[تحریر:پارس جان]
14دسمبر کو پشاور ائیرپورٹ پر ہونے والے طالبان کے حملے نے ایک دفعہ پھر اس ریاست کی کمزوری اور اس کے اندر جاری تضادات کو عیاں کر دیا ہے۔ پشاور ائیرپورٹ کو عام ہوائی ٹریفک کے علاوہ پاکستان کی فضائی افواج بھی استعمال کرتی ہیں اس کے علاوہ یہ سول ایوی ایشن کے زیر استعمال بھی ہے۔ جتنی آسانی سے پانچ خود کش مسلح حملہ آوروں نے پورے ائیر پورٹ کو یرغمال بنا لیا وہ اس ریاست کے باہمی بر سر پیکاراداروں میں سے کسی ایک کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ سامراجی طاقتیں اور زوال پذیر ریاستی ادارے بربریت اور دہشت کو اس سماج پر مسلط کرتے چلے جا رہے ہیں اور کچھ عرصے بعد ایسے واقعات ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہیں جو اس تمام جنونیت کے پس پردہ مخصوص مقاصد کی غمازی کرتے ہیں۔ لیکن جلد یا بدیر پاکستان کے محنت کش حکمران طبقات کے اس باہمی خونی کھلواڑ کا جواب دیں گے اورایک طبقاتی جنگ کا آغاز کریں گے۔
اکثریتی آبادی کی بنیادی ضرورتوں، تمناؤں، آرزؤں اور خوابوں کے ساتھ ساتھ ٹھوس اور زندہ حقائق کا قتل سرمایہ دارانہ سماج اور ریاست میں کوئی نئی بات نہیں۔ پہلے دن سے ہی دھوکہ دہی اور جعلسازی اس حکمران طبقے کا وطیرہ اور اس کی اخلاقیات کی بنیادی خاصیت رہے ہیں۔ مگر جب تک سرمایہ داری میں رتی بھر بھی سماج کو ترقی دینے کی گنجائش موجود تھی تو کسی حد تک حکمران طبقات کی گفتگو، پالیسیاں اور تناظر سماج کی حقیقی صورتحال سے متعلق ہوا کرتی تھیں مگر اب تو جھوٹ کو اس حد اور اس وقت تک متواتر ڈھٹائی اور بے شرمی سے بولا جاتا ہے جب تک وہ واقعی سچ لگنا نہ شروع ہو جائے۔ مگر حکمران طبقات کا المیہ یہ ہے کہ روزمرہ زندگی کی تلخیاں اور ترشیاں عوامی سوچ اور شعور کو واقعات کے پیچھے چلتے چلتے حقائق کی جانچ پڑتال پر مجبور کر ہی دیتی ہیں۔
مارکس نے بہت پہلے وضاحت کی تھی کہ ریاست اگرچہ سماج کی ہی پیداوار اور آئنہ دار ہوتی ہے مگر وہ بحرانی کیفیت میں اپنے آپ کو سماج سے لاتعلق اور بیگانہ کر لیتی ہے۔ پاکستانی حکمران طبقے اور اس کی نمائندہ ریاست کی موجودہ کیفیت اس کی بہترین مثال ہے۔ فوج، عدلیہ، میڈیا، پارلیمان اور دیگر تمام ادارے سماجی مسائل کو جب حل نہیں کر سکتے تو وہ ان کو تسلیم کرنے سے ہی یکسر انکاری ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ان مسائل سے روپوش ہونے کے لیے اپنے خود ساختہ مسائل، ایشوز اور تنازعات کی ایک نئی اور مصنوعی دنیا تخلیق کی ہے جس میں وہ نہ صرف رہتے ہیں بلکہ سارے سماج کو حقیقت سے فرار ہو کر اس میں رہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ بے نظیر مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے ذریعے سماج کو بھڑکتے ہوئے دوزخ میں تبدیل کر دینے کے بعد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی خیرات کے ذریعے سماج کو جنت نظیر بنا دینے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ نسلِ انسانی کی بقا کو شدید خطرات سے دوچار کر کے اسے فلاحی ریاست کی طرف لانگ مارچ قرار دیا جا رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں ہونے والی وفاقی کابینہ کی میٹنگ کی اگر میڈیا رپورٹس کا جائزہ لیا جا ئے تو ایسے لگتا ہے جیسے کسی خلائی مخلوق کا باورچی خانہ ہو جہاں انتہائی مزیدار کھانا کھانے کے بعد ڈکاریں ماری جا رہی ہوں۔ پہلے تو وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ نے اپنے روایتی انداز میں معیشت کی ترقی اور عوامی خوشحالی کی ایک تصویر کشی کی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ غربت بہت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ ترسیلاتِ زر15 فیصد اضافے کے ساتھ ایک ارب ڈالر ماہانہ کی ریکارڈ سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ بر آمدات میں رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.3 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ جبکہ درآمدات میں 2.2 فیصد کمی آئی ہے۔ ریونیو جنریشن کے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور FBR نے ان چار ماہ میں گزشتہ برس کے ان چار ماہ کی نسبت 8 فیصد زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔ کراچی سٹاک ایکسچینج اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ ترقی کرنے والی سٹاک ایکسچینج ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ افراطِ زر جو 2008ء میں 25 فیصد تھا وہ اب کم ہو کر 7.7 فیصد ہو گیا ہے۔ حفیظ شیخ کی اس کارکردگی پر جس والہانہ انداز میں وزیرِ اعظم اور ان کی کابینہ نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا وہ اس حکمران طبقے کی پراگندگی اور ثقافتی غلاظت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ویسے تو ملک کے طول و عرض میں اس وقت بھوک، بیروزگاری، لاعلاجی، جہالت اور تعفن کی چکی میں پسنے والے انسانوں کی حالتِ زار دیکھ کر اس رپورٹ کی صداقت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر اس سے قطع نظر خود اسی کابینہ کی ڈیڑھ ماہ قبل ہونے والی میٹنگ کو اگر یاد کریں تو حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے جب وزیرِ اعظم سمیت تمام وزرا ء نے معیشت کی دگرگوں اور آئے روز بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیشِ نظر وزیرِ خزانہ کی شدید باز پرس کی تھی اور اس کے بعد وزیرِ خزانہ نے جوابی حملوں کے ذریعے ساری کابینہ کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ ایک تو یہ سچ ہے کہ کابینہ جہالت کا پلندہ ہے اور ان کی اکثریت معیشت کی الف ب سے بھی واقف نہیں اور دوسری طرف ان کو احساس بھی دلوا دیا گیا ہے کہ حفیظ شیخ اور اس کے حقیقی ’’آقا‘‘ ہی معیشت کو چلانے اور ’’بہتر‘‘ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ یہ دونوں اجلاس اور ان میں ہونے والی متضاد بحثیں حکمرانوں کے سماجی مسائل کی طرف رویے اور بیزاری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس طبقے کا کردار حال ہی میں ٹیکس گوشواروں سے متعلقہ ایک رپورٹ میں بھی منکشف ہوا ہے جس کی رو سے 300 کے لگ بھگ پارلیمنٹیرین اور سینیٹرز ٹیکس چور ہیں۔ یہی حال بحیثیتِ مجموعی مقامی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا ہے۔ 13 دسمبر کو نیب کے چیئر مین فصیح بخاری نے اپنی پریس بریفنگ میں اس حکمران طبقے کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں سالانہ 5000 ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے میگا پراجیکٹس میں 350 ارب روپے کی کرپشن کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ جو عوام کو جتایا جاتا ہے کہ حکومت نے ان کے لیے نئے ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں درحقیقت یہ ان سیاستدانوں اور ان کے عزیز و اقارب کے لیے لوٹ مار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ فصیح بخاری نے مزید کہا کہ اگر بینکنگ کے شعبے میں ہونے والی 350 ارب روپے کی کرپشن اور دیگر شعبوں میں ہونے والی بدعنوانیوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو ملک میں یومیہ تقریباً 15 ارب روپے کی کرپشن کی جا رہی ہے۔ اس سے قبل ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بھی اسی طرح کے ملتے جلتے اعداد وشمار دیکھنے میں آئے تھے۔ مگر حکمران ان اعدادو شمار کو سرے سے تسلیم کرنے سے ہی انکار کر رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوٹی ہوئی رقم کہاں اور کس کے پاس ہے۔ لیکن اس ساری لوٹ مار پر دل جلانے والے سرمایہ داری کے معذرت خواہ اور مگرمچھ کے آنسو بہانے والے جج صاحبان اور دیگر نیک خواہشات رکھنے والے خواتین و حضرات یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہیں کہ یہ کرپشن اس نظام کی ناگزیر ضرورت اور پیداوار ہے۔ کرپشن اور لوٹ مار کا اتنا بڑا حجم اور اس کی گردش ہی خون کی طرح بینکنگ سیکٹر اور سٹاک ایکسچینج کے ڈھانچے کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ یہ کرپشن بھی نہ ہو تو ملک میں بینکنگ سیکٹر سمیت دیگر سارے مالیاتی شعبے کا دھڑن تختہ ہو جائے۔
اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے سے ہٹ کر معیشت کی حقیقی صورتحال یہ ہے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر تیزی سے سکڑ رہے ہیں اور اب 9 ارب ڈالر کی تشویشناک سطح کو چھو رہے ہیں جس پر سٹیٹ بینک کو بھی شدید تحفظات ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ معدنیات کے شعبے میں لوٹ مار جاری ہے اور اس سے حاصل ہونے والے یا ممکنہ کمیشنوں کی توقع پر حکمرانوں اور ریاستی غنڈوں کی رالیں ٹپک رہی ہیں۔ حکومتی قرضے بڑھ رہے ہیں اور نجی شعبے کے لیے قرضے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ معاشی سر گرمی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے جزوی طور پر افراطِ زر کم ہو بھی جائے تو وہ کچھ عرصے بعد پہلے سے زیادہ تیزی سے بڑھ کر بے قابو ہو سکتا ہے۔ روزمرہ ضروریات کی چیزوں کو تیزی سے بر آمد کر کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بعد میں قلت کی وجہ سے انہیں مہنگے داموں خریدنا پڑ سکتا ہے۔ درآمدات کا کم ہونا در حقیقت معاشی سرگرمی کے تعطل کی وجہ سے ہے جسے کامیابی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ IMF، سامراجی امداداور ورلڈ بینک کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے نہیں ہے۔ انتخابی سال میں حکمرانوں کی مہم جوئی معیشت کے اس تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے۔
اس رسمی اور قانونی معیشت کے متوازی غیر رسمی معیشت کی شرح ترقی 9 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ غیر دستاویزی معیشت منشیات، اسلحے کی خریدو فروخت، اغوا برائے تاوان، کرائے پر قتل، ہنڈی اور دیگر جرائم پر مشتمل ہے۔ تمام ریاستی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تو اس کالے دھن میں ملوث ہیں یا اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں۔ ماورائے قانون اور غیر ریاستی عناصر جو پہلے ریاستی آشیر باد کے محتاج ہوا کرتے تھے اب ریاستی ادارے ان کی غلامی کرنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان میں تو صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ وزیر اور دیگر با اثر لوگوں سے جب کسی اغوا کی واردات کے حوالے سے رجوع کیا جاتا ہے تو وہ تاوان کے پیسے کم کرا کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلوچستان حکومت خود ایک معمہ ہے کہ آیا وہ قانوناً حکومت ہے بھی یا نہیں۔ کراچی اور سندھ میں بھی اغوا برائے تاوان ایک معمول کی بات بنتی چلی جا رہی ہے۔ ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق اس سال صرف کراچی سے تاوان کے لیے 200 سے زائد لوگوں کو اغوا کیا گیا ہے۔ 2012ء میں اب تک کراچی میں4843 گاڑیاں اور 20655 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں۔ 125 پولیس اہلکار سمیت 2210 معصوم قتل کیے جا چکے ہیں۔ کراچی میں چند ہزار کے عوض کرائے کے نو عمر قاتل دستیاب ہیں۔ پشتونخواہ میں ہم پہلے ہی کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ وزیرستان، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور، قبائلی علاقوں میں دہشت گرد وں نے اغوا برائے تاوان کو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دے دیا ہے۔ جرائم کی رفتار اور شدت کے حوالے سے پنجاب بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ پنجاب پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال اکتوبر تک مجموعی طور پر 339122 مقدمات رجسٹر کیے گئے جن میں قتل کے 5367، اقدامِ قتل کے6720، اغوا کے 13512، اغوا برائے تاوان کے 134 اور ڈکیتیوں کے 15507 واقعات شامل ہیں۔ اور جو مقدمات رجسٹر نہیں ہو سکے ہوں گے ان کی تعداد بھی اس کے لگ بھگ ہی ہو گی۔ فراڈِ اعلیٰ کے تمام تر دعووں کے باوجود ان جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اب اس نظام کی حدوو قیود میں ان کو روکا نہیں جا سکتا۔
بنیاد پرستی، دہشت گردی کو بھی اس کالے دھن نے ایک صنعت کا درجہ دے دیا ہے۔ ملاؤں اور بنیاد پرستوں کی سرپرستی اور نگہداشت اسی کالے دھن کے مرہونِ منت ہے۔ ملاؤں کے نہ صرف مدرسے اور مساجد کی بڑی تعداد بلکہ اب تو ان کے ٹی وی چینلز بھی اسی لوٹ مار اور جرائم کی کمائی سے چلائے جاتے ہیں۔ پھر اس میں سامراجی اور علاقائی قوتوں کی مداخلت اور ان کے ٹاؤٹ ریاستی گماشتوں کی کمیشن خوری نے فرقہ واریت اور جنونیت میں ہزاروں بے گناہ اور معصوموں کے قتل کو ایک سود بخش تجارت میں بدل دیا ہے۔ اسے روکنے کے لیے بھی اس کالے دھن کی ضبطگی کے علاوہ اور کوئی حل قابلِ عمل نہیں ہے۔ حکمران طبقے کی رٹ جتنی کمزور ہوتی جا رہی ہے اسی تناسب سے قومی اشتعال بڑھ رہا ہے۔ بلوچستان کے بعد اب سندھ میں بھی خفیہ ایجنسیوں کی معاونت سے انتشار اور خو ف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ کسی بھی قسم کے سیاسی عمل کا گلا گھونٹ کر محنت کش طبقے کو تحریکوں اور بغاوتوں سے کنارا کش کر دیا جائے۔ بلدیاتی آرڈیننس کے بعد اب ایک بارپھر کالا باغ ڈیم کا نان ایشو قوم پرستوں کو پلیٹ میں رکھ کر دیا گیا ہے تاکہ وہ اس کے گرد تھوڑی بہت سماجی حمایت حاصل کر سکیں اور پھر اسے سیاست کی منڈی میں فروخت کیا جا سکے۔
عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ میں ابھی تک کوئی واضح مفاہمت نہیں ہو پائی بلکہ ریاستی اداروں کے مابین اور ان کے اپنے اندر نئے حکومتی سیٹ اپ کے حوالے سے تضادات بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی مفاہمت پر مبنی امریکہ نواز حکومت اگرچہ ڈانواں ڈول ہے مگر ابھی تک امریکہ اور ریاستی ایجنسیوں کے پاس کوئی سنجیدہ متبادل بھی نہیں بن پایا۔ تحریکِ انصاف کی تا حال ریاستی پشت پناہی جا ری ہے اور اس کی کیمپئین پر بہت سے پیسے خرچ کیے جا رہے ہیں مگر خود حکومتی اور غیر حکومتی ذرائع کے سروے کے مطابق اب اس کی مقبولیت کا گراف مسلسل نیچے آنا شروع ہو گیا ہے۔ لمبے عرصے کی ناراضگیوں اور گلے شکوؤں کے بعد اب ریاستی پالیسی سازوں اور امریکیوں نے بھی دوبارہ نواز شریف کے ساتھ سنجیدہ بات چیت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ قوم پرستوں اور بنیاد پرستوں کے ساتھ اس کے اتحاد بنوا کر اسے دوبارہ اس قابل بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ پھر ملک کی باگ ڈور سنبھال سکے۔ وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے۔ ابھی حال ہی میں اس نے دوبارہ ضرورت پڑنے پر آصف علی زرداری کے ساتھ مفاہمت کرنے پر آمادگی کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس سے نواز لیگ کے اندر بھی شدید دراڑیں پڑ یں گی مگر اس حکمران طبقے کی مکروہ اقدار اور خیالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ اقتدار کی بندربانٹ میں لالچ اور ہوس کی بنا پر اصول اور موقف کو ذبح کر دینا ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ موجودہ مفاہمتی ایجنڈے کی ناکامی کے بعد جو بھی نیا مفاہمتی ایجنڈا لایا جاتا ہے وہ اس سے بھی بری طرح ناکام ہو گا اور اگر نئی حکومت بن بھی جاتی ہے تو اسے اپنے آغاز سے ہی پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی، سماجی، ریاستی اور سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ریاستی خلفشار کے پیشِ نظر کچھ لوگ یہ پیشنگوئی بھی کر رہے ہیں کہ شاید امنِ عامہ کی خستہ حال صورتحال کے پیشِ نظر انتخابات معینہ وقت پر نہ ہو سکیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ جو قوتیں آئندہ حکومتی سیٹ اپ کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں وہ شعوری طور پر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور کریں گی کہ انتخابات اس وقت تک نہ ہوں جب تک انہیں ان کی بقا اور حصہ داری کی مکمل ضمانت نہیں مل جاتی۔ فوج چونکہ براہِ راست اقتدار میں آنے کے لیے درکار مورال حاصل کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی اس لیے وہ بھی اپنی سرپرستی میں نیا حکومتی سیٹ اپ بنانے کے لیے سرگرم ہو چکی ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات اگرچہ معمول پر نہیں آ پائے مگر نئے حکومتی سیٹ اپ کی تشکیل کے لیے فوج اور امریکہ میں ایک مشروط قسم کا معاہدہ ہونا ناگزیر ہے۔ اس نظام میں امریکی آشیر باد کے بغیر نہ تو یہاں کوئی حکومت بنائی جا سکتی ہے اور نہ لمبے عرصے تک چلائی جا سکتی ہے۔ وزیرستان آپریشن کے گرد بھی بحث و مباحثہ آجکل ٹھنڈا پڑ رہا ہے اور امریکہ نے بھی حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر تمام طالبان کے دھڑوں کے ساتھ مذاکرات کی بات کی ہے۔ ادھر افغانستان اور پاکستان میں بھی طالبان کمانڈروں کا لین دین جاری ہے۔ اس کا براہِ راست تعلق خطے میں مسلسل بدلتے ہوئے طاقتوں کے توازن سے ہے۔ پشتونخواہ اور بلوچستان کے بعد اب کراچی میں بھی طالبان کا مصنوعی واویلا بآسانی سنا جا سکتا ہے۔
انتخابات کا معمہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ریاست بالخصوص کراچی کے حوالے سے کچھ سنجیدہ اقدامات کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ریاست کے اندر ریاستی سرپرستی میں ہی ایک نیم ریاست کے طور پر MQM کا کردار اب کچھ ریاستی دھڑوں کے لیے قا بلِ قبول نہیں رہا۔ لیکن تضاد یہ ہے کہ ریاست اور MQM کو اپنے اپنے بحران کی وجہ سے ایک دوسرے کی پہلے سے کئی گنا زیادہ ضرورت بھی ہے۔ نئی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی جانچ پڑتال کے عدالتی احکامات کے ذریعے MQM کی سیاسی قوت کو محدود کر کے انہیں کنٹرول میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ابھی تک ایم کیو ایم اس حوالے سے مزاحمت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ 17 دسمبر سے فوج کی سرپرستی میں انتخابی فہرستوں کی جانچ پڑتال شروع کی جا رہی ہے۔ حقیقت میں MQM میں مزاحمت اور ریاست میں کوئی بھی سنجیدہ آپریشن کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ریاست اپنی کمزوری کی وجہ سے پھر بیک فٹ پر آ سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو ان سیاسی قوتوں کے کارکنوں کو ایم کیو ایم کی درندگی کے انتقام کا نشانہ بننا پڑے گا جو آج ریاستی آشیر باد میں آپے سے باہر ہوئی جا رہی ہیں۔ اس لیے خاموش قوتیں تمام فریقین کے لیے قا بلِ قبول اور آبرو مندانہ مصالحت کروانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی ایک پینڈولم کی طرح ادھر سے ادھر جھول رہی ہے۔ ایک طرف پارٹی کے اندر مفاہمت کی پالیسی کے خلاف غم و غصہ پایا جا تا ہے۔ جس کا اظہار پنجاب کے کارکنوں نے ضمنی انتخابات میں ق لیگ کو ووٹ نہ دے کر بھی کیا ہے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی ایم کیو ایم کے ساتھ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ اگر اس کے باوجود پیپلز پارٹی دائیں بازو کے رجعتی دھڑے اور ن لیگ کے نئے مفاہمتی ایجنڈے سے خوفزدہ ہو کر ایم کیو ایم سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو باقی سارے نسلی، علاقائی اور فرقہ پرور گروہوں کو اکٹھا کر کے ایجنسیاں ایک خونی کھیل کھیل سکتی ہیں۔ دوسری طرف ایم کیو ایم جو آجکل عمران فاروق قتل کیس میں لندن میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے بھی سنجیدہ دباؤ میں ہے اور قیادت کی تبدیلی اور اسی طرح کے دیگرمباحثوں کے تناؤ کی وجہ سے فرسٹریشن بھی بڑھتی جا رہی ہے ایسی کیفیت میں وہ بھی کسی قسم کی مہم جوئی کی مرتکب ہو سکتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں کسی اہم شخصیت کا قتل کر یا کروا کر کراچی کے حالات کو اس سطح پر لے جانے کی کوشش کی جائے جس سے انتخابات ناممکن دکھائی دینا شروع ہو جائیں۔ مفاہمت کی جو بھی شکل بنے یہ بات تو طے ہے کہ محنت کش عوام کی انتخابات میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس صورت میں وہ یکسر اس سیاسی اور پارلیمانی انتخابات سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔ محنت کش اگر پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں ڈالیں گے تو پھر وہ کسی کو بھی ووٹ نہیں ڈالیں گے اور جب محنت کش ووٹ نہیں ڈالتے تو فرشتے ووٹ ڈالتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اسی وجہ سے اب عوام سے زیادہ فرشتوں کے ووٹ حاصل کر نے کی کوشش کر رہی ہے۔ عوام ہاتھ سے ووٹ دے دے کر اکتا چکے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مزدور، کسان اور غریب عوام پاؤں سے کب ووٹ ڈالتے ہیں۔
ایک اور جو مصنوعی ناٹک اور کھلواڑ یہاں پر کیا اور پھیلایا جاتا ہے وہ نام نہاد لبرل ازم اور بنیاد پرستی کا مصنوعی تضاد ہے۔ ابھی حال ہی میں ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے حملے کو بنیاد بنا کر ایک انتہائی جعلی کیمپئین شروع کی گئی تھی۔ ملالہ کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ اور معمہ بنا دیا گیا ہے۔ اسے دخترِ پاکستان قرار دے دیا گیا ہے۔ فوج اور امریکی سامراج کی طرف سے اس کی اس حد تک پذیرائی کی وجہ سے عوامی سطح پر بے شمار شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ بنیاد پرستوں کی کوئی سماجی حمایت نہیں ہے اور لوگ طالبان کے مظالم اور درندگی کے باعث ان سے سے نفرت کرتے ہیں لیکن دوسری طرف لوگ امریکی سامراجی اور پاک فوج سے اس سے بھی زیادہ نفرت کرتے ہیں اور بالخصوص قبائلی علاقہ جات اور سوات کے عوام نے اپنے تجربات سے سیکھا ہے کہ فوج، طالبان اور امریکہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ملالہ اور اس کے خاندان پر ایجنٹ ہونے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ سیدو شریف میں 11 دسمبر کو ایک سکول میں ملالہ کی تصویر لگانے پر طالبات نے شدید احتجاج کیا اور کلاسز کا بائیکاٹ کردیا۔ جس کی ایک وجہ ان میں مزید انتقامی کاروائیوں کاخوف تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں میں اضطراب اور ہیجان بڑھتا جا رہا ہے اور وہ مصنوعی متبادلوں اور مسیحاؤں سے اکتا چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ ریاست اور اسکی فوج انہیں تحفظ نہیں دے سکتی اور خود دہشت گردوں کی معاون ہے۔ وہ اب حقیقی متبادل قیادت کا انتظار کر رہے ہیں۔
اگرچہ پاکستانی سماج میں ابھی جمود اور تحریک کی پسپائی کی کیفیت ہے۔ محنت کش طبقے کی کوئی بہت بڑی تحریک نظر نہیں آ رہی۔ طالبِ علموں اور نوجوانوں میں اگرچہ شدید غم و غصہ پایا جا تا ہے مگر وہ بھی ابھی کسی بہت بڑی انقلابی تحریک میں نہیں ہیں۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ یہاں پر کوئی تحریک چلنے کے امکانات بھی مسدود ہو گئے ہیں۔ لوگ انتہائی اہم اور فیصلہ کن نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ وہ انتخابات میں چاہے بھر پور حصہ نہ بھی لیں لیکن وہ انتخابات کے نتائج کا لاشعوری طور پر انتظار کر رہے ہیں۔ انقلاب محنت کش طبقے کے لیے آخری آپشن ہوتا ہے۔ شاید وہ ابھی چند ایک دیگر آپشنز کو نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ جلد یا بدیر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایسے چوراہے پر پہنچ جائیں گے جہاں سے سارے راستے بغاوت اور انقلاب کی طرف جاتے ہوں گے مگر ان میں سے سماج کی حقیقی سوشلسٹ تبدیلی کو صرف ایک ہی راہ نکلے گی اور اور اس چوراہے پر مکمل تیاری اور منظم لائحہ عمل کے ساتھ مارکس وادیوں کاہونا بہت ضروری ہے تاکہ وہ محنت کشوں کی درست سمت میں رہنمائی کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی منزل کو یقینی بنا سکیں۔