رپورٹ: سنگین باچا
25 جولائی 2018ء کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں 3675 امیدواروں نے قومی اسمبلی کے 270 حلقوں سے الیکشن لڑا۔ الیکشن کی کمپئین شروع ہوتے ہی پانچ سال تک غائب رہنے والے سیاسی نمائندے اچانک نمودار ہوگئے اور ووٹ حاصل کرنے کے لئے گھر گھر دروازے کھٹکھٹانے لگے۔ کروڑوں روپے خرچ کئے گئے، لوگوں سے پھر وہی وعدے کئے گئے، کہیں مال لگایا گیا اور کہیں طاقت کا دباؤ ڈال کر ووٹ بٹور لیا گیا۔ پورے ملک میں کم و بیش یہی کیفیت تھی جہاں پیسے کے اس نظام کی پیسے کی سیاست میں پانی کی طرح پیسہ بہایا جا رہا تھا اور بھاری سرمایہ کاری کر کے کئی گنا منافع کمانے کی وارداتیں کی جا رہی تھیں۔ لیکن ایک الیکشن جنوبی وزیرستان کے حلقہ NA-50 میں بھی ہو رہا تھا جہاں علی وزیر اپنے انقلابی پروگرام، لوگوں کے بنیادی ایشوز اور وسیع عوامی حمایت کی بنیاد پر الیکشن مہم چلا رہا تھا۔ اس کے پاس نہ دوسرے امیدواروں کی طرح پیسے کی ریل پیل تھی نہ سرکاری طاقت کی پشت پناہی۔ لیکن نظریاتی جرات اور محنت کش لوگوں اور نوجوانوں کی حمایت ضرور حاصل تھی جس کے آگے ہر جبر اور دھونس پاش پاش ہو جاتا ہے۔
علی وزیر کون ہے؟
علی وزیرکا تعلق جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر وانا سے ہے۔ 9-11کے بعد دہشت گردی کے نئی لہر جب وزیرستان پہنچی تو علی وزیر قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اس کے خاندان، جو احمد زئی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے، نے دہشت گرد عناصر کو وزیرستان پر مسلط کرنے کی بھرپور مخالفت کی اور جہاں تک ممکن ہو سکا اس عمل کے خلاف مزاحمت کی۔ جس کی پاداش میں دہشت گردی کا کاروبار کرنے والوں نے علی وزیر کے خاندان کو اپنا کھلا دشمن قرار دے دیا ان پر قاتلانہ حملے شروع کر دئیے۔ پہلے علی وزیر کے بھائی اور پھر اس کے والد، چچا اور کزنوں کو یکے بعد دیگرے انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ لیکن نہ تو علی وزیر جھکا نہ اس کے خاندان کے کسی دوسرے شخص نے پیچھے ہٹنے کا نام لیا۔ وزیرستان کے عام لوگ علی وزیر اور اس کے خاندان کی ان قربانیاں اور جدوجہد سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کٹھن حالات میں علی وزیر نے طلبہ سیاست سے مین سٹریم سیاست میں قدم رکھا اور مظلوم طبقات کے حقوق کی آواز بلند کی۔ علاقے میں غریب عوام کے مسائل کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر لڑائی لڑی۔ اسی جدوجہد کی پاداش میں اسے کئی بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جانا پڑا، بدترین سرکاری جبر کا سامنا بھی کرنا پڑا، بنیاد پرستوں نے بھی ظلم ڈھائے اور اس کے خاندانی کاروبار کو بھی برباد کر نے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔ جہاں بھی کسی مظلوم نے آہ و پکار کی، علی اس کی مدد کو پہنچا۔ 2008ء میں علی وزیر نے انقلابی منشور کے ساتھ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا جس میں جبر اور دھونس کے ذریعے اسے ہروا دیا گیا۔ 2013ء میں ایک بار پھر علی وزیر کی جیت کا اعلان ہو جانے کے باوجود اسے بعد ازاں 200 ووٹوں سے ہروا دیا گیا۔ لیکن علی وزیر اور اس کے ساتھیوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور پارلیمانی و غیر پارلیمانی میدانوں میں جدوجہد جاری رکھی۔ اس وقت تک علی وزیر کا نام نہ صرف وزیرستان بلکہ ملک کے بیشتر حصوں میں بطور عوامی رہنما جانا جانے لگا تھا۔ 2018ء میں جب پشتون تحفظ موومنٹ کا ابھا ر ہوا تو اس تحریک کو سب سے زیادہ حمایت وزیرستان سے حاصل ہوئی۔ علی وزیر نے اس موومنٹ کو مضبوط کرنے اور پھیلانے کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ پشاور، لاہور، سوات اور کراچی وغیرہ میں ہونے والے پی ٹی ایم کے بڑے جلسوں کے انعقاد میں علی وزیر نے اہم کردار ادا کیا۔ آج علی وزیر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اور وہ نہ صرف پی ٹی ایم کے روح رواں شمار ہوتے ہیں بلکہ پورے ملک کے غریبوں اور مظلوموں کی حمایت اور محبت بھی حاصل کر چکے ہیں۔
الیکشن 2018ء
جبر اور استحصال کی سرکاری و غیرسرکاری قوتوں کے خلاف جدوجہدکی پاداش میں علی وزیر کا کاروبار مکمل طور تباہ کر دیا گیا تھا اورالیکشن لڑنے کے لئے ان کے پاس ذاتی طور کوئی خرچہ نہیں تھا۔ لیکن وزیرستان کے عوام بالخصوص نوجوانوں کے بھرپور اصرار پر انہوں نے الیکشن میں جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ انقلابی جذبے اور عوامی مطالبات کے ساتھ ایک بار پھر انتخابات کے میدان میں اترا۔ دودفعہ علی وزیر کو دھونس اور دھاندلی کے ذریعے ہروانے والوں نے 2 جون کو وانا میں ان پر قاتلانہ حملہ کروایا جس میں 6 لوگ شہید اور 40 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ علی وزیر کے دفاع کے لئے سڑکوں پر نکل آئے جس کے بعد حملہ آوروں کو پسپا ہونا پڑا۔ دشمن کو شاید یہ خبر نہیں تھی کہ اس بار یہ غریب اور مظلوم لوگ مظالم کی بھٹی سے گزر کر فولاد بن چکے تھے اور ان کو دبانا اتنا آسان نہیں تھا۔ علی وزیر نے اس حملے کے بعد بھی الیکشن لڑنے کا فیصلہ برقرار رکھا اور جنوبی وزیرستان میں ایک انقلابی فضا پیدا ہو گئی۔ نوجوانوں سے لے کر بزرگو ں تک ہر فر د نے الیکشن کی تیاری شروع کر دی۔ شدید دھمکیوں کے باوجو د لوگوں نے اپنے گھروں، گاڑیوں اور دکانوں پر علی وزیر کا جھنڈا بلند کیا۔ وزیرستان میں داخل ہوتے ہی سفیداور سبز رنگ کا یہ جھنڈا ہر جگہ نظر آتا۔ ذاتی اور پبلک ٹرانسپورٹ میں علی وزیر کے اعزاز میں گائے گئے انقلابی ترانوں کا خوشگوار شور سنائی دیتا۔ بلند پہاڑو ں اور دیواروں پر علی وزیر کا نام انقلابی نعروں کے ساتھ درج تھا۔
میڈیا کا وزیرستان بمقابلہ حقیقی وزیرستان
میڈیا پر ملک کے دوسرے حصوں کے لوگوں کو جو وزیرستان دکھایا جاتاہے، اس میں اور حقیقی وزیرستان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس نظام کے دانشور اور نام نہاد تجزیہ نگار یہ تاثر دیتے ہیں کہ وزیرستان کے لوگ وحشی اور جاہل ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ اگرچہ وزیرستان کے عوام کو تعلیم سے دور رکھا گیا ہے اور جدید سہولتوں سے بھی محروم رکھا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا سیاسی شعور بڑے شہروں کی نامور یونیورسٹیوں میں پڑھنے اور پڑھانے والوں سے کہیں بلند ہے۔ کسی بھی نوجوان کے ساتھ اگر بیٹھا جائے تو وہ انتہائی سنجیدہ سیاسی بحث کا آغاز کرتا ہے۔ نوجوانوں میں کیرئیرازم کی غلاظت کا نام و نشان نہیں ہے۔ وزیرستان میں بزرگوں کی بہت قدر کی جاتی ہے۔ بزرگوں کے سروں پر شملہ ہوتا ہے جو عزت کا نشان ہوتا ہے۔ ہر محفل میں سب سے پہلے ان کا خیال رکھا جاتا ہے جس کے وجہ سے کوئی بھی شخص بڑھاپے میں جانے سے گھبراتا نہیں کیونکہ ان کی قدر اور کردار بڑھ جاتا ہے۔ بزرگوں کے بعد سب سے زیادہ قدر مہمانوں کو دی جاتی ہے۔ کسی بھی گھر میں آئے مہمان کو آس پاس کے تمام گھروں کا مہمان تصور کیا جاتا ہے۔ کسی بھی گھر میں غم اور خوشی پورے گاؤں کا غم اور خوشی تصور ہوتی ہے۔ ایسے موقعوں پر پورا گاؤں ایک گھر بن جاتا ہے۔ علاوہ ازیں عام لوگ بنیاد پرستی اور بنیاد پرستوں سے نفرت کرتے ہیں اور مذہبی جنونیوں کی عوام میں کوئی بنیادیں موجود نہیں ہیں۔
الیکشن کے لئے عوامی چندہ
علی وزیر کی الیکشن کمپئین کئی حوالوں سے انتہائی دلچسپ تھی۔ الیکشن لڑنے کے وسائل علی کے پاس ذاتی طور پر موجود نہیں تھے۔ حلقے میں مختلف جگہوں پر مقامی لوگوں نے خود رو طریقے سے 17 بڑے الیکشن دفتر قائم کئے جن میں ہر ایک دفتر اپنے طور پر چندہ اکٹھا کرتا تھا اور خرچہ اٹھاتا تھا۔ کچھ دفتروں کے سامنے ہر وقت اتن کا رقص ہوتا تھا جس کے آخر میں لوگ چندہ دیتے تھے۔ اس کے علاوہ انفرادی طور پر لوگ چندہ دینے کے لئے دور دراز علاقوں سے آتے تھے۔ بہت سارے لوگوں نے اپنی گاڑیوں اور خود کو الیکشن مہم کے لئے وقف کیا۔ ریلیوں کا صرف اعلان ہوتا تھا باقی سب لوگ اپنی جیبوں سے خرچہ کر کے اور اپنی گاڑیاں لا کر شرکت کرتے تھے۔ پوسڑز اور سٹیکرز بھی لوگ خود سے چھپواتے تھے۔ اس کے علاوہ علی وزیر ان انتخابات میں وہ واحد امیدوار تھا جس کی الیکشن مہم پورے ملک میں انقلابیوں نے چلائی۔ ملک بھر سے اس مہم کے لئے چندہ بھی جمع کیا گیا اور علی کے انتخابی پروگرام اور نعروں پر مبنی لیف لیٹ بھی بڑی مقدار میں چھپوا کر نہ صرف وزیرستان بلکہ دوسرے شہروں میں تقسیم کئے گئے۔
جلسے اور ریلیاں
عام طور پر امیدوار لوگوں کے پاس جا کر ان سے ووٹ مانگتے ہیں۔ لیکن علی وزیر کی زندگی کو چونکہ شدید خطرات لاحق تھے لہٰذا علاقے کے لوگوں نے انہیں شام کے بعد گھر سے نکلنے سے منع کر دیا۔ چنانچہ ہر شام تین سے چار قافلے جلوس کے شکل میں باری باری علی وزیر کے گھر آتے تھے جن میں سے ہر ایک میں اوسطاً ایک ہزار کے لگ بھگ لوگ ہوتے تھے۔ یاد رہے کہ NA-50 حلقہ بہت وسیع علاقے پر پھیلا ہوا ہے جس میں 300 کلومیٹر دور سے بھی قافلے آتے تھے۔ اس طرح شام کے بعد علی وزیر کے گھر میں جلسے ہوتے تھے اور لوگ وہاں پر اپنی سپورٹ کا اعلان کرتے تھے۔ ساتھ میں لوگ دنبے، چاول، چینی اور دیگر کھانے کی اشیا لاتے تھے جن کو علی وزیر کے گھر پر موجود مہمانو ں کے کھانے پینے کے خرچے میں شامل کیا جاتا تھا۔ ہر رات علی کے گھر پر جشن کا سماں ہوتا تھا۔ گھر کے پروگراموں کے علاوہ دھمکیوں کے باوجود علی وزیر کے لئے ہر گاؤں میں جلسے کا اہتمام کیا ہوتا تھا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے تھے۔ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے جلسے کا اعلان یا تو ایک دن پہلے ہوتا یا اسی دن صبح ہوتا تھا۔ چونکہ وہاں کو ئی موبائل نیٹ ورک کام نہیں کرتا اس لئے جلسوں جلوسوں کی خبر دینے کے لئے ایک ایک گھر جانا ہوتا تھا۔ لیکن جیسے ہی کوئی جلسے کا اعلان ہوتا تو ہر بندہ اپنے طور پر وہ پیغام پھیلاتا اورجنگل کی آگ کی طرح لوگ جلسے سے باخبر ہو جاتے اور بڑی تعداد میں شرکت کرتے۔ سب سے بڑا جلسہ وانا میں کیا گیا تھا جس میں خود کش دھماکے کے خطرے کے باوجود 50000 سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی تھی۔ اسی طرح پچاس سے اوپر چھوٹے جلسے ہوئے۔ ہر جلسے سے پہلے عوام آس پاس کے علاقے کی سکیورٹی اپنے ہاتھوں میں لے لیتے تھے اور ایک بڑی تعد اد میں سکیورٹی ٹیم جلسہ گاہ کا گھیراؤ کرتی تھی۔ آس پاس کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی سکیورٹی کرنے والے نوجوان موجود ہوتے تھے۔
پولنگ کا دن اور فتح
پولنگ کے دن لوگ عملے کے پہنچنے سے پہلے ہی پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچے ہوئے تھے۔ لوگ اسے صرف الیکشن نہیں بلکہ دہائیوں کے ظلم اور جبر کے خلاف جنگ سمجھ رہے تھے۔ لوگوں کی ٹولیاں الیکشن کے دن علی کو ووٹ ڈالنے ایسے آ رہی تھیں جیسے انقلابی سرکشی کا سماں ہو۔ مخالفین کی طرف سے یہ کوشش تھی کہ بدنظمی پیدا کر کے ووٹ ڈالنے کے عمل کو آہستہ کیا جائے مگر لوگ اس چال سے با خبر تھے اور انہوں نے خودرو طریقے سے خود کومنظم کر کے ووٹ ڈالے۔ ووٹ ڈالنے کے بعد کوئی بھی گھر نہیں جا رہا تھا اور آخری وقت تک لوگ پولنگ سٹیشنوں پر موجود رہے۔ اس الیکشن میں وزیرستان میں پہلی بار خواتین نے کھل کر ووٹ ڈالا اورسو فیصد پولنگ ایجنٹ بھی موجود رہے۔ عوام کے شدید دباؤ کی وجہ سے دشمن کی ہر چال ناکام ہوگئی اور علی وزیر نے ایک تاریخی جیت حاصل کی۔ سرکاری نتائج کے مطابق علی وزیر نے 23530 ووٹ حاصل کئے جبکہ پندرہ ہزار سے زائد ووٹوں کی لیڈ سے فتحیاب ہوا۔ لیکن جن انقلابی نظریات کی بنیاد پر علی وزیر فتحیاب ہوا ہے وہ صرف وزیرستان کے لوگوں کی نہیں بلکہ پورے ملک اور خطے کے مظلوموں اور محکوموں کی فتح ہے۔ اس سارے الیکشن سے ایک سبق سیکھا جا سکتا ہے کہ جب عام لوگ طبقاتی بنیادوں پر متحد ہوجائیں اور اپنے حق کے لئے میدان میں اتریں تو پھر دنیاکی کوئی طاقت ان کو اپنی منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔