تحریر: لال خان
جمعرات 28 مارچ کو مشہور گلوکار، بائیں بازو کے سیاستدان اور برابری پارٹی پاکستان کے سربراہ جواد احمد کو فیصل آباد آرٹس کونسل میں منعقدہ تقریب میں اس وقت بولنے سے روک دیا گیا جب انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جواد نے مزید کسی تلخی سے گریز کرتے ہوئے پوڈیم چھوڑدیا حالانکہ حاضرین ان کی بات سننا چاہ رہے تھے۔ اس واردات میں تحریک انصاف کے فیصل آباد میں میئرشپ کے امیدوارندیم صادق ڈوگر کے بھائی بابر ڈوگر اور پی ٹی آئی کے مقامی لیڈر رانا زاہد محمود پیش پیش تھے۔ جن کی قیادت میں آنے والے غنڈوں نے عمران خان کے حق میں نعرے بازی شروع کر دی، جواد احمد سے مائیک چھین لیا اور اُن پر حملے کی کوشش بھی کی۔ یہ واقعہ تحریک انصاف کی مخصوص نیم فسطائی سوچ اور گری ہوئی ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔
بعد میں جواد نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں لکھا، ’’مجھے آج فیصل آباد میں برابری پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ایک سیاسی تقریر کے لئے مدعو کیا گیا تھا… اس لئے میں نے تحریک انصاف کی پالیسیوں پر بالعموم اور عمران خان پر بالخصوص تنقید کی… عمران خان نے لندن کے میئر کے الیکشن میں صادق خان کے خلاف اپنے سابقہ سالے زیک گولڈ سمتھ کی حمایت کی تھی جسے بعد ازاں اپنی انتخابی مہم میں تارکین وطن کے خلاف اسلاموفوبیا اور نسل پرستی پھیلانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا… میرا نہیں خیال کہ یہ کسی طور بھی کوئی ذاتی حملہ تھا… یہ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے جس سے عمران خان انکار نہیں کرسکتا۔ یہ عمران خان کے طبقاتی کردار کی غمازی کرتا ہے۔ آدمی اپنے اعمال، اپنے دوستوں اور اپنی قائم کردہ مثالوں سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ عمران خان کی سیاست سرمایہ داروں کے پیسوں سے پروان چڑھی ہے۔ اب وصولی کا وقت ہے۔‘‘
موجودہ کٹھ پتلی حکومت اِس نام نہاد جمہوری سیٹ اپ کا شاید سب سے مضحکہ خیز ڈھونگ ہے جس میں ان مٹھی بھر لوگوں کو بھی اظہارِ رائے، تنقید اور بحث کی کوئی حقیقی آزادی حاصل نہیں ہے جن کے پاس سیاست میں حصہ لینے کے وسائل موجود ہیں۔ لینن نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بارے میں لکھا تھا، ’’سرمایہ دارانہ سماج میں جمہوریت محدود، اپاہچ اور جھوٹی ہوتی ہے۔ یہ خوش نما لفاظی، رنگین وعدوں، آزادی اور برابری کے بلند و بانگ دعووں کی جمہوریت ہے۔جو حقیقت میں استحصال زدہ طبقات کی غلامی اور کمتری کو قائم رکھتی ہے۔‘‘تاہم پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں تو یہ جمہوریت کسی پرفریب خوشنمائی سے بھی عاری ہو چکی ہے۔
تحریک انصاف کی سماجی بنیادیں زیادہ تر مڈل کلاس میں ہیں۔ ٹراٹسکی نے اِس طبقے کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ صرف طاقت کی پرستش کرنا جانتا ہے۔ ’’طاقت‘‘ کی پشت پناہی کے ساتھ رنگینی کو بھی شامل کیا جائے تو عمران خان کا مظہر واضح ہو جاتا ہے۔ مذہبیت اور بھونڈے قسم کے لبرلزم کا ملغوبہ تحریک انصاف کی ڈھٹائی پر مبنی سیاست کا جزولاینفک ہے۔جس نے محنت کش طبقے کے عدم تحرک کے وقت میں درمیانے طبقے کے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ لیکن اب جبکہ برسر اقتدار آنے کے بعد اِس بلبلے کی ہوا نکلتی جا رہی ہے تو درمیانے طبقے کی فرسٹریشن بھی زیادہ رجعتی اور فسطائی رویوں کو جنم دے رہی ہے۔ بالخصوص بحران کے ایسے ادوار میں یہ ایک مضطرب طبقہ ہوتا ہے جو بہت تیزی سے ایک سے دوسری انتہا پہ چلا جاتا ہے۔ محنت کش طبقے کی کسی یکجا اور وسیع تحریک کی عدم موجودگی میں حاوی سیاست انتہائی بدبودار اور نظریات سے عاری ہو گئی ہے۔ لیکن سماج پر فسطائیت کے مکمل غلبے کی باتیں بھی مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ عمران خان کی نیم مذہبی اور نیم لبرل ملغوبہ سیاست نے دراصل وسیع سماجی بنیادیں حاصل کرنے میں ناکام بنیاد پرست رجحانات کی جگہ لی ہے۔ لیکن تحریک انصاف درمیانے طبقات کی کچھ پرتوں سے ہٹ کے آبادی کے بڑے حصے کی حمایت حاصل کر سکی ہے نہ کر سکتی ہے۔ پچھلے عرصے میں محنت کش طبقے نے نہ صرف تحریک انصاف بلکہ مروجہ سیاست کے ہر رجحان کو مسترد کیا ہے۔ لیکن کسی متبادل کی عدم موجودگی میں محنت کش طبقے کی امنگوں کو فی الوقت کو ئی ٹھوس سیاسی اظہار نہیں مل پا رہا ۔ پیسے کی سیاست کے غلبے کے اِس ماحول میں تحریک انصاف کے غنڈے، جنہیں ’مقتدر حلقوں‘ کی حمایت کا بھی بہت نشہ ہے، ایسی فسطائی کاروائیاں تو کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر جگہ تحریک انصاف کے میڈیا سیل مخالفین کی مخالفت اور عمران خان کی تعریف میں بیہودگی کی ہر حد تک جا رہے ہیں۔ لیکن وسیع تر عوام میں نودولتیوں کی اِس حکومت کے خلاف غیض و غضب مسلسل بڑھ رہا ہے۔ مختلف سرکاری محکموں کے محنت کشوں کے احتجاجوں کی ایک نئی لہر پچھلے کچھ ہفتوں سے دیکھنے میں آئی ہے۔ یہی وہ حقیقی قوت ہے جو پاکستان پر فسطائی غلبے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنائے گی۔ فی الوقت یہ ہڑتالیں اور احتجاج بکھرے ہوئے ہیں لیکن یہ مستقبل کے طوفانی واقعات کا پتا ضرور دے رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت نے ریکارڈ مختصر وقت میں خود کو اِس ملک کی تاریخ کی سب سے نااہل، ڈھیٹ، عوام دشمن اور بدعنوان حکومت ثابت کیا ہے۔ جن طاقتوں کی حمایت اور پشت پناہی کا انہیں بہت زعم ہے ان کے اندر کے معاملات بھی اتنے اچھے نہیں ہیں۔ سماجی تضادات شدید ہیں، معیشت کا بحران سنگین ہے اور نیچے مسلسل بڑھتی ہوئی بے چینی اوپر حاکمیت کے ڈھانچوں میں بھی دراڑیں ڈال رہی ہے۔ مروجہ سیاست کی کسی پارٹی کے پاس اِس سرزمین کے محکوموں اور مظلوموں کے لئے کوئی متبادل سیاست، پروگرام اور راہِ نجات نہیں ہے۔ میڈیا جتنا تابع اور کنٹرولڈ آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب تمام راستے بند کر دئیے جاتے ہیں تو مظلوموں کے پاس بغاوتوں اور انقلابات کے راستے ہی بچتے ہیں۔
جواد احمد نے اس حملے کا پوری جرات کیساتھ سامنا کیا ہے۔ بائیں بازو کی سیاست کی طرف آکر اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ دوسرے بہت سے نامور لوگوں کی طرح شہرت، پیسے یا اقتدار کا بھوکا نہیں ہے۔ تاہم ترقی پسند سیاست میں آنے والے ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ سماج کی طبقاتی ساخت اور اس میں محنت کش طبقے کے فیصلہ کن کردار کو سمجھے۔ ایسے ادارے جنہیں بنایا ہی استحصال اور جبر کے لئے گیا ہو‘ انہیں محنت کشوں کی بہتری اور فلاح کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ان سے کسی طرح کی امید یا خوش فہمی رکھنا طبقاتی جدوجہد کے لئے تباہ کن ہوتا ہے۔ انقلابات میں مڈل کلاس کوئی ہراول یا آزادانہ کردار ادا نہیں کرسکتی۔ مخصوص حالات میں ہر طبقے کی طرح اِس طبقے کے کچھ افراد بھی یقیناًبڑے کردارکے حامل ہو سکتے ہیں لیکن وہ سرمایہ داروں یا محنت کشوں میں سے کسی ایک کے مفادات کی نمائندگی ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور محنت کشوں کی نمائندگی کے لئے انہیں اپنے طبقاتی پس منظر کے ہر پہلو کو ترک کرنا پڑتا ہے اور اپنی سیاست کو محنت کش طبقے کے تاریخی فرائض سے مکمل ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے۔ انقلابی پارٹی کی تعمیر کے لئے لازمی ہے کہ سب سے پہلے اِس ملک کے انقلاب کے کردار کا تعین کیا جائے۔ آج تک کے تجربات ثابت کرتے ہیں کہ یہاں حقیقی تبدیلی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سرمایہ داری میں اصلاحات یا ’مرحلہ واریت‘ کے پروگرام سے اس سماج کا کوئی ایک بنیادی مسئلہ بھی حل نہیں ہوا ہے۔ پچھلی سات دہائیاں گواہ ہیں کہ جعلی قسم کی ’تبدیلیوں‘ سے محکومی اور محرومی مزید بڑھی ہی ہے۔ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام روزِ اول سے ناکام و نامراد ہے۔ اسے یکسر اکھاڑ کے ہی کسی بہتری کے بارے میں سوچا بھی جا سکتا ہے۔