امریکہ اورآکو پائی تحریک

تحریر: راشد خالد:-

امریکی سامراج جس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد پوری دنیا پر معاشی اور عسکری غلبہ قائم کرنے کا آغاز کیا تھا اور سوویت یونین کے انہدام کے بعدیکتا سامراج کے طور پر اس تسلط کو قائم رکھا ہے، تاریخ کے ایک انتہائی اہم موڑ سے گزر رہا ہے۔ وہی امریکہ جسے’’ بہترین مواقعوں کی سرزمین‘‘ سمجھا جاتا تھا، وہ آج اپنے ہی عوام کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے، جو اس ریاست اور اس نظام کی متروکیت کا منہ بولتا اظہار ہے اوراس کی نمائندگی اور سربراہی امریکی ریاست کر رہی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے کھوکھلے اور ناقابلِ اصلاح ہونے کا عندیہ ہمیں امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات دے رہے ہیں اور انہی واقعات کی وجہ سے آج امریکہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
’’وال سٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ تحریک آج دنیا کی سب سے اہم اور دلچسپ تحریک بن چکی ہے۔ جو اس بات کا کھلا اظہار کر رہی ہے کہ سرمایہ داری وہاں کے عوام کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے اور ان تمام تر مسائل کے حل کے لئے ایک متبادل نظام کی ضرورت ہے۔جہاں اس تحریک نے اس نظام کی متروکیت کو عیاں کیا ہے، وہیں اس نے امریکہ کے حکمران طبقے کی نا اہلی کا پردہ بھی چاک کیا ہے۔جو ایک طرف دنیا پر اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لئے اندھی وحشت کا کھیل تو کھیل رہے ہیں لیکن دوسری طرف معاشی بحران پر قابو پانے کا کوئی بھی حل ان کے پاس نہیں ہے۔
جہاں سرمایہ داری سب سے زیادہ بہترین شکل میں ہوتی ہے، وہاں سرمایہ دارانہ استحصال بھی زبردست ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کے امریکہ میں امارت اور غربت کے درمیان خلیج بہت وسیع ہے اور عوام کی امیروں کے خلاف نفرت بہت شدیدہے۔ ایک طرف جہاں عام لوگ غربت اور بیروزگاری کے عفریت کا سامنا کر رہے ہیں، وہاں امیروں کی دولت اور منافعوں میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ 2007ء سے 2009ء کے دوران سرمایہ داروں کے منافعوں میں720 فیصد اضافہ ہوا ہے،جب کے 1979ء سے لے کر 2007 ء تک یہ 281 فیصد تھا۔بڑے بینکوں اور کمپنیوں کے سی ای اوز اور ڈائریکٹرز ایک عام ورکر کی نسبت 300 فیصد زیادہ تنخواہیں لے رہے ہیں، جو تین دہائیاں پہلے سے40 فیصد زیادہ ہے۔امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 9 فیصد سے زیادہ ہے، جو نوجوانوں میں 25 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے اور دوسری طرف کانگریس میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کا 44 فیصد ارب پتیوں پر مشتمل ہے اور یہ وہ خواتین و حضرات ہیں جو میڈیا پر عوام کو قناعت کا درس دیتے ہیں۔ اسی کیفیت نے نوجوانواں کومیدانِ عمل میں کودنے پر مجبور کیا ہے۔ بینکاروں اور سرمایہ داروں کے لئے اس حکمران طبقے کے پاس پیسہ ہے، لیکن بیروزگاروں کے لئے نہیں، امیروں کے قرضے معاف کئے جا سکتے ہیں لیکن غریبوں کو قرضے واپس نہ کرنے پر گھروں سے بے دخل کیا جاتا ہے اور ان سے ان کی تمام سہولیات چھین لی جاتی ہیں۔
امریکہ میں ہمیں گزشتہ30 سالوں میں محنت کش طبقہ لگاتار اپنے اوپر حملوں کو برداشت کرتا نظر آتا ہے۔اس عرصہ میں بہت کم لڑائیاں اور ان میں بھی بہت کم فتوحات اس کے حصہ میں آئیں۔ 1973ء سے 2007 ء تک نجی شعبے میں یونین سازی کے عمل میں 75 فیصد کمی آئی اور دولت کی غیر مساویانہ تقسیم میں 40 فیصد اضافہ۔ لیکن احتجاج کرنے کا عمل انتہائی حد تک کم ہو چکا تھا۔محنت کش طبقے کو مصالحت کا درس دیا جا رہا تھا کہ ہمیں اپنے آقاؤں کے فیصلوں کو من و عن برداشت کر لینا چاہئے۔ امریکی تاریخ کے مثالی لڑاکا عہد کو پسِ پشت ڈال کر ہمیں سرمایہ داروں کے ساتھ صلح کر لینی چاہئے اور ان کی مرضی کو مان لینا چاہئے کیونکہ انقلابات یا تو وینزویلا میں آتے ہیں یا مصر میں، امریکہ میں ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔
لیکن تاریخ کے اپنے قوانین ہوتے ہیں، جن کے وہ تابع ہوتی ہے۔نوکریوں کے چھن جانے، گھروں سے بے دخل ہو جانے، تعلیم اور علاج کے مہنگا ہو جانے اور فیکٹریوں کے بند ہونے کے بعد امریکی معیشت کی لگاتار گراوٹ اور امریکی عوام کے معیارِ زندگی میں مسلسل تنزلی ناقابلِ برداشت حد تک پہنچ گئی اور ’’بہترین مواقعوں کی سرزمین‘‘ غریب لوگوں کے رہنے کے لئے تلخ تر ہو گئی۔اور لوگ جو اپنے تجربات سے سیکھتے ہیں، وہ یہ سمجھ گئے کہ امریکہ کا موجودہ نظام ان کے لئے زندگی کا ضامن نہیں ہو سکتا۔اور یہی یقین ان کو میدانَ عمل میں لے آیا۔یہی سب اور ایسا بہت کچھ اس تحریک کے پسِ منظر میں بھی تھا جس نے امریکہ کے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ احتجاج کا طریقہ کار اختیار کریں ۔پھر اس تحریک نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب اس وقت مبذول کروائی جب اس نے پوری دنیا کے 99 فیصد سے1فیصد کے خلاف حمایت مانگی اور پھر 99 فیصد نے یہ ثابت کیا کہ آج کی جنگ کوئی قومی، لسانی، علاقائی یا مذہبی نہیں ہے بلکہ ایک طبقاتی لڑائی ہے۔ پوری دنیا سے ملنے والی حمایت نے امریکی عوام میں لڑائی کے لئے ایک نئی روح پھونک دی۔پھر وہ ان شہروں میں بھی پہنچ گئی جہاں اس سے پہلے نہیں تھی۔ اور یہی نہیں کہ صرف پوری دنیا سے امریکی مظاہرین کو حمایت دی گئی ہے بلکہ جب چین میں ہوانگ جیانگ میں جوتے بنانے والی صنعت کے تقریباََ 8000 مزدور ہڑتال پر تھے تو 25 نومبر کو ان مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے ریلیاں نکالی گئیں۔ اور یہی نہیں بلکہ مصر میں تحریک نے جب نئی انگڑائی لی اور قاہرہ میں تحریر اسکوئر سے یکجہتی کی اپیل کی گئی تو ان مظاہرین نے مصر کے عوام کے ساتھ حمایت کرتے ہوئے26 نومبر کو مصری قونصل خانے کا گھیراؤ کر کے ان کے ساتھ یکجہتی کی۔
ابھی تک اس میں ختم ہونے کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں۔ اس کے باوجود کے مظاہرین کو احتجاجی کیمپوں سے زبردستی گھسیٹ کر اٹھایا جاتا ہے۔ اور کچھ دن پہلے پیش آنے والا واقعہ تو انتہائی بہیمانہ تھا جب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے طلبا نے یونیورسٹی کے سامنے پر امن احتجاج کیا اور انہیں وہاں سے اٹھنے پر مجبور کیا گیا مگر ان کے وہاں سے نہ اٹھنے پرپولیس کے لیفٹیننٹ جان پائک نے ان پر امن نوجوان مظاہرین پر مرچوں کا سپرے کر دیا۔ مگر اس طرح کے اقدامات عمل میں موجود افراد کو ڈراتے نہیں بلکہ ان کے عزم کو مزید بلند کرتے ہیں۔مظاہرین کو ان احتجاجی کیمپوں سے زبردستی اٹھانے کے بیشمار واقعات ہیں ، جن کا ذکر کرنا ضروری نہیں ، مگر ان تمام تر واقعات پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں واضح ہو جاتا ہے کے وہ امریکہ، جو دنیا بھر میں اپنے آپ کو آزادی اور مساوات کا علمبردار کہتا تھا اور اس کا چرچا کرنے اور اسے ثابت کرنے کے لئے اس نے کئی ملکوں پر جنگ بھی مسلط کی، اپنے نظام کے خلاف اٹھنے والی کسی تحریک کو کس حد تک آگے بڑھنے کی آزادی دے سکتا ہے۔تمام تر جبر کے باوجود اس تحریک میں تیزی آ رہی ہے، ہمیں پہلے اس میں پارکوں، چوکوں اورسڑکوں پر قبضے دکھائی دیتے ہیں، لیکن یہاں پر بس نہیں ہوتی، بلکہ قبضے آگے بڑھتے ہیں اور پھر یہ سکولوں ، کالجوں ، سرکاری عمارتوں تک پہنچتے ہیں اور پھر اس کے بعد بے گھر افراد، گھروں پر قبضے شروع کر دیتے ہیں۔اس کا آغاز مشرقی نیو یارک میں بروکلین سے ہوتا ہے۔ اور یہ پیغام ہے امریکہ کے حکمرانوں اور سرمایہ دار جواریوں کے لئے کہ ’’ہمارا حق ہے کے ہمارے سر پر چھت ہو اور اس حق کو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔‘‘یہ امریکی بے گھر عوام کا رہنے کے لئے گھر کا مطالبہ ہے، مگر اس کے ساتھ ہی اگر ہم ان مظاہرین کو دیکھیں تو ان مظاہرین کی اکثریت بیروزگار نوجوانوں اور طلباء پر مشتمل ہے۔ان مظاہروں میں حصہ لینے والوں میں 64 فیصد 34 سال سے کم عمر نوجوان ہیں ، جن میں سے21 فیصد گریجویٹس ہیں،35 فیصد کالجز سے تعلیم مکمل کر چکے ہیں،27 فیصد کالجز کے طلباء ہیں اور 7.9 فیصد سکولوں میں زیرِ تعلیم نوجوان ہیں۔ ان نوجوانوں کا مطالبہ سستی تعلیم اور روزگار کا حصول ہے۔

مظاہرین بہت ساری خامیوں کے باوجود اپنی تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی تک ان مظاہروں کی سب سے بڑی کمزوری امریکی پرولتاریہ کا تحریک میں نہ ہونا ہے۔ گو کہ ان کی ہمدردیاں ان مظاہرین کو حاصل ہیں مگر ابھی ٹریڈ یونینز کی مفاد پرست قیادتیں اس تحریک سے خوفزدہ ہیں۔مگر کچھ جگہوں پر محنت کش طبقے نے مظاہرین کا ساتھ اپنے عمل سے دیا ہے،جیسے ایریزونا میں ووٹرز نے امیگریشن کے خلاف بل کو اور اوہائیو میں لاکھوں مزدوروں نے یونین کے خلاف قانون سازی کو مسترد کر دیا ہے۔لیکن کوئی حقیقی بائیں بازو کی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے ان تمام تر ثمرات کو سمیٹا نہیں جا سکا اور نہ ہی ملکی سطح پر اس تمام تر تحریک کو منظم کیا جا سکا ہے۔ محنت کش طبقے کے کھل کر اس تحریک میں حصہ نہ لینے کی بھی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود تقریباََ 80 فیصد عوام اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں اور امیروں کی کارپوریٹ ہوس کے خلاف ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے ایک حالیہ تجزیے کے مطابق تقریباََ 75 فیصد لوگ ملکی خسارے کو کم کرنے کے لئے امیروں پر ٹیکس بڑھانے کے حامی ہیں۔اور سبھی صحت کے شعبے، سوشل سیکیورٹی اور دیگر شعبوں میں کی جانے والی کٹوتیوں کے خلاف ہیں۔ 1930 ء کی دہائی کے بعد پہلی دفعہ عوام کی ایک بڑی اکثریت تقریباََ 66 فیصد اس بات کے حق میں ہے کہ قومی دولت کو منصفانہ بنیادوں پرتقسیم کیا جائے۔یہ تمام تر مطالبات کیا ا س سرمایہ داری میں حل کیے جا سکتے ہیں؟
دوسری طرف امریکہ کے 10 لاکھ ڈالر سالانہ سے زائد آمدنی والے امراء نے ’’پیٹریاٹ ملینیئرز‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے جو اس بات کا مطالبہ کر رہی ہے کے ہم سے کم ٹیکس لیا جا رہا ہے اور ہم رضاکارانہ طور پر اپنے ٹیکس میں اضافے کی اپیل کرتے ہیں جن کا سرخیل ایک ارب پتی وارن بفٹ ہے۔ان کے مطابق 375000 امریکی ایسے ہیں جن کی سالانہ آمدنی 10 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے اور وہ ان تمام تر مخیّر حضرات سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ امریکہ کو تاریخ کے اس بدترین خسارے سے نکالنے کے لئے ان کا ساتھ دیں۔ان کی اس محبِ وطنی کی اور کوئی وجہ نہیں ، سوائے اس کے کہ اگر امریکہ دیوالیہ ہوتا ہے تو ان کے منافعے ڈوب جائیں گے۔اور دوسری طرف وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کے ان کو اپنے منافعوں سے نہیں بلکہ امریکہ سے پیار ہے اور وہ امریکی سالمیت کے لئے اپنے منافعے تک قربان کر سکتے ہیں اور لوگوں کو بھی حب الوطنی کا درس دے رہے ہیں کہ وہ امریکی سالمیت کے خلاف اٹھ نہ کھڑے ہوں بلکہ اس مشکل وقت میں حکمران طبقے کا ساتھ دیں۔ لیکن اگردیکھا جائے تو آج تک امریکہ کے تمام تر خساروں کو کون پورا کرتا آیا ہے؟بڑے بڑے بینکوں اور مالیاتی کمپنیوں کو کس کے پیسے سے بیل آؤٹ کیا گیا تھا؟امریکی ریاست دفاع پر اپنے دیو ہیکل اخراجات کس کے پیسے کے بل بوتے پر کرتی ہے؟ تو ان کا یہ ڈھونگ بہت واضح ہو جاتا ہے۔ محنت کشوں نے تو ہمیشہ امریکہ کی سالمیت کے لئے دانستہ یا نا دانستہ قربانیاں دی ہیں۔ اور جہاں تک امیروں پر ٹیکس لگانے کی بات ہے تو اس کی بات تو ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ دونوں کرتے ہیں مگر ایسا کیا نہیں جائے گا اور نہ ہی ایسا ہونے دیا جائے گا۔
امریکی انتخابات کے بارے میں ابھی کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہو گا، مگر اس تمام تر عمل نے محنت کشوں کی ایک نئی پارٹی کی ضرورت کو ضرور اجاگر کیا ہے اور ’’قبضہ کرو تحریک کی ترتیب کو بھی اگر دیکھا جائے تو اس میں اپنے آپ کو ڈیموکریٹ کہنے والے تقریباََ 27 فیصد، ریپبلیکن کہنے والے صرف 2.4 فیصد ہیں اور باقی کے70 فیصد کسی بھی پارٹی کے ساتھ نہیں ہیں اور نہ ہی ان پارٹیوں کی لیڈر شپ سے اپنے مسائل کے حل کی کوئی امید رکھتے ہیں۔ ابھی تک امریکہ میں محنت کشوں کی کوئی بھی پارٹی وجود نہیں رکھتی، امریکہ میں صرف دو ہی پارٹیاں ہیں اور دونوں دائیں بازو کی۔ ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس ایک لمبے عرصے سے اقتدار کی آپس میں بندر بانٹ کر رہے ہیں اور مزے لوٹ رہے ہیں۔ مگر آنے والے انتخابات ان کے لئے پہلے کی نسبت کچھ زیادہ تلخ ثابت ہوں گے۔اور ان کی انتخابی مہمیں روزگار یا اسی طرح کے دیگر بنیادی مسائل کے ارد گرد گھومیں گی، جن کی فراہمی کی وہ یقین دہانیاں بھی کروائیں گے۔ مگر سوال یہ جنم لیتا ہے کے اگر وہ یہ دے سکتے ہیں تو اس میں اتنی تاخیر کیوں کر رہے ہیں؟ مگر حقیقت یہ ہے کے ان میں سے کوئی بھی اس نظام میں رہتے ہوئے ان میں سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔یہ تحریک امریکہ میں ایک سوشلسٹ انقلاب نہیں کر سکتی، کیونکہ اس کو وہ قیادت میسر نہیں ہے جو اس کو ایک منطقی انجام تک پہنچا سکے، جیسے عرب کے انقلابات میں ایک انقلابی متبادل کا فقدان تھا، لیکن یہ تحریک امریکی سیاست میں بہت سی بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ضرور ثابت ہو گی اور جیسے عرب کی تحریک کو ابھی تک کچلا یا دبایا نہیں جا سکا، ایسے ہی اس تحریک کو بھی کچلنا یا دبانا بھی امریکی حکمران طبقے کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ اور یہ تحریک امریکی محنت کش طبقے کی ایک نئی پارٹی کی بنیاد رکھنے میں ضرور کامیاب ہو سکتی ہے اور اپنے مطالبات میں باقی تمام تر تحریکوں سے زیادہ منفرد اور آگے ہونے کی وجہ سے سوشلسٹ نظریات کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔انہی مارکسی نظریات سے لیس ایک حقیقی مارکسسٹ لینن اسٹ پارٹی ہی امریکہ میں ایک سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔