارننگ میں دنیا کے اندر بڑھتی ہوئی آلودگی کی حدت اور شدت کے متعلق جاری کر دہ ایک رپورٹ میں واضح انتبا ہ کیا ہے کہ اگر سرمایہ دار ریاستوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے موسموں کو تبدیل کر دینے والی اس کیفیت کو کنٹرول کرنے کے فوری اقدامات نہ کیے تو پوری دنیا ایک بڑی تباہی سے دوچار ہوجائے گی۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو سرمایہ دارانہ نظام اس کرۂ ارض پر موجود 7.2 ارب انسانوں میں سے 5.5 ارب انسانوں کے لیے پہلے ہی ایک ایسا عذاب بنا ہواہے جو انہیں موت سے پہلے موت کی کھائی میں پھینکتا چلا جارہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ 22 ہزار بچوں سمیت 25 ہزار سے زائد افراد غذائی قلت اور قابل علاج بیماریوں میں ادویات کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہلاک ہورہے ہیں۔ پاکستان میں اوسطاً تیس ہزار افراد روزانہ غربت کی لکیر سے نیچے گر جاتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی قوت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ سمیت تمام سرمایہ دارانہ ممالک میں حکومتیں عوا م کے ووٹوں سے نہیں بلکہ دنیا بھر کے چند سو سرمایہ داروں کی مرضی اور مفادات کے تحت بنائی اور مٹائی جاتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا میں بڑھتی ہوئی حدت کیوجہ سے ناصرف گلیشئر تیزی سے پگھل رہے ہیں بلکہ امریکہ فرانس جرمنی برطانیہ چین، جاپان، بھارت، سمیت دیگر ممالک میں آنے والے بڑے سیلابوں نے تاریخ کے نئے ریکارڈ قائم کر دیئے ہیں۔ پاکستان بھی گزشتہ چار سالوں کے دوران دو ایسے بدترین سیلابوں سے دوچار ہوچکا ہے جس کے نتیجہ میں بے گھر ہونے والے 28 لاکھ افراد ابھی تک چھتوں سے محروم ہیں جبکہ عالمی ماہرین آئندہ ماہ پاکستان کے اندر ایک اور بڑے سیلاب کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں دنیا کی کل آلودگی کا40 فیصد خارج کر رہی ہیں مگر امریکی ریاست یا وہاں کے سرمایہ دار اس آلودگی کے خاتمے کے لیے اپنی جیب ہلکی کرنے کو قطعی تیار نہیں ہیں۔ حال ہی میں امریکی حکومت کے ایک ترجمان نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ آلودگی کو کم کرنے کے لیے امریکہ کے محنت کشوں پر ٹیکس عائد کیا جائے اور یہی قانون پھر اقوام متحدہ کے ذریعے پوری دنیا کی ریاستوں سے منظور کراکے دنیا بھر کے پسے ہوئے عوام کو مہنگائی کی دلدل میں مزید گہرا دھنسا دیا جائے۔ تاہم سرمایہ دارانہ نظام کے سنجیدہ ماہرین نے دنیا بھر میں جاری تحریکوں کے پیش نظر اس تجویز کو رد کر دیا ہے، ان کے خیال میں سرمایہ داروں کے پھلائے ہوئے گند کو صاف کرنے کے لیے غریبوں پر عائد کردہ ٹیکس ان تحریکوں میں مزید شدت پیدا کرے گا جبکہ خود امریکہ کے اندر لوگوں کی آمدن منجمد ہوچکی ہے اور بیروزگاری تیز ی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق کرہ ارض کی فضاء میں کار بن ڈائی کا اخراج اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ماحولیات کی تبدیلی کو اب کسی صورت روکانہیں جاسکتا۔ سائنس کے بین الاقوامی جریدے ’’ٹیچر کلائمٹ چینج‘‘ میں شائع حالیہ تحقیق کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں عالمی درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب کے زمانے سے قبل کی سطح کے قریب رکھنا اب ناممکن ہے۔ اس تحقیق میں شامل کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق سال 2012ء میں عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 2.35 ارب ٹن تھا جو 2011ء کے مقابلے میں 2.6 فیصد زیادہ ہے۔ اگر انہی اعدادوشمار کا موازنہ 1990ء کی سطح سے کیا جائے تو یہ اضافہ 58 فیصد زیادہ ہے۔ اس تحقیق سے متعلقہ اعدادوشمار سائنس کے ایک اور مغربی جریدے ارتھ سسٹم سائنس ڈانا ڈسکشن میں بھی شائع کیے گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں دوحہ میں منعقد ہونیوالی اقوام متحدہ کی کانفرنس میں کئی ماہرین کا کہنا تھا کہ 2 سینٹی گریڈ اضافے سے کم سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بھی کرہ ارض کیلئے خطرناک ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا میں موسمیات کی تبدیلی پر تحقیق کرنے والے شعبے ٹنڈال سینٹر کی ڈائریکٹر کورن لے کیوری کے مطابق دوحہ کانفرنس کے موقع پر ان اعدادوشمار کا اجراء اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں مستقل اضافہ ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سائنسدانوں کی بات کوئی بھی نہیں سن رہا۔ آلودگی کا موجودہ اخراج اتنا زیادہ ہے کہ ماحولیات پر اس کے خطرناک اثرات ماہرین کے لیے انتہائی تشویش کا باعث بن چکے ہیں اور اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایک انقلابی منصوبے کی ضرورت ہے۔
تحقیقی مقالے کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کا 1980ء کی دہائی میں اوسط اخراج 1.9 فیصد ریکارڈ کیا گیا تھا اور 1990ء کی دہائی میں یہ 0.1 رہا لیکن 2000ء کے بعد سے یہ 103 کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ عالمی موسمیاتی تنظیم ڈبلیو ایم او نے اپنی ایک حالیہ تحقیق میں کہا ہے کہ 2011ء میں گرین ہاؤس گیس کا فضاء میں اخراج ریکارڈ سطح پر رہا۔ دوسری جانب گرین ہاؤس گیس بلیٹن کی سالانہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سال 2011 ء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح 391 فی 10 لاکھ حصے تک پہنچ چکی تھی۔ ڈبلیو ایم او کی رپورٹ کے مطابق آلودگی پھیلانے والی دوسری بڑی گیس میتھین بھی فضاء میں اب تک کی اپنی سب سے بلند سطح پر ہے۔ اس وقت ہماری فضا ء میں میتھین کی سطح 1 ہزار 813 حصے فی ارب ہے جو کہ صنعتی انقلاب سے پہلے کی مقدر سے دو تہائی زیادہ ہے۔ ڈبلیو ایم او کے مطابق سال 1750ء کے بعد سے 375 ارب ٹن کاربن ہماری فضاء میں شامل کی جاچکی ہے جس کا 50 فیصد حصہ اب تک موجود ہے۔ ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل میشل یارو کے مطابق یہ اربوں ٹن اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ آنے والی کئی صدیوں تک ہماری فضاء میں موجود رہے گی جس کی وجہ سے ہمارا سیارہ مزید گرم ہوگا اور اس پر موجود زندگی پر اس کا منفی اثر ہوگا۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے میں سمندر کا کردار انتہائی اہم ہے لیکن اس کی وجہ سے سمندر کا پانی بھی بہت زیادہ تیزابی ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے زیر زمین خوراک کے ذرائع اور کورل ریفس بھی نقصان کا شکار ہورہی ہیں۔
حال ہی میں امریکی ریاست ہوائی میں واقع ایک تجربہ گاہ میں کی جانیوالی تحقیقات کے مطا بق پہلی مرتبہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدر 400 فی 10 لاکھ حصے سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری فضاء کے ہر 10 لاکھ مالیکیولز میں سے 400  کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ہیں۔ امریکہ کے ماؤنا لوانامی آتش فشاں پر واقع اس اسٹیشن میں 1958ء سے اب تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے فضاء میں خراج کا تمام ریکارڈ موجود ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے دنیا میں 30 لاکھ سے 50 لاکھ برس قبل کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 400 فی دس لاکھ حصے تک پہنچی تھی لیکن اس وقت کرہ ارض پر انسانوں کا وجود نہیں تھا۔ جبکہ اس وقت ماحول آج کے مقابلے میں خاصا گرم تھا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انسانوں کی پیدا کردہ سب سے اہم گرین ہاؤس گیس ہے جو حالیہ عشروں میں زمین کے درجہ حرات میں مسلسل اضافے کا باعث رہی ہے۔ یہ گیس کوئلہ گیس اور تیل جلانے سے پیدا ہوتی ہے اور فضاء میں جمع ہوجاتی ہے۔ عام طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں سردیوں کے دو ر ان اضافہ ہوجاتا ہے جب کہ گرمیوں میں شمالی نصف کرے میں ربیع کے موسم کے دوران یہ مقدار کم ہوجاتی ہے کیونکہ اس دوران جنگلات اور پودے اس گیس کی فضا سے جذب کر لیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ممکنہ طور پر آنے والے مہینوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 400 حصے فی 10 لاکھ سے کم ہوجائے گی لیکن اس کے باوجود گیس کی مقدار میں اضافے کا مجموعی رجحان جاری رہے گا۔
دنیا میں بسنے والے انسانوں اور خود دنیا کو بچانے کے لیے اب اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہا کہ جنونی سرمایہ داروں کیخلاف ابھرنے والی تحریکوں کو طبقاتی سمت اور انقلابی قیادت دیتے ہوئے ایک عالمگیر تحریک کی شکل دی جائے تاکہ اس مردہ نظام کی تعفن زدہ لاش کو دفن کیا جاسکے۔ ایک سوشلسٹ سماج میں منافعوں کی بجائے انسانیت کی فلاح اور مجموعی مفادات کو دیکھا جاتا ہے۔ آج پیداواری قوتیں اور ٹیکنیک اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ اگر ایک انسان صرف 58 منٹ کام کرکے زندگی کی تمام ضروریات حاصل کر سکتا ہے۔ یوں چند سالوں میں دنیا بھر سے بھوک، افلاس اور بیروزگاری کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ عظیم انقلابی دانشور لیون ٹراٹسکی نے سرمایہ دارانہ نظام کو ایک شیطان قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ شیطان کبھی بھی اپنے پر رضاکارانہ طور پر کاٹنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے دنیا بھر کے محنت کشوں نوجوانوں کسانوں، اور خواتین کو مل کر ایک عالمگیر انقلاب برپا کرنا ہوگا اس کے بعد ہی اس سیارے پر ایک ایسی زندگی کا تصور کیا جاسکتا ہے جو لالچ، خوف بیماری، بیروزگاری سے پاک اور وسائل سے مالا مال ہوگی۔ یہی وہ دور ہوگا جب حقیقی معنوں میں انسان کائنات کی تسخیر کا عمل شروع کر سکے گا۔‘‘

متعلقہ:
گلوبل وارمنگ: پورے کرہ ارض کو تباہ کرتی سرمایہ داری