[تحریر: آمنہ فاروق]
سعادت حسن منٹو نے اپنے ایک افسانے ’’لائسنس‘‘ میں لکھا تھا ’’ایک عورت کو حصول معاش کیلئے تانگہ چلانے کا اجازت نامہ نہیں ملتا مگر جسم بیچنے کا لائسنس اسے مل جاتاہے‘‘۔
منڈی کی اس معیشت میں جہاں ہر اخلاقی قدر بکتی ہے ہر اصول، ہر قانون فروخت ہوتاہے انصاف اور منصفوں کی بولی لگتی ہے ہر رشتہ فروخت ہوتاہے وہاں انسانی گوشت سب سے ارزاں اور بے مول بک رہا ہے۔ دوسری تمام اجناس کی طرح عورت بھی سستی بکنے والی جنس بنی ہوئی ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے مسلط کردہ مہنگائی ‘ بیروزگاری کے باعث سماج کے تمام رشتے ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ غربت اور حالات سے تنگ آکر خواتین عصمت فروشی کی صنعت میں روزگار ڈھونڈ رہی ہیں۔ حالات سے تنگ آج جب عورت روزگار کی تلاش میں اپنی قوت محنت کا سودا کرنے بھی نکلتی ہے تو اسے وہاں سب سے پہلے جسم کاسودا کرنے پر مجبور کیا جاتاہے، بصورت دیگر اسے ملازمت نہیں مل سکتی۔ انتہائی تنگ دستی کے حالات میں انہیں ان کڑی شرائط کے ساتھ کام کرنا پڑتاہے‘ اسے ہر وقت جنسی طورپر ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں خصوصاً پسماندہ ممالک کے اندر زیادہ تعداد میں لڑکیاں جسم فروشی کرنے پر مجبور ہیں۔ خاص کر معیشت کی اس خستہ حالی کے عہد میں جب روزگار کے مواقع پیدا ہی نہیں ہو رہے اس میں زندہ رہنے کیلئے عورتوں کی اکثریتی آبادی کو اس طرف رخ کرنا پڑتاہے۔ نہ صرف اندرون ملک بلکہ دوسرے ممالک سے عورتیں سمگل کرنے کا کاروبار معمول بن چکا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی دیکھیں تو ہر طرف عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی بڑی بڑی کانفرنسیں ہو رہی ہیں مگر اس کے باوجود اس کاروبار میں وسعت ہی آتی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے مبلغین اور پیٹی بورژوادانشور میڈیا پر عورتوں کے حقوق کے متعلق بلند و بانگ تقریریں کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ این جی اوز خواتین کے نام پر اپنا کاروبار چمکا رہی ہیں۔ اخلاقیات کے ٹھیکیدار بنے پھرنے والے’’معزز افراد‘‘ ایسے بھی ہیں جو دراصل پس پردہ اس کاروبار میں ملوث ہیں۔
موجودہ نظام میں جہاں تمام ذرائع پیداوار سرمایہ داروں کی ملکیت میں ہیں وہاں ان کاروباروں اور ان اداروں کی ملکیت بھی بڑے بڑے مشیروں اور وزیروں کے پاس ہے۔ اعلیٰ آفیسران، سیکرٹری صاحبان، سفیروں اور امیروں کے نام جو ایک طرف اپنی عیاشیوں کیلئے عورت کو بازاروں میں نچواتے ہیں اور دوسری طرف چار دیواری کا درس دیتے ہیں۔ خصوصاً نام نہاد مسلم ممالک کے اندر ان دھندوں سے معصوم بچے بھی جبر اور جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ غربت اور بھوک نے بچوں کو بھی اس دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ بظاہر ان ممالک کے اندر جسم فروشی غیر قانونی ہے لیکن در پردہ انہی ممالک میں ہی زیادہ ہوتی ہے۔ مذہبی بنیاد پرست ہوں یا لبرل ازم کے ٹھیکیدار دونوں ہی اسی سرمایہ دارانہ نظام رکھوالے ہیں۔ جب تک اس نظام کو نہیں اکھاڑاجاتا اور نجی ملکیت ختم نہیں ہوتی جسم فروشی ختم نہیں ہوسکتی۔
پاکستان کے اندر تو چائلڈ لیبر ایک سنجیدہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ محنت کش طبقے کے گرتے ہوئے معیار زندگی کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں بچے سکولوں میں جانے کی بجائے محنت کی منڈی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ان کی محنت کا استحصال کیا جاتا ہے اور انتہائی کم اجرت دی جاتی ہے وہیں انہیں جنسی استحصال کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق 2011ء میں2,303 بچوں سے زیادتی کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں مگر بے تحاشا کیس ایسے ہیں جن کی نہ تو خبر اخبار میں آتی ہے اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کے پاس کوئی ریکارڈ ہے۔ صرف لاہور میں 15 ہزار سے 20 ہزار بچے بس اسٹینڈز اور ریلوے اسٹیشن کے علاقوں میں جنسی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک جس میں74فیصد عورتیں نا خواندہ ہیں اورورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 58 فیصدکل آبادی غربت میں رہ رہی ہے اور خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے جبکہ 29.6 فیصد شدید بھوک کا شکار ہیں۔ وہاں جسم فروشی کا فروغ پانا حیرت انگیز نہیں۔ جنوبی ایشیا میں ایک اندازے کے مطابق 30سے 35فیصد تک جسم فروشی کے دھندے میں ملوث خواتین کی عمر 12 سے 17 سال کے درمیان ہے۔ افغانستان جیسے ملک کے اندر بھی ایران، یوگینڈا، تاجکستان اور چین سے عورتیں منگوائی جاتی ہیں۔ بعض رپورٹوں کے مطابق تہران میں سب سے زیادہ جسم فروشی ہوتی ہے۔ طالبان ریجن کے اندر بھی عصمت فروشی کا نہ صرف کاروبار موجود ہے بلکہ تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے اندر اگر دیکھیں تو خواتین کے ساتھ بچوں کا بھی جنسی استحصال کیا جاتاہے۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق 2004ء میں ہوٹلوں، پارکوں اور ریلوے سٹیشنزمیں 10,000 کم عمر لڑکیوں کو ان مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ معاشی حالات کے بگڑنے اور سرمائے کے استحصال میں اضافے کی وجہ سے اب ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بعض لڑکیاں زندہ رہنے کیلئے اپنی ماؤں کا پیشہ اختیار کرتی ہیں جو 12سال سے کم عمری میں ہی اس پیشہ میں شامل ہو جاتی ہیں۔ بنگلہ دیشن میں دنیا کی دوسری بڑی گارمنٹس انڈسٹری ہے جو 24ارب ڈالر کا زرمبادلہ کماتی ہے۔ جہاں 90 فیصد سے زائد خواتین ملازم ہیں۔ لیکن استحصال اتنا شدید ہے کہ وہ خواتین جنہیں جسم فروشی میں کام ملتا ہے انہیں خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے۔
انڈیا، جو اس وقت عالمی طور پر ابھرتی ہوئی معیشت تصور کی جارہی ہے اور جس میں قانونی طور پر پیسے کمانے کے لئے جسم فروشی کی اجازت ہے، میں بھی اس منڈی میں شریک ہونے والی خواتین کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ صرف کلکتہ میں50 ہزار بچے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کررہے ہیں جن میں 80 فیصد کم عمر لڑکیاں ہیں۔ ان بچیوں کو دوسرے شہر میں جسم فروشی کے لیے لے جایا جاتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ہر سال بھارت میں ایک کروڑ 20 لاکھ لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں سے دس لاکھ پہلی سالگرہ سے قبل فوت ہوجاتی ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، جو حقیقت کی درست ترجمانی نہیں کرتے، اس وقت انڈیا میں جسم فروشی کی منڈی سے قانونی طور پر منسلک خواتین کی تعداد6 لاکھ 80 ہزار ہے جب کہ ایک اندازے کے مطابق اس منڈی میں عورتوں کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے جن میں سے 12لاکھ کم سن بچیاں ہیں جن کی عمر 18سال سے بھی کم ہے۔ یہ تعداد ان خواتین کی ہے جو مخصوص چکلوں سے وابستہ ہے حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
یہ نظام جس میں چند سرمایہ دار 7ارب انسانوں کی زندگیوں کو اپنی ملکیت سمجھ کر ننگی جارحیت کر رہے ہیں ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ اس نظام میں ایک انسان کے بطور انسان اپنی زندگی گزارنے کے مواقعے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ انسانی زندگی سرمائے کی وحشت اور درندگی کی بھینٹ چڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ اس نظام کی دی ہوئی بھوک کی آگ میں نسل انسانی جل کر بھسم ہو جائے ا س نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔