تحریر:عیسیٰ الجزائری:-
(ترجمہ :اسدپتافی)
منگل22مئی کو کینیڈا نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سول نافرمانی کا تجربہ کیا۔ڈھائی لاکھ سے لے کر ساڑھے تین لاکھ تک نوجوان اور محنت کش مانٹریال کی سڑکوں پر نکل آئے اور اس ایمرجنسی قانون کو اپنے پاؤں تلے روند دیا جس کے تحت کسی بھی قسم کے مظاہرے کیلئے پولیس سے آٹھ گھنٹے پہلے منظوری لینی لازمی ہوتی ہے۔ مظاہرین نے سرکاری روٹ کو مسترد کردیا اور ریاستی حدودووقیود سے باہر نکل آئے۔
اس بار مظاہرین نے اپنے پہلے کے مظاہروں22مارچ اور22اپریل کے ریکارڈ بھی توڑ دیے۔اس سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ تحریک اب زیادہ وسعت اختیار کرتی جا رہی ہے۔جین چیرسٹ نے شرط لگائی ہوئی تھی کہ اگر تحریک چلی تو اسے پولیس کی جانب سے سخت تشدد کا سامنا کرناپڑے گا اور یہ بھی کہ ایمرجنسی قوانین اپنی طاقت کا اظہار کریں گے۔لیکن یہ سب ڈراوے اور دھمکیاں محض گیدڑ بھبھکیاں ثابت ہوئیں۔
پچھلے ہفتے کیوبک کے حکمران جین چیرسٹ نے ’’بل 78‘‘متعارف کرایاتھا جس کے مطابق طالبعلموں اور محنت کشوں کے احتجاج کرنے کے حق پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔اس نئے قانون کے مطابق کالجوں یونیورسٹیوں کی حدود کے پچاس میٹرز کے اندر احتجاج ممنوع قراردے دیا گیا۔اگر کسی نے بھی کسی کلاس کو ڈسٹرب کرنے کی کوشش کی تو اس پر بھاری جرمانے عائد کئے جائیں گے۔ اس قانون میں ہی پولیس کی اجازت کے بغیر پچاس سے زائد افراد کے اجتماع کرنے کو غیر قانونی قراردے دیا گیا۔اس قانون کا مقصد طالب علموں کو احتجاج سے روکنا تھا۔ایسا ہی ایک قانون اس سے پہلے کینیڈا پوسٹ اور کینیڈا کی ایر لائن کے احتجاج کو روکنے کیلئے بھی مسلط کیا گیا تھا جس کے بعد ہڑتالی مزدوروں کو واپس کام پر جانے پر مجبور کردیا گیاتھااور اس کے ساتھ ہی ان کے احتجاج کے حق کو بھی ختم کردیاگیا۔
بدقسمتی سے کیوبک کے حاکم کیلئے اس قانون کو نافذ کرنا کسی طور آسان ثابت نہیں ہوا۔کئی مہینوں سے احتجاج کرنے والوں نے اس قسم کے قوانین کو ماننے سے انکار کیا ہوا ہے اور وہ مسلسل احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں۔چنانچہ یہ ناگزیر ہوچکاتھا کہ اس نئے قانون کے ساتھ بھی تماشاہو اور اس نے لوگوں کو رک جانے کی بجائے مزید مشتعل اور متحرک ہونے پر مجبور کردیا۔طالبعلموں کی مرکزی یونین CLASSE,نے اس قانون کے سامنے آتے ہی شام کوساڑھے تین بجے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگوں سے سول نافرمانی کی اپیل کرتے ہیں اور یہ بھی اعلان کیا کہ یونین کے ترجمان اس اپیل کے نتیجے میں جیل جانے کیلئے بھی تیار ہیں۔
اگلے روز اس اپیل کے جواب میں لوگوں نے جس جوش وخروش کا مظاہرہ کردکھایاہے ،اس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ اس بل 78نے کس طرح طالبعلموں کے احتجاج کو مزید طاقت اور شکتی فراہم کر دی ہے۔چیرسٹ کی حکومت جو پہلے اس قسم کے قوانین کو جائز ثابت کرنے اور ان پر عملدرآمد میں کامیاب رہی تھی ،لیکن اب کی بار حکومت کے اس قسم کے قانون نے اس کی حقیقی نیت کو سب پر عیاں کرڈالا۔اس قانون نے ہوا کا رخ نہ صرف موڑ دیا بلکہ اسے تیز بھی کردیا۔حالیہ رائے عامہ کے تجزیوں میں حکومت اپنی عوامی ساکھ گنوا چکی ہے۔ انسانوں کا ایک چیختا چنگھاڑتا سمندر اس 22مئی کو سڑکوں پر نکل آیا۔
اب چیرسٹ پر اپنی پارٹی کے اندر سے ہی دباؤبڑھتا جائے گا۔کئی پارٹی لیڈر کہیں گے کہ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے ،قانون ہاتھ میں لینے والوں کو سبق سکھایاجائے ورنہ قانون مذاق بن کے رہ جائے گا۔جبکہ کچھ لیڈرصاحبان یہ قرار بھی دیں گے کہ CLASSE,کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی پاگل پن ہو گی ،ایسا کیا گیا تو یہ اور بھی مضبوطی پکڑتی جائے گی ،اس کے ساتھ ہی لوگوں پر قانون کا غیر جمہوری پن بھی عیاں ہوتا جائے گا۔چنانچہ چیرسٹ ایک مشکل میں پھنس چکاہے کہ آگے جائے یا پیچھے!
یہ وہ موقع اورایسا مرحلہ ہے کہ اب اپنی پیش قدمی کو تیز کیا جائے۔یہ مظاہرہ ایک بہت بڑی کامیابی ثابت ہوا،اور قانون کے ذریعے تحریک کو کاٹنے اور الگ تھلگ کرنے کی کوشش ناکامی سے دوچار ہوگئی ہے۔یہ مناسب وقت ہے کہ آگے کو بڑھا جائے۔دشمن حواس کھونا شروع کرچکاہے۔جبکہ دوست طبقات نے اپنا بھرپور ساتھ ثابت کیا ہے۔اس مظاہرے میں ہزاروں محنت کشوں نے بھرپور جوش وجذبے سے شمولیت کی۔مانٹریا ل ٹرانزٹ یونین کی نمائندگی کرتے ہوئے STMورکرز یونین نے اپنے ہنگامی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ پولیس کیلئے اپنی کوئی بس بھی فراہم نہیں کریں گے جو کہ احتجاج کو روکنے کیلئے بھیجی جائے گی۔یہاں تک کہ قیدیوں کو لیجانے کیلئے بھی بسیں نہیں فراہم کی جائیں گی۔جبکہ نرسز یونین نے بھی اس نئے قانون کو ایک کالا قانون قرار دیتے ہوئے اسے1999ء کے PQحکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے قانون کے مشابہہ قراردیا۔
ٹیچرز یونین پر بھی 2005ء سے پابندی عائد ہے کہ وہ کسی قسم کی ہڑتال نہیں کر سکتے۔کینیڈ اکے موجودہ قوانین ایک دوسرے کے حق میں ہڑتالیں کرنے،سیاسی احتجاج کرنے اور کام کی جگہوں کے سامنے پکٹس قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔اس جدوجہد کو بھی آگے بڑھتے ہوئے سبھی قسم کی ایسی پابندیوں کے خلاف آوازبلند کرنی چاہئے کہ جن سے حقوق مانگنااور ان کیلئے سرگرم ہونابھی ایک جرم قرار دیاجاچکاہے۔اس کیلئے بھی جدوجہد کو تیز کیا جائے۔
پچھلے ہفتے پبلک سیکٹر کی یونین CSN نے بھی اپنی کانگریس میں متفقہ طورپر فیصلہ کیا کہ وہ احتجاج کے اپنے سماجی حق کیلئے لڑے گی۔یونین نے کینیڈین سماج میں موجود اپنے سبھی حمایتیوں اور ساتھیوں سے اپیل کی کہ وہ اس سلسلے میں قدم اٹھائیں اور خاص طورپر طالبعلموں کی تحریک کا بھرپور ساتھ دیں۔یہ نمایاں طور پر ایک بہت اہم فیصلہ ہے ،انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں سبھی یونینوں کو اس تحریک میں شرکت و شمولیت کیلئے اپیل کی جائے۔ خاص طورپر وہ سبھی یونینیں جن پر اس قسم کی غیر جمہوری قانونی پابندیاں مسلط کر دی ہوئی ہیں۔
طالبعلموں کو اس قسم کے مواقع پر غوروتدبرکرتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔انہیں فوری طور پر چاہئے کہ وہ کارخانوں کو جائیں،کام کی جگہوں کو جائیں،وہاں محنت کشوں سے ملیں ،انہیں کہیں کہ وہ عوامی ا سمبلیاں منعقد کریں۔اور ان میں چوبیس گھنٹوں کی عام ہڑتال پر غوروخوض کیا جائے۔طالبعلموں نے محنت کشوں کی آنکھوں اور دلوں میں امیدوں کی شمعیں روشن کر دی ہیں۔اور اب وقت آگیا ہے کہ محنت کش طبقے سے کہا جائے کہ وہ منظم طور پر اس جدوجہد میں شریک ہو جائے۔نوجوان اور محنت کش ،باہم مل کر اس حکومت کا دھڑن تختہ کر سکتے ہیں۔جو ان کے حقوق کو سلب کرنے پر تلی ہوئی ہے۔جینا ہے تو لڑنا ہوگا۔