[تحریر: لال خان، ترجمہ: فرہاد کیانی]
اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے ریاست کے اہم ترین اداروں کے درمیان اور ان کے اندر بڑھتے ہوئے اندرونی تنازعات کو عیاں کر دیا ہے، جن اداروں میں دیوتا، سیاسی انتظامیہ، عسکری اسٹیبلش منٹ اور عدلیہ شامل ہیں۔ فیصلے میں دائیں بازو اور مذہبی سیاست دانوں اور جماعتوں کو 1990ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے آئی جے آئی ( اسلامی جمہوری اتحاد) بنانے کے لیے کروڑوں روپے دینے پر آئی ایس آئی کی سرزنش کی گئی ہے۔ ملک کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اوریہ اندرونی اختلافات اور پاکستانی سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے برباد ہوتی معیشت اور بکھرتے ہوئے سماج کے نتیجے میں ریاست کے گلنے سڑنے اور تحلیل ہونے کے عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ جس نظام کو ریاست مسلط رکھنے کی کوشش کر رہی ہے اس بیمار نظام کے اثرات خود اسے بھی گھائل کر رہے ہیں۔
2فیصد سے بھی کم انتہائی شرمناک شرح نمو اور بجٹ اور تجارت میں ریکارڈ خساروں کے ساتھ سرکاری یا رسمی معیشت زبوں حال ہے۔ ایف بی آر کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق ’’غیر سرکاری معیشت پہلے ہی 100ارب ڈالر سے بڑھ چکی ہے جو کل معیشت کے نصف سے زیادہ ہے۔۔۔یہ کالی معیشت 1977ء سے2000ء تک نو فیصد کی شرح سے بڑھتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کرپشن، رشوت، سمگلنگ، منشیات، سرکاری ٹھیکوں اور ٹیکس چوری میں اضافہ ہوتا چلا گیاہے۔‘‘ واضح امکان ہے کہ بعد کے برسوں میں کالی دھن کی معیشت اس سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھی ہو گی۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2011ء 2012-ء کے مطابق ’’غیر سرکاری معیشت بہت اہم اور بعض اوقات مشکوک کردار ادا کرتی ہے۔ اس سے نوکریاں ملتی ہیں لیکن ان میں اکثر بہت کم اجرت والی ہوتی ہیں۔ پاکستان کی لیبر فورس کا73.2فیصد کا روزگار اس معیشت سے جڑا ہے، یعنی یہ پاکستان کی سب سے بڑی آجر ہے۔‘‘جہاں معیشت کا زیادہ تر حصہ غیر توثیق شدہ، دستاویزات کے بغیر اور کسی شمار سے باہر ہے، وہیں سرکاری معیشت سامراجی قرضوں کی ادائیگی کے بھنور اور فوج اور ریاست کا نظام چلانے کے اخراجات کے ہاتھوں برباد ہے۔ جی ڈی پی( مجموعی قومی پیداوار) کا دس فیصد سے بھی کم صحت،تعلیم، انفرا سٹرکچر اور حکومت چلانے پر خرچ ہوتا ہے۔
اگرچہ کالے دھن کی معیشت ریاستی کنٹرول میں نہیں لیکن یہ ریاست کی پالیسیوں اور حکمران طبقے کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ سماجی جمود کے عہد میں یہ کالے دھن کی معیشت پارٹی مینی فیسٹو اور پالیسیوں کا تعین کرتی ہے۔ اس پیسے سے سیاسی اقتدار اور مرتبہ، میڈیا کے ذریعے مقبولیت، ریاستی عہدے، منافع بخش ٹھیکے اور سودے، وفاداریاں اور وابستگیاں، بڑے بڑے وکیلوں کی بے تہاشا فیسوں کے ذریعے قانون اور انصاف اور کیا کیا نہیں خریدا جاتا؟اس کے خاتمے کے بغیر ایک صحت مند بورژوا جمہوری سماج قائم نہیں ہو سکتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی نومولود بورژوازی تاریخی طور اتنی تاخیر زدہ اور معاشی اور مالیاتی طور پر اتنی زبوں حال تھی کہ یہ قومی جمہوری انقلاب کو مکمل کرنے کی خواہش اور صلاحت دونوں سے محروم تھی۔ انہیں مقصود شرح منافع کا حصول پیداوار، مشینی زراعت اور حتیٰ کہ سہولیات کے شعبے کے معمول کے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت نا ممکن تھا۔چناچہ کرپٹ اور ظالم حکمران طبقے کی مراعات اور منافعوں کو قائم رکھنے کے لیے کاروبار میں جرائم اور ریاستی وسائل کی لوٹ ما رپاکستان کی خصی سرمایہ داری کی ضرورت بن گئی۔ دوسرے لفظوں میں کالا دھن پیدا کرنے کے یہ غیر قانوی طریقے اس ملک میں سرمایہ داری کے ارتقاء میں ناگزیر تھے۔ لیکن اب در حقیقت یہ ’غیر سرکاری‘ معیشت پاکستانی سیاست کے جسم میں ایک ناسور بن چکی ہے۔ یہ پھیل کر اس حد تک سرمایہ داری میں سرائیت کر چکی ہے کہ دونوں کو الگ کرنا ممکن نہیں رہا۔
اگرچہ سماج کے زوال میں سب سے بڑا ہاتھ معاشی بربادی کا ہے، لیکن یہ سماجی تنزلی بہت کربناک طریقے سے، ثقافت، اخلاقیات، رویوں، طرز عمل، اطواراور اس بد بخت معاشرے کے سماجی رشتوں کی گراوٹ کے اندر ظاہر ہے۔ کالے دھن کی اس معیشت سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں ملا اشرافیہ اور بنیاد پرست تنظیمیں شامل ہیں۔ اس طفیلی معاشی ڈھانچے کے سب سے سخت گیر محافظ بھی یہی ہیں۔سرکاری اعداد و شمار بھی یہی دکھاتے ہیں کہ یہ سرطان ستر کی دہائی کے اواخر میں تیزی سے بڑھنا شروع ہوا۔ تاہم اس عفریت کا خالق امریکی سامراج کے علاوہ کوئی اور نہیں۔ منشیات کی تجارت اور سی آئی اے کی حکمت عملی میں شامل دیگر مجرمانہ کاروائیوں کے ذریعے افغان جہاد کی مالی اعانت کی گئی۔ آئی ایس آئی محض اس کا آلہ کار تھی جو بعد ازاں اس کالے دھن کو خود سے چلانے لگی جو اب ملک کی معیشت اور سماج میں نفوذ کر چکا ہے۔ اس کے سماجی اور سیاسی اثرات تباہ کن ہیں۔ نئے دور کی اسلامی بنیاد پرستی نے کالے دھن کے اس ڈالر جہاد کی بنیاد پر نشو نما پائی۔ وسیع تعداد میں مدرسوں اور جنونیت کی ترویج کے مراکز نے نوجوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کر کے ان کی ایک بڑی تعداد پیدا کی جو مذہب کے نام پر لوگوں کو قتل اور اپاہج کرنے کے لیے تربیت یافتہ اور تیار ہیں۔نہ صرف خواتین اور اقلیتیں، بلکہ سارے معاشرے کی سماجی زندگی اس مذہبی استبداد تلے گھٹ رہی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس رجعتی کہنہ پرستی کا سماجی غلبہ بہت ضعیف اور عوامی حمایت بہت ہی کم ہے۔ اس دھرتی کے 19کروڑ باسیوں میں وہ ایک قلیل اقلیت ہیں۔
سماج میں ان کے وجود کی واحد وجہ لبرل اور سیکو لر سیاسی اشرافیہ کی بوسیدہ معاشی اور سماجی پالیسیاں ہیں جنہیں عوام تبدیلی کی غرض سے ووٹ دیتے ہیں لیکن اقتدار میں آ کر وہ سرمایہ داری کی تباہ کن پالیسیاں جاری رکھتے ہیں جو پہلے سے بدحال عوام کی زندگیوں پر مزید ضربیں لگاتی ہیں۔ کمزور پڑنے پر وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مذہب کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ مایوسی اور وحشت طبقاتی جدوجہد کو سست کرتی ہے اور ایک خلا جنم لیتا ہے جس میں کالے سرمایے کے یہ کرائے کے جنگجو عام لوگوں کی زندگیوں کو غارت کرتے ہیں۔ لیکن یہ شیطانی چکر اب ریاست کو نگلنا شروع ہو گیا ہے اور اندرونی اختلافات پھٹ رہے ہیں اور سماج دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ سرمایہ داری کے بد تر ہوتے بحران کے تناظر میں یہ محاذ آرائیاں اور سماجی و معاشی حالات بد تر ہی ہو سکتے ہیں۔لیکن ریاستی ڈھانچوں کے اندرونی تنازعات طبقاتی بنیادوں پر بھی منتج ہو سکتے ہیں کیونکہ ریاست کے اندر ان بنیادوں پر تضادات پہلے کبھی بھی اتنے شدید نہیں ہوئے۔ لیکن ریاست کے اندر طبقاتی بغاوت صرف تب ابھرے گی جب سماج کے اندر طبقاتی جدوجہد اس نہج پر پہنچ جائے جہاں انقلابی فتح کا حقیقی امکان نظر آنے لگے۔ سو سال سے بھی پہلے فریڈ رک اینگلز نے کہا تھا کہ ایک صدی بعد انسانیت کے سامنے واضح چناؤ ہو گا-سوشلزم یا بربریت۔ محنت کش طبقے کے پاس اپنی نجات اور تہذیب کی بقا کے لیے اس نظام کو ختم کرنے کی لڑائی لڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
متعلقہ:
بے شرم حکمرانوں کے واہیات تماشے
کیا پاکستان ٹوٹ سکتا ہے؟
میڈیا، عدلیہ اور سرمائے کا بیہودہ رشتہ بے نقاب