[تحریر: جاوید ملک]
گیارہ مئی کو پاکستان کی تاریخ میں ہونے والے دسویں انتخابات بلاشبہ پاکستان کے تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات تھے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے قومی وصوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے لیے الیکشن کے اخراجات کی مد میں مخصوص رقوم مختص کی گئی تھیں مگر ہر امیدوار نے مختلف ذرائع سے الیکشن کمیشن کی طرف سے طے کی جانے والی رقم سے کئی گنا بڑھ کر زیادہ خرچ کیا اور پیسے کے ذریعے لڑے جانے والے ان انتخابات میں ایک رپورٹ کے مطابق 131 ارب روپے خرچ کیے گئے، عین ممکن ہے انتخابی مہم میں لٹایا جانے والا پیسہ اس سے کہیں زیادہ ہو، تاہم مختلف نان ایشوز پر بے تکان بحثوں میں مصروف میڈیا کے دانشور وں نے دانستہ اس امر سے چشم پوشی کی۔ ان انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان کے اندر اپنی حکومتیں بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ عمومی طور پر سماج کی وہ پرتیں جنہیں ذرائع ابلاغ اور ہمارے لیڈر انتخابات کے ذریعے تبدیلی کی یقین دہانیاں کرا چکے ہوتے ہیں وہ خود کواس امید کی ڈور کے ساتھ باندھ لیتے ہیں کہ نئی آنے والی حکومت پہلے سے جاری جبر اذیت بیروزگاری مہنگائی اور دوسرے مسائل پر ناصرف قابو پائے گی بلکہ ان کی زندگیوں میں کسی حد تک آسانیاں پیدا کر دے گی۔ مگر ایک ایسا نظام جس کی بنیادیں منہدم ہوتی جارہی ہوں اور جس کے اندر کوئی بھی اعشاریہ مثبت ترقی کی طرف نہ بڑھ رہا ہو بھلا کس طرح کسی ملک اور اس ملک میں بسنے والے عوام کے لیے بہتری کی کوئی سبیل پید اکر سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے پہلے ہی پاکستان کی تمام بڑی چھوٹی پارٹیوں میں سے کسی ایک پارٹی نے بھی ایسا منشور یا پروگرام نہیں دیا جس میں توانائی کے بحران، مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی جسے سلگتے مسائل کے حل کے لئے کوئی ٹھوس پروگرام پیش کیا گیا ہو۔ مفت تعلیم، علاج، رہائش اور دیگر بنیادی سہولتیں دینے کا کوئی باقائدہ پروگرام دینا تو دور کی بات ایسا کوئی وعدہ بھی نہیں کیا گیا۔
گزشتہ پانچ سال تک پاکستان کے اندر محنت کش طبقے کی روائتی پارٹی یعنی پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان کے پسے ہوئے طبقات کی معاشی سماجی بربادی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ محنت کش ہی پیپلز پارٹی کی حقیقی طاقت رہے ہیں اور ہمیشہ تبدیلی کے خواب کی تعبیر کے لیے اسے اقتدار میں لیکر آتے رہے ہیں، لیکن پیپلز پارٹی قیادت نے انہیں ہمیشہ مایوس کیا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے گیارہ کروڑ سے زائد عوام کو دووقت کی روٹی میسر نہیں ہے جولائی 2008ء سے لیکر دسمبر 2012ء تک ملک کے مجموعی قرضوں میں تیز رفتاراضافہ ہوا ہے۔ اب یہ قرضے 15000 ارب روپے کی حد کو چھور ہے ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ افراط زر میں گزشتہ چھ سال کے دوران کوئی کمی نہیں لائی جاسکی اور یہ ہندسہ ان سالوں میں دس فیصد سے زیادہ ہی رہا ہے۔ دوسری طرف حکمران طبقات نے عالمی مالیاتی اداروں کی تابعداری کرتے ہوئے جہاں پر جو استحصالی پالیسیاں روارکھیں اس کے نتیجے میں گزشتہ بارہ برسوں میں تقریباً 12000 ارب روپے غریب اور سفید پوش طبقے سے سرمایہ دار اور کالا دھن رکھنے والی اقلیت کی طرف منتقل ہوگئے۔ اس خطیر رقم کا اکثر حصہ بیرونی ممالک کے بینکوں میں منتقل کیا جاچکا ہے۔ اس عرصے میں توانائی کے بحران او ر عوامی مفادات کی پالیسیوں کو نظر انداز کرنے کیوجہ سے تیل کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں اور درآمدات مسلسل بڑھتی رہیں۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق آئندہ بجٹ میں بجٹ خسارہ 2100 ارب روپے کے تاریخی حجم تک پہنچ سکتا ہے۔
موجودہ گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کے اندر یورپ امریکہ اور دوسرے سرمایہ دار ممالک گزشتہ چار سال سے مالی بحران سے باہر آنے کی بجائے اس کی دلدل میں مسلسل دھنستے چلے جارہے ہیں، اس تناظر میں بھلا یہ کیسے کہا اور کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسی کمزور اور غیر ملکی قرضوں کے سہارے چلنے والی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے؟ یہ ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی آج اس پیپلزپارٹی کی ضد بن چکی ہے جس کی بنیادی 30 نومبر1967ء کو ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے دیگر اٹھائیس ساتھیوں نے لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں رکھی تھی۔ سوشلسٹ بنیادوں پر بننے والی اس پارٹی کو راتوں رات ایوب آمریت کو اکھاڑ پھینکنے والی محنت کشوں کی تاریخی تحریک نے ملک کی سب سے بڑی پارٹی بنا دیا تھا۔ مگر اس وقت پارٹی کے اندر ایک انقلابی کیڈر کے فقدان نے پاکستان کے عوام کو اس ملک کا اصل حکمران بنانے کی بجائے اس روایت کا حصہ بنا دیا جسے لوگ پاکستان پیپلزپارٹی کے نام سے جانتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی آج ان نظریاتی بنیادوں سے ہٹ چکی ہے اور مکمل طور پر عالمی سامراج کی نمائندہ بن چکی ہے۔ یہ عمل کو ئی ایک رات میں نہیں ہو ابلکہ جب 10 اپریل 1986ء کو بینظیر بھٹو لاہور ایئر پورٹ پر اتریں اور وہاں پر لاکھوں افراد نے ان کا تاریخی استقبال کیا۔ اس موقع پر انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ وہ ’’بدلے کی سیاست‘‘ نہیں کریں گی۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان میں اجارہ دار طبقہ اور امریکی سامراج پیپلزپارٹی سے کم اور اس کے اندر موجود محنت کشوں کی روایت سے ہمیشہ خوفزدہ رہا اور انہوں نے پیپلزپارٹی کو ضرورت پڑنے پر شریک اقتدار تو کیا مگر مکمل اقتدار کبھی نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ، جو بھٹو کی بنائی ہوئی پیپلزپارٹی کے نظریات کو خیر باد کہہ چکی تھے، نے دھڑا دھڑ پارٹی کے اندر ضیاء الحق کے قریبی ساتھیوں، سرمایہ داروں اور کالا دھن رکھنے والوں کو خوش آمدید کہنا شروع کر دیا۔ اس طرح 1988ء، 1993ء اور پھر 2008ء میں جو پیپلزپارٹی ہمیں دیکھنے کو ملتی رہی اس کی نظریاتی شکل مسخ سے مسخ تر ہوتی چلی گئی اور آج صورتحال یہ ہے کہ پوری پارٹی کے اندر سوشلسٹ بنیادوں پر پارٹی ڈھانچہ بنانے اور پھر محنت کشوں کو اقتدار میں لانے کا پروگرا م پر کام کرنا تو دور کی بات ایسا سوچنے والوں کو بھی پارٹی سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے بنیادی نعرے ’’سوشل ازم ہماری معیشت‘‘ کو پارٹی منشور سے خارج کر دیا گیا ہے اور آج یہی وجہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی سندھ تک سمٹ کر رہ چکی ہے۔
ایشین مارکسسٹ ریویو کے مطابق 1970ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے ہر امیدوار کا الیکشن پر ہونے والا خرچہ اوسطاً 32 روپے فی کس تھا جبکہ 2013ء کے انتخابات میں نظریاتی طور پر تباہ حال پارٹی کو ملک کے سب سے زیادہ کالا دھن رکھنے والوں کو ٹھیکے پر دے دیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ منو بھائی نے گزشتہ دنوں ایک جیالے کی کتھا یوں لکھی کہ ’’جب اس نے ووٹ ڈالنے کے لیے بیلٹ پیپر حاصل کیا تو اس نے سب سے پہلے تیر کے نشان کو آنکھوں سے لگایا، پھر چوما اور پھر بلے پر مہر لگا دی۔‘‘ یہ پیپلزپارٹی کے کسی ایک حامی کی کیفیت نہیں ہے بلکہ ہر اس محنت کش کو درپیش صدمے اور مشکلات کی عکاسی ہے جس کی تین نسلوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس ملک کے اندر شعوری طور پر جو نظریاتی بحران پیدا کیا، اسے غریب دشمن طبقات نے خوب استعمال کیا۔ اس کا اندازہ الیکشن سے قبل اور الیکشن سے بعد ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر بیٹھے کف اڑاتے اور سطحی دلائل کی بھرمار کرتے ہوئے ان دانشوروں کو بھی دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے اور اخبارات کے کالم سیاہ کرنے والے بڑے صحافیوں کی تحریریں بھی روز یہی تاثر دے رہی ہیں کہ اب آئندہ معرکہ پاکستان کے محنت کشوں یا امریکی سامراج کے گماشتگوں کے درمیان نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہی ہوگا۔ امریکی میڈیا کی طرح یورپی میڈیا بھی اس تاثر کو بھرپور طریقے سے پھیلا رہا ہے تاکہ محنت کشوں کے اندر پنپنے والے غم وغصے سے اس نظام کو بچایا جاسکے اور یہاں پر آنے والے دنوں میں دائیں بازو کی حکومتوں کے ذریعے جبر کی کیفیت کو برقرار رکھ کر تیزی سے پرائیوٹائزیشن کی جائے۔ بجلی اور دوسری چند ایک اشیاء پر محنت کشوں کو جو مراعات تاحال میسر ہیں ان کا خاتمہ کیا جاسکے اور اس طرح محنت کشوں کے جسموں سے خون کے آخری قطرے بھی نچوڑ لیے جائیں۔ سرمایہ داری کے ایک سنجیدہ تجزیہ نگار اپنے تازہ ترین مضمون میں لکھتے ہیں کہ آنے والی حکومت کو پانچ ارب ڈالر کے قرض کے لیے فوری طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کر لینا چاہیے اور ملک کے اندر قومی اداروں کی نجکاری کو معاشی ایجنڈے کا بنیادی حصہ بنایا جائے، پہلے ان اداروں کو بیل آؤٹ پیکج دیکر ان میں سے ملازمین کو نکالا جائے اور جب یہ ادارے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں تو انہیں فوری فروخت کر دیا جائے۔ اسی طرح توانائی اور ووسرے شعبوں میں دی جانے والی سبسڈی کا فوری طور پر خاتمہ کرنا لازم ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پوری دنیا میں ٹریکل ڈاؤن معیشت کی یہ پالیسی ناکام ہوچکی ہے اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر خطوں میں پھر سے بڑے اداروں کو قومی ملکیت میں لینے کے شاندار نتائج نکل رہے ہیں تو پھر پاکستان میں یہ نسخہ کیمیا آزمانا کیوں لازم ہے؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ یہ نسخہ عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کی واپسی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے منافعوں میں بڑھوتری کاباعث بھی ہے اور یہی نسخہ کیمیا تاریخ کے دھارے میں تاخیر سے داخل ہونے والے یہاں کے حکمرانوں کی لوٹ مار کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے جنہوں نے سیاست کو تجارت بنادیا ہے اور یہ ساری تجارت ریاست کو دن بدن مسمار کرتی چلی جارہی ہے۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کی غداریوں کی وجہ سے محنت کش طبقے کے اندر پائی جانے والی عمومی بے حسی یا جمود کی یہ کیفیت کیا مسلسل رہے گی؟ اس کا واضح جوا ب یہ ہے کہ ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ حالات بدلتے ہیں اور حالات و واقعات انسانوں کو تبدیل کرکے رکھ دیتے ہیں۔ انسانوں کی تبدیل ہوتی ہوئی سوچیں انہیں اپنی اور اپنی نسلوں کی بقاء کے لیے تحریکوں میں آنے پر مجبور کر دیتی ہیں، جیسا ہم اس وقت یورپ سمیت دنیا کے بہت سارے خطوں میں دیکھ رہے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب آنے والے دنوں میں لوڈشیڈنگ، معاشی بدحالی، لاقانونیت، اور بیروزگاری سے تباہ حال محروم لوگوں پر کٹوتیوں کے ساتھ ساتھ مزید مہنگائی کے بم گرائے جائیں گے، جب صحت اور تعلیم پہلے سے زیادہ مہنگی ہوگی، جب امیر اور غریب کی خلیج اور تیزی سے وسیع ہو گی تو پھر ان کے پاس تحریکوں میں اترنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ ایسے میں پاکستان پیپلزپارٹی کا کردار کیا ہوگا؟ پیپلزپارٹی اس وقت موقع پرست قیادت، سامراج اور ریاستی اشرافیہ کے خونی پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت سے کسی اچھائی کی توقع رکھناخام خیالی ہوگی۔ ہاں اس امر کے زیادہ امکانات ہیں کہ آنے والا وقت پیپلزپارٹی کے اندر ایک واضح طبقاتی لکیر کھینچ دے گااور پیپلزپارٹی کو دہائیوں تک اپنا نجات دہندہ سمجھنے والا محنت کش طبقہ اس کی موقع پرست اور غدار قیادت کو پارٹی سے نکال باہر کرے گا۔ پاکستان کے محنت کش اور نوجوان انقلابی تحریک کا حصہ بن کر پاکستان سے اس نظام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اکھاڑ پھینکیں گے جس کے زیر اثر گندم ایکسپورٹ کرنے والے ملک کے بارہ کروڑ افراد کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔