جنگ آزادی 1857ء: ڈیڑھ سوسال بعد بھی اس جنگ کو جیتنا باقی ہے۔ ۔

20 جون  1858ء وہ تاریخ ہے جب مئی 1857ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی راج کے خلاف شروع ہونے والی ہندوستانی سپاہیوں اور عوام کی تحریک حتمی شکست سے دو چار ہوئی۔یہ درست ہے کہ1857ء کی بغاوت بیرونی استعماری قبضے کے خلاف ایک قومی جنگ تھی۔ لیکن یہ جنگ شکست زدہ کرنے میں ایک فیصلہ کن کردار’’مقامی‘‘ اور’’قومی‘‘ حکمرانوں کی غداریوں کاتھا۔ انگریز سامراج نے ہندوستان کو ہندوستانی فوجوں سے فتح کیا تھا۔ اتنے عرصے میں بہت کچھ بدلا ہے لیکن برصغیر کے حکمرانوں کا غدارانہ کردار نہیں بدلا۔ برطانوی سامراج برصغیر سے نکلنے کے بعد جو نظام چھوڑ گیا تھا وہ اب بھی یہاں استحصال کی انتہا کررہا ہے اور یہاں کے مقامی حکمران اسکے گماشتے اور دلال ہیں۔ اس لئے برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی آزادی اس وقت تک حاصل نہیں کی جاسکتی جب تک اس نظام کو ختم نہیں کیا جاتا اور آج یہ نظام صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی بدلا اور اکھاڑا جاسکتا ہے۔ اس خطے کے محنت کش عوام کے لئے 1857ء کی جنگ آزادی کا یہی اصل پیغام ہے۔
مغربی مفکرین نے اس کو غدر اور بغاوت قرار دیا تھا لیکن کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے نہ صرف اس کو ’’جنگ آزادی‘‘قرار دیا بلکہ ایک ایسا سائنسی تجزیہ اور تناظر پیش کیا جو آج بھی اپنی تازگی اور سچائی سے مہک رہا ہے۔ کارل مارکس نے اس جنگ آزادی کے بارے میں ’’نیویارک ٹریبون‘‘ میں جو مضامین لکھے تھے انکے تجزیے کی گہرائی اور سائنسی پرکھ تک برصغیر کا کوئی مقامی مفکر او ر تجزیہ نگار بھی نہیں پہنچ سکا تھا۔آج 1857ء کی جنگِ آزادی کو کشت و خون میں ڈوبے 155سال گزر چکے ہیں۔ اس موقع پر اپنے قارئین کے لئے مارکس اور اینگلز کے مضامین میں سے کچھ اقتباسات پیش کررہے ہیں۔

کارل مارکس
ہندوستانی فوج میں بغاوت
’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘…..روم کا وہ بنیادی اصول تھا جس کی مدد سے برطانیہ عظمٰی تقریباً ڈیڑھ سو سال سے سلطنت ہند پر اپنے قبضے کو برقرار رکھ سکا ہے۔ جن مختلف نسلوں، قبیلوں، ذاتوں اور ریاستوں کا مجموعہ اس جغرافیائی اتحاد کی تشکیل کرتا ہے، جسے ہندوستان کہا جاتا ہے۔ ان کے درمیان مخاصمت ہمیشہ برطانوی تسلط کا اہم اصول رہی ہے۔ لیکن تھوڑے عرصے میں اس تسلط کی شرائط بدل گئیں۔ سندھ اور پنجاب کی فتح سے برطانوی ہندوستانی سلطنت نہ صرف اپنی قدرتی سرحدوں تک پھیل گئی بلکہ اس نے خود مختار ہندوستانی ریاستوں کے آخری نشانات بھی مٹا دئیے۔ تمام جنگجو دیسی قبائل کو ماتحت بنا لیا، تمام سنگین اندرونی جھگڑے ختم ہو گئے اور تھوڑا عرصہ ہوا اودھ کے الحاق نے صاف دکھا دیا کہ نام نہاد خود مختار ہندوستانی رجواڑوں کا محض اس حد تک وجود ہے جتنا ان کو ابھی تک برداشت کیا جارہا ہے۔اس سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی پوزیشن میں بڑی تبدیلی ہوئی۔اب وہ ہندوستا ن کے ایک حصے پر دوسرے حصے کی مدد سے حملے نہیں کر رہی تھی بلکہ ملک پر مسلط تھی اور پورا ہندوستان اس کے قدموں میں تھا۔ اب وہ فتوحات نہیں کر رہی تھی بلکہ ہندوستان کی واحد فاتح بن چکی تھی۔ اس کی فوجوں کا فریضہ اب مقبوضات کی توسیع نہیں بلکہ ان کو بر قرار رکھنا تھا۔ وہ فوجیوں سے پولیس والوں میں تبدیل ہو گئے تھے۔ 20 کروڑ دیسی باشندوں کو دو لاکھ دیسی لوگوں کی فوج فرمانبردار بنائے ہوئے تھی جس کے افسر انگریز تھے اور اس دیسی فوج کو، اپنی باری میں، صرف 40 ہزار انگریزی فوج نے لگام دے رکھی تھی۔ پہلی ہی نظر میں یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ ہندوستانی عوام کی فرمانبرداری کا انحصار دیسی فوج کی وفاداری پر ہے جس کی تخلیق کے ساتھ ہی برطانوی حکومت نے مزاحمت کے پہلے مشترکہ مرکز کی تنظیم کی جو ہندوستانی عوام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھتے تھے۔ اس ہندوستانی فوج پر کتنا بھروسہ کیا جاسکتا ہے اس کا اظہار اس کی حالیہ بغاوتوں سے ہوتا ہے جو ایران میں جنگ کی وجہ سے بنگال پریذیڈنسی کے یورپی سپاہیوں سے تقریباً بالکل خالی ہوتے ہی فوراً پھوٹ پڑیں۔ ہندوستانی فوج میں بغاوتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں لیکن موجودہ بغاوت اپنے مخصوص اور ہلاکت آمیز خدوخال کے لحاظ سے امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پہلا واقعہ ہے جب ہندوستانی سپاہیوں کی رجمنٹوں نے اپنے یورپی افسروں کو قتل کر دیا، جب مسلمان اور ہندو اپنی باہمی مخالفت کو ترک کر کے اپنے مشترکہ آقاؤں کے خلاف ہوگئے، جب’’ہندوؤں میں شروع ہونے والے ہنگامے کا انجام دہلی کے تخت پر مسلمان شہنشاہ کو بٹھانے پر ہوا‘‘ جب بغاوت اور انگریز آقاؤں کے خلاف عظیم ایشیائی قوموں کی عام ناراضگی کا اظہار بیک وقت ہوئے کیونکہ بنگالی فوج کی بغاوت بلا شبہ ایران اور چین کی جنگوں سے قریبی تعلق رکھتی ہے۔
بنگالی فوج میں ناراضگی کا سبب، جو چار مہینے پہلے سے پھیلنے لگی تھی، یہ بیان کیا جاتا ہے کہ دیسی لوگوں کو خطرہ تھا کہ حکومت ان کے مذہبی عقائد میں خلل اندازی کرنے والی ہے۔ مقامی ہنگاموں کی وجہ یہ تھی کہ فوج کو ایسے کارتوس دیے گئے جن کے کاغذ پر گائے اور سور کی چربی لگی ہوئی تھی اور ان کواستعمال کرنے کے لئے لازمی طور پر دانت سے کاٹنا پڑتا تھا۔ دیسی لوگوں نے اسے اپنے مذہبی عقائد پر حملہ خیال کیا۔ کلکتہ کے قریب ہی 22 جنوری کو چھاؤنیوں کو آگ لگا دی گئی۔ 20 فروری کو ’19 دیسی رجمنٹ‘ نے بہرام پور میں غدر شروع کر دیا، جو کارتوس انہیں دیئے گئے تھے ان کے خلاف یہ جوانوں کا احتجاج تھا۔ 31 مارچ کو یہ رجمنٹ توڑ دی گئی۔مارچ کے آخر میں 34 سپاہی رجمنٹ نے جوبہرام پور میں مقیم تھی اپنے ایک آدمی کو اجازت دے دی کہ وہ پریڈ کے میدان میں قطار کے سامنے بھری ہوئی بندوق لے کر آگے بڑھے اور اپنے رفیقوں سے بغاوت کی اپیل کرنے کے بعد اپنی رجمنٹ کے ایڈیکنگ اور سارجنٹ میجر پر حملہ کر کے زخمی کر دے۔ اس کے بعد جو دست بدست لڑائی شرو ع ہوئی اس میں سینکڑوں سپا ہی مجہولیت سے دیکھتے رہے لیکن دوسروں نے جدوجہد میں حصہ لیا اور اپنی بندوقوں کے کندوں سے افسروں پر حملہ کیا۔ چنانچہ اس رجمنٹ کو بھی توڑ دیا گیا۔ اپریل کا مہینہ الہٰ آباد، آگرہ، انبالہ میں بنگالی فوج کی کئی چھاؤنیوں کو آگ لگانے، میرٹھ میں سوار فوجوں کی تیسری رجمنٹ کی بغاوت اوربمبئی اور مدراس کی فوجوں میں بے چینی کے ایسے ہی مظاہروں کے لئے نمایاں ہے۔ مئی کے آغاز میں اودھ کے دارالحکومت لکھنؤ میں بغاوت کی تیاری ہورہی تھی جس کا سر لارنس کی پھرتی کی وجہ سے تدارک کر دیا گیا۔ 9 مئی کو میرٹھ کی تیسری سوار رجمنٹ کے غدر کرنے والوں کو جو مختلف میعاد کی سزائیں دی گئی تھیں انہیں کاٹنے کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔ اگلے دن شام کو تیسری سوار رجمنٹ کے جوانوں نے دو دیسی رجمنٹوں، 11 ویں اور 20 ویں کے ساتھ مل کر پریڈ کے میدان میں اجتماع کیا، جن افسروں نے ان کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی انہیں مار ڈالا، چھاؤنیوں میں آگ لگا دی اور جہاں بھی انگریز نظر آیا اسے قتل کر دیا۔ اگرچہ بریگیڈ کا برطانوی حصہ پیدل فوج کی ایک رجمنٹ، سوار فوج کی ایک رجمنٹ اور بہت سے توپ خانے پر مشتمل تھا لیکن وہ رات کے اندھیرے تک نقل و حرکت نہیں کر سکے۔ انہوں نے باغیوں کو کم نقصان پہنچایا اور موقع دے دیا کہ وہ کھلے میدان میں چلے جائیں اور دہلی میں گھس پڑیں جو میرٹھ سے چالیس میل کے فاصلے پر ہے۔وہاں دیسی محافظ فوج بھی ان کے ساتھ مل گئی جو پیدل فوج کی 38 ویں، 45 ویں اور 74 ویں رجمنٹوں اور دیسی توپ خانے کی ایک کمپنی پر مشتمل تھی،انگریز افسروں پر حملہ کیا گیا اور ان تمام انگریزوں کو قتل کر دیا گیا جو باغیوں کے ہاتھ لگے۔ اور دہلی کے آخری مغل بادشاہ (اکبر ثانی ) کے وارث ( بہادر شاہ ثانی ) کے ہندوستان کا بادشاہ ہونے کا اعلان کیا گیا۔ جو فوج میرٹھ کو بچانے کیلئے بھیجی گئی تھی، جہاں امن و امان پھر قائم ہو گیا تھا،اس میں سے مقامی انجینئروں اور سرنگ بچھانے والوں کی 6 دیسی کمپنیوں نے،جو 10مئی کو پہنچی تھیں اپنے کمانڈر میجر فریزر کو قتل کردیا اور فوراً کھلے میدان کی طرف چلی گئیں۔ ان کا تعاقب سوار توپ خانے کے فوجیوں اور چھٹی رسالہ رجمنٹ کے کئی جوانوں نے کیا۔ پچاس یا ساٹھ باغی گولی کا نشانہ بنے لیکن باقی دہلی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پنجاب کے فیروز پور میں دیسی پیدل فوج کی 57 ویں اور 45 ویں رجمنٹوں نے بغاوت کر دی لیکن بزور قوت اسے دبا دیا گیا۔ لاہور سے نجی خط بتاتے ہیں کہ سارے دیسی فوجی کھلم کھلا بغاوت کی حالت میں ہیں۔19 مئی کو کلکتہ میں متعین دیسی فوج نے فورٹ ولیم پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ بو شہر سے جو تین رجمنٹیں بممبئی آئی تھیں انہیں فوراً کلکتہ روانہ کر دیا گیا۔
ان واقعات کا جائزہ لیتے وقت میرٹھ میں برطانوی کمانڈر ( جنرل ہیویٹ ) کے رویے پر حیرت ہوتی ہے …. جس ڈھیلے پن سے اس نے باغیوں کا پیچھا کیا اس سے بھی زیادہ ناقابل فہم میدان جنگ میں اس کا دیر سے اترنا ہے۔ چونکہ دہلی جمنا کے دائیں کنارے پر واقع ہے اور میرٹھ بائیں پر ….. دہلی میں ایک پل دونوں کنا روں کوملاتا ہے۔ اسی لئے بھاگنے والوں کی پسپائی کو روکنا انتہائی آسان کام تھا۔
اتنے میں تمام علاقوں میں جہاں ناراضگی پھیل گئی تھی مارشل لاء کا اعلان کر دیا گیا۔ شمال،مشرق اور جنوب سے فوجیں دہلی کی طرف بڑھ رہی ہیں جو زیادہ تر دیسی لوگوں پر مشتمل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آس پاس کے رجواڑوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ لنکا کو خط بھیجے گئے تھے کہ لارڈ ایلگن اور جنرل ایش برنم کے دستوں کو ٹھہرالیا جائے جو چین جارہے ہیں اور آخر میں دو ہفتوں میں انگلستان سے 14 ہزار برطانوی سپاہی ہندوستان بھیجے جائیں گے۔ انگریز فوج کی نقل و حرکت کے لئے سال کے اس زمانے میں موسم اور ٹرانسپورٹ کی قطعی غیر موجودگی کی چاہے جتنی رکاوٹیں کیوں نہ ہوں، بہر حال اس کا بہت امکان ہے کہ دہلی میں باغی کسی طویل مزاحمت کے بغیر مغلوب ہوجائیں گے۔ اس صورت میں بھی یہ صرف اس انتہائی خوفناک المیے کی ابتدا ہوگی جو بعد کو پیش آئے گا۔
کارل مارکس نے 30 جون 1857 ء کو تحریر کیا۔’’نیویارک ڈیلی ٹربیون‘‘کے شمارے 5065 میں15 جولائی 1857 کو ادارئیے کی حیثیت سے شائع ہوا۔

کارل مارکس
ہندوستان سے موصول ہونے والے مراسلات
لندن : 31 جولائی 1857
آخری ہندوستانی ڈاک جس نے دہلی سے 17 جون تک اور بمبئی سے یکم جولائی تک کی خبریں پہنچائی ہیں، انتہائی افسردہ پیش بینیوں کو پورا کرتی ہے۔ بورڈ آف کنٹرول کے صدر مسٹر ویر نن اسمتھ نے دارالعوام کو پہلی بار ہندوستانی بغاوت سے مطلع کیا تھا تو انہوں نے اعتماد سے بیان کیا تھا کہ اگلی ڈاک یہ خبر لائے گی کہ دہلی کو مسمار کر دیاگیا۔ ڈاک آگئی لیکن دہلی کو ہنوز ’’تاریخ کے صفحات سے مٹایا‘‘نہیں گیا۔ پھر یہ کہا گیا کہ توپ خانہ 9 جون سے پہلے نہیں لایا جا سکتا۔ لہٰذا مورد عتاب شہر پر حملے کو اس تاریخ تک ملتوی کر دینا چاہیے۔ 9 جون کسی اہم واقع کے نمایاں ہوئے بغیر گزر گیا۔ 12 اور 15 جون کو بعض واقعات ہوئے لیکن ایک حد تک متضاد سمت میں۔ دہلی پر انگریزوں نے ہلا نہیں بولا بلکہ انگریزوں پر باغیوں نے حملہ کیا لیکن ان کے پے در پے حملوں کو پسپا کر دیا گیا ہے۔ دہلی کی شکست اس طرح پھر ملتوی ہوگئی۔جیسا کہا جاتا ہے اس کی وجہ اب صرف یہ نہیں کہ گھیرا ڈالنے کے لئے توپخانہ موجود نہیں،بلکہ جنرل برنارڈ کا یہ فیصلہ ہے کہ کمک کا انتظار کریں کیونکہ ان کی فوج، قریباً 3000 جوان،قدیم دارالسلطنت پر قبضہ کرنے کے لئے نا کافی ہے جس کی مدافعت تمام فوجی سازو سامان سے لیس 3000سپاہی کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ باغیوں نے اجمیری دروازے کے باہر کیمپ بھی لگا لیا ہے۔ اب تک تو تمام فوجی مصنفین اس بات پر متفق تھے کہ 3000 یا 4000 مقامی سپاہیوں کی فوج کو شکست دینے کے لئے 3000 جوانوں کی انگریز فوج بالکل کافی ہے۔ اگر معاملہ ایسا نہیں ہے تو انگلستان – ’’لندن ٹائمز‘‘ کا فقرہ استعمال کر کے- ہندوستان کو ’’دوبارہ فتح‘‘ کرنے کے لائق کیسے ہو سکتاہے ؟
ہندوستان میں برطانوی فوج آج کل 30,000 جوانوں پر مشتمل ہے۔ اگلے نصف سال میں جو جوان روانہ ہو سکتے ہیں۔ ان کی تعداد 20,000 یا 25000 سے زیادہ نہیں ہوسکتی جن مین سے 6000 جوان ہندوستان میں یورپی صفوں کی خالی جگہ پر کریں گے اور جن میں سے 18000 یا 19000 جوان بحری سفر، موسم کے نقصان یا دوسرے حادثوں سے گھٹ کر تقریباً 14000 رہ جائیں گے جو جنگ کے میدان میں آسکیں گے۔ برطانوی فوج کو غدر کرنے والوں سے بے حد غیر متناسب تعداد میں مقابلہ کرنے کا مسئلہ حل کرنا چاہیے یا ان کا مقابلہ کرنے ہی سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ دہلی کے اردگرد ان کی فوج کو مرکوز کرنے میں سستی کو سمجھنے سے ہم اب بھی قاصر ہیں۔سال کے اس موسم میں اگر گرمی غیر مغلوب رکاوٹ ثابت ہوئی جو سر چارلس نیپئر کے دنوں میں نہیں تھی، تو چند ماہ بعد یورپی فوج کی آمد پر بارش رکاوٹ کا ٰایک اور تصفیہ کن عذر فراہم کرے گی۔ یہ کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ موجودہ غدر در حقیقت جنوری کے مہینے میں شروع ہو گیا تھا اور اس طرح برطانو ی حکومت کو اپنے ہتھیار اور فوج کو تیا ر رکھنے کی بر وقت تنبہیہ مل گئی تھی۔
محصور کرنے والی انگریز فوج کے مقابلے میں دہلی پر دیسی سپاہیوں کے طویل قبضے نے ظاہر ہے کہ فطری نتیجہ پیدا کیا ہے۔ غدر کلکتہ کی دہلیز تک پہنچا جا رہا تھا، پچاس بنگا لی رجمنٹوں کا وجود ختم ہوگیا۔ بذات خود بنگالی فوج ماضی کا خیالی فسانہ بن گئی اور یورپی جو بڑی وسعت میں منتشر تھے اور جدا جدا جگہوں میں بند تھے یا تو باغیوں کے ہاتھوں قتل کر دئے گئے یا انہوں نے جان ہا ر مدافعت کا رویہ اختیار کر لیا۔ خود کلکتہ میں سرکاری عمارتوں پر بے خبری میں قبضہ کرنے کی سازش کے بعد جو اچھی طرح منظم کی گئی تھی اور جو دیسی فوج وہاں مقیم تھی، اسے توڑ دینے کے بعد عیسائی باشندوں نے رضاکار محافظوں کی تشکیل کی۔ بنارس میں ایک دیسی رجمنٹ کو نہتا کرنے کی کوشش کا مقابلہ سکھوں کی ایک جماعت اور تیرہویں بے قاعدہ سوار رسالے نے کیا۔ یہ واقعہ بہت اہم ہے کیو نکہ یہ دکھاتا ہے کہ مسلمانوں کی طرح سکھ بھی برہمنوں کے ساتھ ملنے جارہے ہیں اور اس طرح برطانوی حکمرانی کے خلاف تمام مختلف قبیلوں کا عام اتحاد تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ انگریزوں کے اعتقادات کا یہ خاص جزو رہا ہے کہ دیسی فوج ہی ہندوستان میں ان کی ساری قوت ہے۔ اب یکایک وہ پورے طور پر محسوس کرتے ہیں کہ یہی فوج ان کے لئے واحد خطرہ ہے۔ ہندوستان کے متعلق گذشتہ بحثوں میں بورڈ آف کنٹرول کے صدر مسٹر ویر نن اسمتھ نے اب بھی اعلان کیا کہ ’’اس امر پر بہت زیادہ اصرار نہیں کیا جاسکتا کہ مقامی راجوں اور بغاوت کے درمیان کسی قسم کا تعلق نہیں ہے‘‘ دو دن بعدانہی ویر نن اسمتھ کو ایک مراسلہ شائع کرنا پڑا جس میں یہ منحوس پیرا شامل تھا:
’’14 جون کو سابق شاہ اودھ ( واجد علی شاہ ) کو جو پکڑے گئے کاغذات کے مطابق سازش میں ملوث تھے فورٹ ولیم میں رکھا گیا اور ان کے حامیوں کو نہتا کر دیا گیا‘‘۔
عنقریب دوسرے حقائق فاش ہو ں گے جو جان بل ( انگریز قوم ) کو بھی قائل کر دیں گے کہ جسے وہ فوجی غدر سمجھتا ہے وہ در حقیقت قومی بغاوت ہے۔
انگریز پریس اس یقین سے بڑی تسلی حاصل کرنے کا بہانہ بتاتا ہے کہ بغاوت بنگال پریذیڈنسی کی حدودسے باہر نہیں پھیلی ہے اوربمبئی اور مدراس کی فوجوں کی وفاداری پر ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہے۔ لیکن معاملے کا یہ خوشگوار تصور اس حقیقت سے انوکھے طور پر ٹکراتا ہے جو آخری ڈاک سے ظاہر ہوتی ہے کہ اورنگ آباد میں نظام کی سوار فوج میں بغاوت ہو گئی۔ اورنگ آباد اسی نام کے ضلع کا صدر مقام ہے جوبمبئی پریذیڈنسی سے تعلق رکھتا ہے تو سچ یہ ہے کہ پچھلی ڈاک بمبئی فوج میں بغاوت کے آغاز کی اطلاع دیتی ہے۔اورنگ آباد کے غدر کے متعلق کہا گیا ہے کہ جنرل وڈ برن نے اسے فوراً کچل دیا۔لیکن کیا میرٹھ کے غدر کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ اسے فوراً کچل دیا گیا۔کیا لکھنؤ کے غدر نے جسے سر لارنس نے کچل دیا تھا، دو ہفتے بعد اور زیادہ شدت سے سر نہیں اٹھایا ؟ کیا یہ یاد نہیں کہ ہندوستانی فوج کے غدر کے پہلے اعلان ہی کے ساتھ نظم و نسق بحال ہونے کا اعلان نہیں کر دیاگیا تھا ؟ اگرچہ بمبئی اور مدراس کی فوجوں کا زیادہ حصہ نیچی ذات کے لوگوں پر مشتمل ہے لیکن فوج کے اونچی ذات کے باغیوں کے ساتھ رابطے قائم کرنے کے لئے بالکل کافی ہے۔ پنجاب کے پر سکون ہونے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن ہمیں مطلع کیا جاتاہے کہ ’’فیروز پور میں 13 جون کو فوجی پھانسیاں دی گئیں‘‘ اور’’وائن کے دستوں، 5 ویں پنجاب پیدل فوج کی تعریف کی جاتی ہے کہ اُس نے 55ویں دیسی پیدل فوج کا تعاقب کرنے میں بہادری دکھائی‘‘۔ یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ عجیب و غریب قسم کا امن و سکون ہے۔
کارل مارکس نے 31 جولائی 1857 کو تحریر کیا۔ نیو یارک ڈیلی ٹر بیون کے شمارے 5091 میں 14 اگست 1857 کو شائع ہوا۔

کارل مارکس
ہندوستانی بغاوت
لندن :4 ستمبر 1857
ہندوستان میں باغی سپاہیوں نے جو تشددکیا ہے و ہ واقعی بھیانک،مکروہ اور نا قابل بیان ہے۔ایسا تشدد عام طور پر باغیانہ ہنگاموں اور قومی نسلی اور خاص طور سے مذہبی لڑائیوں میں دیکھا جاتا ہے۔ مختصر طور پر یہ ایسا تشدد ہے جس کی محترم برطانیہ نے ہمیشہ ہمت افزائی کی۔ ایسا تشددجو واندی والوں نے ’’نیلوں‘‘ پر، ہسپانوی چھاپہ ماروں نے فرانسیسی بے دینوں پر، سربیائی لوگوں نے اپنے جرمن اور ہنگریائی پڑوسیوں پر، ہرواتیوں نے ویانا کے باغیوں پر، کاوینیاک کے موبائل گارڈ یا بونا پارٹ کے 10 دسمبر والوں نے فرانسیسی پرولتایہ کے بیٹے بیٹیوں پر کیا۔ ہندوستانی سپاہیوں کا رویہ چاہے کتنا ہی مکروہ رہا ہو وہ صرف ایک مرکوز صورت میں ہندوستان میں خود برطانیہ کے رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ نہ صرف اپنی مشرقی سلطنت کی بنیاد رکھنے کے دور میں بلکہ اپنی طویل حکمرانی کے پچھلے دس سال کے دوران بھی۔اس حکومت کی نوعیت واضح کرنے کے لئے یہ کہنا کا فی ہے کہ اذیت رسانی اس کی مالیتی پالیسی کا ایک اٹوٹ جزو رہا ہے۔ تاریخ انسانی میں انتقام جیسی چیزضرور ہے اور تاریخی انتقام کا یہ قانون ہے کہ اس کے آلات مظلوم نہیں بلکہ خود ظالم ڈھالتا ہے۔
فرنچ شاہی پر پہلی ضرب کسانوں نے نہیں، امراء نے لگائی۔ ہندوستانی بغاوت، جبر و تشدد اور ذلت کی شکار، برطانیہ والوں کے ہاتھوں آخری تار تک ننگی کی ہوئی رعیت نے نہیں بلکہ ان سپاہیوں نے شروع کی جن کو انہوں نے پہنا کر، کھلا پلا کر تھپ تھپا کر موٹا کیا تھا اور لاڈ پیار سے بگاڑا تھا۔ سپاہیوں کے مظالم کی مثالیں تلاش کرنے کے لئے ہمیں قرون وسطیٰ کی گہرائیوں میں جانے کی، جیساکہ لندن کے بعض اخبار کر رہے ہیں،یا موجودہ برطانیہ کی معاصرانہ تاریخ کی حدود سے باہر بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے ہمارے لئے صرف پہلی چینی جنگ سے واقفیت حاصل کرنا کا فی ہو گا۔ جو یوں کہنا چاہیے، ابھی کل کی بات ہے اس جنگ میں انگریز سپاہیوں نے محض تفریح کے لئے گندی حرکتیں کیں۔ ان کے غیظ و غضب میں نہ تو مذہبی عصبیت کا تقدس تھا، نہ مغرور فاتح کے خلاف شدید نفرت تھی اور نہ بہادر دشمن کی سخت مزاحمت کے خلاف اشتعال تھا۔ عورتوں کی عصمت دری، بچوں کو سنگینیوں سے چھیدنا، پورے پورے گاؤں جلا دینا، ایسے واقعات ہیں جن کو چینی عہدیداروں نے نہیں خود برطانوی افسروں نے لکھا ہے۔ یہ سب اس وقت محض بے لگام شرارت تھی۔
موجودہ ہنگامے میں بھی یہ فرض کر لینا نا قابل معافی غلطی ہوگا کہ سارا ظلم سپاہیوں کی طرف سے ہو رہا ہے اور انگریزوں کی طرف انتہائی مہربانی اور انسانی محبت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ برطانوی افسروں کے خطوط سے غصے کی بو آتی ہے۔ ایک افسر نے پشاور سے اپنے خط میں دسویں بے قاعدہ رجمنٹ کو نہتا کرنے کے بارے میں لکھا کیونکہ اس نے 55 ویں دیسی پیدل رجمنٹ پر حملہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اس پر فخر کرتا ہے کہ وہ نہ صرف نہتے کئے گئے بلکہ ان سے کوٹ اور بوٹ بھی چھین لئے گئے اور فی کس 12 پینس دینے کے بعد، ان کو دریا کے کنارے لے جا کر کشتیوں میں بٹھا دیا گیا اور دریائے سندھ کے بہاؤ پر روانہ کر دیا گیا جہاں خط لکھنے والے کی پرمسرت پیش گوئی کے مطابق دریا کے تیز دھارے میں موت ہر فرد کی منتظر تھی۔ ایک اور شخص نے لکھا ہے کہ پشاور کے کچھ باشندوں نے رواج کے مطابق شادی کے سلسلے میں گولے چھوڑ کر رات کو تشویش پھیلادی۔ ان لوگوں کو دوسری صبح باندھ کر ’’ایسا پیٹا گیا‘‘ کہ وہ اس کو مدتوں تک یادرکھیں گے۔سرجان لارنس نے اپنے جوابی پیغام کے ذریعے حکم دیا کہ ایک جاسوس ان کے جلسے میں شریک ہو۔ جاسوس کی رپورٹ پر سر جان نے دوسرا پیغام بھیجا ’’ان کو پھانسی پر لٹکاد و۔‘‘اور سرداروں کو پھانسی پر لٹکادیا گیا۔الٰہ آباد سے ایک سول افسر نے لکھا ہے ’’ہمارے ہاتھ میں زندگی اور موت کا اختیار ہے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس میں کوئی دریغ نہیں کرتے۔‘‘اسی جگہ سے ایک اور افسر نے لکھا ہے ’’کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ہم ان (پُرامن باشندوں)میں سے دس پندرہ کو پھانسی پر نہ لٹکا تے ہوں۔‘‘ ایک افسر نے فخر کے ساتھ لکھا ہے ’’بہادر ہو مزان کو بیسیوں کی تعداد میں لٹکارہاہے‘‘۔ایک اور دیسی لوگوں کے بڑے بڑے جتھوں کو مقدمہ چلائے اور تحقیقات کیے بغیر پھانسی دینے کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ’’تب ہماری تفریح شروع ہوئی۔‘‘ تیسرے نے لکھا ہے ’’ہماری فوجی عدالت گھوڑے کی پیٹھ پر ہوتی ہے اورجو کالا آدمی ہمارے سامنے آجاتا ہے ہم یاتو اس کو پھانسی پر لٹکا دیتے ہیں یاگولی مار دیتے ہیں‘‘ بنارس سے ہمیں اطلا ع ملی ہے کہ بیس زمینداروں کو اپنے ہم وطنوں سے ہمدردی کرنے کے شبہ میں پھانسی پر لٹکادیاگیا اور پورے پورے گاؤں بھی اسی وجہ سے جلا دیئے گئے۔ بنارس سے ایک افسر نے‘ جس کا خط لندن کے ’’ٹائمز‘‘میں چھپاہے،لکھا ہے’’دیسی لوگوں سے ٹکر لیتے وقت یورپی سپاہی شیطان بن جاتے ہیں۔‘‘
اور یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ انگریزوں کے مظالم فوجی بہادری کے اقدامات کی حیثیت سے پیش کیے جاتے ہیں۔بڑی سادگی اور اختصار سے مکروہ تفصیلات دیئے بغیر بیان کیے جاتے ہیں۔دیسی لوگوں کے مظالم کو، جو اپنی جگہ پر بھیانک ہیں،جان بوجھ کر مبالغہ سے پیش کیاجاتا ہے۔مثلاً دہلی اور میرٹھ میں کیے جانے والے مظالم کے وہ تفصیلی حالات جو پہلے ’’ٹائمز‘‘میں اور پھر لندن کے پورے پریس میں گردش میں آئے، اس کا ماخذ کون ہے ؟ ایک بُزدل پادری جو بنگلور(میسور)میں، جائے وقوعہ سے ہزار میل سے زیادہ فاصلے پر، رہتا ہے۔ دہلی کے اصلی واقعات کا کسی ہندوستانی باغی کی نسبت کوئی انگریز ہی اتنا زیادہ وحشیانہ تصور کر سکتا ہے۔کینٹین کے مکانوں پر جلتے ہوئے گولوں کی بارش کے مقابلہ میں ناک اور چھاتیوں کو کاٹناوغیرہ،مختصریہ کہ لوگوں کو اپاہج بنانے والی سپاہیوں کی حرکتیں یورپی جذبات کے لیے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہیں جن کا حکم مانچسٹرامن سوسائٹی کے سیکرٹری(بورنگ)نے دیا،یا ایک فرانسیسی مارشل کے ہاتھوں عربوں کاجلایا جانا(57) جو ایک غار میں بند تھے یا کورٹ مارشل کے حکم کے مطابق 9 لٹوں والے چابک سے زندہ برطانوی سپاہیوں کی کھال کھینچنا یا برطانیہ کے اصلاحی قید خانوں میں کوئی اور ’’انسان دوست‘‘ طریقہ۔ ظلم کا بھی ہر چیز کی طرح اپنا فیشن ہوتا ہے جو وقت اور جگہ کے لحاظ سے بدلتا رہتاہے۔صاحبِ علم سیزر کھلم کھلا بیان کرتا ہے کہ کیسے اس کے حکم سے کئی ہزار گال سپاہیوں کے دائیں ہاتھ قلم کر دئیے گئے۔ نپولین اس طرح کے اقدام کو اپنے لئے قابل شرم سمجھتا۔ اس نے اس کو ترجیح دی کہ وہ اُن فرانسیسی رجمنٹوں کو، جن پر ری پبلکن ازم کے رحجان کا شبہ تھا، سانٹو ڈومینگو کو بھیج دے جہا ں وہ کالے لوگوں کے ہاتھوں یا وباؤں سے موت کے شکار ہو جائیں۔
سپاہیوں کے ہاتھوں لوگوں کو اپاہج بننے کے واقعات مسیحی باز نطینی سلطنت کے رواجوں یا قانونِفوجداری پر شہنشاہ چارلس پنجم کے ہدایت نامے یا برطانیہ میں ملک سے غداری کے لئے سزا ( جیسا کہ جج بیلکسٹن نے لکھا ہے ) کی یاد دلاتے ہیں۔ ہندوؤں کے لئے جن کو اُن کے مذہب نے خود آزاری میں ماہر بنا دیا ہے، یہ مظالم اپنے نسل اور عقیدے کے دشمنوں پر بالکل قدرتی معلوم ہوتے ہیں اور انگریزوں کو تو یہ ذیادہ بہتر معلوم ہونا چاہیے جو چند ہی برس پہلے جگن ناتھ کے تہواروں سے آمدنی حاصل کرتے تھے اور اس ظالم مذہب کے خونی تہواروں کی حفاظت اور معاونت کرتے تھے۔
جیسا کوبیٹ کہا کرتا تھا، ’’بوڑھے خونی‘‘ ’’ٹائمز‘‘ کی خوفناک گرج، ا س کا موتسارت کے ایک اوپیرا کے ایک پُر غیظ کردار کا پارٹ ادا کرنا، جو اس تصور میں بڑے سریلے گیت گاتا ہے کہ وہ پہلے اپنے دشمن کو پھانسی پر لٹکائے گا، پھر اس کو بھونے گا‘ اس کے ٹکڑے کرے گا، پھر اس کو چھیدے گا، اس کی زندہ جان کھال کھینچے گا۔ اور ’’ٹائمز‘‘ کی یہ مُستقل کوشش کہ وہ انتقامی جذبات کے شعلے انتہائی حد تک بھڑکا دے،یہ سب باتیں حماقت معلوم ہوتیں اگر المیے کے رنج و الم کی تہہ میں کامیڈی کی شرارت آمیز جھلک صاف نہ دکھائی دیتی۔لندن ’’ٹائمز‘‘ اپنے پارٹ میں جو ضرورت سے زیادہ اداکاری کرتا ہے وہ محض بد حواسی کی وجہ سے نہیں ہے و ہ کامیڈی کو ایک نیا موضوع دیتا ہے جو مولیئرسے بھی نظر انداز ہو گیا تھا یعنی تار تیوف کا انتقا م۔ در حقیقت اس کا سارا مقصد سرکاری پروپیگنڈا کرنا اور حکومت کو حملوں سے بچانا ہے۔ چونکہ دہلی کی دیواریں جیریکو کی دیواروں کی طرح ہوا کے جھکڑ وں سے نہیں گریں اس لئے جان بل کے کانوں کو انتقام کی چیخوں سے بہرا کرنے اور اس کو یہ بھلانے کی ضرورت ہے کہ اس کی حکومت اس مصیبت کی اور اس بات کی ذمے دار ہے کہ ان مصائب کو زبردست پیمانے تک بڑھا دیا گیا۔
کارل مارکس نے 4 ستمبر 1857 کو تحریر کیا۔ ’’نیویارک ڈیلی ٹریبیون‘‘ کے شمارے 5119 میں 16 ستمبر 1857 کو شائع ہوا۔

فریڈرک اینگلز
ہندوستان میں برطانوی فوج
حال ہی میں ہمارے غیر محتاط دوست ’’لندن ٹائمز‘‘ کے مسٹر ولیم رسل تصویر کشی سے اپنی محبت کی بدولت مائل ہوئے کہ لکھنؤ کے تاخت و تاراج کئے جانے کا نقشہ دوسری مرتبہ اس طرح کھینچیں جسے دوسرے لوگ برطانوی کردار کے لئے قابل تعریف نہیں سمجھیں گے۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کو بھی کافی حد تک لوٹاگیاتھا اور قیصر باغ کے علاوہ شہر لکھنؤ نے بھی برطانوی سپاہی کو اس کی گزشتہ محرومیوں اور بہادرانہ کوششوں کا انعام دینے کے لئے دَین دی۔ ہم مسٹر رسل کو نقل کرتے ہیں :
’’ایسی کمپنیاں بھی ہیں جو فخر کر سکتی ہیں کہ ان کی صفوں میں ایسے سپاہی ہیں جن کے پاس ہزاروں پونڈ کی مالیت ہے۔ ایک جوان کے متعلق میں نے سنا کہ اس نے ایک افسر کو بڑے اطمینان سے قرض پیش کیا اتنی ہی رقم جو اس کپتان کا عہدہ خریدنے کے لئے درکار ہے، دوسرے نے اپنے دوست کو بڑی بڑی رقمیں بھیجی ہیں۔ قبل اس کے کہ یہ خط انگلستان پہنچے بہت سے ہیرے، زمرد اور نازک موتی قیصر باغ پر دھاوے اور تاخت و تاراج کی کہانی نہایت پر سکون اور دلچسپ طریقے سے سنائیں گے۔ یہ اچھاہی ہے کہ ان کو پہنننے والی حسیناؤں نے یہ نہیں دیکھا کہ جگمگاتے ہوئے زیورات کیسے حاصل کئے گئے، اور نہ وہ مناظر دیکھے جن میں یہ زر و جواہر چھینے گئے تھے _ ان میں سے بعض افسروں نے حقیقی معنوں میں دولت بٹورلی ہے _ یونیفارم کے کٹے پھٹے تھیلوں میں زیورات کے بعض ایسے ڈبے ہیں جن میں اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کی جاگیریں موجود ہیں اور دنیا کی ہر شکار گاہ یا مچھلی پکڑنے کے مقام میں آرام سے ماہی گیری اور شکار کھیلنے کے لئے بنگلے۔‘‘
تو لکھنؤ کی تسخیر کے بعد برطانوی فوج کی بے عملی کا یہ سبب ہے۔لوٹ مار کے لئے وقف نصف ماہ اچھی طرح صاف ہوا۔ افسر اور سپاہی جب شہر میں داخل ہوئے تھے تو کنگال تھے اور جب باہر نکلے تو یکا یک امیر بن گئے۔ وہ پہلے جیسے آدمی نہیں رہے۔ اس کے باوجود اُن سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنی سابق فوجی ڈیوٹی پر حاضر ہوں، اطاعت، بے زبان فرمانبرداری، قواعد،عُسرت اور لڑائی پھر اختیار کریں۔ لیکن اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو فوج لوٹ مار کی غرض سے توڑ دی جاتی ہے ہمیشہ کے لئے بدل جاتی ہے۔ کمان کا کوئی حکم، جنرل کی کوئی نیک نامی اسے پھر پہلے کی طرح نہیں بنا سکتی۔ مسٹر رسل سے پھر سنیے:
’’دولت سے جس طرح بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ان کا مشاہدہ کرنا دلچسپ ہے۔ لوٹ مار سے آدمی کے جگر پر کیسا اثر ہوتا ہے، اور چند ہیروں سے اپنے خاندان میں، اپنے عزیز و اقارب میں کیسی زبردست تباہی آسکتی ہے _ سپاہی کی کمر کے گرد پیٹی کا وزن جو روپیوں اور سونے کی مہروں سے بھری ہوئی ہے اسے یہ یقین دلاتا ہے کہ (گھر میں آرام دہ زندگی کے) خوا ب کو شرمندۂ تعبیر کیا جاسکتا ہے تو پھر کوئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ ’’قطار باندھو، قطار باندھو‘‘ کا برا مانتا ہے۔ دو لڑائیاں، مال غنیمت کے دو حصے، دو شہروں کی لوٹ مار اور راستے میں چھوٹی موٹی چوریاں _انہوں نے ہمارے بعض جوانوں کو اتنا زیادہ مالدار بنادیا ہے کہ وہ سپہ گری نہیں کر سکتے‘‘۔
چنانچہ ہم نے سنا ہے کہ تقریباً 150 افسروں نے سر کان کیمبل کو اپنے استعفے پیش کر دئیے ہیں _ ایک ایسی فوج میں عجیب و غریب کارروائی جس کے دُو بدو دشمن ہے جس کے بعد کسی دوسری فوج میں چوبیس گھنٹے کے اندر جرمانہ اور سخت ترین سز اہوتی لیکن برطانوی فوج میں ’’ایک افسر اور شریف آدمی‘‘ کے لئے جو یکا یک مالدار ہوگیا ہو بہت موزوں عمل خیال کیا جاتا ہے۔ جہاں تک عام سپاہیوں کا تعلق ہے تو ان کا حال مختلف ہے۔ لوٹ مار سے اور زیادہ لوٹ مار کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اور اگر اس مقصد کے لئے ہندوستانی زر و جواہر باقی نہیں رہے تو برطانوی حکومت کے زر و جواہر کو کیوں نہ لوٹا جائے چنانچہ مسٹر رسل کہتے ہیں :
’’خزانے کی دو گاڑیوں میں مشتبہ گڑ بڑ پائی گئی جن کے نگران یورپی محافظ تھے۔ ان میں کچھ روپے غائب تھے۔ طلائے کے نازک فرائض انجام دینے کے لئے خزانچی اب مقامی سپاہیوں کو ترجیح دے رہے ہیں‘‘۔
واقعی بہت اچھا ہے۔ اس’’جنگجو کے بے مثال نمونے‘‘ یعنی برطانوی سپاہی کے مقابلے میں ہندو یا سکھ زیادہ ضبط پسند، کم چرانے والا اور کم لٹیرا ہوتا ہے۔ لیکن ابھی تک ہم نے ملازمت میں صرف ایک واحد برطانوی کو دیکھا ہے۔ اب ہم پوری برطانوی فوج پر نظر ڈالیں جو اپنی اجتماعی حیثیت سے ’’لوٹ مار‘‘کرتی ہے:
’’ہر روز مال غنیمت میں اضافہ ہو رہا ہے اور تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس کی فروخت سے 6 لاکھ پونڈ حاصل ہوں گے۔ کانپور کا شہر لکھنؤ کے مال غنیمت سے بھر اپڑا ہے۔ اور اگر پبلک عمارتوں کو پہنچائے ہوئے نقصان، نجی جائیداد کی تباہی، مکانات اور زمین کی قیمت میں کمی اور آبادی میں گھاٹے کا تخمینہ لگایا جائے تو معلوم ہو گا کہ اودھ کے دارالسلطنت کو 50 یا 60 لاکھ پونڈ اسٹرلنگ کا نقصان پہنچا ہے۔‘‘
چنگیز خان او رتیمور کے قلماق جم غفیر، جو شہر پرٹڈی دلوں کی طرح چھا جاتے تھے اور راستے میں ہر چیز ہڑپ کر لیتے تھے اس ملک کے لئے ان عیسائی، مہذب، عالی حوصلہ اور شریف برطانوی سپاہیوں کے دھاوے کے مقابلے میں باعث برکت رہے ہوں گے۔ اول الذکر کم از کم اپنے من موجی راستے پر جلد نکل جاتے تھے لیکن یہ باقاعدہ انگریز اپنے ساتھ مال غنیمت کے ایجنٹ لاتے ہیں، لوٹ مار کو ایک نظام میں تبدیل کر دیتے ہیں، لوٹ کھسوٹ کا باقاعدہ حساب رکھتے ہیں، نیلام میں اسے فروخت کرتے ہیں او ر اس پر عقابی نظر رکھتے ہیں کہ برطانوی شجاعت کے اپنے مال غنیمت میں حق تلفی نہ ہو جائے، ہم اس فوج کی صلاحیتوں کو اشتیاق سے دیکھیں گے جس کا ڈسپلن بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے اثرات سے ڈھیلا پڑ گیا ہے،ایک ایسے وقت جب گرم موسم کی مہم میں کوچ ڈسپلن میں سخت ترین ضابطے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مگر ہندوستانی اس وقت تک باقاعدہ لڑائی کے لئے اور بھی کم چاق و چوبند ہوں گے جتنے وہ لکھنؤ میں تھے۔ لیکن یہ بنیادی سوال نہیں ہے۔ یہ جاننا کہیں اہم ہے کہ اگر باغی فرضی مزاحمت کرنے کے بعد جنگ کا مرکز پھر تبدیل کر دیں، مثلاً راجپوتانہ میں جس پر ابھی تک قابو نہیں پایا گیا ہے تو کیا ہو جائے گا۔ سر کالن کیمبل کو ہر جگہ محافظ فوجیں چھوڑنی پڑتی ہیں۔ ان کی باقاعدہ فوج گھٹ کر اس قوت کی نصف رہ گئی ہے جو ان کے پاس لکھنؤ سے پہلے تھی۔ اگر انہوں نے روہیل کھنڈ پر قبضہ کر لیا تو میدان جنگ کے لئے قابل استعمال کتنی قوت باقی رہے گی ؟ گرم موسم ان کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ جون میں بارش سر گرم مہم کو روک دے گی او رباغیوں کو سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔ وسط اپریل کے بعد،جب موسم سخت ہوجاتا ہے، بیماریوں سے یورپی سپاہیوں کا نقصان روز بروز بڑھے گا اور نوجوان،جو ہندوستان میں گزشتہ سردیوں میں درآمد کئے گئے تھے، آزمودہ کار ہندوستانی مہم کاروں کے مقابلے میں جو گزشتہ گرمیوں میں ہیولاک او رولسن کے تحت لڑے تھے کہیں زیادہ تعداد میں موسم کا شکار ہوں گے۔ لکھنؤ یا دہلی کے مقابلے میں روہیل کھنڈ زیادہ فیصلہ کن مقام نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ باغیوں نے گھمسان کی لڑائیوں کے لئے اپنی صلاحیت کافی کھو دی ہے لیکن اپنی موجودہ بکھری ہوئی شکل میں وہ کہیں زیادہ مضبوط ہیں اور انگریزوں کو اپنی فوج مارچوں اور گرمیوں میں تباہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مزاحمت کے کئی نئے مرکزوں پرنظر ڈالئے۔ روہیل کھنڈ کو لیجئے جہاں پرانے مقامی سپاہی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ گھاگرا کے اس پار شمال مشرقی اودھ ہے جہاں اودھ والوں نے مورچے قائم کر لئے ہیں۔ کالپی ہے جو بندھیل کھنڈ کے باغیوں کے لئے اس وقت ارتکاز کے نقطے کی طرح کام آرہا ہے۔ چند ہفتوں میں، اگر جلد نہیں تو، اغلب ہے کہ ہم یہ سنیں کہ بریلی اور کالپی دونوں پر قبضہ ہو گیا۔اول الذکر کی اہمیت نہیں کے برابر ہوگی اس لئے کہ اس میں کیمبل کی اگر ساری نہیں تو تقریباً ساری قابل استعمال قوت کھپ جائے گی۔ کالپی کی فتح زیادہ اہم ہوجائے گی جسے اب جنرل وہٹلاک سے خطرہ ہے جس نے ناگپور سے بندھیل کھنڈ میں باندے تک اپنے کالم کی رہنمائی کی ہے اور جنرل روز سے جو جھانسی کی طرف سے قریب آرہا ہے اور جس نے کالپی کی فوج کے طلایہ کو شکست دی ہے۔ اس فتح سے کیمبل کی کارروائیوں کا گڑھ کانپور اس واحد خطرے سے آزاد ہو جائے گا جو اس کے سامنے ہے او راس طرح شاید وہ اس قابل ہوجائیں گے کہ وہاں سے جو فوجی آزاد ہوں ان میں سے اپنی باقاعدہ فوجوں کے لئے بڑی حد تک بھرتی کر سکیں۔ لیکن اس میں بہت شبہ ہے کہ اودھ کو صاف کرنے کے علاوہ اور کچھ کرنے کے لئے یہ کافی ہو۔
چنانچہ ہندوستان میں ایک نقطے پر انگلستان کی مرکوز کی ہوئی مضبوط ترین فوج تمام سمتوں میں پھر بکھری ہوئی ہے او راسے اس سے زیادہ کا م کرنا ہے جو وہ اطمینان سے کر سکتی ہے۔ گرمیوں کی دھوپ اور بارش میں موسم کی تباہ کاریاں ہولناک ہوں گی۔ ہندوستانیوں پر یورپیوں کی اخلاقی برتری خواہ کتنی ہی ہو لیکن اس میں مطلق شبہ نہیں کہ ہندوستانی گرمیوں میں گرمی اور بارش کا مقابلہ کرنے کی ہندوستانیوں کی جسمانی برتری انگریز فوجوں کی تباہی کا ذریعہ بن جائے گی۔ اس وقت بہت کم برطانوی فوجیں ہندوستان آنے والی ہیں اور جولائی اور اگست سے پہلے بڑی کمک بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لہٰذا اکتوبر اور نومبر تک کیمبل کے لئے صرف اس فوج کو جو تیزی سے گھٹتی جا رہی ہے اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے۔ اگر اس دوران میں باغی ہندوستانی راجوتانہ اور مراٹھ واڑہ میں بغاوت کرانے میں کامیاب ہوگئے تو ؟ اگر سکھ، جن کی تعداد برطانوی فوج میں 80 ہزار ہے اور جو فتوحات کے اعزاز کے دعویدار ہیں اور جن کو انگریز بالکل پسند نہیں ہیں، اُٹھ کھڑے ہوئے تو ؟
غالباً کم سے کم ایک اور مہم ہندوستان میں برطانیہ کو کرنی ہوگی، اور یہ انگلستان سے دوسری فوج کے بھیجے بغیر انجام نہیں دی جاسکتی۔
فریڈرک اینگلز نے لگ بھگ 4 جون 1858 کو تحریر کیا۔ ’’نیویارک ڈیلی ٹریبیون‘‘ کے شمارے 5361 میں 26 جون 1858 کو ادارئیے کی حیثیت سے شائع ہوا۔