ابھی گرانئ شب میں کمی نہیں آئی…

تحریر: راہول

ہر سال کی طرح اس سال بھی برصغیر کے خونی بٹوارے کی اکہترویں سالگرہ سرکاری سطح پر ہندوستان و پاکستان میں بڑے جوش و خروش سے منانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ دونوں اطراف پر تعیش تقاریب منعقد کی جائیں گی اور دونوں اطراف ہی ’’آزادی‘‘ کا جشن منایا جائے گا۔ درحقیقت ہر سال کی طرح اس سال پھر ایک بار بھوک، افلاس، مہنگائی، بے روزگاری، بیماری، ناخواندگی اور ذلتوں کے شکار کروڑوں لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جائے گا اور ان کے جذبات کو مجروح کیا جائے گا۔
آج اکہتر سال گزرنے کے باوجود بھی سرحد کے دونوں اطراف کروڑوں لوگ محض اس سوال کے جواب کے متلاشی ہیں کہ 1947ء میں وہ کونسی آزادی تھی جو یہاں لوگوں کو نصیب ہوئی اور آخر یہ کس چیز کا جشن ہے جو یہاں غربت میں دھنسی عوام پر ہر سال تھونپنے کی کو شش کی جاتی ہے۔ اس سوال کا جواب نہ تو یہاں پڑھائی جانے والی کسی نصابی کتاب میں درج ہے نہ ہی یہ کارپوریٹ میڈیا اپنی ٹائم لائن کے چند سیکنڈز بھی اسے دینا ضروری سمجھتا ہے۔ دوسری جانب درمیانے طبقات کے جعلی جوش و خروش کو ہی پاک و ہند کا کارپوریٹ میڈیا اپنی توجہ کا مرکز بنا کر عمومی سماجی کیفیت اور جذبے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں سے انگریز آقاؤں کی روانگی کے بعد اس استحصالی نظام کو جاری رکھنے کے لئے اس خطے کے عوام پر ایک خاص قسم کی سماجی نفسیات کو مسلط کرنا مقامی حکمران طبقات کے لئے ضروری بنتا چلا گیا۔ نہ صرف برصغیر میں بلکہ دنیا بھر میں حکمران اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے درکار نظریات اور نفسیات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ اسی مقصد کے لئے من چاہے تعلیمی نصاب اور تاریخیں مرتب کی جاتی ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان میں بھی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مسخ شدہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس کے ذریعے آزادی کا مقصد بیرونی حکمرانوں کی مقامی حکمرانوں سے تبدیلی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ دوسرے سماجی علوم میں بھی حسب ضرورت حقائق کو توڑ مروڑ کے قومی شاونزم اورمذہبی منافرتوں کے جذبات پروان چڑھائے جاتے ہیں اور استحصالی نظام کو ’’فطری‘‘ بنا کر اسے تسلیم کرنے کا درس دیا جاتا ہے تاکہ اس نصاب سے متاثرہ ہر نئی نسل تاریخی حقائق کو ماننے سے انکار کردے۔
درحقیقت یہاں کوئی اُس خونی بٹوارے کے جرم پر بات کرنے کو تیار ہی نہیں جسے برطانوی سامراجیوں نے مقامی حکمران ٹولوں کے ساتھ مل کرسرزد کیا۔ جس کے نتیجے میں ستائیس لاکھ لوگوں کو مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ لاکھوں عورتوں کو اپنی عصمتیں لٹانی پڑیں اور دو کروڑ سے زائد افراد کو اپنے آبائی گھروں اور علاقوں سے جبر ی ہجرت کرنی پڑی۔ جوکہ جدید انسانی تاریخ کی سب سے بڑی انسانی ہجرت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ تاریخ کی سب سے خونی ہجرت بھی تھی۔ دراصل یہ برصغیر پر دو سو سالہ برطانوی راج کا ہلاکت خیز انجام و اختتام تھا۔ جس پالیسی کے تحت اس راج نے اپنی ابتدا کی تھی اسی پالیسی پر ہی اس نے اپنا خاتمہ بھی کیا: تقسیم کرو اور حکمرانی کرو۔
اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہاں انگریز سامراج کے قابض ہونے سے قبل ایک پرامن معاشرہ آباد تھا۔ یہاں کی تاریخ میں کہیں بھی ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا جب یہاں کے لوگ کسی اور خطے پر حملہ آور ہوئے ہوں۔ زرخیز زمین اور دریاؤں کی بدولت یہاں دولت کی خاصی فراوانی تھی جس کی وجہ سے بیرونی حملہ آور یہاں وارد ہوتے رہے۔ یہاں مذہب کے نام پر عوام کے درمیان نفرتوں کے بیج دراصل انگریز سامراج نے ہی بوئے تھے۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے اواخر میں انگریز سامراج کی اپنی حالت پتلی ہو چکی تھی۔ علاوہ ازیں پورے خطے میں محنت کش عوام کا غم و غصہ پھٹ کے ایک انقلاب میں بدل رہا تھا جس کی وجہ سے انگریزوں کے لئے اپنا تسلط قائم رکھنا مزید ممکن نہیں رہا تھا۔ یوں تو اس سامراجی جبر کے خلاف 1857ء ہی سے تحریکیں اٹھتی رہیں لیکن جس انقلابی سرکشی کو یہاں بے دردی سے تاریخ کے پنوں سے حذف کر دیاگیا وہ 1946ء میں رائل انڈین نیوی کے جہازیوں کی بغاوت تھی جو ایک ملک گیر انقلابی تحریک میں بدل گئی۔
18 فروری 1946ء کو بمبئی، کراچی، مدراس اور دوسرے شہروں میں رائل انڈین نیوی کے جہازیوں نے بغاوت کر دی جو پولیس، فضائیہ اور بری افواج میں سرائیت کر گئی۔ اس بغاوت کو منظم کرنے والی انقلابی کمیٹی کے صدرسگنل مین ایس این خان اور نائب صدر پیٹی آفیسرمدن سنگھ منتخب ہوئے۔ مذہبی فرقہ واریت کو چیرتے ہوئے انہوں نے برطانوی بحری بیڑے کے جہازوں پر سرخ پرچم سربلند کر دئیے۔ اس بغاوت سے شکتی حاصل کرتے ہوئے ریلوے اور ٹیکسٹائل سمیت دیگر کلیدی شعبوں کے صنعتی مزدوروں نے عام ہڑتال کر دی۔ سامراجی بوکھلا گئے۔ ہندوستان میں برطانوی افواج کے سپہ سالار جنرل کلاڈ آکنک نے برطانوی وزیر اعظم ہاؤس (وائٹ ہال) کو ایک سنگین تار بھیجا: ’’اگر تین دن میں ان کو آزادی نہ دی گئی تو یہ اسے چھین لیں گے۔ ‘‘ لیکن یہ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے کہ جہازیوں کی اس بغاوت کو کچلنے اور برصغیر کے اس خونی بٹورے کی راہ ہموار کرنے میں ہندو اور مسلمان سیاسی اشرافیہ نے انگریزوں سے بھرپور معاونت کی۔ برٹش انڈین نیوی کے سربراہ ایڈمرل گوڈ فرے نے باغی جہازیوں کو حکم دیا کہ یاتو وہ ہتھیار ڈال دیں یا پھر مرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ انڈین نیشنل کانگریس کے معروف لیڈر ولابھ بھائی پٹیل (المعروف سردار پٹیل، جو بعد ازاں انڈیا کا پہلا ڈپٹی وزیر اعظم بھی بنا) نے کھل کرجہازیوں کی مذمت کرتے ہوئے برطانیہ کی حمایت کا اعلان کردیا۔ کم و بیش ایسا ہی کھلا یا منافقانہ رویہ تمام ہندوستانی سیاسی اشرافیہ کا تھا۔ اس سے ان کا طبقاتی کردار عیاں ہوتا ہے اور برصغیر کی تقسیم کے ضمن میں ان کا برطانوی سامراج کے ساتھ میل ملاپ اور گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ کانگریس کے رہنما مولانا عبدالکلام آزاد نے اپنی کتاب ’’India Wins Freedom‘‘ میں بعد کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا، ’’یہ ہندوستان کی تاریخ کے بدقسمت ترین المیوں میں سے ایک المیہ ہے اور میں انتہائی کرب اور دکھ کے ساتھ یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ اس (تقسیم) کی سب سے زیادہ ذمہ داری نہرو پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس کے المناک بیانات نے سبھی گم گشتہ کمیونل اور سیاسی مسائل کو ازسر نو سامنے لاکھڑا کردیا۔ مسٹر جناح نے نہرو کی غلطی سے فائدہ اٹھایا اور کابینہ مشن پلان کی منظوری سے دستبردار ہوگیا جسے پہلے مسلم لیگ کی طرف سے تسلیم کیا جاچکا تھا۔‘‘
کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے برصغیر کی پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کو برطانوی سامراج کا جرم قرار دیا تھا۔ اپنی ایک تحریر میں وہ لکھتے ہیں، ’’برطانوی سامراج برصغیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا تھا لیکن 1946-47ء میں برصغیر میں پھوٹنے والی انقلابی صورتحال نے برطانوی سامراج کی نیندیں حرام کردیں اور ان کو یہ احساس ہوگیا کہ معاملات ان کی گرفت سے نکلتے جارہے ہیں۔ برطانوی راج کی فوج زیادہ تر ہندوستانیوں پر مشتمل تھی جس پر وہ بھروسہ اور تکیہ نہیں کرسکتے تھے۔‘‘ ایسے میں برصغیر کو تقسیم کئے بغیر چھوڑ دینا سامراجیوں کے لئے انتہائی خطرناک تھا۔ قوی امکانات تھے کہ آزادی کی تحریک صرف برصغیر کی برطانوی سامراج سے آزادی تک محدود نہ رہتی بلکہ سارے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی طرف بڑھ جاتی۔ چنانچہ نہ صرف برطانوی سامراج بلکہ اس کے پیوندہ کردہ مقامی حکمران طبقات اور ان کے سیاسی نمائندوں کے لئے لازم تھا کہ نہ صرف آزادی کی تحریک کو مذہبی منافرت میں زائل کیا جائے بلکہ پورے خطے پر تقسیم کا ایسا زخم لگایا جائے جس میں سے ہمیشہ لہو رستا رہے۔ یہاں ماسکو کی سٹالنسٹ افسر شاہی کے اشاروں پر چلنے والی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کا کردار بھی انتہائی مجرمانہ ہے جس نے پہلے دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دے کر اپنی ساکھ مجروح کی اور بعد ازاں تقسیم کو بھی قبول کیا۔ اگر ایک حقیقی مارکسی قیادت کی موجودگی میں یہ آزادی کی تحریک آگے بڑھتی تو آج تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔ ایک وقت تھا کہ کمیونسٹ پارٹی یہ کردار ادا کر سکتی تھی لیکن پھر اپنے نظریاتی دیوالیہ پن کی وجہ سے تحریک کی قیادت کرنے کے قابل نہ رہی۔
برصغیر کے اس المناک بٹوارے کو آج اکہتر برس گزر چکے ہیں۔ تاہم سب سے اہم سوال آج بھی یہی ہے کہ کیا اس خطے کے عوام کو کوئی حقیقی سماجی، معاشی، سیاسی آزادی حاصل ہوئی ہے۔ سرحد کے دونوں طرف آباد ڈیڑھ ارب عوام کی زندگیاں بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ہندستان دنیا کی 22 فیصد آبادی کا مسکن ہے اور دنیا کی 44 فیصد غربت یہاں پلتی ہے جو کہ افریقہ کے غریب ممالک سے بھی بد تر ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت اور معاشی ترقی کا دعویدار ہندوستان آج بھی پسماندہ ترین روایات اور سماجی مسائل کے گھیرے میں ہے۔ پانی ، بجلی ، صحت اور روزگار تو درکنار ’’شوچالے‘‘ (ٹوائلٹ) جیسی بنیادی سہولت بھی آج بھارت میں سب سے اہم مسئلہ گردانا جاتا ہے جس سے آدھی آبادی محروم ہے۔ ریپ کے واقعات اور کسانوں کی خودکشیاں آج ہندوستان میں معمول بنتی جارہی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں آج یہ اکہتر واں ’’جشن آزادی‘‘ ایک ایسے وقت میں منایا جارہا ہے جب ملکی تاریخ کے شاید سب سے متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف اپنی حکومت بنا رہی ہے اور حکومت بنانے سے بھی پہلے واضح کر چکی ہے کہ عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔ علاوہ ازیں آئی ایم ایف کی ایما پر دو سو قومی اداروں کی نجکاری کر کے لاکھوں لوگوں کو بیروزگار کرنے کا منصوبہ پہلے سے تیار ہے۔ دیکھا جائے تو ’’تبدیلی‘‘ اور ’’نیا پاکستان‘‘ جیسے نعرے ہی یہاں کے حکمران طبقات کی تاریخی نا اہلی کو عیاں کرتے ہیں۔ گویا پہلے کوئی کسر رہ گئی تھی جو اکہتر سال بعد ایک بار پھر ’’نیا پاکستان‘‘ درکار ہے۔ یہاں خواتین کی نصف تعداد خون کی شدید قلت کا شکار ہے۔ اتنے ہی بچے نامکمل ذہنی و جسمانی نشونما کا شکار ہیں اور 60 فیصد آبادی غذائی عدم استحکام سے دو چار ہے۔ پچھلی سات دہائیوں میں یہاں کئی قسم کے طرز ہائے حکمرانی کو اپنایا گیا لیکن ہر دور میں جو ایک چیز مشترک تھی وہ محنت کش طبقات کا بدترین استحصال تھا۔ طبقاتی استحصال کے ساتھ ساتھ قومی جبر و استحصال بھی پوری شدت سے جاری رہا ہے۔ مقتدر حلقوں کی کھلی پشت پناہی سے کھوکھلا اقتدار حاصل کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت بھی یہاں جو معاشی حملے عوام پر کرنے جا رہی ہے اس کی مکروہ حقیقت جلد ہی کھل کر سامنے آ جائے گی۔
درحقیقت اس خطے کے حکمران طبقات یہاں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر جدید، یکجا اور صحت مند ریاستوں کی تعمیر میں یکسر ناکام رہے ہیں۔ یہ سماج اس گلے سڑے نظام کے تعفن سے بدبودار ہو چکے ہیں۔ سرمائے کے نظام میں کسی حقیقی آزادی کا حصول کبھی ممکن ہی نہیں تھا۔ آج بٹوارے کی سات دہائیوں بعد تاریخ کا کوئی ناقابلِ تردید سبق ہے تو وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ان سماجوں کو آگے بڑھانے کی سکت نہیں ہے۔ الٹا آج یہ ممالک بربریت کی طرف سرکتے چلے جا رہے ہیں۔ صرف انقلابی سوشلزم ہی بٹوارے کے ان زخموں کو بھر سکتا ہے اور برصغیر کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھ سکتا ہے جو پوری دنیا کو جبر، استحصال، بھوک اور محرومی سے نجات کا راستہ دکھائے گی۔