پاک امریکہ تعلقات کی منافقت

تحریر: لال خان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سال 2018ء کے پہلے ٹویٹ نے ہی ایک ہیجان برپا کر دیا ہے ۔پاک امریکہ تعلقات پہلے ہی تناؤ کا شکار تھے اب مزید کشیدہ ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ نے اس ’نئے سال کے پیغام‘ میں کہا کہ ’’ امریکہ نے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو گزشتہ 15 سالوں کے دوران 33 ارب ڈالر کی خطیر مالی امداد دی ہے اور اس کے بدلے میں پاکستان نے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پاکستان ہمارے رہنماؤں کو احمق سمجھتا ہے۔پاکستان نے اُن دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کئے ہیں جنہیں ہم افغانستان میں تلاش کرتے رہے اور اُنہیں ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ نو مور(پاکستان کو اب مزید کوئی امداد نہیں دی جائے گی)۔‘‘ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے فوراً جوابی ٹویٹ کیا ’’ہم پہلے ہی امریکہ کو آگاہ کر چکے ہیں کہ ہم مزید کچھ اور نہیں کر سکتے، چناچہ ٹرمپ کا ’نو مور‘ ہمارے لیے بے معنی ہے۔‘‘ وائٹ ہاوئس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے منگل کے روز کہا ہے،’’ہم جانتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کر سکتے ہیں اور ہمارا مقصد ہے کہ وہ ایسا کریں… ٹھوس اقدامات کے بارے میں آپ ا گلے24 سے 48 گھنٹوں میں مزید تفصیلات جان سکیں گے۔‘‘
33.4 ارب ڈالر کی اس رقم میں امریکہ کو افغانستان میں فراہم کی جانے والی معاونت کے لیے ادائیگیاں شامل ہیں۔اکنامک سروے آف پاکستان 2016-17ء کے مطابق اکتوبر2001ء میں امریکہ کے کابل پر حملے کے بعد پاکستان کو مجموعی طور پر 123.13 ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یہ امریکہ کی ’ خطیر ‘امداد سے 89.73 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ پاکستان کے بارے میں متضاد بیانات کے باوجود صدر ٹرمپ امریکی امداد کے ڈالروں کو دوسرے ممالک کو ڈرا نے دھمکانے کے لیے استعمال کر نے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ دسمبر میں ٹرمپ اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے جنرل اسمبلی میں امریکہ کے خلاف ووٹ دینے والے ممالک کی امد اد روک دینے کی دھمکی لگائی تھی۔
پاکستان کے بعد ٹرمپ نے ایک اور ٹویٹ میں فلسطینیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم صرف پاکستان کو ہی بغیر کسی فائدے کے اربوں ڈالر نہیں دے رہے بلکہ ایسے کئی دوسرے ممالک بھی ہیں۔مثلاً ہم فلسطینیوں کو سالانہ کروڑوں ڈالر دیتے ہیں لیکن بدلے میں وہ نہ ہمیں سراہتے ہیں اور نہ عزت کرتے ہیں۔وہ تو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ ہم نے سب سے مشکل مسئلے یروشلم کو مذاکرات کی میز سے ہٹا دیا ہے، لیکن اس کے لیے، اسرائیل کو زیادہ قیمت چکانا ہو گی۔ لیکن جب فلسطینی امن مذاکرات نہیں چاہتے تو ہم مستقبل میں انہیں یہ خطیر رقم کیوں دیں؟‘‘
پاک امریکہ تعلقات بگڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ دونوں اطراف کی سخت پوزیشن لے چکی ہیں جس سے پرانے سامراجی آقا اور اس کی کمزور ماتحت ریاست بظاہر تصادم کی طرف جا رہی ہے۔ لیکن واشنگٹن میں وڈرو ولسن سینٹر کے تجزیے کے مطابق ’’تعلقات میں مکمل خاتمے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، کیونکہ کسی نہ کسی شکل میں قابل عمل تعلقات سے دونوں اطراف کا فائدہ ہے۔ لیکن آنے والے دن تاریک ہوں گے۔‘‘
گزشتہ منگل کو اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’وجوہات صاف ظاہر ہیں۔ پاکستان برسوں سے ڈبل گیم کھیل رہا ہے… کبھی وہ ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں ، اس کے ساتھ ہی وہ افغانستان میں ہمارے فوجیوں پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں… موجودہ امریکی حکومت کے لیے یہ گیم نا قابل قبول ہے۔‘‘ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ امریکہ کی اعلیٰ سفیر کو یہ علم نہیں کہ امریکہ بیس سال سے اس ’ڈبل گیم‘ کو جانتا ہے اور تمام امریکی حکومتیں شدید تنقید کے باوجو د پاکستان کو ’دہشت گردی کے خلاف پارٹنر اور نان ناٹواتحادی‘ کے طور پر چلاتی رہی ہیں۔ 2001ء میں افغانستان پر حملے کے وقت سے ہی تمام امریکی حکومتیں پاکستانی ریاست کی دہشت گردی کے خلاف دوغلی پالیسی سے بخوبی واقف ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف اس پالیسی کو تسلیم کیا بلکہ پینٹا گان اور سی آئی اے کے کچھ حصے ’سٹریٹجک گہرائی‘ کے نظریے کو فروغ دینے میں ملوث رہے ہیں۔
اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کے بعد ٹرمپ کو مشرق وسطیٰ میں آگ بھڑکانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔اور اب ہمیشہ سے غیر مستحکم پاک افغان سرحد پر پر تشدد واقعات میں کسی بھی اضافے کا قصور وار بھی امریکی صدر ہی قرار پائے گا۔ ٹرمپ کے ایک ٹویٹ نے تعلقات کی ناگزیر کشیدگی میں اسلام آباد کی واشنگٹن پر اخلاقی برتری کا جواز فراہم کر دیا ہے۔ ایک کمزور سول حکومت کو طاقت کی نمائش کا بہترین موقع میسر آ گیا ہے جس کی انہیں اشد ضرورت تھی اور اب فوج کی قیادت کے ساتھ وہ بھی نمایاں ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کئی دہائیوں کی فاش غلطیوں کا ازالہ کرنے سے بری الزمہ ہو گئی ہے۔نواز شریف نے جہاں ٹرمپ کے بیان کو ’’افسوس ناک‘‘ اور ’’غیر سنجیدہ‘‘ قرار دیا وہیں اس نے ریاستی عناصر کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’سوچنا چاہیے کہ دنیا قربانیوں کے باوجود ہماری بات کیوں نہیں سنتی‘‘ اور ’’خود فریبیوں کی وجہ سے ماضی میں ملک دو لخت ہوا۔‘‘
حال ہی میں واشنگٹن نے تنبیہ کی تھی کہ اگراسلام آباد نے ان گروپوں کے خلاف کاروائی نہ کی جنہیں وہ سٹریٹجک اثاثے سمجھتا ہے تو ’’پاکستان اپنی سرزمین سے محروم ہو سکتا ہے۔‘‘ پاکستانی سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ پاکستان میںیک طرفہ کاروائی کر سکتا ہے جیسے 2011ء میں اسامہ بن لادن کے خلاف کی گئی تھی۔ پاکستان کی جانب امریکہ کا یہ نیا جارحانہ رویہ بہت خطرناک ہے جس سے پاکستان پر واشنگٹن کا رہا سہا اثر و رسوخ بھی ختم ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ اسلامی بنیاد پرستوں اور فوج کے جرنیلوں کو جواز فراہم کر رہا ہے کہ وہ ہندوستان پر پاکستان میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے امریکہ کو ’’بھارت کی زبان‘‘ بولتا قرار دے سکیں۔دوسری جانب اس سے مذہبی جنونی مودی کی ہندوتوا سرکار کو جبر اور شاؤنزم بھڑکانے میں مدد ملے گی۔ دوسرے لفظوں میں ٹرمپ کا یہ بیان خطے میں رجعتی قوتوں کے لیے ایک رحمت ہے جو مذہبی اور قومی منافرتوں پر پلتے ہیں اور جنگی جنون اور مذہبی جبر کے ذریعے محنت کش عوام کو دبائے رکھتے ہیں۔
ایسے ٹویٹ ٹرمپ کی سادہ لوحی نہیں بلکہ اس کی شاطرانہ چالیں ہیں جن کا مقصد دشمنیوں کو بھڑکا کر امریکہ کے محنت کشوں اورنوجوانوں کے مصائب اور محرومیوں کو پس پشت ڈالنا ہے۔اسی طرح ایران میں ارب پتی ملاؤں کی جابر حکومت کے خلاف اٹھنے والے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت میں ٹرمپ اور نیتن یاہو کے بیانات کو ملا اشرافیہ اس تحریک کے خلاف استعمال کر رہی ہے کیونکہ ایران میں سامراج مخالف جذبات بہت شدید ہیں۔ یہ کھوکھلی بڑھک بازیاں اور پالیسیوں میں تزلزل تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی قوت امریکی سامراج کے زوال کا اظہار ہے۔ درحقیقت امریکہ سابقہ نو آبادیاتی ممالک پر بالا دستی اور سفارتی غلبہ برقرار رکھنے کے لیے درکار معاشی طاقت کھو چکا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ ’واحد‘ سپر پاور تھا لیکن محض پچیس سال میں اِس کی یہ حالت ہو چکی ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت واشنگٹن کے لیے ایک خطرہ ہے۔ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے چین کے عالمی انفرا سٹرکچر کے منصوبے کی حتمی کامیابی میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ واشنگٹن نے حال ہی میں سی پیک منصوبے کے سر عام مخالفت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی حکومت نے فوراً اور واضح الفاظ میں پاکستانی حکومت بالخصوص پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے حمایت اور یکجہتی کے بیان جاری کیے ہیں۔
یہ سفارتی تنازعے اور سامراجی چالیں پاکستان کے عام لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں۔ اس خانہ جنگی کے ہاتھوں ان کی جانی اور معاشی مشکلات بد تر ہو گئی ہیں۔ امریکی سامراج 1947ء سے ہی پاکستانی ریاست کو اپنے جیو سٹریٹجک اور معاشی مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے۔لیکن انہوں سے بھارت سے کبھی مکمل کنارہ کشی اختیار نہیں کی جہاں کہیں بڑی منڈی موجود ہے۔پاکستان کے حکمران طبقات کے نقطہ نظر سے بھی امریکی اس وقت پیچھے ہٹ جاتے ہیں جب پاکستانی ریاست کو ان کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ بڑی مثال1965ء کی جنگ ہے۔ لیکن پاکستان کی چور اور بھکاری اشرافیہ ہمیشہ امریکی سامراج کی کاسہ لیسی کرتی رہی ہے۔
1950ء کی دہائی میں حقیقی سامراج مخالف قوتوں کو کچلنے کے لیے سی آئی اے نے پاکستان اور دوسرے ممالک میں اسلامی بنیاد پرستی کو متعارف کروایا ۔ 1978ء افغانستان میں نور محمد ترکئی کی بائیں بازو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ’ڈالر جہاد‘ شروع کیا گیا۔ یہ مذہبی جنون کی شروعات تھی جو کئی نسلوں سے اس خطے کو تاراج کر رہا ہے۔ تاریخ کا اپنا مکافات عمل ہوتا ہے۔ یہی شیطان اب سامراجیوں اور پاکستانی ریاست کے ان دھڑوں سے بر سر پیکار ہیں جو انہیں قابو کرنا چاہتے ہیں۔
اب بھی کئی مذہبی دہشت گرد گروپوں کو سامراج کی حمایت حاصل ہے اور کئی سٹریٹجک گہرائی کی پالیسی کے اثاثے ہیں۔ امریکی سامراج کی شکست کے عمل میں علاقائی سامراج اور پاکستانی ریاست کے حصے افغانستان میں بالا دستی حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔اس جنگ میں کئی متحارب قوتیں بر سر پیکار ہیں اور اس کا کوئی انت نہیں۔ محکوم طبقات اور غریبوں کے لیے اس جنگ اور اس نظام میں صرف بربادی ہے۔ سامراجی بٹواروں کی ان سرحدوں اورسٹریٹجک اور معاشی بالا دستی کی جارحانہ حرص کے ہوتے ہوئے امن قائم نہیں ہو سکتا۔ صرف عوام ہی ایک تحریک میں اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے ان جابر ریاستوں،اس نظام اور سامراجی قبضے کو ختم کر سکتے ہیں۔