افسانہ: ڈھولکیا

[تحریر :عاطف جاوید، راجن پور]
رات کی تاریکی میں جھینگر کی آواز ماحول کی ہولناکی میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔ چاند کی نیلگوں روشنی تنگ گلیوں کی تاریکیوں سے چھن کر آتے آتے اپنی آب و تاب کہیں راستے میں ہی کھو چکی تھی۔ گلی کے عین نکڑ پر پڑے کچرے کے ڈھیر سے سر سراہٹ کی آواز آ رہی تھی جس پر ایک کتا حسب عادت کچھ کھانے کو ڈھونڈ رہا تھا۔ گلی کے عین وسط میں پانی کے گندے جوہڑ سے آتی مینڈکوں کی آواز اس جوہڑ سے اٹھتی بد بو سے زیادہ زہر لگ رہی تھی۔ گلی کی نکڑ پر لکڑی کے پھٹے پر سویا ہوا شخص مچھروں کی بھنبھناہٹ سے تنگ آ کر نیم غنودگی کی حالت میں اپنے جسم کو کھرچ رہا تھا اور بڑبڑا رہا تھا۔ جیسے اپنی تمام تر محرومیوں کا بدلہ ان مچھروں سے لینے کے لئے انہیں للکار رہا ہو اور مچھر ہیں کہ کسی سیاستدان کی طرح نشست بدل بدل کر اس کا خون چوس رہے تھے۔ جاگتے رہو! جاگتے رہو! کی آواز لگاتے چوکیدار کی صدائیں سننے کے لئے صرف جھینگر،کتا،مینڈک اور مچھر ہی اپنے پورے ہوش و حواس سے جاگ رہے تھے اور ایک زندہ اور بیدار قوم کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گلی کے آخر پر دوسرے کونے پر ایک کٹیا نما کمرے سے لالٹین کی زرد مدھم روشنی رقصاں تھی۔ کمرے کی باہری اینٹوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ پکا کمرا ہے اور کسی زمانے میں ان دیواروں پر پلستر بھی ہوا کرتا ہوگا جس پر بڑی نفاست سے کبھی سرخ رنگ کیا گیا ہوگا۔ مگر اب یہ دیواریں شکستگی کی عمدہ مثال تھیں اور ان کو بھی آثار قدیمہ کی عمارت ظاہر کرکے رسائل کی زینت بنایا جا سکتا تھا پر یہ عمارت کسی شہنشاہ کے محل کا منظر پیش نہیں کر رہی تھی اور نہ ہی وسیع و عریض رقبے کی متحمل تھی۔ اس طرح کی چھوٹی مو ٹی چیزوں پر تاریخ دانوں کے پاس واویلا مچانے کے لئے کوئی’’ سود مند‘‘ سبب نہیں ہے۔ آ خر کار کوئی تاج محل تھوڑی نہ تھا، ہاں البتہ تاج محل بنانے میں شامل لاکھوں مزدوروں کی طرح کے کسی مزدور کی کٹیا ضرور ہے۔ پر یہ مزدور تو مزدوروں میں بھی معتبر نہیں ہے۔ ’’ ڈھولکیا‘‘ ایک میراثی ہی تو ہے۔ جو کار حرام کر کے اپنے بچوں کو حرام کی روٹی کھلاتا تھا۔ اب بھلا یہ بھی کوئی معتبر پیشہ ہے کہ لوگو ں کی شادیوں پر جا جا کر ناچ گانے پر ڈھول بجانا۔ موسیقی تو گناہ کبیرہ ہے لیکن ٹی وی کی سکرین پر ڈھول بجانے والے فنکار ہوتے ہیں۔ وہاں شاید گناہ اور ثواب کا آپس میں کوئی مک مکا ہوتا ہوگا لیکن ان تاریک گلیوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ کمرے کے اندر لالٹین کی روشنی سے بنے سایوں پر کپکپی طاری تھی۔ شاید یہ کمرے کے مکینوں کی زندگی میں آئے بھونچال کی عکاسی تھی۔ ایک طرف چند برتن بکھرے پڑے تھے اور کچھ برتنوں نے چولہے کی راکھ زیب تن کر رکھی تھی۔ ایک چوکٹھے کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ شاید کسی زمانے میں یہ چارپائی ہوتی ہوگی، پر اب چند رسیاں اس چوکھٹے سے با امر مجبوری چپکی ہو ئی تھیں۔ فرش کسی ہموار سطح کا نام ہوتا ہوگا پر یہاں پر اینٹیں تھیں جو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کہیں کہیں سے سر اٹھا ئے کھڑی تھیں جن کی درزوں میں چھوٹی موٹی کئی زندگیاں پل رہی تھیں۔ بستر کسی دوسری دنیا کا لفظ معلوم ہوتا تھا۔ کھردری بوریاں اب جسموں کے بار بار مسلے جانے سے اپنا کھردرا پن کھو چکی تھیں۔ ایک گدا نما چیز موجود تھی جس میں بہت پرانی روئی کے لوتھڑے ادھر ادھر بھاگے پھرتے تھے۔ ڈھولکیا کے راج دلارے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی شاہی اور مخملی بستر موجود نہیں تھا۔ اور پورے کمرے میں شایدیہی ایک قیمتی چیز تھی جس کو انہیں نے اپنے اکلوتے شہزادے کے نام کر رکھا تھا۔ لیکن یہاں پر شہزادے کی کھلکھلاتی چہچہاھٹ کی بجائے دکھ بھری آہوں سے کمرے کی خاموشی پر ضرب لگائی جا رہی تھی جو شاید اب مزید کسی ضرب کو سہنے کے قابل نہ تھیں۔ چوکڑی مارے بیٹھی ڈھولکیا کی بیوی کی قمیض کے چاک کچھ اس طرح سے پھٹے ہوئے تھے کہ اس کا بھورا بدن باہر کو جھانک رہا تھا۔ یہ شاید کوئی فیشن تو نہیں تھا۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ اگر ہوتا تو کسی ٹی وی سکرین کی زینت ہوتا۔ کمر کی جانب قمیض کے چھوٹے چھوٹے سوراخ اس لئے عیاں تھے کہ اپنے آدھ گز کے دوپٹے سے وہ اپنے بخار کی شدت سے ،دھوپ میں رکھے لوہے کی طرح تپتے بچے کے ماتھے پر ٹھنڈے مگر گدلے پانی سے پٹیاں کر رہی تھی۔ پانی شاید پہلے صاف ہوگا پر شاید وہ کپڑا جسے دوپٹہ کہا جا سکتا تھا کافی عرصے کا پسینہ اور میل کچیل اپنے اندر سے باہر نکال رہا تھااور بیمار بیٹے کے چہرے پر بھی پانی کی لکیروں کے ساتھ ساتھ اپنے اندر چھپے میل کی لکیر بناتا چلا جا رہا تھا جس سے شہزادے کا کچھ حد تک صاف رنگ چہرہ کالی سلاخوں میں قید ہوا دکھائی دیتا تھا۔ ’’اے جی!سنتے ہو۔ مجھے تو رنج کھائے جا رہا ہے۔ بخار تو ٹھنڈا ہی نہیں ہو رہا‘‘
’’آئے ہائے!تونے دوا تو وقت پر کھلا دی تھی نہ اب ذرا وقت تو لگے گا طبیعت سنبھلنے میں‘‘ ڈھولکیانے اپنی دھوتی کو سنبھال کر اٹھتے ہوئے کہا جو شاید اس کو شادی کے موقع پر لڑکی کی طرف سے شادی کے جوڑے کے ساتھ ملی ہوگی۔
’’کیا دوا؟ ایک ہی بار کی تو دوا لائے تھے تم۔ دوپہر کھلا دی تھی،شام کے وقت کی دوا تو تھی ہی نہیں تو دیتی کہاں سے۔ شام مولوی صاحب کو بلانے کو بھیجا تھا کہ دم درود سے شاید کوئی آرام آئے پر تم گئے ہی نہیں ان کے پاس‘‘
’’او پاگل عورت!جب بھی اس کے سامنے آتا ہوں تب ہی وہ مطالبہ رکھ دیتا ہے کہ یہ حرام کام چھوڑ کر کوئی حلال کی محنت مزدوری ڈھونڈو۔ اب خود وہ کوئی کام لگوا دے یا کوئی اور کام مل جائے تو حلال کر کے کھاؤں نہ۔ ڈھول کی تھاپ چلتی ہے تودال روٹی ہوتی ہے۔ گلے پڑا ڈھول کیسے اتار کے رکھ دوں اب‘‘ ڈھولکیا بیزاری اور غصے سے بولتا چلا گیا۔
’’پر بچے کی خاطر تو ذرا بلا لاتے۔ کیا پتہ دم درود کے صدقے کوئی رحمت ہو جاتی۔ ‘‘
’’او گیا تھا مولوی کے پاس بھی۔ بولا ابھی جلدی میں ہے۔ بڑے چوہدری کی حویلی پر خیرات تھی۔ وہاں اس نے ختم پڑھنا تھا۔ میں بھی اسی کے ساتھ ہو لیا۔ وہیں سے تو لایا تھا چند مٹھی چاول جسے کھا کے بیٹھی ہے تواور تیرا بچہ‘‘
’’اب بچے میں تو تیرا میرا نہ لے کر آؤ۔ ہمارا بچہ کیوں نہیں کہتے‘‘
’’اب تجھے چھاتی چیر کے دکھاؤں کیاکہ کتنی پرواہ ہے مجھے تم لوگوں کی۔ کبھی تو سوچو ہوں، کاہے پیدا ہوا یہ بھی ہمارے گھر میں،بڑے چوہدری کے گھر پیدا ہوتا تو 20مربع کا زمیں دارہوتا‘‘ڈھولکیے نے بیزار لہجے میں شکوہ کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ بھی بڑا آدمی بنے گا،پڑھے لکھے گا،سکول جائے گا،کیوں میرے منے؟جائے گا نہ سکول تو؟‘‘ ماں اپنے بچے کے ہاتھ پر شفقت بھرے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے چلے جا رہی تھی،پر منا بخار کی شدت سے بے سدھ پڑا تھا۔
’’اچھا اچھا۔ ٹھیک ہے بابا۔ جائے گا سکول بھی،اور بڑا آدمی بھی بنے گا‘‘اس بار ڈھولکیا کا لہجہ شفقت اور خوابوں سے بھرا تھا’’تاپ اترا کہ نہیں اس کا‘‘ڈھولکیا نے ماتھا چھوتے ہوئے کہا۔
’’ہاں اب فرق توپڑ گیا کافی پٹیاں کرنے سے۔ مولا،میرے بچے کو صحت تندرستی بخش دے اپنے حبیب کے صدقے سے‘‘شمو اپنی قمیض کا چاک دامن پھیلا کر گھر کی گونگی چھت کی طرف دیکھ کر دعائیں مانگنے لگی۔
’’او نہ پریشان ہو،کچھ نہیں ہوگا میرے شیر کو۔ عمر ہی کچی ہے ابھی ہلکا پھلکا تاپ آہی جاتا ہے۔ اور سن اب تو بھی ذرا سکون کر لے اور صبح سویرے تڑکے ہی اٹھا دیو مجھے،ساتھ کے دیہات میں کتوں کا دنگل کروا رہا ہے چوہدری ،وہا ں ڈھول بجانا ہے۔ چار پیسے ملیں گے تو دوا دارو لے کر آؤں گا‘‘یہ کہ کر ڈھولکیابوری پرپَسر گیا۔
’’اچھا،اٹھا دونگی اور رشید کی بیکری سے کچھ ناشتہ پانی لا دینا پہلے، پھر واپسی پر آکے پیسے دے دینا اس کو‘‘ شمو تاکید کرتے ہوئے بولی۔
’’ہاں ہاں ٹھیک ہے۔ سو جا اب تو بھی ذرا گھڑی کو۔ منے کو بھی سونے دے‘‘ڈھولکیا نیند میں ہڑبڑایا۔
صبح کی پہلی انگڑائی کا وقت اور اس انگڑائی کے ساتھ بنتے ٹوٹتے احساسات اس دنیا کا وطیرہ ہوگا جہاں نیند اپنے معنوں پوری طرح نیند ہوا کرتی ہوگی۔ اس گلی میں سورج کی روشنی پھوٹنے سے پہلے ہی انگڑائی کے ساتھ ساتھ رات بھر آنکھوں میں پلنے والے چھوٹے موٹے خواب بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو پچھلے دن کی تھکان کی شدت کے باعث انگڑائی سے پہلے بدن ٹوٹ جاتے ہیں۔
’’اے جی سنو۔ جاگ جاؤ۔ اذان تو کب کی ہو لی‘‘، ہڑ بڑایا ہوا لہجہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سونے کا وقت کس قدر کم تھا اور نیند کی وادی کتنی لمبی تھی،ڈھولکیا نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بوری سے اٹھا ’’ہا ں ہاں، ہو گیا کھڑا بس۔ ‘‘ شیروں کے منہ کس نے دھوئے! آنکھوں سے بہتے ہوئے پانی کو منہ پر ملتے ہوئے ہی ڈھولکیا دروازے سے باہر نکل گیا۔ دونوں کو معلوم تھا کہ آج بھی رشید کی بیکری سے ادھار میں دو چار سوکھے رسک اور دودھ کا ایک آدھا گلاس مل جائیگا،اس لئے’’ کہاں جا رہے ہو‘‘ والا سوال بے کار تھا۔ ’’لے پکڑ ،دودھ اور ایک آدھا ٹکڑا منے کو کھلا دے ، باقی تو کھا لے ، میں چلا اب اور جلد آنے کی کوشش کروں گا‘‘
’’منے کا تاپ پھر بڑھ گیا ہے،کچھ دوا لے آنا جلدی ،چوہدری سے پیسے مانگ لینا پہلے اگر کچھ دے تو‘‘
’’آہو! چوہدری ،اور پیسے دے گا!،دعا کر کہ میلہ اپنے پورے رنگ پہ لگ جائے،دو چار سو کی ویلیں ہو جائیں گی،چوہدری اور اس کے کتے کے سر کے صدقے شاید دو چار دن کادانہ پانی ہو جائے‘‘ ڈھولکیا کے لہجے میں چھپا زہر ان مجبوریوں کی دین تھا جنہیں وہ اپنا مقدر مان بیٹھا تھا۔
’’ہاں۔ آج تو میرا جانا بھی مشکل ہی دکھے ہے،کل مالکن کو کہلوا بھیجا تھا کہ جھاڑو برتن کرنے نہ آسکوں گی منا بیمار ہے‘‘ شمو اپنی پیشانی پر ہتھیلی رکھ کر بولی۔
’’ کوئی نئیں،میں جلدی آ جاؤں گا‘‘ڈھولکیا اپنے شہزادے کے سر پر ہاتھ پھیر کر بغل میں ڈھول لٹکائے،ہاتھ میں لا ٹھیاں پکڑے باہر ہو لیا۔ قدم چاہے کتنے بھی تھکے اور بوجھل کیوں نہ ہوں ،صبح کا بھرا پیٹ شام کی بھوک کے خوف سے قدموں کو رفتار بڑھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور پھربھلا کونسا ایسے لوگوں کے منہ لگتے ہیں زیادہ لوگ۔ چلتی پھرتی سلام دعا بھی اس معاشرے کے رائج کسی’’معتبر‘‘ رشتے کی محتاج ہوتی ہے۔ اسی لیے ڈھو لکیا تیز تیز قدم اٹھا تا ہوا چل رہا تھا۔
ساتھ کا گاؤں 3میل کے فاصلے پر ہی تھا،تب تک سورج بھی سر اٹھا چکا تھا،گرمی کے موسم کی صبح کی ہوا کے جھو نکے ٹہلتے قدموں کو ٹھنڈے لگتے ہوں گے،پر رفتار پکڑنے والے قدم اکثر پسینے سے شرا بور ہو جاتے ہیں۔ وقت ساتھ نہ ہو تووقت کی رگوں میں انتظار کا زہر کوٹ کوٹ کے بھرجاتا ہے۔ ڈھولکیا کو بھی پہلے پہنچ کر انتظار کرنا تھا اور لوگوں کا دل بہلانے کے لئے پوری جان لگا کر ڈھول پیٹنا تھا،تاکہ جب تک بادشاہ سلامت(چوہدری) میدان میں پہنچے تو دربار پوری آب و تاب پر ہو۔
’’ارے کہاں مر گیا تھا کم بخت! دو چار دن کو کچھ پیسے جیب میں آ جائیں تو سمجھو ہو کہ پو ری دنیا جیب میں دھر لی۔ تڑکے ہی آنا تھا تو نے ،اور آیا اب جب پورا گاؤں جمع ہے۔ اور چوہدری صاب بھی آنے ہی کو ہے۔ تیری ڈھول کی تھاپ پہ دل آ گیا چوہدری کا ورنہ مراسی تو اس گاؤں میں بھی بہت۔ چل اب شروع کراور ذرا جان لگا کے بجایو‘‘
ڈھولکیا ابھی میدان میں پہنچا ہی تھا کہ چوہدری کے منشی نے آتے ہی خاطر داری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ڈھو لکیا کے ڈھول پر تھاپ پڑتے ہی مجمع میں جیسے جان آگئی۔ کھلے میدان میں دور سے پلٹ کر آتی ڈھول کی گونج سماعتوں کو بھلی لگ رہی تھی۔ دل چاہے نہ چاہے پر چہرے پر مسکراہٹ سجانا، دانت دکھانا ،کبھی کبھی جوش میں آکر ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا لینا ہی اچھے مراسی کی نشانیاں ہیں اور ماحول کو گرمانے کے لئے یہ شعبدہ بازیاں ضروری بھی ہیں۔ آدھ گھنٹہ ڈھول پیٹنے کے باوجود بھی کسی طرف سے کوئی نوٹ یا سکہ اچھا لا نہیں گیا تھا۔ ڈھول سے ذرا دور ایک ضروری اعلان ہو رہا تھا کہ چوہدری علم دین کچھ لمحوں میں اپنے کتوں کے ہمراہ پنڈال میں آنے والے ہیں۔
دوسری جانب ساتھ کے گاؤں کا چوہدری سرور اپنے کتوں اور ان جیسے ہی کچھ لوگوں کے ساتھ اپنی نشست پر براجمان ہو چکا تھا،جن کے ہاتھی جیسے بدن پر لٹھے کا سفید جوڑا اس کے آقا ہونے کی نشانی تھی۔ باقی پورے مجمع کا حال ڈھولکیا سے کچھ زیادہ بہتر نہ تھا۔ چوہدری صاحب پنڈال میں آتے ہی بڑی بے نیازی سے ہاتھوں میں موجود نوٹوں کی گڈی میں سے دو چار نوٹ ڈھو لکیا کی طرف اچھالتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
’’ اپنے گاؤں کی شان اور آن چوہدری علم دین کو پنڈال میں آنے پر جی آیاں نو،ست بسم اللہ‘‘،اعلانات ہونے لگے۔ لوگوں میں اتل پتھل ہونے لگی،کتوں کے بھونکنے کی آواز آنے لگی جو پنڈال میں موجود کسی بھی انسان سے زیادہ قد آور اور صحت مند لگ رہے تھے۔ سوائے دونوں چوہدریوں کے۔ ’’پہلے مقابلے کی بولی ہے 25000 روپے۔ ہارنے والا جیتنے والی پارٹی کو 25000 دے گا۔ ‘‘، مقابلہ شروع ہوا۔ ڈھول کی تھاپ بڑھنے لگی،اور پھر چند ہی لمحوں میں دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں لیکن دونو ں چوہدری ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہے لگا لگا کر اپنے اپنے کتوں کو حوصلہ دے رہے تھے تاکہ وہ ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ سکیں۔ پہلا مقابلہ چوہدری علم دین کے نام ہوا۔ ’’ پہلا دنگل جیتا چوہدری علم دین نے‘‘ ،لڑنے والی تو کوئی اور ہی مخلوق تھی پر نام آنے پر ہرطرف تالیاں بجنے لگیں اور چوہدری علم دین صاحب بھی بڑے فخر سے ہاتھ ہلا ہلا کر لوگوں کی داد کا جواب دے رہے تھے۔
جب اپنے ہاں خوشیوں کی قحط سالی ہو تو دوسروں کے چہروں پر سجی مسکراہٹوں کی رعنائیوں میں لوگ کھو ہی جاتے ہیں۔ ڈھولکیا بھی کچھ اسی صورت حال کا شکار تھا یا شاید اپنی طرف اچھلتے نوٹوں کو دیکھ کر اس کی جان میں جان آرہی تھی۔ وہ ہنستا کھلکھلاتا زور زور سے ڈھول پیٹ رہا تھااور چند لمحوں کو وہ اپنی کٹیا ،بیوی اور بیمار بچے کوبھول گیا تھا اور اپنی دھن میں مگن زمین پر پڑے ہوئے،لوگوں کے پیروں تلے روندے ہوئے اپنے رز ق کو اکٹھا کر رہا تھا۔
25کے بعد 50 اور پھر لاکھ ،مقابلے کے بھاؤ بڑھتے گئے ،مقابلے ہوتے رہے۔ کون جیتا کون ہارا اس غرض سے بے نیاز ڈھولکیا اپنی جیب میں نوٹ رکھتا گیااور ڈھول بجاتا گیا۔
کوئی 3 سے 4گھنٹوں کی محنت کے بعد دنگل ختم ہوا۔ لوگ بکھرنے لگے۔ ’’اوئے مراسی،آج تونے تو مزے کر ا دیئے اوئے،لے رکھ لے یہ انعام ہے میری طرف سے‘‘ چوہدری نے 100 کانوٹ ڈھولکیا کی طرف بڑھاتے ہوئے اپنی دریا دلی کا ثبوت دیا۔
ڈھولکیا نے عاجزی سے سر جھکاتے ہوئے پیروں تک آکر 100 کا نو ٹ پکڑ لیا۔ ایک سفر کے اختتام سے پہلے نئے سفر کا سامان کرنا خانہ بدوشوں کی تقدیر کا حصہ ہوتاہے۔ ڈھولکیا مٹی پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا اور اپنی جیب سے نوٹ نکال کر اپنی جھولی میں ڈال کر باری باری تربیت کے ساتھ گنتی کرنے لگا۔ نظر دور سے آتے سائیکل پر پڑی جو پوری رفتار کے ساتھ اس کی طرف بڑھا۔ ڈھولکیا نے محسوس کیا کہ وہ اسی کی طرف آرہا ہے۔ اس نے ذرا توجہ سے دیکھا تو اسی کے گاؤں کا آدمی ہاتھ لہرا لہرا کر اس کو اشارے کر رہا تھا۔
ذرا قریب آنے پر جو آواز اس کے کانوں میں پڑی اس نے ڈھولکیا کی آنکھوں کے سامنے آنے والے آج ،کل اور پرسوں کے سارے خیال غائب کردئیے۔ اسے ابھی کے لالے پڑ گئے۔ ’’ ارے او ڈھولکیا ،تیرے چھوکرے کی طبعیت بہت بگڑ گئی ہے۔ قابو میں نہیں آ رہا چھوکرا۔ جلدی چل‘‘ ڈھولکیا نے فوراًاپنے نوٹ سمیٹے ،جلدی جلدی اپنا ڈھول اٹھایااور سائیکل والے کے پیچھے بیٹھ کر اپنے گاؤں کی طرف ہو لیا۔
’’او! رفیق زیادہ مسئلہ ہو گیا کوئی۔ میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے‘‘
’’او یار مسئلہ زیادہ تھا تو میں آیا ہوں۔ او میں تو اپنی ریڑھی پر سے اٹھ کر ذرا کو گھر آیا تھا تب تیری گھر والی نے بتایا مجھے کہ تو یہاں آیا ہوا ہے۔ گھر میں بیمار پتر پڑا ہے اور تو میلے میں گھومنے آگیا؟‘‘
’’او گھومنے کدھر او یار۔ روزی بھی تو کرنی ہے۔ تو جلدی چلا یار۔ تو آگیا تیری یہ بڑی مہربانی ہے‘‘
’’او نہ کر یار۔ آخر ہمسائے برے وقت میں کام آنے واسطے تو ہوتے ہیں۔ تو تسلی رکھ۔ رب کرم کرے گا۔ رفیق نے تسلی دیتے ہو ئے کہا‘‘
کچھ ہی دیر میں ڈھولکیا اپنی گلی کے قریب پہنچ گیا پر کان میں پڑنے والی بَین کی آواز نے ڈھولکیا پر سکتے کی کیفیت طاری کردی۔ گھر نما کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر اپنی بے ہوش بیوی پر پڑی جس کے سر کی چادر چارپائی پر پڑے منے کے منہ پر پڑی تھی اور شمو کے چہرے پر بے ہوشی سے پہلے بہنے والے آنسوؤں اور صدمے کے آثار نمایاں تھے۔
’’رب کی امانت تھی اس نے واپس لے لی ڈھولکیا۔ رب دی مرضی۔ صبر کر‘‘ حکیم جی نے ڈھولکیا کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جس پر ابھی تک ڈھول لٹکا ہو ا تھا۔
’’ا و ایسے کیسے لے لی اوئے۔ او میں دوائی کے لئے پیسے لینے گیا تھا۔ او ربا ! کجھ تے ترس کرنا سی‘‘
ڈھولکیا کی واشگاف دھاڑوں سے آسمان پر کوئی حرکت دیکھنے کو نہیں ملی۔ وہ اسی طرح سکتے میں تھا،جیسے ہمیشہ سے مانند بت تھا ویسا ہی رہا۔ آہوں اور سسکیوں کا سلسلہ چل نکلا۔ پر صدیوں سے بہتی آنکھوں میں کتنے آنسو ہوتے ہیں؟کچھ ہی دیر میں سب نے اس کو تقدیر مان لیااور صبر کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ شام ڈھلنے لگی تھی۔ ڈھولکیا کی بیوی اندر سسکیا ں لیتے ہوئے محلے کی عورتوں کے بیچ اپنے شہزادے کی چارپائی کی پٹی پر سر رکھے پڑی تھی۔ ڈھولکیا باہر بچھی ہوئی دریوں پر محلے کے لوگوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اطلاع ملتے ہی ارد گرد کے لوگ اور کچھ ایک رشتہ داردل جوئی کو آ چکے تھے۔ شام کو محلے کے دو چار گھروں سے کھانے کو کچھ نہ کچھ آگیا۔ چولہا تو اس گھر میں کئی دنوں سے نہیں جلا تھا پر یہ ہمارے اعلیٰ معاشرے کی روایت ہے کہ مرگت والے گھر میں کھانا نہیں پکایا جاتا۔ بیٹے کے غم سے ذرادھیان ہٹا تو ڈھولکیا اپنے دری پر رکھے ڈھول کی طرف دیکھنے لگااور سوچنے لگا کہ جیب میں پڑے 340 روپیوں سے تو نہ کفن آئے گا اور نہ سوئم تک رہنے والے مہمانوں کی خاطر مدارت کا خرچہ پوراہوگا۔ اب اگلا دنگل کب اور کہاں ہوگا پتہ نہیں جس میں ڈھول بجا کر وہ رشید بیکری والے کا قرض اتارے گاجو اس نے بچے کے کفن دفن کے لئے لیا ہے،پر اب شاید ڈھول کی تھاپ میں وہ جو ش اور ولولہ نہ ہو۔ یا کوئی اٹھ کر یہ بھی تو کہہ سکتا ہے۔ ’’دو دن ہوئے نہیں لڑکے کو مرے ہوئے اور باپ صاحب دیکھوپھر میلے میں پہنچ گئے ڈھول پیٹنے‘‘ اب کسی کا منہ تو بند نہیں کر سکتا کوئی۔ کوئی کیا جانے کہ بیٹے کے مرنے سے ڈھول کی تھاپ بند ہو نہ ہو ،پر ڈھول کی تھاپ سے ہی باقی دو زندگیوں کی سانس چلے گی۔