تحریر: موسیٰ
14 نومبر کو پاک ایران سرحد کے قریب بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ سے گولیوں سے چھلنی 15 لاشیں ملیں۔ مرنے والوں کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔ چند دن بعد تربت سے تقریباً 70 کلومیٹر دور تجبان سے پانچ مزید لاشیں ملیں جن کا تعلق بھی پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ افراد غیر قانونی طور پر ایران کے راستے یورپ جانا چاہتے تھے۔ ان بیس افراد کے قتل کی ذمہ داری مبینہ طور پر ’بلوچ لبریشن فرنٹ‘ نے قبول کی ہے۔ یہ غریب نوجوان ریاست کی روزگار اور خوشحال زندگی کی فراہمی میں ناکامی اور غربت اور افلاس سے تنگ آئے ہوئے وہ لوگ تھے جو اپنے سارے رشتے ناتے چھوڑ کر ایک بہتر زندگی کی امید لیے ایک ایسے سفر پر چل پڑے تھے جہاں ان کی موت کم و بیش یقینی تھی۔
اسی طرح دو سال پہلے اپریل 2015ء میں تربت کے قریب 20 مزدوروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد اسی علاقے میں سی پیک کی حفاظت کے نام پر فوج کا ایک ڈویژن تعینات کر دیا گیا تھا۔ تربت کے قریب ہونے والا حالیہ واقعہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ پورے بلوچستان میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جسے روزانہ کی بنیاد پر کام کی جگہ پر جاتے ہوئے اور واپس گھر آتے ہوئے دن میں تین چار مرتبہ مختلف چیک پوسٹوں پر اپنا شناختی کارڈ چیک نہ کرانا پڑتا ہو۔ گوادر میں تو حالت یہ ہے کہ قومی شناختی کارڈ کے علاوہ گوادر کے شہریوں کے لیے الگ شناختی کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے۔ جس کے پاس وہ شناختی کارڈ نہیں ہوگا اسے شہر میں داخل ہونے ہی نہیں دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اندرون بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں شادی کی تقریبات کے لیے باراتیوں کو لانے اور لے جانے کے لیے پہلے ایف سی کو اطلاع دینا پڑتی ہے۔ بصورت دیگر وہ علاقے میں آ نہیں سکتے۔ لیکن پنجاب سے تعلق رکھنے والے یہ غریب نوجوان ایران کے راستے یورپ جانے کے لیے بلوچستان کے ایک جنگ زدہ علاقے سے ایف سی کی ان گنت چیک پوسٹوں سے آسانی سے گزر جاتے ہیں جہاں نہ صرف فورسز کو بلکہ خود ان کو بھی اپنی جانوں کو لاحق خطرات کا علم ہے۔ پھر ان کے قتل کے بعد گوریلا تنظیموں کا ذمہ داری قبول کرنا صورت حال کو مزید گنجلک کر دیتا ہے۔
اس واقعے نے بلوچستان میں قومی محرومی و جبر اور قومی مسئلے کی پیچیدگی اور گھمبیرتا کو ایک مرتبہ پھر بھیانک انداز میں عیاں کیا ہے۔ جبکہ اس قومی جبر کے خلاف بلوچ نوجوانوں کی سرکشی کو کچلنے کے لیے ریاستی جبر اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ دوسری طرف ترقی اور سی پیک کے شادیانے بجا کر بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے سامراجی ممالک کی مداخلت نے قومی مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے اور نئے تضادات کو جنم دیا ہے جو مزید خونریزیوں اوربربادیوں کو جنم دے رہے ہیں۔
پچھلے ستر سالوں سے حکمران ریاست نے جس طرح بلوچستان کو اس کے تمام تر معدنی وسائل کے باوجود معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ رکھا ہے، مختلف ادوار میں اس معاشی اور سماجی جبر کے خلاف جدوجہد اور تحریک اتنی ہی شدت کے ساتھ ابھرتی رہی ہے۔ اس قومی جبر کے خلاف جدوجہد میں ان گنت نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ 1970ء کی دہائی میں ہونے والی مسلح سرکشی میں واضح طور پر بائیں بازو کا رجحان حاوی تھا اور قیادت برملا طور پر سوشلسٹ بلوچستان کو اپنی منزل قرار دیتی تھی جو اس وقت پاکستان میں بائیں بازو کے کارکنوں کے لیے جوش و جذبے کا باعث تھا۔ اگرچہ یہ تحریکیں اپنے مقاصد کو حاصل نہ کرسکیں لیکن جدوجہد اور سرکشی کی روایت مسلسل چلتی رہی ہے۔ حالیہ تحریک اس سلسلے کی سب سے طویل سرکشی ہے جو پچھلی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ لیکن بلوچستان کے سٹریٹجک محل وقوع، معدنی وسائل اور سامراجی طاقتوں کی اس محل وقوع اور وسائل پر قبضے کے لیے مداخلت نے نئے تضادات اور تشدد کے سلسلے کو جنم دیا ہے جس نے یہاں کے باسیوں کی زندگیوں کو ایک عذاب مسلسل میں تبدیل کر دیا ہے۔
جہاں ایک طرف قومی محرومی اور جبر کے خلاف ایک سرکشی چل رہی ہے تو دوسری طرف ریاست نے اس سرکشی کو کچلنے کے لیے پورے بلوچستان کو ایک پولیس سٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہاں صوبائی حکومت صرف برائے نام ہے اور فنڈز کی خرد برد تک محدود ہے۔ باقی تمام تر معاملات ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور ایف سی چلاتی ہے۔ سکیورٹی فورسز پر ہر حملے کے بعد بلوچ علاقوں میں فوجی آپریشنز کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے جس میں بلاتفریق ہر خاص و عام کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو مسلح جنگ کے طریقہ کار کی محدودیت اور اس کے منفی پہلوؤں کی غمازی کرتا ہے۔ ہر ایسے حملے کے بعد ریاستی جبر مزید وحشت ناک ہوتا جاتا ہے۔ اس جبر میں سیاسی بحث و مباحثے اور سیاسی ماحول کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ ہر سرکش اور ترقی پسند آواز کو کچل دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف مذہبی بنیادپرستوں اور وحشی دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے جو کھلے عام فرقہ وارانہ بنیادوں پر شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو پچھلی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے مسلسل قتل کر رہے ہیں۔ لیکن اس قتل عام کے جواب میں سکیورٹی ادارے بلوچ علاقوں میں عام لوگوں کے خلاف آپریشن کرتے ہیں۔ انگریزی جریدے ڈان (Dawn) کی ایک حالیہ رپورٹ میں ان حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ رپورٹ میں ایف سی کے ایک سابقہ اہلکار کا انٹرویو لیا گیا ہے جس نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’’جب بھی ہزارہ مارے جاتے، ایف سی اہلکار اصل ملزموں کی بجائے بلوچ علیحدگی پسندوں کے پیچھے پڑ جاتے۔ ‘‘ اسی رپورٹ میں متعلقہ اہلکار کے حوالے سے مزید لکھا گیا ہے، ’’وہ بہت سارے اجلاسوں اور چھاپوں میں بھی شریک رہے جو کسی بھی بڑے حادثے کے بعد کیے جاتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ ان اجلاسوں میں ہزارہ آبادی کو تحفظ دینے کی بجائے اس سب کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا۔ ان اجلاسوں کے بعد ہم گاؤں میں چھاپہ مارتے اور درجنوں بلوچ نوجوانوں کو دھر لیتے جن کا واضح طور پر کسی معاملے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا تھا۔ یہ ایک شیطانی چکر تھا۔ پہلے ہزارہ کمیونٹی کو ٹارگٹ کرتے پھر بلوچ علاقوں پر ریڈ کرتے۔ حتیٰ کہ جب کوئی اصل مجرم پکڑا جاتاتو اُسے اینٹی ٹیررسٹ فورس کے حوالے کردیتے اور جیل میں قید کر دیتے جہاں سے وہ فرار ہوجاتے۔ ‘‘ (Where Should Hazaras go? By Muhammad Hanif, Dawn, 22nd October, 2017)
دوسری طرف حکمران طبقات کا سی پیک کے ذریعے بلوچستان میں خوشحالی لانے اور یہاں کے باسیوں کی تقدیر بدلنے کا نہ ختم ہونے والا بیہودہ پروپیگنڈا جاری ہے۔ پہلے تو عالمی سرمایہ داری کی موجودہ بحرانی کیفیت سماج میں کسی طرح کی خوشحالی لانے سے ہی قاصر ہے۔ چین کی سرمایہ داری آج ایک ایسے عہد میں ’ابھر‘ رہی ہے جب عالمی سطح پر سرمایہ داری اپنے نامیاتی بحران سے گزر رہی ہے۔ چین میں سرمایہ داری کی بحالی نے خود چین کے اندر امارت اور غربت کی وسیع خلیج کو جنم دیا ہے۔ طبقاتی تضادات مزید بڑھے ہیں۔ اس وقت چین میں پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ بیروزگار موجود ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پیداواری یونٹوں میں مزدوروں کی خودکشیاں عام ہیں۔ چین میں ہر سال مزدوروں کی ہزاروں ہڑتالیں ہوتی ہیں جسے عالمی سامراجی میڈیا مکمل نظر انداز کر دیتا ہے۔ ایسے میں چین کی سامراجی سرمایہ کاری صرف نئے تضادات کو جنم دے گی۔ بلوچستان کے علاقے سیندک میں چین سونے اور تانبے کے پراجیکٹ پر پچھلی دو دہائی سے زائد عرصے سے کام کر رہا ہے لیکن اس پسماندہ علاقے میں چین آج تک ایک ڈسپنسری نہیں بنا سکا۔ اس کے علاوہ گوادر شہر کی حالت یہ ہے کہ شہر میں پینے کے پانی کی شدید قلت ہے اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ شہر میں گھروں سے چوریاں زیادہ تر پانی کی ہوتی ہے۔
لینن نے بہت پہلے زار شاہی کے روس کو مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ کہا تھا۔ آج پاکستان بھی لینن کے اسی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ لینن نے اس جیل خانے کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک پروگرام بھی دیا تھا جو آج بھی انقلابیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ لینن نے واضح طور پر بغیر کسی جھجک کے روس کے اندر بسنے والی تمام مظلوم و محکوم قومیتوں کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی کو تسلیم کیا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ لینن نے مختلف قومیتوں کی ایک وسیع تر رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کی تشکیل کا نعرہ بھی دیا تھا۔ آج پاکستان میں مظلوم اور محکوم قومیتوں کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی کا حصول سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کی محدودیت اور منفی نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اِس سے سامراجی طاقتوں کو اپنی مداخلت کو بڑھانے کے مواقع میسر آئے ہیں، ریاست کو جبر کے جواز ملے ہیں، دوسرے صوبوں کے محنت کشوں سے تحریک کی جڑت ٹوٹی ہے اور اس میں موجود ترقی پسند رجحانات پسپائی کا شکار ہوئے ہیں۔ صرف محنت کشوں کی طبقاتی جڑت سے ہی اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے اداروں کو اکھاڑا جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں اس وقت متحارب سامراجی طاقتیں لوٹ مار کے لیے آپس میں دست و گریباں ہے۔ چین کی سامراجی مداخلت نے صورت حال کو مزید پرانتشار کردیا ہے۔ ایسے میں اگر پاکستان کے صنعتی مراکز میں محنت کشوں کی ایک انقلابی تحریک ابھرتی ہے جو یہاں سے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکے تو ہی مظلوم قومیتوں کو نہ صرف اس سرمایہ دارانہ جیل خانے سے نجات ملے گی بلکہ معاشی، سماجی اور ثقافتی آزادی بھی نصیب ہو گی۔