[تحریر: کامریڈ عصمت]
خواتین جو کہ انسانی آبادی کا نصف حصہ ہیں انہیں عمومی طور پر صنف نازک کہا اورسمجھا جاتا ہے۔ ان کے متعلق رائے عامہ یہ ہے کہ یہ کمزور ہیں، ’’گھر کی زینت‘‘ ہیں اور چار دیواری کے اندر ہی اچھی لگتی ہیں۔ ان کا کام سجنا سنورنا اور تمام عمر گھر سنبھالنا ہی ہے۔ زندگی کے سنجیدہ سماجی و معاشی معاملات اور معاشرتی زندگی کے باقی تمام پہلوؤں سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ فرسودہ اور متعصبانہ خیالات معاشرتی نفسیات میں ایک ناسور کی طرح اپنی جڑیں پکڑ چکے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ فورئیر نے کہا تھا کہ کسی بھی سماج کی ترقی کا اندازہ اس سماج میں خواتین کی کیفیت سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو حالات انتہائی ابتر ہیں۔ گھریلو حالات، غربت، افلاس، تنگدستی، محرومی، لاعلاجی اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ اور مجبور محنت کش عورت جب روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے تو معاشرے کی پسماندگی اور متعصبانہ خیالات اس کی راہ میں ایک بڑا عذاب ثابت ہوتے ہیں اور وہاں بھی اسے جنسی طور پر حراساں کیا جاتاہے اور اپنے جسم کا سودا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں جبری عصمت فروشی ہر ادارے میں عام ہے جہاں یہ سودا کیے بغیر محنت کش خواتین کے لئے ملازمت حاصل کرنا قریباً ناممکن ہو جاتا ہے اور اگر ملازمت مل بھی جائے تو سماج میں موجود مردوں کی حاکمیت کے باعث انہیں ہر وقت جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں محنت کش خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کافی کم ہے جو کہ اندازاََ پوری آبادی کا 22 فیصدہے۔ اس 22 فیصد میں سے 70 فیصدخواتین کا تعلق زراعت کے شعبے سے ہے، لیکن زراعت کے ساتھ ساتھ روز مرہ کے گھریلو کام کاج میں صرف ہونے والی خواتین محنت کو پیداواری محنت خیال ہی نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ اس نظام میں وہ محنت شمار نہیں کی جاتی جو بلا واسطہ روپے کی صورت میں کوئی منافع پیدا نہ کر رہی ہو۔ دوسری طرف سرمایہ داری کے عالمی بحران نے پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کی معیشتوں کو بالکل زمین بوس کردیا ہے۔ حالات زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ تنگ سے تنگ تر ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے گھریلو ماحول مجموعی طور پر تناؤ کا شکار ہے اور سماجی رشتے تیزی سے ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں۔ طلاقوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کے ساتھ ثقافت اور سماجی اقدار تنزلی کا شکار ہیں۔ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور گینگ ریپ جیسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور پہلے اِکا دُکا نظر آنے والے یہ واقعات معمول بنتے جارہے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں ایک مظلوم عورت انصاف کے حصول کے لئے تھانے میں اکیلی داخل ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی اور انصاف کی قیمت آبادی کی اکثریت کی پہنچ سے باہر ہے، لہٰذا عورتوں پر ہونے والے ظلم و جبر کے اکثریتی کیس رپورٹ نہیں ہوتے، اگر پرچہ درج بھی ہو جائے تو پولیس کا کام معاشرے میں عورت کی عزت کو مزید اچھالنا اور مجرموں کے ساتھ مل کے ’’مک مکا‘‘ کروانے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی کیس عدالت تک پہنچ بھی جائے تو سالہا سال تک پیشیوں اور کورٹ کچہری کے دھکوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل کا کوئی شمار نہیں اور اس صورت میں تو قانون قاتلوں کو باقاعدہ بچ نکلنے کی پوری سہولت فراہم کرتا ہے۔ کام کرنے والی عورتوں اور طالبات کو دھمکیاں دینا، ڈرانا دھمکاناایسے لگتا ہے جیسے انسانی نفسیات کا حصہ بن گیا ہو۔ عورتوں پر آوازے کسنا، مذاق اڑانااور غیراخلاقی الفاظ کا استعمال عورت کا تمسخر ہے۔ تیزاب پھینک کر عورتوں کی شکلیں بگاڑ کر انہیں عمر بھر کے لیے بے سہارا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آئین اور قانون میں عورتوں کے حقوق کے لیے بھی محدود قوانین موجود بھی ہیں تو اس ریاست اور اس کے اداروں سے ان قوانین پر عمل درآمد کروانے کی امید رکھنا بذاتِ خود ایک بیوقوفی ہے۔ سرمایہ داری کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بھی جو قوانین خواتین اور محنت کش طبقے کے حقوق کی حفاظت کے لئے بنائے گئے ہیں ان کی اوقات میوزیم میں رکھے ہوئے نوادرات سے بڑھ کر نہیں ہے جنہیں صرف دیکھا اور سراہا جا سکتا ہے لیکن کسی طرح سے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اس ریاست سے یہ امید رکھنا کہ یہ اکثریتی آبادی کے مفادات سے متعلقہ قوانین پر عملدرآمد کرے گی بذات خود ایک بیوقوفی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور تباہی کے دہانے پر کھڑے اس نظام کے اندر اتنی سکت نہیں کہ یہ اکثریتی آبادی کو پینے کا صاف پانی ہی فراہم کر سکے۔
لیکن پسماندہ سماجوں کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو نظر آتا ہے کہ جب بھی سماج نے تبدیلی کی طرف قدم بڑھائے ہیں اور محنت کش طبقہ اپنی زندگیاں بدلنے کے لئے تاریخ کے میدان عمل میں اترا ہے تو اس نے جنسی، لسانی اور مذہبی تعصبات سمیت تمام تر فرسودہ خیالات اور رسم و رواج کے بوجھ کوپہلے جھٹکے میں ہی اپنی کندھوں پر سے اتار پھینکا ہے۔ ماضی بعید اور ماضی قریب میں برپا ہونے والی انقلابی تحریکوں کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں خواتین کا کلیدی کردار دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان تحریکوں میں محنت کش خواتین تمام فرسودہ جکڑبندیوں کو توڑتے ہوئے محنت کش مردوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاتے ہوئے آگے بڑھی ہیں۔ 1917ء کا روسی انقلاب اس کی سنہری مثال ہے۔ اس انقلاب کا آغاز 8 مارچ 1917ء کو محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کے بڑے مظاہروں سے ہی ہوا تھا۔ اسی لیے بالشویک انقلاب کے لیڈر ولادیمیر لینن نے کہا تھا کہ ہماری محنت کش خواتین شاندار طبقاتی جنگجو ہوتی ہیں۔ نومبر 1917ء میں بالشویکوں کے اقتدار میں آنے کے بعد انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ محنت کش طبقے نے اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لی تو عورت کی آزادی کے لیے ایسے انقلابی اقدامات کئے گئے جن کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ زار شاہی دور کے جنسی استحصال پر مبنی تمام رجعتی قوانین کا خاتمہ کیا گیا۔ عورت کو مردوں کے مساوی سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق دئے گئے جن میں طلاق کا حق بھی شامل تھا۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کے عبوری پروگرام میں گھریلوکام کے جبر سے آزاد کر کے خواتین کو سماجی دھارے میں شامل کرنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے ان میں اجتماعی لانڈریاں، کھانے کے مراکز، بچوں کے لئے ڈے کےئر سنٹر اور گھریلو کمیون بنانا شامل تھا اور یہ تمام تر اقدامات عورتوں کو روز مرہ زندگی میں آزادی دے کر انہیں ایک گھریلو غلام سے ایک آزاد فرد کی حیثیت دینے کے لئے کئے گئے تھے۔ لینن نے اس بارے میں کہا تھا ’’عورتوں کو ہمارے مطالبات اور اپنے استحصال، ضروریات اور خواہشات کے درمیان سیاسی تعلق کو شعوری بنیادوں پر جاننا ہو گا۔ انہیں اس حقیقت سے واقف ہو نا چاہئے کہ محنت کشوں کا اقتدار ان کے لیے کس طرح اہم ہے۔ مردوں کے ساتھ مکمل آزادی عمل میں، قانون میں، خاندان میں، ریاست میں اور سماج میں جو کہ سرمائے کی حاکمیت کے مکمل خاتمے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ سوویت روس نے خواتین کے حوالے سے ہمارے مطالبے کو تقویت بخشی ہے۔ پرولتاریہ کے اقتدار کے تحت یہ مطالبات پرولتاریہ اور بورژوازی کے درمیان جدوجہد کا سوال نہیں رہا۔ یہ دوسرے ممالک کی خواتین پر پرولتاریہ کی طاقت کی فتح کی فیصلہ کن اہمیت کا ثبوت ہے۔ ‘‘
تاریخ میں برپا ہونے والے ہر انقلاب میں خواتین کا شاندار کردار نظر آتا ہے۔ لینن نے کہا تھا کہ محنت کشوں کی کوئی بھی تحریک خواتین کی شعوری مداخلت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ماضی قریب میں شروع ہونے والے عرب انقلاب سے پیشتر عرب خواتین کے بارے میں عالمی طور پر دو ہی تصورات پائے جاتے تھے، یعنی نائٹ کلب میں ناچنے والی بیلے ڈانسر یا گھروں میں قید برقعہ پوش عورت۔ لیکن عرب انقلاب نے ثابت کیاکہ انقلابات سماج کی عمومی سوچ اور بوسیدہ اقدار کو کس طرح روند کر آگے بڑھتے ہیں۔ تیونس ہو یا مصر، بحرین ہو یا لیبیا، مشرقِ وسطیٰ میں اٹھنے والی ہر انقلابی تحریک کے دوران عرب کی خواتین نے حیرت انگیز طور پر سرگرم کردار ادا کیا اور اب تک کر رہی ہیں۔ بحرین میں ریاست کی ننگی جارحیت کے آگے سینہ سپر خواتین کی تصاویر آج بھی ہر روز عالمی میڈیا پر شائع ہو رہی ہیں۔ اسی طرح مصر اور تیونس میں انقلابی تحریکیں ایک با ر پھر نئی کروٹ لے رہی ہیں اور تحریر سکوائر سمیت ان ممالک کے گلی کوچوں میں ملاؤں کے خلاف آئے روز ہونے والے احتجاجات میں خواتین پیش پیش نظر آرہی ہیں۔ تحریر سکوائر میں مظاہرین خاص طور پر خواتین کو اخوان المسلمون کے غنڈوں سے بچانے کے لئے مصر کے بہادر انقلابیوں نے ’’تحریر باڈی گارڈز‘‘ نامی ایک انقلابی فورس تشکیل کی ہے جس کا بڑا حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ امریکہ میں آکو پائی وال سٹریٹ تحریک کے دوران عورتوں کا واضح کردار نظر آتا ہے۔
اسی طرح 2011ء کے بعد سے پورا یورپ معاشی کٹوتیوں کے خلاف محنت کش طبقے کی تحریکوں کی زد میں ہے جن میں خواتین کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ مغربی ممالک کی خواتین اگرچہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی حوالے سے تیسری دنیا کی نسبت بہتر پوزیشن میں ہیں لیکن یہ معاشی و سماجی پوزیشن بھی وہاں کی محنت کش خواتین نے پچھلی کئی دہائیوں میں مسلسل طبقاتی جدوجہد کے ذریعے سے حاصل کی ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی حدود میں محنت کش طبقے کی مکمل نجات اور آزادی نا ممکن ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی محنت کش خواتین بھی زندہ رہنے کے لئے اپنی قوتِ محنت منڈی میں بیچنے پر مجبور ہیں۔ معاشی و سماجی آزادی صرف بورژوا طبقہ کی عورتوں نے حاصل کی ہے اور وہ خودمحنت کش مردو خواتین کا معاشی استحصال کرنے والوں میں شامل ہوگئی ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں حقوقِ نسواں کے بورژوا علمبردار لاجواب ہو جاتے ہیں اور ٹامک ٹوئیاں مارنی شروع کر دیتے ہیں۔ جنسی استحصال آخری تجزئے میں معاشی استحصال ہی کی ایک شکل ہے اورمنافع اور ملکیت پر مبنی سماج کی نا گزیر پیداوار ہے۔ استحصال زدہ طبقے کے مفادات کبھی بھی استحصال کرنے والے طبقے کے مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتے۔ گھر میں کام کرنے والی ملازمہ اور اس کا استحصال کرنے والی مالکن دونوں خواتین ہیں، لیکن ان کے درمیان موجود طبقاتی فرق دونوں کے مفادات کو بالکل متضاد کر دیتا ہے۔
انقلابات میں عورتوں کے کردار سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح انقلابی تحریکوں کے دوران سماج پر حاوی تمام رجعتی اور پس ماندہ سوچیں اور تعصبات ختم ہو جاتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ ے بغیر عورت کی حقیقی آزادی ممکن نہیں۔ جیسا کہ پیٹی بورژوا NGO’s واویلا کرتی ہیں کہ عورتوں میں شعور اور آگاہی پیدا کر کے یا پھر قانونی اور آئینی تبدیلی کے ذریعے اس استحصال کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ عورتوں کے استحصال کی اصل وجہ سرمائے کی حاکمیت اور نجی ملکیت پر مبنی یہ نظام ہے۔ مارکس اور اینگلز کے الفاظ میں طبقاتی سماج میں پیداوار، پیدا کرنے والے پر غالب ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے میں پیداوار سماجی ضروریات کے مطابق منصوبہ بندی کی بجائے سرمائے کی ہوس پر مبنی منڈی کے اندھے قوانین کے تابع ہے۔ اگر خواتین کی حقیقی آزادی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لڑنا ہے تو اس مسئلے کی سطحی وجوہات کی بجائے جدلیاتی بنادوں پر ٹھوس تجزیہ کرناپڑے گا۔ پاکستان اور اس جیسے دوسرے نو آبادیاتی ممالک جو کہ قبائلی، جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ ثقافتی قدروں کا ملغوبہ ہیں، یہاں عورت کی آزادی کا مسئلہ نہ صرف معاشی کردار کا حامل ہے بلکہ سماج پر مسلط شدہ رجعتیت اور نفسیاتی پرا گندگی کی پیداوار بھی ہے، لیکن اس رجعتیت اور تعصبات کی بنیادی وجوہات پھر معاشی نظام سے وابستہ ہیں۔ ان ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام اپنی کلاسیکی شکل میں نمو نہیں پا سکا اور یہاں کی بورژوازی تاریخ کے میدان میں تاخیر سے داخل ہونے کی وجہ سے اپنے تاریخی فرائض ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ان حالات میں سرمایہ داری کے بہت سے بنیادی سماجی فرائض بھی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ادا کرنے ہوں گے جن میں جدید سماجی انفراسٹرکچر کے ذریعے جاگیردارانہ اور قبائلی سماجی اقدار کا خاتمہ سر فہرست ہے۔
پاکستان کے اندر 1968-69ء کے ادھورے انقلاب کے اثرات اور حاصلات کے خاتمے کے لیے ضیا الحق کی رجعتی پالیسیوں کا سماجی ثقافتی معیار کو گھائل اور مسخ کرنے میں ایک بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ادھورا انقلاب دراصل رد انقلاب کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے جو کہ سماج کو گہری پسماندگی، افسردگی اور مایوسی میں دھکیل دیتا ہے۔ ضیا الحق کے سیاہ دور کے زخم گزرتے وقت کے ساتھ شدت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں، لیکن یہ اس نظام کی آخری سسکیوں کی آواز اور ڈوبتی ناؤ سے پہلے کے ابھار کا عندیہ ہے۔ ظلم اور جبر جب اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو اس کی کوکھ سے بغاوت جنم لیتی ہے اور وہ دن دور نہیں جب محنت کش طبقہ اٹھ کھڑا ہو گا اور حکمران طبقات اور ان کے سامراجی آقاؤں کے خلاف علم بغاوت بلند کرے گا۔ اپنا مقدر اپنے ہاتھ سے تراشے گا۔ اس استحصال پر مبنی نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک ایسے سماج کی بنیاد رکھے گا جہاں کوئی امتیاز، کوئی استحصال اور محرومی نہیں ہو گی۔ ایسے سماج کا آغاز کرنے کے لیے خواتین کو بھی منظم اور شعوری جدوجہد کی ضرورت ہے۔ مردوزن کی تفریق ختم کرتے ہوئے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کرنے کی ضرورت ہے صرف اسی صورت میں بالشویک انقلاب کی روایت کو زندہ کرتے ہوئے تمام تر محرومیوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور ایک حقیقی انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔