تحریر: قمرالزماں خاں
پاکستان پیپلز پارٹی کو بنے پچاس سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اسی مناسبت سے پارٹی قیادت گولڈن جوبلی منا رہی ہے۔ پارٹی قیادت نے اپنے کارکنوں کو 30 نومبرکوپارٹی پرچم لہرانے کی ہدایت کرتے ہوئے تلقین کی ہے کہ وہ اس دن کی افادیت اور اہمیت کو پورے جوش و جذبے سے محسوس کریں۔ پیغام میں کہا گیا ہے کہ تمام صوبوں، کشمیر، گلگت و بلتستان کے تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز میں پارٹی پروگرام منعقد کئے جائیں، جہاں پارٹی کے مشن کو عزم، اعتماداور وفاداری کے ساتھ فروغ دینے کا تجدید عہد کریں۔ اگر کوئی شخص ایک ٹکٹ پر کئی مزے لینے میں دلچسپی رکھتا ہے توالگ بات ہے مگر ہلکی سی سوچ بچار کاحامل سیاسی کارکن سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی لفظ ’مشن‘ سے دراصل مراد ہے کیا۔ اگر زیادہ باریک بینی سے نہ بھی دیکھا جائے تو بھی پاکستان پیپلز پارٹی بنانے والی قیادت کا مشن بالکل واضح تھا۔ اس مشن کو انہوں نے تاسیسی اجلاس میں تحریری شکل میں پیش کرکے اسکی منظوری حاصل کی تھی، پھر اسی پروگرام کی بنیاد پر انہوں نے پارٹی کی بنیاد رکھ کر پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں، مزدوروں اور کسانوں کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔ اس تاسیسی پروگرام سے ایک ہی وقت میں دو ردعمل پیدا ہوئے تھے۔ ایک ردعمل اس وقت کے حکمران طبقات، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور برسراقتدار جرنیلوں، افسر شاہی اور انکے حلیفوں کاتھا، جنہوں نے پیپلز پارٹی کے پروگرام کو تمسخرکا نشانہ بنا کر مسترد کر دیا۔ دوسرا ردعمل بہت ہی معنی خیز اور تاریخ میں بہت ہی دوررس نتائج مرتب کرنے والا تھا۔ یہ محنت کش طبقے کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ پروگرام کے پیش نظر پارٹی میں شمولیت اور اس کی بھرپور حمایت کی صورت میں تھا۔ پارٹی کا تاسیسی پروگرام بلاشبہ ایک انقلابی اور طبقاتی پروگرام تھا جس کے مقاصد غیرمبہم طور پر سرمایہ داری کاخاتمہ اور سوشلزم کے ذریعے غیر طبقاتی معاشرے کی تشکیل تھے۔ اس تاسیسی پروگرام میں ’روٹی، کپڑااورمکان‘ کے نعرے کی عملی تعبیرکیلئے ایک مکمل لائحہ عمل دیا گیا تھا: سرمایہ دارانہ معیشت کی جگہ سوشلسٹ معیشت کا قیام، تمام بڑی صنعتوں، بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور اداروں کوقومی تحویل میں لیا جانا، جاگیر داری نظام کے خاتمے اور زمینوں پر ’کوآپریٹو سوسائٹیوں‘ کے ذریعے اجتماعی فارمنگ کا منصوبہ، اسی طرح فوج کی جگہ عوامی ملیشاکاقیام۔ یہ چند چیدہ نکات تھے اس تاسیسی پروگرام کے‘ جو پچاس سال پہلے لاہور میں مین بلیوارڈ گلبرگ پر واقع ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ہونے والے تاسیسی اجلاس میں مندوبین نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اِسی کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے۔ لیکن اگر پاکستان پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت اُسی پارٹی اور تاسیسی پروگرام کی پچاس سالہ تقریبات منعقد کر رہی ہے تو سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ کیا تاسیسی پروگرام کی سالگرہ منائی جا رہی ہے یا برسی کا انعقاد کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کے پیچھے پارٹی قیادت کی کئی دہائیوں کی سیاسی زوال پذیری اور نظریاتی انحطاط کی تاریخ موجود ہے۔
پارٹیاں عہد سے مطابقت رکھنے والے مسائل اور کرنٹ ایشوز کے مطابق اپنے انتخابی منشور تو ہر الیکشن سے قبل تبدیل کر سکتی ہیں۔ یہ تبدیلی مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی۔ مگر کوئی بھی پارٹی اپنے قیام کے مقاصد کو بعد ازاں تبدیل نہیں کر سکتی۔ پیپلز پارٹی کے موجودہ نظریات اور طرز سیاست اور اس کو بنانے کے مقاصد میں کسی طور مطابقت اور تال میل موجود نہیں ہے۔ تب پارٹی بنانے کا مقصد مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کے مفادات کا تحفظ طے کیاگیا تھا۔ مگر اب پارٹی کے اول تا آخر مقاصد سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ٹھیکے داروں اور طبقہ امرا کے مفادات کا حصول ہے اور محنت کش طبقے کے سلگتے ہوئے مسائل کو خال خال فقط نعرہ بازی کی حد تک ہی محدود کر دیا گیا ہے۔ عملاً محنت کش طبقے کے خلاف ہر وہ قدم اٹھایا جاتا ہے جو عالمی سامراجی ادارے اور حکمران طبقات پیپلز پارٹی کی قیادت کو تفویض کرتے ہیں۔ تب پیپلز پارٹی بنانے کا مقصد طبقات سے پاک سماج کی تشکیل قرار دیا گیا تھا جو پارٹی کی اجتماعی قیادت کے مطابق صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ اب پیپلز پارٹی نہ صرف اِس بنیادی اصول سے منحرف ہو چکی ہے بلکہ پارٹی کو غریب اور محنت کش طبقے سے کاٹ کر ’’ملٹی کلاس پارٹی‘‘ قرار دیا جاتا ہے تاکہ استحصالی طبقات کو قیادت کے مرتبے پر فائز کیا جا سکے۔ تب معیشت کے تمام کلیدی شعبوں کو قومیانے کی بات کی جاتی تھی۔ اب نجکاری اور اسکی مختلف شکلوں کو متعارف کرانے کا سہرا اپنے سر باندھا جاتا ہے۔ تب علاج معالجے اورتعلیم کی تجارت ممنوع قرار دی گئی تھی اور ان بنیادی سہولیات کو ہر شہری کا یکساں اور مفت حق قرار دیا گیا تھا۔ اب یہ حق تسلیم کرنے کی پالیسی کو ایک سنگین غلطی قرار دے دیا گیا ہے۔ غریبوں کے مفت علاج معالجے کے سرکاری اداروں کو نجی تحویل میں دیا جانا موجودہ پالیسی ہے اور اس پر پورے جوش و جذبے سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ تب روزگار کی فراہمی ریاست کا بنیادی فریضہ قرار دیا گیا تھا۔ اب کنٹریکٹ، ٹھیکے داری اور دیہاڑی کی عارضی ملازمتوں کی عالمی سامراجی پالیسی کوپارٹی لائن بنا لیا گیا ہے۔ تب تاسیسی پروگرام میں چند خاندانوں میں مرتکز شدہ دولت کی ضبطی اور اس ضبط شدہ دولت کو عوامی دھارے میں پھیلانے کاعہد کیا گیا تھا۔ اب دولت کے ارتکاز کی مالیاتی پالیسیوں کی پاسداری پیپلزپارٹی کا نصب العین بنا دی گئی ہے۔ تاسیسی پروگرام میں بارہا اقوام عالم کی مظلوم قوموں کے ساتھ مل کر سامراجی جکڑ بندی کے خلاف جدوجہد کا اعادہ کیا گیا تھا۔ آج پارٹی سامراجی پالیسیوں کا ڈاک خانہ بن چکی ہے۔ اقتدار کے حصول کیلئے حاوی سامراجی طاقتوں پرتکیہ کیا جاتا ہے اور پھر اقتدار میں آ کر انکے طے کردہ فارمولوں، قوانین اور جبرو استحصال کے ضابطوں کو لاگو کیا جاتا ہے، سامراجی پراکسیوں کیلئے ایندھن فراہم کیا جاتا ہے، سامراج کے حکم پر طالبان تشکیل دیئے جاتے ہیں اور سامراجی جنگوں کو اپنی جنگ قرار دیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی جن خطوط پر تشکیل دی گئی تھی ان سے بوکھلا کر ملائیت نے اس کوکافروں کی جماعت قرار دے دیا تھا۔ لوگوں کوپیپلزپارٹی میں جانے سے روکنے کیلئے اس کا رکن بننے والے کو کافر کہہ کر اسکے نکاح کو بھی فسخ قرار دے دیا گیا تھا۔ مگرلوگوں نے 1332 ملاؤں کے مشترکہ اورمتفقہ فتوے کو مسترد کرکے وہ راستہ اختیار کیا جو ملاؤں کے مطابق ’کفر‘ تھا۔ لیکن بعد ازاں پارٹی نے ترقی پسندی کا راستہ ترک کرکے ملاؤں کی راہ پر چلنا شروع کر دیا۔ ملک کے آئین میں رجعتی شقوں کو شامل کیا گیا، کفر کے سرکاری فتووں کی راہ ہموار کی گئی اور ملاؤں کو خوش کرنے کے دیگر بے شمار اقدامات اٹھائے گئے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ پارٹی کی مختلف شاخیں وحشی ملاؤں کے ہاتھوں پر بیعت کرتی ہیں، اُن کے بل بورڈز پارٹی پرچموں اور ناموں سے لگوائے جا رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی 30 نومبر اور یکم دسمبرکو ایک سوشلسٹ فلسفے، اشتراکی پروگرام اور انقلابی سیاسی لائحہ عمل پر تشکیل دی گئی تھی، جس کا مقصد پاکستان سے سرمایہ داری، جاگیر داری، ملائیت، افسر شاہی اور طبقاتی تفریق کا خاتمہ تھا۔ سینکڑوں سالوں کے ظلم وستم، جبرواستبداد اوراستحصال کا خاتمہ پارٹی کا مطمع نظر تھا۔ لیکن آج کی پارٹی میں ایسی کوئی خاصیت نظر نہیں آتی۔ گولڈن جوبلی پر تجدید عہد کی ضروت اگر کسی کو ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ پارٹی قیادت ہے جسے 5 دسمبر کو پریڈ گراؤنڈ میں ہونے والے مرکزی جلسے میں اپنے نظریاتی انحراف سے تائب ہونا ہو گا۔ پارٹی قیادت نے اگر پچاس سال پہلے والے انقلابی منشور کی گولڈن جوبلی منانا ہے تو سرمایہ داری کی ہر شکل کے خلاف جنگ کا اعلان کرنا ہوگا اور پارٹی کو ’ملٹی کلاس‘ کی بجائے محنت کش طبقے کے مفادات کا پاسدار قرار دینا ہوگا۔ عملی ثبوت دینے کیلئے پارٹی کو کالے دھن کے ان داتاؤں کے تسلط سے نکالنا ہو گا۔ قیادت میں موجود عوام دشمن عناصر کی جگہ محنت کش طبقے کے نمائندگان کو لانا ہوگا۔ وگرنہ تاسیس کی گولڈن جوبلی کی بجائے تاسیسی نظریات سے انحراف اور غداری کی سالگرہ منانے کا اعلان کرنا چاہئے۔ بہت ہوچکا! پارٹی قیادت کو ایک ٹکٹ میں دو شو چلانے کامذاق اب بند کرنا چاہئے۔