[تحریر: فرہاد کیانی]
جیوتی سنگھ پانڈے کے وحشیانہ بلادکار اور موت نے اس بربریت کو ایک بار پھربے نقاب کر دیا ہے جو معاشی ترقی کی ظاہری چمک دمک کے نیچے ہندوستانی سماج کو غارت کر رہی ہے۔ 23سالہ طالبہ کے ساتھ ہونے والا جرم ہندوستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ در حقیقت 1990ء اور2008ء کے درمیان ہندوستان میں بلادکار کے کیسوں میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس رپورٹ ہونے والے 256,329 پر تشدد جرائم کے واقعات میں سے 228,650 خواتین پر تشدد سے متعلق تھے اور بلاد کار کے صرف 10فیصد کیس رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ دہلی کو دنیا میں بلادکار کا دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے زیادہ دلت عورتیں زیادتی کا شکار بن چکی ہیں اور کشمیر اور ماؤسٹوں کے زیر اثر علاقوں میں سکیورٹی فورسز اسے عوام کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔ ہندوستان میں ہر بیس منٹ میں ایک عورت کا ریپ ہوتا ہے۔
مارکس نے کہا تھا ’’کسی سماج کی ترقی کا اندازہ خواتین کے سماجی مقام سے لگایا جا سکتا ہے‘‘۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان دنیا میں خواتین کے لیے چوتھا بد ترین ملک ہے۔ ہندوستانی خواتین اور بچیوں کے مصائب ان کی پیدا ہونے سے پہلے ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک کروڑ سے زیادہ بچیوں کا ا سقا طِ حمل ہو چکا ہے اور ہر سال پانچ لاکھ سے زائد بچیاں پیدا ہونے سے قبل ہی ختم کر دی جاتی ہیں۔ چھ سال کی عمر تک لڑکوں کی تعداد لڑکیوں کے مقابلے 71 لاکھ زیادہ ہے۔ ہندوستان میں 100 عورتوں کے مقابلے 109.4 مرد ہیں۔ محنت کش خواتین کا تناسب دیہات میں 26.1 فیصد اور شہروں میں 13.8 فیصد ہے۔ انہیں برابر مقدار کے کام کے عوض مردوں کی اجرت کا محض 62 فیصد ادا کیا جاتاہے اور وہ بھی ایک ملک میں جہاں 69 فیصد آبادی دو ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ 2011-12ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو تیزی سے گر کر 5.3 فیصد تک آ پہنچی ہے۔ 2013ء کے لیے معاشی پیشن گوئیاں بھی بہت زیادہ پر امید نہیں۔ 9 فیصد کے لگ بھگ شرح نمو بھی ہندوستانی عوام کو بربادی کے سوا کچھ نہیں دے سکی۔ معاشی ترقی کا فائدہ قلیل تعداد میں موجود درمیانے طبقے کو ہوا جبکہ ایک ارب ہندوستانی اذیت اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے گئے۔
اس ہولناک جرم کے خلاف ہونے والے مظاہرے حکمران طبقات کے لیے بہت غیر متوقع تھے۔ اگرچہ گزشتہ کچھ عرصے میں ہندوستان میں سول سوسائٹی کی کئی تحریکیں چلی ہیں جن میں دائیں بازو کے انا ہزارے اور کارٹونسٹ اسیم تریو دی کی رہائی کے لیے کی جانے والے بھوک ہڑتالیں بھی شامل ہیں، لیکن حالیہ مظاہروں کے خود رو پن اور شدت نے حکمرانوں کو پریشان کر دیا۔ حتیٰ کے دہلی کی وزیرِ اعلیٰ شیلا ڈکشت کو بھی لوگوں کاغصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ایک مظاہرے میں شرکت کرنا پڑی۔ لیکن حکمران طبقے اور نام نہاد سول سوسائٹی کی ان خواتین کا ہندوستانی محنت کش عورتوں کے مصائب سے کوئی تعلق نہیں۔ ہندوستان کی بورژوا سیاست میں کئی خواتین بڑے بڑے عہدوں اور قیادتوں پر فائز رہی ہیں لیکن عورتوں کی غریب اکثریت کی حالت میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی سے صدر پارتیبھا پٹیل تک اور مایاوتی سے جے للیتا اور ممتا بینر جی تک ان خواتین کا ابھار ہندوستان کی عام خواتین کے لیے بے معنی اور بے سود ہے۔
حقوقِ نسواں کے پیٹی بور ژوا علمبردار مردانہ ثقافت اور مردوں کی ذہنیت کو ان جرائم کی وجہ بتا رہے ہیں جبکہ آر ایس ایس جیسی رجعتی دائیں بازو کی تنظیمیں عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے اور مغربی کلچر کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ہندوستانی سرمایہ داری اس نو آبادیاتی ملک کو ایک جدید بورژوا قومی ریاست بنانے، قومی جبر، نسلی اور مذہبی تفرقات کو حل کرنے کے ساتھ عوام کو بنیادی انفرا سٹرکچر اورسہولیات فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ جبکہ خواتین کا مسئلہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ سماجوں میں بھی حل طلب ہے۔ ’قانون سازی‘ اور دیگر ’اقدامات‘ کے ذریعے ہندوستانی عورتوں کی نجات کا لبرل دانشوروں ا ور این جی اوز کا نظریہ نا سمجھی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ عورتوں کے خلاف جرائم کی شدید ترین انداز میں مذمت اور مجرموں کو ان کے حیوانیت کے مطابق قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن حقوقِ نسواں کے بورژوا حامیوں کی بھڑ چال میں شامل ہو جانا طبقاتی مصالحت اور محنت کش طبقے کی تحریک سے غداری ہے۔ ہندوستان کے ’کمیونسٹ‘ بھی مجرمان کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور ہندوستانی مردوں کی’ سوچ میں تبدیلی‘ کی لا حاصل اور لا متناہی بحث میں الجھے پڑے ہیں۔ ایسے مظالم کی وجہ بننے والی ٹھوس سماجی اور معاشی حقیقتوں کو سمجھنے میں ان کی ناکامی قطعی باعث حیرت نہیں ہے۔ ان کی سیاست محض بورژوا پارلیمانی جوڑ توڑ تک محدود ہو چکی ہے۔ انقلابی سوشلزم تو درکناروہ مرحلہ وار انقلاب اور اصلاح پسندی کو بھی ترک کر چکے ہیں۔
سماج میں ہر طرح کے جبر کی بنیادی وجہ طبقات کی تقسیم ہے۔ عورتوں اور سماج کے دوسرے محروم اور مجبور حصوں کی نجات کا واحد راستہ طبقات سے پاک سماج کا قیام ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف انقلابی لڑائی میں ہندوستانی عورتوں کا کلیدی کردار ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ انقلابی جدوجہد میں عورتیں مردوں سے آگے کھڑی ہوتی ہیں۔ عرب ممالک میں اٹھنے والی تحریکوں نے اس حقیقت کو پھر سے درست ثابت کر دیا ہے۔ جن سماجوں میں عورتیں شدید جبر کا شکار تھیں، وہ اس ظلم اور غربت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔ عورتوں کی آزادی کا سفر طبقاتی جدوجہد کے کارواں کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ گھریلو مشقت، استحصال، جنسی طور پر ہراساں کیے جانے، غربت اور تشدد سے ایک سوشلسٹ انقلاب ہی نجات دلا سکتا ہے۔ 1917ء کے بولشویک انقلاب نے عورتوں کو گھریلو غلاموں اور سستی لیبر کی حیثیت سے نکال کر سماج میں با عزت، آزاد اور پیداواری مقام دیا۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی عورتوں کی حالت کچھ مختلف نہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں خواتین محنت کشوں خاص طور پر گارمنٹس کی صنعت میں کام کرنے والی خواتین کے حالات بہت ہولناک ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں افغانستان اور پاکستان عورتوں کے لیے بد ترین ممالک ہیں، جہاں انہیں بے پناہ غربت اور محرومی کے ساتھ ساتھ مذہبی جنونیت کا سامنا ہے۔ غیرت کے نام پر خواتین کا قتل ان ممالک میں معمول ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے حالات تیزی سے بد تر ہو رہے ہیں۔ اس برس خواتین کے عالمی دن پر ان ممالک میں این جی اوز اور حکومتیں بہت پر تعیش پروگرام منعقد کریں گی۔ لیکن 1917ء کا انقلاب روس بھی اس روز شروع ہوا تھا جس میں عورتوں نے اپنے طبقاتی بھائیوں کے شانہ بشانہ زار کی ظالمانہ بادشاہت کے خاتمے کی لڑائی لڑی جو اکتوبر میں ایک سوشلسٹ فتح پر منتج ہوئی۔ ہندوستان اور اس خطے میں ایک ایسا انقلاب نہ صرف مذہبی، نسلی اور علاقائی تعصبات کا خاتمہ کرے گا بلکہ جنسی تفریق اور عورتوں پر جبر کو بھی مٹا دے گا۔ ایک سوشلسٹ فتح عورتوں اور ساری نسل انسانی کی حقیقی آزادی کی جانب پہلا قدم ہو گا۔
متعلقہ:
بھارت کی تاریکی
جنگ آزادی 1857ء: ڈیڑھ سوسال بعد بھی اس جنگ کو جیتنا باقی ہے۔ ۔
پاک بھار ت تعلقات؛ مصنوعی دشمنی جعلی دوستی
اصل ہندوستان کی بیداری