بنگلہ دیش: فیکٹری میں آتشزدگی سے ہونے والی ہلاکتیں اور مزدور تحریک

[تحریر: عمر شاہد]
لبرل اصلاحات اور میکرو اکانومک اعدادو شمار میں بہتری کی وجہ سے دنیا بھر میں بنگلہ دیش کی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے۔ رواں سال جون میں ملک کے نامی گرامی گارمنٹس ایکسپورٹرز سے بنگلہ دیش کی ترقی پر بات کرتے ہوئے ہوئے امریکی سفارت کار ڈین مونزینا نے بنگلہ دیش کو اگلا ’ایشین ٹائیگر‘ اور ’نئی شاہراہ ریشم میں قدرتی مرکز‘ کے القابات سے نوازا تھا۔ لیکن اس نام نہاد سطحی ترقی کے نیچے غربت، ناانصافی، بربریت اور استحصال کی خوفناک کیفیت ہے جس کے ثمرات سے روزانہ عام آدمی متاثر ہوتا ہے۔ ہفتہ 24 نومبر کو ڈھاکہ سے کچھ دور اشولیا انڈسٹریل ایریا میں موجود تازرین فیشنز کی بارہ منزلہ فیکٹری میں ناقص حفاظتی انتظامات اور انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے لگنے والی آگ کے واقعہ نے بنگلہ دیش میں موجود استحصال کو بے نقاب کرتے ہوئے دنیا کے سامنے یہاں کے مزدوروں کی حالت زار کو واضح کیا۔ اس واقعہ میں 125 سے زائد مزدور جھلس کر ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔
یہ فیکٹری Li & Fung’s بچولیا کمپنی کے ذریعے امریکی مشہور برانڈز مثلاً Faded Glory, ENYCE وغیرہ کے لئے گارمنٹس تیا ر کرتی ہے۔ اس فیکٹری کے اہم گاہکوں میں امریکی ریٹیل چین وال مارٹ بھی شامل ہے لیکن واقعہ کے فوراً بعد وال مارٹ نے میڈیا کو جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا ہے کہ ’’ان کے ایک سپلائر نے ہمار ی اجازت کے بغیر اس فیکٹری سے کام لیا جو کہ ہماری پالیسیوں کی براہ راست خلاف ورزی ہے اور ہم نے اس سپلائر سے مکمل طور پر اپنے تمام تعلقات توڑ دئے ہیں‘‘۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس آگ پر قابو پانے میں پانچ گھنٹے سے زیادہ وقت لگا اور کئی محنت کش اس آگ میں زندہ جل گئے۔ محنت کش اس آگ سے بچنے کے لئے چھت کی طرف بھاگے اور جان بچانے کیلئے چھت سے چھلانگیں لگائیں مگر یہ کوششیں رائیگاں گئیں۔ آگ لگنے کے وقت 1000 کے لگ بھگ محنت کش شفٹ میں کام کر رہے تھے۔ اس آگ سے بچ جانے والے مزدوروں کے مطابق آگ لگنے کے بعد منیجرز کی طرف سے محنت کشوں کو فیکٹری چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی اورجیسے ہی دھواں بڑھا تو محنت کشوں کے احتجاج پر اس کو محض آگ سے بچنے کے لئے حفاظتی ڈرل کہہ کر مزید کام کرنے پر دھمکایا گیا۔ آگ لگنے کے دوران ہنگامی اخراج کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں اور یہ کام کرنے کی جگہ جلتی ہوئی بھٹی بن گئی جہاں کئی مزدور زندہ جھلس گئے۔ ابھی تک آنے والی رپورٹس کے مطابق 124سے زائد محنت کش اس واقعہ میں ہلاک ہو چکے ہیں اورلا تعداد زخمی ہیں۔ وال مارٹ اور دوسری ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے تازرین فیشنز کی انتظامیہ پرواقعہ کی ذمہ داری ڈالی گئی حالانکہ یہ فیکٹری تمام نام نہاد عالمی سٹینڈرڈز کے آڈٹس پر پورا اترتی تھی۔ باقاعدہ طور پر Ethical Sourcing کے آڈٹ میں کلئیر ہو کر Wrap Certified قرار پائی۔
بنگلہ دیش میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ اس سے پہلے 2010ء میں Tommy Hilfiger کے لئے مال تیار کرنے والی فیکٹری کے اندر آگ لگنے کے واقعہ میں 29 محنت کش ہلاک ہو چکے ہیں۔ 2006ء سے اب تک تقریباً 600 مزدور فیکٹریوں میں ناقص حفاظتی اقدامات اور کام کرنے کے بد تر حالا ت کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس کی چھان بین کروانے اور عدالت انکوائری کمیشن بنانے کا عندیہ دیا گیا لیکن یہ انکوائریاں، چھان بین، کمیشنزاور سازشیں ایک دھوکہ فریب ہے جس کے ذریعے ہر اہم مسئلے کو پسِ پشت ڈال کر محض کاغذی کاروائی کر کے فائل بند کر دی جاتی ہے۔ ان بیان بازیوں اور جعلساز ہتھکنڈوں سے حکمران طبقہ ہمیشہ اصل صورتحال پر پردہ ڈال کر مصنوعی اور فروعی تضادات کو ابھارتا ہے۔ دوسری طرف میڈیاکو ان مصنوعی کاروائیوں کو عمومی شعور کو بھٹکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
درحقیقت یہ اس واقعے کی اصل وجہ بنگلہ دیش کا تاخیر زدہ اور مسخ شدہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کا ادراک محنت کش طبقہ اپنے لاشعور میں کب کا کر چکا ہے۔ اس کا اظہار اگلے ہی روز ہوا جب ڈھاکہ کی سڑکوں پر ہزاروں محنت کشوں نے مظاہرہ کیا۔ ان مظاہروں میں محنت کشوں نے سڑکیں بند کر کے شمالی ڈھاکہ میں واقع اہم صنعتی مرکز اشولیہ کو مفلوج کر دیاجس کی وجہ سے کئی فیکٹریا ں سارا دن بند رہیں۔ محنت کشوں نے فیکٹری انتظامیہ اور حکومت کے خلاف سخت نعرے بازی کرتے ہوئے ذمہ داران کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔ ا س دوران فیکٹریوں پر پتھراؤ کیا گیا، ساتھ ہی کئی گاڑیوں کو جلا دیا گیا۔ اس مظاہرے کے نتیجہ میں اس علاقہ کی اہم ہائی وے بھی گھنٹوں بند رہی۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے محنت کشوں کے ساتھ ’ہمدردی‘ کا اظہار کرتے ہوئے ان کو مظاہروں سے باز رہنے کی تلقین کی اور تحریک کو زائل کرنے کیلئے منگل کو ’سوگ کا قومی دن‘ منانے کا اعلان کیاجس میں تمام فیکٹریاں بند رہیں گی۔ اس کے ساتھ شیخ حسینہ نے سرمایہ دارانہ نظام کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے اس واقعہ کو کسی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’فیکٹری کی آتش زدگی دانستہ طور پر منصوبہ بندی سے لگائی گئی ہے اور اس میں شامل تمام ذمہ داران کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔‘‘حکومت کی طرف سے جھوٹے دلاسے دینے کے علاوہ محنت کشوں کی حالت زار میں بہتری کے لئے کوئی خاص قدم اٹھانے کا اعلان نہیں کیا۔ اس پر Reuters سے بات کرتے ہوئے بنگلہ دیش نیشنل گارمنٹس ورکرز فیڈریشن کے صدرامیر الحق امین نے کہا کہ ’’خوفناک آگ لگنے کا واقعہ محنت کشوں کے حفاظتی اقدامات اور انکی بہبود کومسلسل نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ جب بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو حکومت تحقیقاتی کمیشن بناتی ہے اور انتظامیہ بشمول فیکٹری مالک چند سکے محنت کشوں کی طرف پھینک دیتے ہیں، حفاظتی سٹینڈرڈز اور کام کرنے کی جگہ میں بہتری کے کھوکھلے وعدے کئے جاتے ہیں اور آخر میں کچھ نہیں ہوتا۔ ‘‘
فیکٹری میں لگنے والی آگ برصغیر اور تیسری دنیا کے ممالک پر مسلط حکمران طبقے اور سرمایہ داروں کی لوٹ مار کی ہوس کو بے نقاب کرتی ہے کہ یہ کس قدربے شرمی سے انسانی جانوں کو شرح منافع کی خاطر قربان کر نے میں ایک پل بھی نہیں ہچکچاتے۔ دوسری طرف یہ محنت کشوں کے لئے اسباق بھی رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے کراچی میں بھی بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ لگنے سے 300سے زائد محنت کش جاں بحق ہوئے تھے۔ ابھی تک کسی بھی شخص کو اس جرم میں کوئی سزا نہیں سنائی گئی اور حکومت کی طرف سے لواحقین کی امداد کے وعدے بھی کھوکھلے اور جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔
بنگلہ دیش میں Li & Fung’sکمپنی کی طرف سے اپنے شیئر ہولڈرز کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ اس واقعہ سے کمپنی کے منافعوں میں کمی نہیں آئے گی۔ اس کے لئے انہوں نے ہلاک شدگان کے ساتھ نام نہاد ہمدریو ں کا اظہار کر کے فی ہلاکت 1200 ڈالر (تقریباً ایک لاکھ بنگلہ دیشی ٹکا) دینے کا وعدہ کرتے ہوئے ان کے بچوں کے لئے تعلیمی فنڈ قائم کرنے کا عندیہ دیاہے۔ کمپنی مالکان کے اس اعلان سے واضح ہوتا ہے کہ سر مایہ داروں کی نظر میں ایک محنت کش کی زندگی کی قیمت چند کوڑیو ں سے زیادہ نہیں ہے جبکہ مزدوروں کی قوت محنت سے پیدا کردہ قدر زائد اور منافعوں سے ان انسان نما حیوانوں نے اپنی تجوریاں بھر رکھی ہیں۔

بنگلہ دیش میں مزدور تحریک
بنگلہ دیش میں محنت کشو ں کی جدوجہد کا شاندارماضی ہے جہاں انہو ں نے کئی مرتبہ مروجہ استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کی۔ برطانوی سامراج اور پاکستانی ریاست کے خلاف آزادی کی جدوجہد کی تحریکوں میں بنگال کا محنت کش طبقہ پیش پیش رہا۔ 1968-69ء کی انقلابی لڑائی بنگلہ دیش میں بھی لڑی گئی جب اس خطہ میں انقلاب تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے دوہرے اقتدار کے مرحلے میں داخل ہوا جہاں پر باقاعدہ سوویتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مگر اس وقت کی قیادت کی غداریوں کی وجہ سے یہ انقلاب ایک سوشلسٹ منزل حاصل کرنے کی بجائے قومی بنیادوں پر زائل ہوتے ہوئے نام نہاد آزادی کی شکل میں علیحدہ سرمایہ دارانہ ریاست پر منتج ہوا۔ مگر 40 سال گزرنے کے باوجود طبقاتی مسئلہ حل ہونے کی بجائے شدت سے سامنے آرہا ہے۔ جتنے ترقی کے دعوے کئی جاتے ہیں اتنا ہی استحصال، محرومیوں اور جبر میں اضافہ ہو تا ہے۔ موجود ہ بنگلہ دیش کی معیشت میں گارمنٹس کی صنعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں تقریباً 4500 فیکٹریاں ہیں جس سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ گارمنٹس کی صنعت سے وابستہ محنت کشوں میں سے 80 فیصد کے لگ بھگ خواتین ہیں۔ یہ 20 ارب ڈالر کی سالانہ صنعت ملک کی ایکسپورٹ آمدن کا 80 فیصدحصہ ہے۔ ا س شعبے کی ترقی کا اہم راز یہاں سستی محنت ہے جس کا استحصال کرنے کے لئے بڑے بڑے عالمی سرمایہ دار ہمیشہ بے تاب نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کی آبادی کا ایک بڑا حصہ انتہائی غربت میں زندہ رہنے پر مجبور ہے۔ سرکاری طور پر 40 فیصدآبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ 60-70 فیصد کے درمیان ہے۔ غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے یہاں اجرتیں نہایت کم ہیں جس کی وجہ سے سرمایہ دار ایک بہتر شر ح منافع حاصل کر پاتے ہیں۔ اس شعبہ میں کام کرنے والے محنت کشوں کی اوسط آمدنی صرف 38 ڈالر ماہانہ ہے جس سے موجودہ افراط زر اور مہنگائی کے عہد میں بمشکل روٹی بھی پوری نہیں کی جا سکتی۔ یہ 38 ڈالر کی اجرت بھی محنت کشوں نے جدوجہد سے حاصل کی ہے۔ 2010ء تک کم از کم ماہانہ اجرت صرف 22 ڈالر تھی۔ 2010ء کے آغاز ہی سے بنگلہ دیش میں محنت کشوں کی نئی اٹھان دیکھی گئی اور 22 جون 2010ء کو لاکھوں محنت کشوں نے اشولیہ صنعتی مرکز کو بند کیا، پر تشدد مظاہروں کے ساتھ فیکٹریوں پر قبضے بھی کئے گئے جس سے خوف زدہ ہو کر مالکان کو اجرت میں اضافہ پر مجبور ہونا پڑا۔ اس کے علاوہ دن میں کام کرنے کے اوقات کار بھی 12-14 گھنٹے کے مابین ہیں، یہاں مزدوروں کو لیبر یونین، سوشل سکیورٹی یا مستقل نوکریو ں جیسی کوئی سہولت حاصل نہیں، حتیٰ کہ عام تعطیلات کا تصور بھی نہیں پایا جاتا۔ بیروزگاری کے خوف میں جکڑے مزدوروں سے یہاں غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ محنت کشوں کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے ساتھ تشدد اور گالی گلوچ کو ایک معمول کے طور پر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ان تما م تر مظالم کے خلاف گارمنٹس کی صنعت میں اب دوبارہ ایک نئی تحریک کا آغاز ہو رہا ہے جس میں محنت کش ایک بار پھر جدوجہد کے میدان میں داخل ہونگے۔
روایتی قیادت کے ہاتھو ں مزدوروں کی جدوجہد کسی منزل پر پہنچنے کی بجائے انتشار پذیر ہو کر بکھر تی رہی ہے۔ رواں سال اگست ہی میں بنگلہ دیش میں محنت کشوں کے بڑے مظاہر ے دیکھے گئے۔ ان میں اہم مقام مارچ 2012 ء میں آیا جب اشورسی صنعتی کمپلیکس میں دو گارمنٹس فیکٹریوں میں کم اجرتوں اور کام کے سخت اوقات کار کے خلاف مظاہرے ہوئے جس میں ہزاروں محنت کشوں نے شرکت کی۔ یہ محنت کش پولیس اور پیراملٹری دستوں کے ساتھ بہت بہادری سے لڑے مگر تحریک کو بدترین ریاستی تشدد سے کچل دیا گیا۔ اپریل 2012ء میں بنگلہ دیش گارمنٹس اور صنعتی ورکرز فیڈریشن کے رہنما امین السلام کو پولیس تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا اور اسکی لاش ایک سڑک کنارے گٹر سے ملی۔ اس طرح کے جبر کی لا تعداد مثالیں موجود ہیں۔ جو ظاہر کرتی ہیں کہ حکمران اپنے مفادات کی خاطر کس حد تک جا سکتے ہیں۔
ْٓ ؁ٓ اس تحریک کے بعد سے صنعتی مراکز میں حکومت کی طرف سے جاسوسی کا نیٹ ورک پھیلایا گیا ہے جس کا مقصد محض محنت کشوں اور کسی تحریک کو وقت سے پہلے روکنا ہے۔ نیویارک ٹائمز میں جم یارڈلے کے مطابق بنگلہ دیشی لیڈروں نے فیکٹریوں کو چالو رکھنے کے لئے ریاست کے سکیورٹی اداروں کو تعینات کیا ہے۔ حکومت نے کرائسز مینیجمنٹ سیل قائم کیاہے جس کا مقصدگارمنٹس سیکٹر میں محنت کشوں کو ’مانیٹر‘ کرنا ہے۔ اس کے ساتھ انڈسٹریل پولیس نامی سکیورٹی فورس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ مقامی خفیہ سروس کو بھی لیبر معاملا ت میں مداخلت کا اختیار دیا گیا ہے۔ وہ مزدور دشمن اقدامات جوسامراج کے دور میں بھی نہ کئے گئے تھے انہیں نہایت شدت اور بے رحمانہ طریقے بنگلہ دیش کی ’آزاد ریاست‘سر انجام دے رہی ہے۔

قیادت کا سوال ؟
مارکس اور اینگلز نے واضح کیا تھا کہ مرد اور خواتین اپنی تاریخ خود بناتے ہیں لیکن وہ یہ سب ایک آزاد عامل کے طور پر نہیں کرتے بلکہ انہیں مخصوص سماجی کیفیات کے زیرِ اثر اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ محنت کشوں کی بڑی تعداد کتابوں یا استادوں سے نہیں بلکہ زندگی کی تلخ درس گاہ سے اپنے تجربوں کی روشنی میں سیکھتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ جب محنت کش ہڑتال یا جدوجہد میں جاتے ہیں تو ان کی نفسیات یکسر تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ سماج کی طبقاتی نوعیت ان پر کھل کے عیاں ہونے لگتی ہے۔ محنت کشوں کے سیکھنے اور سوچنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں تحریک اگر انقلابی نظریات رکھنے والی مارکسی قیادت کے زیرِ اثر آجائے توموضوعی مداخلت کے ذریعے سے صدیوں اور دہائیوں کا سفر مہینوں اور دنوں میں طے کیا جاسکتا ہے۔ بصورتِ دیگر کوئی بھی تحریک وقت کے ساتھ تھکاوٹ اور جمود کا شکار ہو کر پسپائی کے راستے پر چل پڑتی ہے۔ اسی کیفیت کا اظہار اس وقت بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے جہاں ہمیں محنت کشوں کا غم و غصہ شدت سے ابلتا ہوا نظر آرہا ہے لیکن کسی مارکسی قیادت کی غیر موجودگی میں اسے کوئی راستہ نہیں مل رہا۔
آگ لگنے کے اس اندوہناک واقعہ سے یقیناًمحنت کشوں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور نتائج اخذ کئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد ہونے والے مظاہروں سے جہاں ملٹی نیشنلز پریشان ہیں وہاں مقامی حکمرانوں کی نیندیں بھی اڑ گئی ہیں۔ ریاست اپنے ریاستی ہتھیاروں مثلاً میڈیا، دانشور، پولیس وغیرہ کو استعمال کرتے ہوئے تحریک کو زائل کرنے میں متحرک ہے۔ بنگلہ دیش کی دونوں بڑی پارٹیاں عالمی سامراجی اداروں کی پالیسیوں کے آگے سجدہ ریز ہیں۔ موجودہ حکومت کا وزیر خزانہ عبدالمال اے موہتھ IMF اور ورلڈ بنک کا پٹھو ہے جو ان کی ٹریکل ڈاؤں پالیسیوں کو لاگو کر رہا ہے۔ موجودہ لیبر منسٹر انجینئر مشرف حسین ایک سرمایہ دار ہے جو کہ بنگلہ دیش چیمبر آف کامرس کا دو مرتبہ صدر رہ چکا ہے اور یہ منسٹر باقاعدہ طور پر گارمنٹس فیکٹری کے مالکان میں سے ایک ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کی کمیونسٹ پارٹی اور ورکرز پارٹی، سٹالنزم کے مرحلہ وار انقلاب کے تحت کوئی واضح پروگرام نہ دینے کے باعث اپنی مقبولیت کھو چکی ہیں۔ یہ دونوں پارٹیا ں عوامی لیگ کے گرینڈ الائنس کا حصہ ہیں۔ 2010ء میں عوامی لیگ کی طرف سے کمیونسٹ پارٹی کے رہنما دلیپ باریوا کو انڈسٹریل منسٹربنایا گیا جس کا مقصد محنت کشوں کی جدوجہد کو کچلنے کے ساتھ ساتھ چین کو خوش کرنا بھی تھا۔
بنگلہ دیش میں اس وقت مختلف شعبوں میں تحریکیں چل رہی ہیں۔ طلبہ کے اندر ایک اضطراب کی کیفیت نظر آرہی ہے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب مختلف تعلیمی اداروں انتظامیہ اور ریاست کے ساتھ جھڑپوں کی خبریں نہ ملتی ہوں۔ ان تمام تحریکوں کو یکجا کر تے ہوئے ایکبڑی تحریک کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔ اس منزل کے حصول کے لیے ایک بالشویک پارٹی کے موضوعی عنصر کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی پارٹی جو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کی حتمی منزل پر یقین رکھتی ہو اور محنت کش طبقے میں بنیادیں بناتے ہوئے سماج کے ترقی پسند عناصر کو متحد کرے۔ مارکسزم کے نظریات پر کیڈرز کی تربیت کرتے ہوئے مضبوط انقلابی بنیادیں تعمیر کرے۔ بنگلہ دیش میں ابھرنے والی مزدور تحریک پورے بر صغیر اور جنوبی ایشیا پر اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ ایسے میں اگر ایک انقلابی پارٹی موجود ہوئی اور اس تحریک کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہو گئی تو جنوبی ایشیا کی سو شلسٹ فیڈریشن کی جانب فاصلہ بہت مختصر ہو جائے گا۔