ووٹر کی عزت

تحریر: لال خان

پاکستان میں اس وقت جو انتخابی سرکس چل رہا ہے اس میں عوام کی گرمجوشی اور کشش کا فقدان ایک اکتاہٹ کو جنم دے رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس الیکشن مہم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ ٹھنڈی اور کافی حد تک جذبوں اور امیدوں سے عاری ہے۔ تحریک انصاف کی جتنی ’ہائپ‘ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے جلسے اتنے ہی خالی ہیں۔اگر غور کریں تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ مالیاتی سرمائے کی پجاری حکمران اشرافیہ اب پوری طرح پیسے اور دھونس کے زور پر مہم چلا رہی ہے۔ عوام کی امنگوں اور سسکتی ہوئی آرزوؤں کے لئے امید کی کوئی کرن بھی نہیں ہے۔ عام طور پر طبقاتی معاشروں میں انتخابات حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کی دولت اور طاقت کے حصول کی ہوس کا ٹکراؤ ہوتے ہیں۔ لیکن کہیں نہ کہیں عوام کو امید کاسراب تو محسوس ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ایسا بھی نہیں ہے۔ حکمران طبقات اور اُن کے اداروں کی باہمی لڑائی اتنی شدت اختیار کرگئی ہے کہ اب وہ ہر قسم کے حربے سے یہ الیکشن جیتنے کے درپے ہیں۔ مقتدر قوتیں اِن انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت کو انتہائی نحیف اور مطیع بنا دینا چاہتی ہیں۔ پچھلے ستر سال سے طاقتور اداروں اور ان میں موجود فیصلہ کن حلقوں کا جو کنٹرول چل رہا ہے وہ اس میں کوئی ہلکی سی رخنہ اندازی بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہر طرف ’’انجینئرنگ ‘‘ کا شور ہے۔ بین الاقوامی سطح پر مختلف طاقتور میڈیا گروپس بھی’’ پری پول رِگنگ‘‘ کا الزام جس کھلے اور بے دھڑک انداز سے لگا رہے ہیں ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ایک کے سوا تقریباً تمام بڑی پارٹیاں بھی یہی شور مچا رہی ہیں ۔ لیکن نواز لیگ کے اعتراضات سب سے زیادہ اور بلند ہیں۔ نیب کے ذریعے اسکے بہت سے امیدوار عتاب کا شکار ہیں لیکن اسکے باوجود شہباز شریف یہ دعوے کرتے جارہے ہیں کہ وہ انتخابات جیتیں گے۔ یہ ایک کھلا تضاد ہے۔ اگر اتنی بڑی تاریخی دھاندلی کے اتنے الزام لگا رہے ہیں تو پھر نواز لیگ کے ووٹ کہاں سے نکلیں گے اور وہ بھلا انتخابات کیسے جیتے گی۔ جس غیر معمولی جنونی حد تک نیب اور عدلیہ دن رات انکے امیدواروں کی پکڑ دھکڑ او ر پیشیاں کروا رہے ہیں اس کے پیش نظر صر ف زبانی کلامی احتجاج کا بھلا کیا فائدہ۔ جس الیکشن میں آپ کو پتا ہے کہ ہر صورت آپ کو ہروا دیاجائے گا اس میں جانے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر انتخابات سے پہلے دھاندلی کے الزامات اتنی شدت سے لگا ئے جا رہے ہیں تو بعد میں کیا ہو گا۔ لیکن مسلم لیگ کونسی کوئی عوامی پارٹی ہے۔ کم از کم شہباز شریف تو اب بھی کسی ڈیل کے چکر میں ہیں ۔ چوہدری نثار کے ذریعے ممکنہ ڈیل کو تو نواز شریف اور مریم نے تہس نہس کر دیا ہے۔ لیکن چوہدری نثار‘ شہباز شریف اور بالادست طاقتوں کے درمیان کوئی واحد حل یا رابطے کا آخری ذریعے نہیں ہیں۔ اور بھی بہت سے ناطے، بہت سی ہاٹ لائنز ہیں۔ یہ سرمایہ دار انہ سیاست، جس کی بدعنوانی مقتدر قوتوں کے تحفظ اور ایما کے بغیر چل نہیں سکتی، پھر انہی قوتوں کو تقریباً ہر شعبے میں مداخلت کا راستہ اور دعوت دیتی ہے۔ حصہ داری بھی ملتی ہے اور پھر اس پر تضادات بھی بنتے ہیں۔
میکسیکو کے نو منتخب بائیں بازو کے صدر لوپیز آبراڈور نے اپنے ایک مشیر کی تجویز کہ مسائل کے حل اور بدعنوانی کے خاتمے کے لئے عدالت کا راستہ اپنایا جائے، کا جواب دیا کہ ’’اب رکاوٹیں صرف عوامی تحریکوں کو متحرک کرنے سے ہی ٹوٹیں گی اور مسائل کے حل کی راہ ہموار ہوگی۔‘‘ یہاں نواز شریف اور مریم کی گرفتاری کے بارے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ ایک بڑا عوامی طوفان کھڑا ہوجائے گا۔لیکن اس طوفان کو شہبازشریف نے گورنر ہاؤس کے سامنے روک کر اس کا زور توڑ دیا۔ اس کا جواز یہ بنایا گیا کہ چھوٹے میاں صاحب آئین اور قانون کے دائرے میں ایک پرامن احتجاج کے ذریعے انتخابات میں بڑی اکثریت لیں گے! لیکن حقیقی انقلابی اور احتجاجی تحریکیں اتنی پرامن اور ٹھنڈی نہیں ہوا کرتیں۔ نہ ہی انہیں قابو کرنا اتنا آسان ہوا کرتا ہے۔ عام لوگ جب اپنے مقدر بدلنے کے لئے سیلاب بن کے امڈتے ہیں تو بعض اوقات قیادتوں کو بھی ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ جن اداروں نے نوا ز شریف کو سزا دی ہے انہی سے ان کی ضمانت اور رہائی کی استدعا کی جا رہی ہے۔ اگر یہ انصاف انہی اداروں نے دینا ہے تو انتخابات بھی انہوں نے ہی کروانے ہیں۔ اور ان اداروں کے اندر کی حالت کیا ہے وہ انہی کے اعلیٰ عہدیداران منظر عام پر لا رہے ہیں۔ تاہم چھوٹے میاں صاحب اقتدار کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اس نظام میں سرکاری طاقت کے حصول کے بغیر وہ سیاست بھی نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اندرونِ خانہ وہ اب پنجاب تک ہی سہی لیکن حکومت کے لئے ترس رہے ہیں۔ لیکن اگر نوا ز شریف اور مریم کا موقف بھی دیکھا جائے تو ووٹ کو عزت کے دینے کے علاوہ ووٹر کو عزت دینے کے اقدامات کا کوئی ذکرنہیں ہے۔ اس معاشرے میں عزت اسی کی ہوتی ہے جس کے پاس پیسہ ہو۔ جو مالیاتی طور پر کسی کا مرہون منت نہ ہو وہی سماجی طور پر حاوی ہوتا ہے۔ اس ملک کے 90 فیصد باسیوں کو عزت کے حصول کے لئے تعلیم، صحت، غذا، رہائش درکار ہے۔ مستقل اور باعزت روزگار کی ضرورت ہے۔ ان بنیادی ضروریات کے بغیر عزت تو دور کی بات انسان‘ انسان بھی نہیں بن سکتا۔ اور وسیع تر عوام کے یہی وہ بنیادی مسائل ہیں جن کے حل کی گنجائش نہ اِس نظام میں ہے نہ کسی مروجہ پارٹی کے پاس اس بارے کوئی متبادل پروگرام اور لائحہ عمل ہے۔ تمام حاوی پارٹیوں کا منشور اِسی نظام تک محدود ہے۔ ماضی میں اِس نظام کے اندر رہتے ہوئے بھی کم از کم ریاستی سرمایہ داری پر مبنی کچھ اصلاح پسندانہ پروگرام دئیے جاتے ہیں۔ آج سب آزاد منڈی کی معیشت کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔
نوا ز شریف کے لئے کچھ ہمدردی کی جو لہر ابھری تھی اس کی وجہ ان کی مدمقابل سیاسی پارٹیوں کے پیچھے طاقت والوں کی پشت پناہی کا بے نقاب ہونا تھا۔ لیکن نوا ز شریف جو صحت مند جمہوریت اور اداروں کے اپنی حدود میں رہنے کی بات کر رہے ہیں وہ بھی اس نظام کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ ایک بحران زدہ نظام کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ بیمار نظاموں میں صحت مند جمہوریت نہیں پنپ سکتی ۔ نواز شریف کا مطالبہ ہے کہ عوام ان انتخابات میں ان قوتوں کے خلاف ووٹ دیں جنہوں نے انہیں فارغ کروا کے جیل جانے پر مجبور کیا ہے۔ یہ اس نظام کے حقیقی آقاؤں کے لئے صرف ایک حد تک خطرناک ہے ۔ لیکن نوا زشریف اور مریم کا پروگرام یہاں آکے بالکل رک سا جاتا ہے۔ اقتصادی بحران اور عام لوگوں کو درپیش معاشی مسائل جو انتشار پیدا کرتے ہیں اسی سے حاکمیت کے توازن میں بگاڑ آتا ہے۔ اب میاں صاحبان وہ پروگرام تو دے نہیں سکتے جو ان کے اپنے طبقے کے وجود کو ہی چیلنج کرتا ہو۔ لیکن اگر عوام کو ابھارنا ہے، ان کی جرات مندانہ حمایت لینی ہے تو پھر ان کے بنیادی مسائل پر بھی بات کرنا ہو گی اور ان کے حل کا راستہ بھی دینا ہو گا۔ کیونکہ اس نظامِ سرمایہ میں ہزارہا جمہوری حکومتیں ہی کیوں نہ آجائیں ووٹر کو عزت تبھی ملے گی جب اُس کا طبقاتی استحصال ختم ہو گا، جب امیر اور غریب کا فرق مٹے گا، جب بنیادی ضروریات نجکاری اور منافع خوری کی بھینٹ چڑھنے کی بجائے بنیادی انسانی حق کے طور پر ہر انسان کو فراہم ہوں گی، جب معاشرہ انفرادی خود غرضی کی بجائے اجتماعی فلاح کی طرف گامزن ہو گا۔ یہ سب کچھ اس نظام کے سیاسی نمائندے اور ادارے تو نہیں کر سکتے۔ اپنی موت کو خود بھلا کون پکارتا ہے۔