ہوگو شاویز کی میراث اور انقلاب وینزویلا کا مستقبل

[تحریر: لال خان]
کراکس اور دوسرے کئی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کی گلیوں اور سڑکوں پر لاکھوں افراد اس شخص کی موت کا سوگ منانے اور اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں جس نے محروموں اور محنت کشوں کی جدوجہد کا علم اس انداز میں بلند کیا جس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن شاویز کی موت کا غم صرف وینزویلا اور لاطینی امریکہ تک محدودنہیں بلکہ ساری دنیا کے با شعور محنت کش اور عوام اس صدمے کو محسوس کر رہے ہیں۔ وینزویلا میں مظاہرین یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ ’’ہم سب شاویز ہیں‘‘ اور ’’شاویز زندہ ہے‘‘۔ کوئی حادثہ نہیں کہ مشرقی کراکس کے بورژوا علاقوں اور (امریکی شہر) میامی میں جشن کا سماں ہے اور ردِ انقلابی سرِ عام خوشیاں منا رہے ہیں۔ سامراجی، دایاں بازو اور ساری دنیا کے حکمران اشرافیہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ دو سال سے سرطان کے مرض سے بر سرِ پیکار شاویز اٹھاون برس کی نسبتاً کم عمر میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کئی انتخابات جیت کر چودہ برس تک وینزویلا کا صدر رہنے کے بعد اس کی میراث محنت کشوں کی کئی نسلوں کے لیے امید کی کرن بن گئی ہے او ر دنیا بھر کے حکمران طبقات اور ظالم اس سے خوفزدہ رہیں گے۔

فروری 1992ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد شاویز میڈیا کے سامنے شکست تسلیم کر رہے ہیں

ہوگو شاویز ایک سکول ٹیچر کا بیٹا اور فوجی افسر تھا جس نے 1992ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے وینزویلا کی ظالمانہ استحصالی اشرافیہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی۔ اسے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ رہائی پانے کے بعد اس نے مجبور لوگوں کی نجات کے پروگرام پر مہم چلائی اور 1998ء کے انتخابات میں کامیاب ہو گیا۔ اس وقت وہ کوئی اعلان کردہ سوشلسٹ نہیں تھا بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک انقلابی جمہوریت پسند تھا،لیکن جب شاویز نے قومی جمہوری انقلاب یا بورژوا انقلاب کے فریضے پورے کرنے اور وینزویلا کے عوام کی اکثریت کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کرنے کی کوشش کی تو اسے وینزویلا کی بورژوازی اور سامراج کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اپریل 2002ء میں امریکی سامراج اور مقامی اشرافیہ کی پشت پناہی سے ایک فوجی بغاوت میں اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ لیکن 48 گھنٹوں میں ہی وینزویلا کے عوام، فوج کے نوجوان افسران اور سپاہیوں کی پر زور تحریک نے اس رد انقلابی بغاوت کو شکست دے دی۔ محنت کش عوام کے انقلابی ابھار کے ذریعے شاویز کو کراکس واپس لا کر پھر سے صدر بنادیا گیا۔ یہ شاویز اور وینزویلا کے انقلاب کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ تھاجس سے ثابت ہوا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سوشلزم مرا نہیں۔ اس کے بعد شاویز اکیسویں صدی کے سوشلزم کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ بڑے پیمانے کی اصلاحات کی گئیں جن سے آبادی کی بڑی تعداد کو ذلت، غربت اورغلاظت سے باہر نکالا گیا۔ صنعت اور معیشت کے بڑے شعبوں اور کئی جاگیروں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا جن میں سامراجی اجارہ داریاں اور کارپوریٹ سرمایے کے مفادات بھی شامل تھے۔ عالمی بورژوا میڈیا میں شاویز کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کیا گیا اور شدید مہم چلائی گئی اور سرمایہ داری کے مفادات کا تحفظ کرنے والے دانشوروں اور کارپوریٹ میڈیا نے شاویز کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ شاویز ’تاریخ کے خاتمے‘ اور ’تہذیبوں کے تصادم‘ کی تھیوریوں کو مسترد کر رہا تھا۔ ایک نئے عزم کے ساتھ اس نے سوشلزم کو اپنانا شروع کیا جس کے اثرات پورے لاطینی امریکہ اور اس سے کہیں آگے تک پھلنے لگے۔ پھر 2008ء میں عالمی سرمایہ دارانہ بحران کے بعد ابھرنے والی طبقاتی جدوجہد کی ایک نئی لہر کے ساتھ اس کا ملاپ ہوا۔

اپریل 2002ء کی رد انقلابی بغاوت کو ونزویلا کے لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں نے چند گھنٹوں میں شکست دے کر شاویز کو دوبارہ صدر کے عہدے پر بحال کرایا

شاویز نے مجبور طبقات کے لیے بڑے پیمانے کی اصلاحات کیں جن سے عوام کی زندگیوں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ صحت کی سہولیات اور تعلیم سب کے لیے مفت کر دی گئیں۔ پہلی مرتبہ ملک کی ہر کچی بستی اور ہر گاؤں میں ڈاکٹر موجود تھے۔ ایک دہائی کے اندر غربت کی شرح 81 فیصد سے گھٹ کر 23 فیصد تک آگئی۔ شرحِ خواندگی 97 فیصد تک جا پہنچی۔ اسی دوران بائیس نئی سرکاری یونی ورسٹیاں قائم کی گئیں۔ اس کا پہلا اقدام سرکاری تیل کمپنی PDVSA کے ذریعے تیل کی صنعت کی نیشنلائیزیشن تھا۔ صحت کے شعبے کے اخراجات براہ راست اس ادارے کی زمہ داری ہیں۔ صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کیوبا سے پچیس ہزار ڈاکٹر منگوا ئے گئے۔ اس کے بدلے وینزویلا کی جانب سے کیوبا کو تیل کی فراہمی مفت یا پھر بہت زیادہ سبسڈی کے ساتھ کی گئی۔ سماج میں خواتین کو مساوی حقوق دیے گئے اور سماج اور معیشت کے بہت سے شعبوں میں اصلاحات متعارف کروائی گئیں۔ ان اقدامات کے سارے لاطینی امریکہ میں انقلابی اثرات مرتب ہوئے اور لاطینی سیاست میں بائیں بازو کی جانب جھکاؤ ہوا جس کے نتیجے میں بولیویا، ایکواڈور، اور کئی دیگر ممالک میں سوشلسٹ لیڈر برسرِ اقتدار آئے جنہوں نے شاویز جیسی بائیں بازو کی پالیسیاں اور پروگرام شروع کیے۔

شاویز کی وفات کے بعد کاراکاس اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر لاکھوں لوگ جمع ہو گئے اور ’’ہم سب شاویز ہیں‘‘ کے نعرے لگائے

لیکن مکمل طور پر سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں کیا گیا اور بہت کچھ نجی ملکیت میں رہا جس سے اشرافیہ اور سامراج کوقدم جمانے کا موقع ملا۔ ردِ انقلابی قوتوں نے معیشت اور اصلاحات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کیں۔ مہنگائی کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے بنیادی ضروریات کی اشیا کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی جس سے مصنوئی قلت پیدا ہوئی اور اس کے علاوہ یہ لوگ معیشت سے سرمایہ باہر نکالنے لگے۔ اس سے سماجی مسائل اور پر تشدد جرائم نے جنم لیا جن میں سے اکثر کے پیچھے اشرافیہ کے ایجنٹوں کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن ہر انتخاب اور ہر نازک موڑ پر جب بھی کبھی دائیں بازو کے ردِ انقلاب اورسامراج کا خطرہ محسوس ہوا تو عوام شاویز اور انقلاب کی حمایت میں باہر نکل آئے۔ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے انقلاب مسلسل جاری ہے۔ اس انقلاب کے ایک فیصلہ کن سوشلسٹ فتح حاصل نہ کر پانے کی ایک بنیادی وجہ ایک لینن اسٹ انقلابی پارٹی کا فقدان ہے جو مکمل انقلابی فتح کے حصول کے لیے پرولتاریہ کے ہراول دستے کا لازمی اوزارہوتا ہے۔ اگرچہ شاویز نے بائیں بازو کے متنوع گروپوں کو ملا کر پی ایس یو وی (یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا) قائم کی، لیکن یہ ہم آہنگ نظریات اور لاہِ عمل رکھنے والی کوئی کیڈر تنظیم نہیں۔ بالشویک لینن اسٹ پارٹی کی تعمیر کبھی اوپر سے نہیں کی جاسکتی خاص طور پر جب وہ ریاستی اقتدار میں بھی ہو۔ سرمایہ داری کا خاتمہ کیے بغیر ایک جمہوری مزدور ریاست کا قیام نا ممکن ہے۔ ریاستی مراعات کے حصول کے لیے بر سرِ اقتدار پارٹیوں میں بہت سے موقع پرست عناصر داخل ہو جاتے ہیں۔

پی ایس یو وی کی انقلابی ملیشیا کی ایک خاتون سپاہی اپنے قائد کا آخری دیدار کر رہی ہے

قوی امکان ہے کہ تیس دن کے اندر انتخابات منعقد کیے جائیں گے۔ اور ممکنہ طور پر شاویز کا نامزد کردہ جانشین اور پی ایس یو وی کا امید وار نکولس ماڈورو کامیاب ہو جائے گا۔ ماڈورو نے شاویز کی ’’انقلابی، سامراج مخالف اورسوشلسٹ میراث‘‘ کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے لیکن پی ایس یو وی کوئی ہم آ ہنگ پارٹی نہیں اور سامراجی، پارٹی کے اندر موجود دائیں بازو کے عناصر کو استعمال کرتے ہوئے اصلاحات کے خاتمے اور انقلاب کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گے۔ محنت کش طبقے اور پارٹی کارکنان کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہ عمل نہ ہو۔ اس وقت جذباتی تقاریر کی نہیں بلکہ شاویز کے سوشلسٹ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے،اور یہ پروگرام بینکاروں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا مال ضبط کر کے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہے۔ یہی شاویز کی حقیقی میراث ہے۔ اس کے شروع کردہ انقلاب کو مکمل کرنا ہو گا۔ پی ایس یو وی میں موجود مارکسی عناصر اس میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اس سے اٹھنے والی سوشلسٹ انقلابی لہر پورے لاطینی امریکہ کو لپیٹ میں لے لے گی اور اس کے انقلابی اثرات کہیں دور تک مرتب ہوں گے۔

متعلقہ:
انقلابِ ونزویلا: شاویز کی موت کے بعد؟