[تحریر: قمرالزماں خاں]
حکمران کتنے بھولے بادشاہ ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ وقت ان کے ہاتھ میں رہے گا! ان کی حاکمیت ہمیشہ قائم رہے گی، ان کے اثاثے بڑھتے رہیں گے، ان کی رعونت اور تکبرکو دوام حاصل رہے گا، ان کے ایکڑوں اور مربعوں میں قائم عیاشی کدے صدا آباد رہیں گے اور یہ کروڑوں بے بس عوام اسی طرح سسکتے بلکتے اور اذیتوں کا شکا ررہیں گے۔ مزدور وں اور کسانوں کی نسلیں اپنی زندگی کا خراج دے کر ان کی تعیشات کے لئے وسائل پیدا کرتی رہیں گی۔ کارخانوں اور کھیتوں میں محنت کشوں کے خون سے معرض وجود میں آنے والی پیداوار، اور اگنے والا اناج مراعات یافتہ طبقے کی نسلوں کی گالوں پر سرخ و سپید رنگ بھرتا رہے گا اور خود وہ بھوک اور افلاس کی پیلاہٹ اور سیاہی میں گھلتے سڑتے رہیں گے۔ اقتدار اور وسائل پر قابض اقلیتی طبقہ اور ان کے تنخواہ دار لکھاری ایسا تاثر دیتے ہیں کہ ایسا ازل سے ہورہا ہے اور ابد تک ہوتا رہے گا۔ ان کے خریدے ہوئے ’’پروہتوں‘‘ کی دلیل ہے کہ کہ پانچ انگلیاں برابر نہیں ہیں تو تمام انسان برابر کیسے ہوسکتے ہیں! ان کے محلات میں بیٹھ کر ضرب المثلیں گھڑنے والے ’’دانش وروں‘‘ کی منطق ہے کہ ’’سارا گاؤں بھی مر جائے مگر مراثی کا بیٹا گاؤں کا چوھدری نہیں بن سکتا ‘‘! لاکھوں کروڑوں روپے کی ماہانہ مراعات لینے والے مشیروں کا خیال ہے کہ آج بھی ’’دی پرنس‘‘ میں لکھے ہوئے میکاولی کے اصولوں کے مطابق لوگوں کودھوکوں، شعبدوں، چالاکیوں، کھیل تماشوں، خیرات اوربھیک کے احسانوں کے ذریعے اپنا حق لینے کے فیصلے سے باز رکھا جاسکتا ہے۔ حرص اور ذاتی مفاد کے حربوں سے عام لوگوں کو مطیع اورانکی پیدائشی حریت پسندانہ سوچ کو کند کرنے کی پالیسی کو تسلسل سے جاری رکھ کر سمجھا جارہا ہے کہ سارا سماج موقع پرستی کی دلدل میں دھنس کر اپنی ذلت پر محض تماشائی کا کردار ہی ادا کرتا رہے گا۔ حکمرانوں کے خیال میں انکی انقلاب برپا کرنے کی جعل سازی پرمبنی بیان بازی اور افسانہ پردازی، ’’چینی مٹی‘‘ سے گھڑے ہوئے نام نہاد لانگ مارچ، دھرنے اور تحریکیں، خیراتی سکیموں، دکھاوے کے منصوبوں، نان ایشوز اور ڈرامہ بازیوں سے ان کا نظام یونہی چلتا رہے گا، پانچ سال تک غریبوں کو لوٹتے رہیں گے، عالمی سامراجی اداروں کی گماشتگی کرکے یہاں کے وسائل عالمی بنکوں اور اجارہ داریوں کو منتقل کرتے رہیں گے اور پھر الیکشن کے تحت دو نمبر تبدیلی لا کر ایک دفعہ پھر انکے دوسرے بھائی بند اسی شیطانی نظام کو جاری وساری رکھیں گے۔ حکمرانوں اور انکے پالتونظریہ دانوں کا پختہ خیال ہے کہ انکے تمام تر جرائم، لوٹ مار، سامراجی غلامی اور بھیانک کردار کے باوجود سماج معمول کے مطابق چل رہا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا، لوگوں کی بند زبانوں کو دیکھ کر انکا گمان ہے کہ لوگوں کے حواس خمسہ معطل ہوچکے ہیں اور ان کو نہ تو کچھ دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی سنائی دے رہا ہے، حکمرانوں کا خیال ہے کہ لوگ شائد سوچنے کی اپنے جبلی طاقت سے محروم ہوچکے ہیں! انکی ستم رسیدگیوں کے جواب میں محنت کش طبقے کے کسی شدید ردعمل کی عدم موجودگی میں ان کا خیال ہے کہ اب محنت کش طبقہ’’حرکت میں نہیں آئے گا‘‘۔ ان کے خیال میں پاکستان میں اصلی تحریر اسکوائیر نہیں بنے گا کیوں کہ وہ نقلی تحریر اسکوائر بنوا چکے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے آقا، امریکی سامراج کا خیال ہے کہ وہ اس کی پالتو بنیاد پرستی، جسے وہ کبھی اپنے حق میں اور کبھی اپنا دشمن بنا کر استعمال کرتا چلا آرہا ہے، اب فرسودہ ہو چکی ہے لہذا اب’’ لبرل اور روشن خیال بنیاد پرستی‘‘ ایجاد کرکے استعمال میں لائی جائے تاکہ ممکنہ اور حقیقی عوامی تحریکوں کا راستہ روکا جاسکے۔ ان کا گمان ہے کہ نئے طریقوں سے حکومتیں اور چہروں کی تبدیلیوں سے لوگ اپنی بھوک کو بھول سکتے ہیں اپنی محرومیوں سے صرف نظر کرسکتے ہیں، حکمران طبقے کے تنخواہ داروں کا یقین کہ ’’پانچ سال تک انکی جمہوریت کا تسلسل سے چلتے رہنا بہت بڑا کارنامہ ہے ‘‘وہ سمجھتے ہیں کہ بے روزگاری سے ہلکان، بیماریوں سے بے حال، تعلیم سے محروم، دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے گرنے والی لاشوں کو اٹھانے والے شکستہ حال لوگوں سے بہترین انتقام انکی سرمایہ دارنہ جمہوریت ہے جس کی افیون کے نشے میں مبتلا ہوکر وہ سب رسوائیوں اور ذلتوں کو فراموش کردیں گے۔ پھراور لٹیروں کے گروہ پانچ پانچ سال بعد بدل بدل کر عوام کا خون چوستے رہیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ مزدور بلدیہ ٹاؤن کی طرح کارخانوں میں سینکڑوں کی تعداد میں جل جل کر مرتے رہیں گے اور یہ ان کی موت کو حادثہ کہہ کر معمول کا واقعہ قراردیتے رہیں گے۔ حکمرانوں کے خیال میں عوام کٹھ پتلیاں ہیں اور وہ انکے اشاروں پر ناچتی رہیں گی۔ وہ اپنے جلسوں میں لائے گئے اور اپنی محرومیاں دکھانے کے لئے آئے ہوئے بدحال غریبوں کو اپنا پرستار سمجھتے ہیں۔ حکمرانوں کے تمام دھڑوں کا خیال ہے کہ وہ بہت مقبول ہیں اور ہمیشہ کامرانیوں کے ہار انکے گلے میں پڑتے رہیں گے!اگر یہ سچ ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ سماج مردہ ہوچکا ہے۔ انسان چل پھر ضرور رہے ہیں مگر زندگی سے محروم ہیں۔ لوگوں نے اپنی محرومیوں سے سمجھوتہ کرلیا ہے۔ انہوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ طبقاتی تقسیم ہی ازلی اور ابدی حقیقت ہے اور اسکا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ اب کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ سب کچھ جوں کا توں رہے گا۔ اکثریت کام کرتی رہے گی اور سرمایہ داروں، جاگیرداروں، جرنیلوں، ججوں اور حکمرانوں کی اقلیت، محنت کا استحصال کرتی رہے گی۔ کام کرنے والے غریب رہیں گے اور کچھ نہ کرنے والے عیاشیاں کرتے رہیں گے۔ مگر یہ سچ نہیں بلکہ ایک تاثر ہے جو حکمران طبقہ اور اسکے حلیف دانشور، صحافی، لکھاری، مذہبی پروہت، تعلیمی نصاب وضع کرنے والے ماہرین، نظریہ دان اور دھوکہ بازی کے ایکسپرٹ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ نہ تو لوگ مرگئے ہیں اور نہ ہی وہ کٹھ پتلیاں بن چکے ہیں۔ ہاں وہ خاموش ضرور ہیں، وہ حیرا ن بھی ہیں اور مضطرب بھی۔ ان کی خاموشی حساب کتاب کا وقفہ ہے، یہ وقفہ امر نہیں ہوسکتا ہاں لمبا ضرور ہوسکتا ہے کیونکہ انکے ساتھ کی گئی بے وفائیوں اور غداریوں کی داستان بہت لمبی ہے۔ ان کو کبھی آزادی کے نام پر بے وقوف بنایا گیاکبھی آمریتوں اور کبھی جمہوریتوں کے نام پر الجھایا گیا ہے۔ ان کو روشن خیالی اور لبرل ازم کے ساتھ ساتھ بنیاد پرستی کے دھوکوں میں مبتلا کیا گیا ہے۔ بھوک کے مارے نحیف بدن لوگوں کو کبھی نیوکلئیر طاقت بننے کی خوشخبری دے کر گرمایا گیا تو کبھی ایشین ٹائیگر بنانے کی نویدیں دیں گئیں۔ کبھی احتساب اور کبھی انتخاب کی نعرہ بازی کی گئی۔ عام آدمی کو اصلاح پرستی اورجعلی انقلاب کی لفاظی کے ذریعے بھی بہکایا گیا ہے، قوم پرستی اور عوام دوستی کے چکموں کے تازیانے بھی اسی عوام پر لگائے گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سماج بدلنے کے وعدوں کے ساتھ وحشی فوجی آمریتوں کے خلاف مردانہ وار لڑنے والے حریت پسندوں کے خون کو ’’مصالحت اورمفاہمت‘‘ کی غداری کے ہاتھوں بیچ دیا گیا ہے۔ عوام دکھی ہیں کہ ان کے نام پر سیاست کرنے والوں نے ان کو ہر قدم پر اپنی حرص کے بدلے یرغمال بنایا ہے۔ وہ سکتے کی حالت میں ہیں کہ انکے خلوص اور قربانیوں کی کتنی بری طرح تذلیل کی گئی ہے۔ یہ سکتہ، خاموشی اور حیرانگی ایک دن غصے اور انتقام میں ضرور تبدیل ہوگی۔ پھر کوئی جعلی انقلاب، لانگ مارچ، دھرنا، الیکشن اور جمہوریت کا بدترین انتقام ان کا راستہ نہیں روک سکیں گے۔ لوگ جب اس دھوکہ دہی کے خلاف میدان عمل میں آئیں گے تو پھر ایکٹروں اور مربعوں پر تعمیرعیاشی کے اڈوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی اور ان میں رہنے والے دھوکہ باز، دنیا بھر میں چوہوں کی طرح جائے پناہ ڈھونڈتے پھریں گے بالکل حسنی مبارک، بن علی، قذافی اور شاہ ایران کی طرح۔ یہ سب ہوکر رہنا ہے۔ بس زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس کے ہونے میں کچھ تاخیرمزید ہوجائے مگر اس کا ہونالازم ہے۔ اس تاخیرمیں بھی ایک مثبت اشارہ ہے کہ حقیقی تبدیلی کی خواہش رکھنے والے، انقلابی قوتوں اور محنت کش طبقے کی صفوں کو درست کرلیں تاکہ اب اس دھرتی پر ایک نیا 68-69ء ابھرے تو رائگاں نہ جائے اور اسکو کوئی سوشلسٹ انقلاب کی منزل کی بجائے جمہوری رد انقلاب کی چوکھٹ پر قربان نہ کردے۔ قدرت کے تبدیلی کے اٹل قانون کے خلا ف محض خواہشاتی سوچ پر مبنی حکمران طبقے کا اطمینان انکی جہالت کی غمازی کرتا ہے۔ وہ فطرت کی جدلیات اور محنت کش طبقے کی قوت محرکہ سے ناواقف ہیں۔ حکمرانوں کے خلاف محنت کش طبقے کی نفرت اور حقارت میں بتدریج اضافہ ایک دھماکہ کی شکل میں پھٹے گااور پھر غاصب اور ظالم قوتوں کوسوچنے کی مہلت بھی نہیں ملے گی۔ ایسا ہوکر رہے گا یہی نوشتہ دیوار ہے۔