تحریر: لال خان
پچھلے ڈیڑھ سال سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی نوجوانوں کی تحریک نے پورے خطے میں ایک ہل چل تو مچا دی تھی، کارپوریٹ میڈیا کے تمام بندھن اوررکاوٹیں بھی چیر دیں۔ اس نئی نسل نے جرا ت مندانہ قربانیوں اور جانثاری کی نئی مثالیں قائم کرکے دنیا بھر میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی اورمعاشی و سماجی جارحیت کے خلاف آواز بلند کی۔ پچھلے ستر سال سے برصغیر کے حکمرانوں کو ’’خود مختار حاکمیت‘‘ ملنے کی آزادی کشمیر کے عوام کو قومی آزادی دینے سے محروم ہی رہی ہے۔ اسکی وجوہات میں کلیدی مسئلہ اس آزادی کی تاریخ اور کردار ہی ہے۔ انگریز سامراج نے اس سات ہزار سال پرانی تہذیب کوبٹوارے سے چیر کر جو ’آزادی‘ دی تھی اس سے انکی براہ راست حاکمیت توختم ہوگئی، لیکن انہوں نے یہاں سے جانے سے پیشتراس امر کو یقینی بنایا کہ اس بٹوارے کے زخم کبھی بھرنے نہ پائیں۔ دشمنی اور منافرت کے اس کھلواڑ کوجاری رکھنے کیلئے انہوں نے کشمیر کا مسئلہ پیچیدہ کر کے چھوڑ دیا تاکہ دشمنی اور محاذ آرائی جاری رہے۔ انکے انسانی بربادی کے آلات اس تناؤ اورتصادم کی کیفیات میں بکتے رہیں اور انکی مالیاتی اور سامراجی جکڑ سے انکی حاکمیت بالواسطہ جاری رہ سکے۔ اگر ہم پارٹیشن کے جاری کردہ برطانوی سامراج کے پورے منصوبے اور طریقہ کار کاجائزہ لیں تو ریاستوں کے حکمرانوں اورانکی رعایا کوفیصلے کرنے کا حق اس انداز میں دیا جیسے یہ حکمران راجے مہاراجے ان ریاستوں کے مالکان ہوں اور رعایا کی رائے ثانوی حیثیت کی حامل ہو۔ یہ بیشتر ریاستیں‘ انگریز سامراج کی کاسہ لیسی اور یہاں کے مظلوم عوام کی جدوجہد سے غداری کے صلے میں راجے مہاراجاؤں کو حاصل ہوئی تھیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سامراج سے ’آزادی‘ کی جدوجہد میں قربانیاں محنت کش عوام نے دی تھیں۔ بھگت سنگھ سے لیکر 1946ء میں انقلاب کی چنگاری جلانے والے جہازیوں سمیت‘ بہت سی تحریکیں برصغیر میں محنت کشوں کے راج اور انگریز کے مسلط کردہ سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خاتمے والی آزادی کیلئے تھیں۔ قیادت کی غداریوں ، سامراجیوں کی چالبازیوں اور مقامی اشرافیہ کی منافقانہ سیاست سے انگریز سامراج اپنے ہی اقتصادی نظام کے نمائندوں کو اس ’’آزادی ‘‘ کااقتدار دیکر چلے گئے۔ مگران کاجانابھی ایک ڈھونگ ثابت ہوا، ہزاروں میل دور بیٹھے سامراجی آج بھی یہاں اپنا معاشی تسلط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جب کسی معاشرے کی اقتصادیات ہی محکوم ہو تو سیاسی آزادی بے معنی اور بے سود بن جاتی ہے۔
جہاں برصغیر کے 1.5 ارب سے زائد عام انسان معاشی اورسماجی جبرمسلسل کا شکار ہیں وہاں کشمیریوں پر ریاستی تشددکاسلسلہ پچھلے 70 سال سے جاری ہے۔ جیسے مسئلہ فلسطین اور اسرائیلی صیہونی ریاست کی تشکیل کے باعث مشرق وسطیٰ میں کئے گئے بٹواروں کو مسلسل عدم استحکام میں رکھا گیا ہے اور انکے باہمی تضادات کوایک عذاب مسلسل بنا کرعرب دنیامیں مغربی سامراجیوں نے اپنا تسلط برقرار رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح کشمیر کو خطے کی وہ قتل گاہ بنا کر رکھا گیا ہے جس کے بہتے ہوئے لہو اور سلگتے ہوئے زخموں نے عدم استحکام اور بے چینی کو جاری رکھا ہوا ہے۔ کشمیر میں جہاں درجنوں تحریکیں مسلسل ابھرتی آرہی ہیں وہیں بھارت پاکستان کے مابین تین جنگیں ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ کی لاتعداد قراردادیں پاس ہو کرگل سڑگئی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات برائے مذاکرات کا سلسلہ بھی لامتناہی عمل کے طور پر مسلسل جاری ہے لیکن ا بھی تک کوئی ٹھوس مذاکرات شروع بھی نہیں ہو سکے۔ اور نہ ہی جنگ سے مسئلہ کشمیر کا مسئلہ کسی حل کے قریب بھی پہنچ سکا ہے۔ کشمیر جس کو جنت بے نظیر کا خطاب کسی شہنشاہ نے دیا تھا آج کے حکمرانوں کے لئے تو اب بھی ایک تفریح گاہ ہوگی۔ لیکن یہاں کے باسیوں کے لئے معاشی، سماجی اور قومی محرومی اور جبر و استحصال نے اسے جہنم بنادیاہوا ہے۔ اس حسین وادی اور خطے میں بے روزگاری کی اذیت سے نکلنے کیلئے یہاں کے نوجوانوں کی کاوشیں پچھلے ستر سالوں میں تیز تر ہو رہی ہیں۔ جب بھوک، ننگ ،افلاس کی محرومی کا درد بہت بڑھ جائے تو پھر عام انسانوں کے لئے قومی حب الوطنی اور ریاستی آزادی بہت بے معنی سی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ویسے بھی کشمیر میں آٹھ سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لداخ سے گلگت بلتستان اور جموں سے لے کر پونچھ تک مختلف ثقافتیں پائی جاتی ہیں۔ کشمیر کسی قومی جمہوری انقلاب سے جنم لینے والی ریاست نہیں ہے۔ لیکن ان حکمرانوں کے ظلم اور استحصال نے یہاں کے باسیوں کو ایک ’کشمیر یت‘ میں جڑنے کی پہچان دی ہے۔ حکمران طبقے کی کوشش ہے کہ مذہبی اور قومی منافرتوں کو بڑھاکرتحریک کو اتنا کمزور کردیاجائے کہ تحریک طبقاتی شکل اختیارنہ کرسکے۔ سامراجی حاکمیتیں ’بیرونی مداخلت‘ کے جواز کو تشدد کیلئے استعمال میں لاکر تحریکوں کو منتشر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ’بیرونی عنصر‘ دوست کی شکل میں دشمن کا کردار ادا کر کے تحریکوں کو پامال کرتا ہے۔ 1948ء میں کشمیر میں رائے شماری کافریب دیا گیا۔ لیکن یہ رائے شماری عوامی خواہشات کی بجائے صرف خطے کے حکمرانوں کی حاکمیت میں جانے کے انتخاب تک محدود تھی۔ اس کے بعد حکمرانوں نے طرح طرح کے شوشے چھوڑے اور عجیب وغریب حل پیش کئے۔ کبھی کشمیر کی 8 حصوں میں تقسیم کرکے حکمرانوں کے آپس میں بندربانٹ کی تجویز پیش کی گئی۔ کبھی’جو جس کے پاس ہے ‘کے فارمولے کے تحت کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کر کے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کا عندیہ پیش کیا گیا۔ آج بھی کچھ رائے شماری (جو مشروط اور محدود ہے) کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے کردارکو پچھلے 70 سال میں تمام کشمیریوں نے اپنے پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹتے ہوئے برداشت بھی کیا ہے اور اسکے فریب کوبھی بھانپ چکے ہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکی اور مغربی سامراجیوں سے خصوصاً قوم پرستوں نے امیدیں باندھ لی تھیں۔ یہ عراق اور افغانستان میں سامراجی جارحیت اور قبضے سے حاصل شدہ ’’آزادیوں‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کی اصلیت پہنچاننے سے بھی عاری ہیں۔ انٹرنیشنل کمیونٹی کی عیاری بھی عام کشمیریوں اور دوسری مظلوم قوموں کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہے۔ حکمرانوں کے کھیل اور سودے صرف حکمرانوں سے ہوتے ہیں عوام سے نہیں۔ لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ سودا وہ خود بھی کرنا ہی نہیں چاہتے۔ جس آگ میں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا لہو جل رہا ہے، سامراجی منافع خوری، برصغیر کے حکمرانوں کا تسلط اور مالیاتی مفادات کی تکمیل اسطرح سے بہتر ہو رہی ہے۔ برطانوی سامراج تنازعہ کشمیر کا جو زخم لگا کر گیا تھا اسی کے پیوند کردہ حکمران طبقات اسے پچھلے 70 سال میں بس کریدتے چلے آئے ہیں۔ جس مسئلے کو وہ حل کرنا ہی نہیں چاہتے اسے کیوں ختم کریں گے۔ کشمیر کا کنٹرول لائن کے اِس پار یا اُس پارکوئی ایسا خطہ، ضلع یا علاقہ نہیں ہے جہاں عوام معاشی اور سماجی آسودگی میں رہ رہے ہوں۔ بے روز گاری اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے۔ غربت اور محرومی پورے برصغیر میں انسانی زندگی کو عذاب بنائے ہوئے ہے۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ برصغیر کے ڈیڑھ ارب سے زائد عوام جس ذلت اور محرومی کا شکار ہیں اور جس خوشحالی کاخواب وہ دیکھ رہے ہیں اسکی منزل کا راستہ وادی کشمیر سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔ پچھلے سال کشمیری نوجوانوں کی قومی اور طبقاتی ظلم وجبر کے خلاف بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ابھرنے والی تحریک نے کنٹرل لائن کے اِس پار اور پورے برصغیر میں آزادی اور نجات کی امنگوں کو پھر سے جگا دیا ہے۔ اس نے پورے خطے کے نوجوانوں کو نئی ہمت ،جذبے اور ولولے سے سرشار کیا ہے۔ ایسی طبقاتی جدوجہد پر مبنی تحریک اگر بھارت اور پورے برصغیر میں اس نظام کو اکھاڑپھینکنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس سے معاشی اور سماجی آزادی کے ساتھ ساتھ مظلوم قومیتوں کو قومی آزادی بھی حاصل ہو گی کیونکہ محنت کشوں کے اقتدار میں ملکیت کی غلیظ سوچ ہی مٹ جایا کرتی ہے۔