اداریہ جدوجہد
اسرائیل کے حالیہ انتخابات میں لکھود پارٹی کی قیادت میں نئی حکومت اور نیتن یاہو کے پانچویں بار وزیر اعظم بن جانے میں کچھ بھی حیران کن نہیں ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو شاید غیر معمولی ہوتا۔ موجودہ عہد کا معمول ایسی رجعت کی سطحی اور ظاہری برتری کے کردار کا ہی حامل ہے۔ جب سے مذہب کی بنیاد پر سامراجی طاقتوں کی ’عالمی کمیونٹی‘ نے اقوام متحدہ سے اسرائیل بنوایا ہے‘اس ملک کی ریاست مشرقِ وسطیٰ میں سامراجی پالیسی کا کلیدی اوزار رہی ہے۔ اس ریاست کے قیام کا مقصد ہی تیل سے مالا مال خطے میں مسلسل کشیدگی اور عدم استحکام برقرار رکھنا تھا۔ اس طرح اپنا کنٹرول اور غلبہ برقرار رکھنا سامراجی پالیسی کا بنیادی کلیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے تمام انتخابات انجینئرڈ ہوتے ہیں۔ یہ بھی کوئی حادثہ نہیں ہے کہ اسرائیل میں کبھی بھی کسی ایک پارٹی کی حکومت نہیں بنی۔ موجودہ حکومت بھی ایک مخلوط حکومت ہوگی۔
موجودہ عہد میں یہ نظام جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی اظہار وغیرہ کے لبادے اتار کر کھلی جارحیت پر اتر آیا ہے۔ نیتن یاہو امریکہ کے ٹرمپ، ہندوستان کے مودی، برازیل کے بولسنارو، ہنگری کے اربان اور کسی حد تک پاکستان کے عمران خان کی طرح انتہائی دائیں بازو کے رجحانات کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ اپنی جارحانہ پالیسی میں سفاکی اور نیم فسطائیت کے وار تیز کرتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بھی کوئی حادثہ نہیں ہے کہ اس انتخابی مہم میں نیتن یاہو کا سب سے سرگرم کارکن خود ڈونلڈ ٹرمپ تھا۔ جس نے پچھلے چند ہفتوں میں ایسے اعلانات کیے جو پچھلے 70 سالوں میں کوئی امریکی صدر نہیں کرسکا۔ امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی، فلسطینیوں کی امداد کی بندش اور ان پر جبر کی نئی لہر کی حمایت، شام کی گولان پہاڑیوں پر 1967ء کے اسرائیلی قبضے کو مستقل تسلیم کرنا اور انتخابات سے چند گھنٹے قبل ایران کے ’پاسداران انقلاب‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا‘ ایسے اقدامات تھے جو دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور عسکری طاقت کا سربراہ 70 لاکھ آبادی پر مشتمل چھوٹی سی ریاست کے پارلیمانی انتخابات کے سیاق و سباق میں کر رہا تھا۔ اب اس نئی حکومت کے تیور بتا رہے ہیں کہ سات دہائیوں سے ظلم و ستم کے شکار فلسطینیوں کو پہلے سے کہیں زیادہ جبر کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور ہمیشہ کی طرح اسرائیلی ریاست اور مغربی کارپوریٹ میڈیا اسرائیل کو ہی عدم تحفظ اور فلسطینی ’دہشت گردی‘ کا شکار بنا کے پیش کریں گے۔ لیکن حالیہ عرصے میں اس رجعتی اور خونی پالیسی کو آگے بڑھانے والوں میں سعودی عرب کا شہزاہ محمد بن سلمان، مصری آمر عبدالفتح السیسی، اردن کا شاہ عبداللہ اور دوسری خلیجی و عرب ریاستوں کے حکمران بھی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اسرائیل میں داخلی طور پر بھی اس مسلسل پراپیگنڈہ یلغار سے تقریباً 80 فیصد آبادی اِس نفسیاتی ہیجان میں مبتلا کردی گئی ہے کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ سکیورٹی ہے اور اسرائیل کو فلسطینیوں کے راکٹوں سے خطرہ ہے۔ حماس جیسی تنظیموں کی مسلح کاروائیاں اِس تاثر کو اور بھی مضبوط کرتی ہیں۔ ان کے بے ضرر سے راکٹ صیہونی ریاست کی جارحیت کو جواز ہی فراہم کرتے ہیں۔ ہر راکٹ حملے کے بعد اسرائیل کی دیوہیکل فوجی مشینری ہوائی اور زمینی حملوں سے فلسطینیوں کا قتل عام شروع کر دیتی ہیں۔ لیکن نیتن یاہو کی عیاری یہ بھی ہے کہ وہ مصر اور سعودی عرب وغیرہ کے ذریعے جلد ہی حماس سے سمجھوتہ بھی کر لیتا ہے۔ جس کے بعد ایک نئے خونی کھلواڑ کا آغاز ہوتا ہے جس میں مرتے بے گناہ فلسطینی ہی ہیں۔
غزہ، جہاں حماس کا کنٹرول ہے، میں 20 لاکھ فلسطینی آباد ہیں جبکہ مغربی کنارے میں آباد 25 لاکھ فلسطینیوں پر محمود عباس کی قیادت میں ’فلسطینی اتھارٹی‘ کی نیم حکومت قائم ہے۔ لیکن یہ دونوں فلسطینی’حکومتیں‘ ہی معاشی، جغرافیائی اور مواصلاتی حوالے سے اسرائیل کی صیہونی ریاست کی مرہونِ منت ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اِن دونوں حکومتوں کے آپسی تعلقات بھی انتہائی تلخ ہیں۔ جس کی ایک وجہ ان دونوں کے فنانسروں کے آپسی تضادات ہیں۔ فلسطین کے عوام ان دونوں سے ہی تنگ ہیں۔ لیکن داخلی اور خارجی ظلم کی ہر شکل برداشت کر کے بھی جدوجہد آزادی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہے۔ نام نہاد عالمی ادارے اور مسلمان ممالک کی تنظیمیں مسئلہ فلسطین کو ایک طرح سے فراموش کر چکی ہیں۔ لیکن فلسطینیوں نے بھی ہار ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ نسل در نسل اسرائیلی تسلط اور جبر کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کی جدوجہد جاری ہے۔
2011ء کے عرب انقلابات کی پسپائی نے لیبیا، شام، مصر اور یمن وغیرہ میں بربادی اور جبر کی نئی شکلوں کو جنم دیا ہے۔ لیکن 2011ء میں جو الجزائر خاموش تھا آج بغاوت کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ عوام کی تحریک نے دو دہائیوں سے حکمرانی کرنے والے عبدالعزیز بوتفلیقہ کو اقتدار سے نکال باہر کیا ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں سوڈان میں عوامی مظاہروں کے نتیجے میں صدر عمر البشیر کی تیس سالہ آمریت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور فوج نے اقتدار سنبھال لیا ہے۔ معزول ہونے والی حکومت کے وزرا حراست میں ہیں۔ لیکن عوام نے فوجی آمریت کو بھی مسترد کر دیا ہے اور بڑے مظاہرے تاحال جاری ہیں۔ ایسی نئی تحریکیں عرب میں دوبارہ ابھر سکتی ہیں اور سعودی عرب سے مصر تک نئے انقلابی طوفان برپا کر سکتی ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے عوام 2011ء کی طرح ناگزیر طور پہ ان کا حصہ بنیں گے جس سے ان کی طبقاتی یکجہتی کے راستے کھلیں گے۔ فلسطین کی آزادی پورے خطے میں انقلابی تبدیلی کیساتھ جڑی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے بغیر یہ ظلم و بربریت کا راج ختم نہیں ہوسکتا۔ اب کی بار ان تحریکوں کو ’جمہوریت‘ کے فریب میں جکڑنا بھی اتنا آسان نہیں ہو گا۔ کیونکہ لوگ ماضی کی تحریکوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سیکھ کے آگے بڑھتے ہیں۔ پورے خطے کے مظلوم اور استحصال زدہ لوگوں کو طبقاتی جدوجہد کے ذریعے یہ نظام اکھاڑ پھینکتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام تک لڑنا ہو گا۔