تحریر: آصف رشید
کارل مارکس نے انقلابات کو تاریخ کے انجن قرار دیتے ہوئے انہیں سماجی ارتقا اور نسل انسان کی نجات کے ناگزیر محرک کے طور پر پیش کیا تھا۔ جب بھی کسی معاشرے میں موجود ذرائع پیداوار اپنے ارتقا اور تغیر کے عمل میں اس حد تک ترقی کر جاتے ہیں کہ مروجہ معاشی، معاشرتی، اقتصادی، سیاسی اور ریاستی ڈھانچے ان کے لئے جکڑ بن جائیں تو ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ سماج میں ایک بحران اور انتشار جنم لیتا ہے۔ جو ایک لاوے کی طرح سلگنے اور ابلنے لگتاہے۔ پھر اس میں ایک معیاری تبدیلی آتی ہے اور یہ پھٹ کر، پرانے سماج کے ڈھانچوں کو توڑ کر نئے ڈھانچوں کو مرتب کرتے ہوئے ایک نئے وقت اور زمانے کا آغاز کرتا ہے۔
انقلابات درحقیقت غیر معمولی واقعات ہوتے ہیں اور مخصوص حالات میں ہی ابھرتے ہیں۔ لیکن مختلف سماجی عناصر اور عوامل کے ارتقاکے مخصوص امتزاج، جو ایک نقطے پر انقلابات کو جنم دیتا ہے، کے وقت کا تعین پہلے سے نہیں کیا جا سکتا۔ انقلابات کے دورانیے کا بھی حتمی تعین ممکن نہیں ہوتا۔ بعض اوقات انقلابات مہینوں یا برسوں پر بھی محیط ہو سکتے ہیں۔ روس میں 1917ء میں برپا ہونے والا انقلاب مختلف اتار چڑھاؤ کیساتھ تقریباً آٹھ ماہ جاری رہا جس کے دو اہم مراحل تھے: فروری میں زارشاہی کا خاتمہ اور پھر نومبر میں بالشویکوں کا اقتدار پر قبضہ۔ عام طور پر حکومتوں کی تبدیلی اور حکمرانوں کے ردو بدل کو ’انقلاب‘ کا نام دے دیا جاتا ہے لیکن حقیقی انقلابات اس سے کہیں بڑے اور دیو ہیکل پیمانے کی تبدیلیوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ جن میں صرف حکمران اور ریاستیں ہی نہیں بلکہ طرز معیشت ہی بدل جاتے ہیں اور تاریخ کے ارتقا کا دھارا مڑ جاتا ہے۔ حتیٰ کہ جغرافیے اور سرحدیں تک بدل جاتی ہیں۔ سماج انتہائی گہرائیوں تک جھنجوڑے جاتے ہیں۔ لیون ٹراٹسکی انقلاب کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے کہ ’’ ایک انقلاب کی سب سے مسلمہ خاصیت تاریخی واقعات میں عوام کی براہ راست مداخلت ہوتی ہے۔ ریاست چاہے بادشاہت کی ہو یا جمہوریت کی، عام حالات میں خود کو قوم سے بلند کر لیتی ہے اور اس کے پیشہ ور ماہرین ہی تاریخ رقم کرتے ہیں، جیسے کہ بادشاہ، وزرا، افسران، پارلیمانی نمائندے، صحافی۔ لیکن ایسے فیصلہ کن حالات میں، جب پرانا نظام عوام کے لئے مزید قابل برداشت نہیں رہتا تو وہ خود کو سیاسی میدان سے باہر رکھنے والی بندشوں کو توڑ ڈالتے ہیں، اپنے روایتی نمائندوں کو راستے سے ہٹا کر ایک طرف پھینک دیتے ہیں اور اپنی مداخلت سے نئے نظام کی ابتدائی بنیادیں رکھتے ہیں۔ یہ اچھا ہے یا برا، ہم اس سوال کو اخلاق پرستوں پر چھوڑتے ہیں… ہمارے لئے ایک انقلاب کی تاریخ سب سے پہلے اپنے مقدر کی حاکمیت کے میدانِ عمل میں عوام کے زوردار داخلے کی تاریخ ہے۔ ‘‘
ٓآج سے 101 سال پہلے روس میں برپا ہونے والا بالشویک انقلاب بھی ایساہی ایک واقعہ تھا۔ 1871ء میں پیرس کمیون کے مختصر قیام کے بعد انسانی سماج کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب بالشویک پارٹی کی قیادت میں محنت کش طبقے نے اس کرہ ارض پر اپنی حکمرانی کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ انقلاب آج بھی انسانیت کی نجات کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ کیونکہ اس میں محنت کش طبقے نے ایک اقلیتی حکمران طبقے سے اقتدار چھین کر اکثریت کی حکمرانی قائم کی تھی۔
انقلاب سے پہلے روس کو ’’ یورپ کا انڈیا ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اگرچہ روسی بادشاہت (زارشاہی) کے اپنے سامراجی مقاصد بھی تھے لیکن بحیثیت مجموعی مغربی یورپ کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک (جرمنی، فرانس، برطانیہ وغیرہ) کے سامنے روس کی حیثیت نیم نوآبادیاتی تھی۔ روسی عوام کی اکثریت شدید غربت، بھوک، جہالت اور جنگ کا شکار تھی۔ کمیونزم مخالف ایک بورژوا تاریخ دان ارلانڈو فجز اپنی کتاب ’’اے پیپلز ٹریجڈی‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’زار کے شہر (سینٹ پیٹرز برگ) میں شرح اموات قسطنطنیہ سمیت یورپ کے تمام دارالحکومتوں سے زیادہ تھیں۔ جہاں ہیضے کی وبا ہر تین سال میں اوسطاً ایک دفعہ پھوٹتی تھی۔‘‘ لیکن بالشویک انقلاب نے جس سوشلسٹ معیشت کو جنم دیا اس کے نتیجے میں سوویت روس چند دہائیوں میں دنیا کی سپر پاور بن گیا۔ 1920ء کی دہائی کے اواخر میں جب روس پہلی عالمی جنگ اور پھر انتہائی خونی خانہ جنگی سے کچھ سنبھلا تو اس کی منصوبہ بند معیشت 20 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی تھی جبکہ سرمایہ دارانہ دنیا میں تاریخ کا سب سے بڑا معاشی بحران آیا ہوا تھا جسے گریٹ ڈپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔ روسی عوام کا معیارِ زندگی تیزی سے بلند ہوا۔ انقلاب کے بعد دس سالوں میں ناخواندگی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ 1968 ء میں ’سائنٹیفک امیرکن‘ نامی بورژوا جریدے نے جاپان اور روس کی اقتصادیات کے 1928-66 ء کے دورانیہ کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا، ’’اس حقیقت کے باوجود کے دوسری عالمی جنگ میں روس کی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے پھر بھی پچھلے 38 سالوں میں اس کی سالانہ اوسط شرح نمو 4.5 فیصد سے 6.7 فیصد رہی جس کی مثال نہیں ملتی۔ ‘‘ صنعت کی ترقی اور بنیادی مصنوعات کی پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ کوئلہ، تیل، بجلی، سٹیل، ٹریکٹرز اور دیگر بھاری صنعتی پیداور میں سوویت روس نے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ سماجی شعبوں میں بھی ترقی بے مثال تھی۔ دنیا کے ایک تہائی ڈاکٹر روس میں تھے۔ دنیا میں سب سے زیادہ سائنس دان، انجینئر اور یونیورسٹی گریجویٹ بھی روس میں تھے۔ انقلاب نے نوجوانوں اور خواتین کو ایک نئی جہت عطا کی تھی۔ تمام تر فرسودہ صنفی امتیازات کا خاتمہ کر کے عورت کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں برابری کے مواقع دیئے گئے۔ بیروزگاری کو جرم قرار دیا گیاتھا اور ہر شہری کو مکمل روزگار اور رہائش فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری تھی۔ علاج اور تعلیم کے کاروبار کا تصور بھی جرم تھا۔
1970 ء تک روس کی صنعتی پیداوار‘ امریکہ کے 75 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ خلائی تحقیق میں روس نے ساری دنیا کو مات کیا۔ لیکن اس زبردست اقتصادی ترقی اور عوام کے معیار زندگی میں بے پناہ اضافے کے باوجود سویت یونین، جس میں روس سمیت پندرہ جمہوریائیں (Republics) شامل تھیں، زوال پذیر ہو کر سرمایہ دارانہ نظام کی بحالی کی طرف گامزن ہو گیا۔ بحیثیت مارکسی ہمارا یہ فریضہ ہے کہ ہم ان مادی وجوہات کا سائنسی تجزیہ کریں جو سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنیں۔
انقلابِ رو س کی زوال پذیری کی سب سے اہم وجہ دیگر ممالک بالخصوص جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں انقلابات کی ناکامی تھی۔ جیساکہ لینن کے ہمراہ انقلاب کے قائد ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ ’’ترقی یافتہ ممالک میں پرولتاریہ کی ’جلد یا بدیر ‘ فتح کے بغیر روس میں مزدوروں کی حکومت قائم نہیں رہے گی۔ سوویت حکومت یا تو ختم ہو جائے گی یا زوال پذیر ہو جائے گی۔ زیادہ درست بات یہ ہو گی کہ پہلے زوال پذیر ہو گی اور پھر ختم ہو جائے گی۔‘‘ (سٹالنزم اور بالشویزم)
پسماندہ روس میں لوگوں کے سماجی اور ثقافتی معیار میں تیز بڑھوتری کے لیے جدید صنعتی ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی ضروری تھی تاکہ ان ملکوں کا مزدور پسماندہ ملکوں کے مزدوروں کو جدید تکنیکی مدد فراہم کر سکے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکنے کی صورت میں روس کو اپنے ذرائع پیداوار اور تکنیک کی ترقی کا عمل بہت پیچھے سے شروع کرنا پڑا۔ ایک پسماندہ ملک میں انقلاب کے مقید ہو جانے کی وجہ سے لینن کی وفات کے بعد سٹالن کی قیادت میں بیوروکریسی کو اقتدار پر براجمان ہونے کے سازگار حالات میسر آئے۔ اس افسر شاہی نے اپنے مفادات کے تحت انقلابِ مسلسل کے نظرئیے سے غداری کی۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں انقلابات کو مرحلہ وار انقلاب اور ’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کی فرسودہ تھیوری کے تحت زائل کر دیا گیا۔ جو کہ مارکسی بین الاقوامیت کے نظرئیے سے کھلی غداری تھی۔ لیکن بیوروکریسی کے اقتدار پر قبضے کے باوجود معیشت کے منصوبہ بند ہونے کی وجہ سے روس نے دیو ہیکل کامیابیاں حاصل کیں۔ ٹراٹسکی کے مطابق معیشت کی ترقی کے لیے بیورو کریسی تاریخی طور پر کوئی ناگزیر پرت نہیں تھی۔ اس کے بر عکس بیورو کریسی کے باوجود بھی معاشی منصوبہ بندی کا م دکھاتی رہی۔ اگرچہ اس صورت میں کئی طرح کے نقصانات اور بندشیں برداشت کرنی پڑیں۔
اس دوران لیون ٹراٹسکی نے نہ صرف انقلاب کی افسر شاہانہ زوال پذیری کے خلاف بھرپور جدوجہد کی بلکہ سوویت یونین سے جلا وطن کر دئیے جانے کے بعد اپنی شہادت تک اس سارے عمل کا انتہائی گہرائی میں تجزیہ بھی جاری رکھا۔ اس نے واضح کیا کہ بیوروکریسی کا جنم سویت یونین میں انتہائی پسماندگی، قلت اور پے درپے دو خونریز جنگوں سے محنت کش طبقے کی تھکاوٹ اور خستہ حالی کے حالات میں ہوا تھا۔ فی الوقت یہ منصوبہ بند معیشت کو چلانے اور بڑھانے کا نسبتاً ترقی پسند کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ اس کی اپنی مراعات اور عیاشیاں اس سے وابستہ ہیں۔ لیکن اگر ایک سیاسی انقلاب کے ذریعے محنت کش طبقہ اقتدار اپنے جمہوری کنٹرول میں نہیں لیتا تو یہی بیوروکریسی، جو اس وقت ایک طبقہ نہیں ہے، بتدریج ایک حکمران طبقے میں تبدیل ہو جائے گی۔ نہ صرف ٹراٹسکی بلکہ لینن اور تمام بالشویک پارٹی سمجھتی تھی کہ انقلابِ روس کی حقیقی نجات صرف عالمی انقلاب میں پنہاں ہے۔ ان کا تناظر یہ تھا کہ جب ایک بار زیادہ ترقی یافتہ ملکوں کا پرولتاریہ سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکے گا تو ایک دوررس ترقی ممکن ہو سکے گی کیونکہ ان ملکوں کی جدید تکنیک پسماندہ روس کو میسر آجائے گی۔ اس کے برعکس سٹالن کے تحت بیوروکریسی نے ’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کا نظریہ پیش کر دیا کہ پسماندہ روس کے اندر بتدریج ترقی کے ذریعے سوشلزم کی تعمیر ممکن ہے۔ اور خود کو اِس ’’سوشلسٹ تعمیر‘‘ کا نجات دہندہ اور رکھوالا بنا کے پیش کیا۔ یہ بیوروکریٹ اجرتوں میں تفاوت کو ویسے نہیں دیکھتے تھے جیسے لینن کہتاتھا کہ یہ ایک عارضی ’’بورژوا مصالحت‘‘ ہے جسے انقلاب کی تنہائی اور ملک کی پسماندگی کی وجہ سے مجبوراً ختیار کرنا پڑا تھا۔ بلکہ بیوروکریسی اپنی مراعات کو اپنا حق تصور کرتی تھی۔ اس کا معیارِ زندگی عام مزدوروں سے کہیں زیادہ بہتر تھا۔ وقت کے ساتھ ان کی سماج سے بیگانگی اور عیاشیاں بڑھتی ہی چلی گئیں۔ اس ساری صورت حال میں سرمایہ داری کی بحالی کا امکان پوشیدہ تھا۔ جس حد تک منصوبہ بند معیشت بیوروکریسی کیلئے طاقت، آمدن، مراعات اور شان وشوکت کی ضمانت تھی اس نے اِس کا دفاع کیا۔ لیکن جیسے ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ بیورو کریسی نے محض ان مراعات سے مطمئن نہیں ہونا تھا جو اسے سماج میں انتظامی حیثیت کی وجہ سے حاصل تھیں بلکہ ان کی یہ خواہش بھی تھی کہ وہ ان مراعات کو اپنی آئندہ نسلوں تک منتقل کر دیں۔ اس چیز کو ممکن بنانے کے لیے ملکیت کے رشتوں کوبدلنا ضروری تھا۔ یعنی کوئی بیوروکریٹ اگر کسی ریاستی فرم کا منیجر تھا تو وہ اس کا مالک بننا چاہتا تھا۔ ’انقلاب سے غداری‘ جیسی اپنی انتہائی پرمغز تصانیف میں ٹراٹسکی نے یہ پیش بینی بھی کی تھی کہ اپنے ارتقاکے ایک خاص مرحلے پر بیوروکریسی معیشت کی ترقی میں ایک نسبتی رکارٹ کی بجائے قطعی یا مطلق رکاوٹ بن جائے گی۔ گروتھ ریٹ ماند پڑ جائے گا اور اس بحران سے سرمایہ داری کی بحالی کا امکان پیدا ہو جائے گا۔
1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں یہی کچھ ہوا۔ پہلے تو سویت یونین کی معاشی نمو کی شرح کم ہوتے ہوتے مغرب کے سرمایہ دارانہ ملکوں کے برابر آگئی اور پھر رک گئی۔ جب یہ لمحہ آن پہنچا تو ٹراٹسکی ہی کے بقول دو امکانات تھے: یا تو سوویت یونین کا محنت کش طبقہ اِس بیوروکریسی کا دھڑن تختہ کر دیتا اور منصوبہ بند معیشت کو اپنے جمہوری کنٹرول میں لے لیتا۔ یا پھر سرمایہ داری کی طرف ردِ انقلابی مراجعت ہونا تھی۔ بالآخر موخذکر صورت نے عملی جامہ پہنا۔
انقلابِ روس ایک بین الاقوامی مظہر تھا جس نے پوری دنیا میں محنت کش طبقے کو جدوجہد کی نئی راہ دکھائی۔ دنیا کہ ہر خطے میں سرمایہ داری انقلابات کی زد میں آ گئی۔ بہت سارے ملکوں میں اصلاحات کے ذریعے سوشلزم کا راستہ روکا گیا۔ بالخصوص یورپ میں مفت تعلیم و علاج، خواتین کو ووٹ کا حق، لیبر قوانین، بیروزگاری الاؤنس اور روزگار کی فراہمی کے لیے معیشت میں ریاست کی مداخلت کا آغاز بالشویک انقلاب کے رد عمل میں ہوا تھا۔ سوشلسٹ معیشت کو مضحکہ خیز اور ناقابل عمل قرار دینے والے معیشت دانوں نے اپنے ملکوں میں سویت یونین کے پانچ سالہ منصوبوں کی نقالی کی۔ 1960 ء کی دہائی میں کم و بیش ہر سرمایہ دارانہ ریاست بشمول پاکستان میں پانچ سالہ معاشی منصوبے مرتب کیے جاتے تھے۔ یوں ترقی یافتہ دنیا کے محنت کشوں کا معیارِ زندگی جہاں انکی اپنی تحریکوں کی حاصلات کی وجہ سے بلند ہو رہا تھاوہاں سویت یونین کی موجودگی نے بھی بالواسطہ طور پر مغرب میں نام نہاد ویلفیئر ریاست کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
برصغیر میں بھی بالشویک انقلاب کے اثرات کے تحت برطانوی سامراج کے خلاف قومی آزادی کی تحریک کو ایک نئی شکتی ملی۔ 1920 ء کی دہائی میں بننے والی کمیونسٹ پارٹی ایک قوت کے طور پر ابھرنا شروع ہوئی۔ لینن نے بر صغیر کی تحریک کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’ مشرق کے عوام کی یہ تحریک اسی صورت میں فعال ہو سکتی ہے کہ اگر یہ سامراج کے خلاف ہماری بین الاقوامی جدو جہد سے براہ راست منسلک ہو جائے۔‘‘ لینن نے 1919 ء میں ہندوستان کی عبوری جلاوطن حکومت کے افغانستان میں مقیم وزیر اعظم محمد برکت اللہ کا استقبال بھی کیا تھا دیگر بہت سے رہنماؤں نے بھی لینن سے ملاقات کی تھی۔ مولانا عبداللہ سندھی جیسے حریت پسند‘ بالشویک انقلاب سے انتہائی متاثر تھے۔ اسی عرصے میں راؤلٹ ایکٹ کے خلاف عوامی بغاوت ابھری تھی۔ 20 مارچ 1920 ء کے ’دی ٹائمز لندن‘ نے یہ سرخی لگائی: ’’ ہندوستان میں انقلاب لانے کا بالشویک منصوبہ۔‘‘ اسی طرح آنے والے سالوں میں بے شمار ہڑتالوں میں کمیونسٹ پارٹی نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن روس میں سٹالن کی قیادت میں بیوروکریسی کی غلط پالیسیوں اور ایک ملک میں سوشلزم کے نظرئیے نے برصغیر کی کمیونسٹ پارٹی کو بھی نظریاتی زوال کا شکار کر دیا اور 1946ء کی جہازیوں کی بغاوت کے وقت سٹالن کی ایما پر تحریک سے دست برداری اور سامراج سے مصالحت کی پالیسی نے بر صغیر کے انقلاب کا گلا گھونٹ دیا۔
جیسے بالشویک انقلاب نے ساری دنیا کو متاثر کیا تھا اسی طرح سوویت یونین کے انہدام نے بھی پوری دنیا میں رد انقلابی قوتوں اور موقع پرستی کی سوچ کو بڑھاوا دیا۔ سٹالنزم کی ناکامی کو سوشلزم کی ناکامی قرار دیا گیا۔ مایوسی اور جبر کی ایک طویل رات نے محنت کش طبقے کے اجتماعی شعور کو جکڑ لیا۔ بہت سے انقلابی‘ سوویت روس کی بیوروکریسی کی اندھی تقلیدکے باعث اس انہدام کی مادی وجوہات کا ادراک نہ کر سکے، سرمایہ داری کے پروپیگنڈے کے آگے سرنگوں ہو گئے اور انقلابی جدوجہد سے منحرف ہو کر سرمایہ داری کے آلہ کار بن گے۔
لیکن آج عالمی سطح پر سرمایہ داری اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے۔ پورے کرہ ارض پر انسانیت غربت، محرومی، جنگوں، خانہ جنگیوں، دہشت گردی، ماحولیاتی تباہی اور ذلت میں غرق ہے۔ یہ نظام اپنی تاریخی متروکیت کے باعث انسانوں کو برباد کر رہا ہے۔ قومی ریاست اور نجی ملکیت آج انسانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔ سرمایہ داری کا یہ نامیاتی بحران آج تجارتی جنگ کی شکل میں اپنا بدترین اظہار کر رہا ہے۔ بورژوا معیشت دان بھی اس بحران میں ایک نئے اور زیادہ گہرے زوال کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں اس نظام کے جبر و استحصال کے خلاف محنت کش طبقے کی نئی صف بندیاں بھی ہو رہی ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں میں اضطراب اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔ آج متبادل کی تلاش اور پیاس موجود ہے۔ پوری دنیا میں سوشلزم اور مارکسزم کی طرف نوجوان نسل راغب ہو رہی ہے۔ حقائق کو جاننے اور متبادل کی تخلیق کی تگ و دو میں انہیں ادراک حاصل کرنا ہو گا کہ سویت یونین میں درحقیقت ہوا کیا تھا۔ وہ حقیقی مارکسزم کے چہرے سے اس داغ کو صاف کر کے اپنے مقدر تبدیل کرنے کے لئے اسے بروئے کار لانے پر مجبور ہوں گے۔ ایسے میں صرف وہی انقلابی قیادت ان کی رہنمائی کا فریضہ ادا کر سکے گی جو پہلے سے غیر متزلزل یقین کے ساتھ اس وقت کی تیاری کر رہی ہو گی۔ آج یہ واضح ہے کہ سوشلسٹ انقلاب سے کم کوئی چیز بھی محکوم اور مجبور عوام کو اس استحصالی نظام سے نجات نہیں دلا سکتی۔