سربجیت سنگھ کا قتل: تخریب یا ترکیب؟

[تحریر: لال خان]
گزشتہ جمعہ کے روز کوٹ لکھپت جیل میں چھ قیدیوں کی جانب سے سزائے موت کے ہندوستانی قیدی سربجیت سنگھ پر کیے گئے وحشیانہ حملے اور جناح ہسپتال لاہورکے انتہائی نگہداشت یونٹ میں اس کی موت کے بعد ایک مرتبہ پھر ہندوستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات تناؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ سربجیت پر اینٹوں سے حملہ کیا گیا جس سے اس کے سر ہڈی کئی جگہ سے ٹوٹ گئی اور وہ شدید زخمی ہوگیا۔ سربجیت مبینہ طور پر پاکستانی پنجاب میں 1990ء میں ہونے والے دھماکوں میں ملوث تھا جن میں 14 لوگ مارے گئے تھے جبکہ اس کے خاندان کے مطابق وہ شراب کے نشے میں غلطی سے سرحد پار کر گیاتھا۔ سربجیت کے وکیل کے مطابق، 2001ء میں اسلامی بنیاد پرستوں کی جانب سے ہندوستانی پارلیمان پر حملے کے مبینہ مجرم کشمیری علیحدگی پسند محمد افضل گرو کو دہلی میں دی جانے والی پھانسی کے بعد سے سر بجیت سنگھ کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اس حملے میں 13 افراد جاں بحق ہو گئے تھے جس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے اور دونوں ممالک میں جنگی جنون کو ہوا دی گئی۔ سرحدوں پر فوجیں آمنے سامنے تھیں اور وزیرِ اعظم واجپائی کی بی جے پی سرکار پر رجعتی میڈیا اور مذہبی دائیں بازو کی جانب سے پارلیمان پر مسلح حملے کے جواب میں پاکستان پر حملہ کر دینے کا بہت دباؤ تھا۔ ایک موقع پر دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین جنگ ناگزیر دکھائی دے رہی تھی لیکن امریکی سامراج کی مداخلت نے واجپائی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ تاہم ایسا بہت سخت کوششوں کے بعد ہی ممکن ہو سکا اور کئی سامراجی کارپوریشنوں کو واجپائی کو جنگ کی صورت میں ہندوستان سے اپنا سرمایہ باہر نکالنے کی دھمکی دینا پڑی، کسی تصادم کی صورت میں دونوں ممالک میں سرمایہ کاری کرنے والی سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو یقیناًبھاری مالی نقصان اٹھانا پڑتا۔

پاکستان میں گرفتار ہونے سے پہلے سربجیت سنگھ کی ایک تصویر

اسی طرح پاکستانی میں بھی مذہبی دایاں بازو جنگی جنون کو ہوا دینے میں پیش پیش تھا، یہاں تک کہ پاکستان میں نام نہاد سیکولر اور لبرل پارٹیاں بھی نفرت، جنگ اور بربادی پھلانے کی اس مہم میں جماعت الدعوۃ اور دیگر رجعتی جماعتوں ساتھ شامل تھیں۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں اور انتہا پسند تنظیموں کو کبھی بھی وسیع تر سماجی بنیادیں حاصل نہیں ہو سکیں۔ ملک بھر میں مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں ہونے والے معصوم انسانوں کے قتل عام اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس وحشت کی خاموش حمایت کی وجہ سے ان کا سیاسی اثرو رسوخ اب اور بھی کم ہوگیا ہے۔ 2001ء میں بھی ان کے رجعتی غبارے سے بہت جلد ہوا نکل گئی تھی۔
منموہن سنگھ کی موجودہ حکومت ماضی کی بی جے پی سرکاروں سے زیادہ مختلف نہیں ہے جس کا اظہار افضل گرو کی آدھی رات کو اجلت میں پھانسی اور جیل میں ہی اس کی تدفین سے ہوتا ہے۔ آخری ملاقات تو درکنار گرو کے خاندان کو اس کی پھانسی کے بارے میں مطلع تک نہیں کیا گیا۔ افضل گرو کی پھانسی متنازعہ تھی اور ہندوستان کے غالب میڈیاکے کچھ حصوں نے اس سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کیا، جبکہ دانشورں کے ایک قابلِ ذکر حلقے جن میں زیادہ تر بائیں بازو کے لوگ شامل ہیں، نے اس فیصلے کو سراسر تعصب پر مبنی قرار دیا ہے۔ سربجیت سنگھ کے قتل کی کہانی بھی اتنی ہی مبہم ہے۔ وہ کون سے ’قیدی‘ تھے جنہوں نے اس پر جان لیوا حملہ کیا؟ ایک درجن سے زائد افراد کی موت کے ذمے دار ایک غیر ملکی جاسوس کو عام قیدیوں کے ساتھ رکھا ہی کیوں گیا؟ منافقت اور سازشی کہانیوں (Conpiracy Theories) سے بھرے سماج میں متعدد متضاد توجیحات سامنے آرہی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی نام نہاد آزاد عدلیہ میں مذہبی تعصب کے رجحانات بہت گہرے سرائیت کیے ہوئے ہیں جس کا صاف اظہار لال مسجد اور دیگر کئی مقدمات میں مذہبی جنونیوں کے حق میں دئے جانے والے فیصلے ہیں۔ سیکولرازم کا راگ الاپنے والی ہندوستانی ریاست بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ غرضیکہ مذہبی اور قومی شاؤنزم کے تعصبات دونوں اطراف کی اشرافیہ اور ان کی ریاستوں میں صاف ظاہر ہیں۔

سربجیت کے اہل خانہ

دونوں طرف حکمران اشرافیہ ان نفرتوں کو استعمال کر تے ہوئے مصنوعی بیرونی خطرات اور مذہبی منافرت کو ہوا دے کر د اخلی بغاوتوں کو کچلتی ہے۔ یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے۔ برطانوی سامراج نے بھی مذہب کے نام پر ’تقسیم کرو اور حکومت کرو ‘کی پالیسی اپنا کر بر صغیر میں اپنے نو آبادیاتی اقتدار کو طول دیاتھا۔ یہاں سے جاتے ہوئے بھی طبقاتی جدوجہد کو دبانے اور سرمایہ دارانہ لوٹ مار اور سامراجی استحصال کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے انہوں نے اسی پالیسی پر عمل کیا۔ انتہائی شاطر سامراجی رہنماونسٹن چرچل نے ہندو مسلم مخالفت کو ’’ہندوستان میں برطانوی حکمرانی کی بنیاد‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ ’’اگر یہ حل ہو جائے تو اس امن وہ متحد ہو کر یہ لوگ ہمیں نکال باہر کریں گے۔‘‘ریڈ کلِف لائین کے دونو ں جانب مذہبی رجعت کا پنپنا تقسیم کا ناگزیر نتیجہ ہے اور سامراجی ’پلان‘ کے عین مطابق ہے۔
تقسیم کے بعد ہندوستان میں ہونے والی معاشی، سماجی اور سیاسی زوال پذیری کا اعتراف خود ہندوستان کے بانی وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو نے کیا ہے۔ نہرو نے ماؤنٹ بیٹن کے بعد ہندوستان کے گور نر جنرل بننے والے بنگالی راجاگوپالاچاری کو مئی1948میں لکھا کہ ’’ہماری سیاست ہر طرح کے اصل کردار اور اخلاقی بنیادوں سے عاری ہو چکی ہے اور ہم مکمل طور پر موقع پرست بن چکے ہیں۔ ۔ ۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ ہم تیزی سے گرتے ہوئے اپنے نکتہِ نظر اور عمل میں رجعتی ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘ نام میں سیکولر ہونے کے باوجود، تب سے ہندوستان میں صورتحال بد ترہی ہوئی ہے۔ پاکستان میں سول سوسائٹی اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد ’لبرل‘ ہوجانے والے سابقہ بائیں بازو کو لے دے کے جناح کی ایک تقریر ہی ملتی ہے جس میں سیکولر ازم کا ذکر ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ مذہبی بنیادوں پر بنے والے اس ملک میں پہلے دن سے ہی سیاست اور ریاست پر مذہب حاوی رہا ہے۔ سات ہزار سال پرانی تہذیب کو مذہب کے نام پر چیر کے بننے والا ملک کبھی سیکولر نہیں ہوسکتا۔ 7 ستمبر1947ء کو جناح نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھاکہ ’’اسلام کی سرزمین میں کمیونزم نہیں پنپ سکتا۔ ۔ ۔ دو عظیم جمہوری (سرمایہ دار) ممالک سے دوستی پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے جو برطانیہ اور امریکہ ہیں۔‘‘
گزشتہ پینسٹھ برسوں میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ساڑھے چارجنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ مذکرات برائے مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ لیکن ہر مرتبہ شروع سے آغاز کرنا پڑتا ہے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ در حقیقت دونو ں ممالک کے حکمران طبقات نہ تو مکمل جنگ کر نے کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی وہ امن برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اس شیطانی چکر کے ذریعے کروڑوں انسانوں کو متذبذب اور محکوم رکھا جاتا ہے جو پہلے ہی ذلت، غربت، بیماری، دہشت گردی اور محرومی کے مارے ہوئے ہیں۔ جب بھی بحران گہرا ہوتا ہے رجعتی قوم پرستی کو ابھارنے کے لیے افضل گرو اور سربجیت سنگھ جیسے ’واقعات‘ رچائے اور استعمال کیے جاتے ہیں جن کا مقصد مجبور عوام کو مایوس اور ملغوب کرنا ہوتا ہے۔ ہندو اور اسلامی بنیاد پرست ایک دوسرے کے مظالم کے سہارے چل رہے ہیں اور اسی بناد پرستی اور تعصب کو بارڈر کے دونوں اطراف میں قائم ریاستیں استعمال کرتی ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان سامراجی عسکری صنعت سے اسلحہ خریدنے والے چھ بڑے ممالک میں شامل ہیں چنانچہ سامراج کا مفاد اس تناؤ کو دھماکہ خیز سطح سے کچھ نیچے رکھنے میں ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ ان دو مخالف ریاستوں کے درمیان امن کی ہر کاوش کا بھی خیر مقدم کرتے نظر آتے ہیں۔
لیکن جعلی لڑائی اور جعلی دوستی کی یہ کیفیت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ مجبور عوام کو اشرافیہ کی غداری کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہو گا جس نے انہیں نسل در نسل برباد کیا ہے۔ لیکن وہ سیکولر ازم، امن، عوام کے ملاپ، سرمایہ داروں کی جمہوریت اور پیٹی بورژا لبرل ازم کے کھوکھلے نعروں پر نہیں اٹھیں گے۔ ان کے سلگتے ہوئے سماجی اور معاشی مسائل اور ان کے حل کی انقلابی جدوجہدہی برصغیر کے عوام میں تحرک پیدا کرے گی۔ یہ مسائل اور ان کی وجوہات پورے برصغیر بلکہ پوری دنیا میں ایک ہیں۔ جب محنت کش عوام یہ جان لیں گے کہ ہندوستان اور پاکستان کے حکمرانوں کے مفادات مشترکہ ہیں، تو وہ بھی طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو کر اس ذلت، تکلیف، غربت اور محرومی کے خاتمے کی جدو جہد کریں گے۔ یہ اتحاد اشرافیہ کے استحصالی نظام کے لیے موت کا پروانہ ہو گا جوبرِ صغیر کے ڈیڑھ ارب سے زائد محکوم انسانوں کا خون، پسینہ اور آنسو نچوڑ رہا ہے۔

متعلقہ:
پاک بھار ت تعلقات؛ مصنوعی دشمنی جعلی دوستی

اداریہ جدوجہد: سرحدوں کا تناؤ

مذاکرات کے لئے مذاکرات

یومِ پاکستان: یہ ’شاخ نور‘ جسے ظلمتوں نے سینچا ہے

پاک بھارت ویزے کا گھن چکر

23مارچ؛ دو قومی نظریے کا دیوالیہ پن