مردم شماری کا مسئلہ

تحریر: لال خان

حالیہ مردم شماری کے نتائج نے ایک سیاسی طوفا ن کھڑا کر دیا ہے اور اس معاشرے کے سلگتے ہوئے قومی اور فرقہ وارانہ تضادات کو مزیدبھڑکا دیا ہے۔ سندھ حکومت، ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں اور مختلف قوم پرست پارٹیوں نے ان نتائج کو ایک سازش قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ چونکہ ان پارٹیوں کی سیاست زیادہ تر لسانی، قومی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہے اس لیے وہ ہر اس ایشو، جس سے قومی تضادات کو ابھارنے کا موقع ملے، کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم اور پانی کی تقسیم کا مسئلہ ہو یا سی پیک کے روٹ اور تعلیم اور دوسرے شعبوں میں کوٹے کا، کسی بھی ایشو پر پاکستان میں قومی مسئلہ اور تضادات و تعصبات ابھر آتے ہیں یا پھرشعوری طور ابھارے جاتے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ بار بار اس لیے بھی ابھرتا ہے کیونکہ اس ملک میں قومی استحصال اور جبر موجود بھی ہے اور پیچیدہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں 70 سال بعد بھی ایک جدید قومی ریاست اور یکجا ’’پاکستانیت‘‘ پر مبنی سماجی و اقتصادی اور تاریخی اعتبار سے ایک قوت تشکیل نہیں پاسکی۔ یہ عمل ایک نامکمل اور ناہموار شکل میں موجود ہے۔
حکمران اس طبقاتی اور قومی تفریق وناہمواری کو دور کرنے کی بجائے اس کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہیں۔ کوئی بھی قوم کبھی بھی ریاستی دھونس، نصابی تدریس اور میڈیا کے پراپیگنڈے کی بدولت تشکیل نہیں پاتی، بلکہ اس کے برعکس ریاستی جبر اور فوج کشی کے ذریعے کسی قومی نظریے کونافذکرنے سے اُن قومیتوں میں اپنے مقبوضہ ہونے کا احساس پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے جس سے ابھرنے والی محرومی خصوصاً نوجوانوں میں باغیانہ رحجانات کو فروغ دیتی ہے۔ اس محرومی کی وجہ سے پچھلے 70 سالوں سے مختلف خطوں میں خانہ جنگیاں اور مسلح بغاوت کی تحریکیں موجود رہی ہیں۔ لیکن اس قومی محروی کا احساس بغیر ٹھوس اقتصادی وجوہات کے بھی نہیں ہے۔ اکانومسٹ کے مطابق’’ لاہور میں بدترین غربت میں بسنے والوں کی تعدادآبادی کا دس فیصد ہے۔ جبکہ بلوچستان کے پسماندہ دیہاتوں میں یہ شرح 90 فیصد ہے‘‘۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح عدم مساوات‘ طبقاتی و قومی بنیادوں پر موجود ہے۔ لیکن اگرایک طرف پاکستان کے مرکز کے ادارے اور سیاستدان اس محرومی کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں تو دوسری طرف موجودہ استحصالی نظام، جوان بربادیوں کی بنیادی وجہ ہے، میں قوم پرست بھی قومی استحصال کا کوئی حقیقی یا ریڈیکل حل دینے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں مختلف قوموں کے حکمران طبقات اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے ان مسائل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ان مسائل کاحل دینے کے بارے میں نہ تو وہ سنجیدہ ہیں اور نہ ہی انکے پاس کوئی حل موجود ہے۔
اسی طرح دنیا کے مختلف معاشروں میں آبادیوں کے تناسب کو مذہبی رجعت کی سیاست کرنے والے بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً اسرائیل فلسطین تنازعے میں اب صورتحال یہ ہوتی جارہی ہے کہ شرح پیدائش کے تناسب سے فلسطینیوں کی آبادی زیادہ تیزی سے بڑھی ہے۔ اب یہ تقریباً یہودی آبادکاروں کے کل آبادی کے برابر یا ان سے زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ اس مسئلے کو انتہا پسند یہودی سیاستدان اور رابی ایک خطرہ بنا کر پیش کررہے ہیں اور یہودیوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔ اسی طرح بھارت میں چونکہ مسلمانوں کی شرح پیدائش زیادہ ہے اس لیے ہند وبنیاد پرست اس کو ایک خطرہ کی گھنٹی بنا کر پیش کررہے ہیں۔ وہ ہندو آبادی پر زور دے رہے ہیں کہ وہ زیادہ بچے پیدا کریں۔ یہاں بھی مختلف فرقوں میں ایسے پر چار عام ملتے ہیں۔ لیکن اس قسم کے رجعتی رحجانات اور مہمات کسی مسئلہ کا حل نہیں ہیں، بلکہ یہ جنونی پرچارک شعوری طور پر ان اعدادوشمار کو مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرتیں بڑھانے اور تعصبات سے عام انسانوں کو تقسیم کرکے اپنی وحشی حاکمیت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عمومی طور پر آبادی میں تیز اضافہ غریب معاشروں میں پایا جا تا ہے۔ جہاں ایک طرف محنت کشوں اور غریبوں کو روزی روٹی کے لیے زیادہ ’’ہاتھ‘‘ درکار ہوتے ہیں وہاں سماجی و ثقافتی گھٹن بھی اس تیز اضافے کا باعث بنتی ہے۔ ریاستی اقدامات کے جبر سے آبادی کا کنٹرول اور منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان میں ایوب کے ’’خاندانی منصوبہ بندی پروگرام‘‘ اور بھارت میں اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے کے ’’سٹرلائزیشن پروگرام‘‘ کی ناکامی اس کا ثبوت ہیں۔ جب کوئی معاشرہ اقتصادی اور مادی ضروریات و انفراسٹرکچر کی ترقی حاصل کرتا ہے تو پیدائش کا عمل اور آبادی میں اضافہ زیادہ مناسب ہو جاتا ہے۔ لیکن غریب ممالک میں جہاں آبادی بہت زیادہ ہے وہاں معاشرے کی پسماندگی کے سبب سب سے بڑے معاشی اثاثے ’’مین پاور‘‘ کو انسانی سماج کی ترقی کے لیے بروئے کار نہیں لایا جا سکتا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جدید تاریخ کے مختلف ادوار میں حکمرانوں کو مردم شماری کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی اور اس سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ہر حکمران کو اپنی حاکمیت کو قائم رکھنے اور اسے طوالت دینے کے لیے کسی نہ کسی طرز کی یا کسی نہ کسی سطح پر معاشرے کی منصوبہ بند ی کرنا پڑتی ہے۔ ایسی منصوبہ بندیوں کے لیے آبادی کی مقدار کا تعین کرنا ایک کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ تاریخ کے کسی بھی سماجی و معاشی نظام کے عروج اور ترقی کے ادوار میں حکمران اس مردم شماری کو کسی حد تک مثبت منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ لیکن ایک زوال اور جبر کے عہد میں یہ مردم شماری منفی اور رجعتی عزائم کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ برصغیر میں تاریخی طور پر جو پہلی مستند مردم شماری ہوئی تھی وہ شیر شاہ سوری نے کروائی تھی۔ اس کے بعد بیشتر مردم شماریاں مختلف حاکمیتوں اور ادوار میں ہوتی آئیں۔ انگریزوں نے سامراجی نوآبادکاری کے بعد پہلی مردم شماری 1874ء میں کروائی تھی۔ اس میں برصغیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ’’ مذہب‘‘ کا خانہ ڈالا گیا تھا۔ جس کابنیادی مقصد برطانوی سامراج کی ’’تقسیم اور حاکمیت‘‘ کی پالیسی کا نفاذ تھا۔ جس کاہولناک انجام آج بھی ہمارے سامنے خونریزی اور فرقہ وارانہ بربریت کی شکل میں بربادیاں پھیلا رہا ہے۔ ایک طبقاتی معاشرے میں مردم شماری کا مقصد منصوبہ بند ی کے ذریعے عوام کی ضروریات کی تکمیل اوران کی تکالیف دور کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقصد بالادست طبقات کی حاکمیت کو مختلف تعصبات اور تنازعات کو پروان چڑھا کر مسلط کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس نظام میں معیارِ زندگی اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کا اندازہ اوسط فی کس آمدن سے لگایا جاتا ہے۔ اگر ایک محنت کش کی اجرت 3000 روپے ماہوار ہے اور اسکے مالک کی آمدن تیس لاکھ ماہانہ ہوتو ’’اوسط آمدن ‘‘ 15 لاکھ ایک ہزار پانچ سو روپے بنے گی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماج میں آمدن کی اتنی شدید تقسیم وتفریق کے ہوتے ہوئے اوسط کے لحاظ سے جو اعدادوشمار پیش کیے جاتے ہیں وہ کتنے مصنوعی اور جعلی ہیں۔ پاکستان میں ڈیڑھ ڈالر یومیہ کے حوالے سے 30 فیصد آبادی انتہائی غربت سے نیچے ہے لیکن اگر یہ دو ڈالر یومیہ کردی جائے یعنی 6000 روپے ماہانہ تو غربت کا تناسب 60 فیصد بن جاتا ہے اور اگر پانچ ڈالر یومیہ یعنی 15000 روپے مہینہ کی جائے تو یہ غربت 80 سے 86 فیصد ہوجاتی ہے۔ 15000 روپے ماہوار میں کس قسم کا گزارا ہوسکتا ہے یہ سب جانتے ہیں!
اتنی شدید مالیاتی تقسیم اور تفریق میں کوئی حقیقی منصوبہ بندی ہو ہی نہیں سکتی۔ جب تک دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم اور امارت اور غربت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی خلیج موجود ہے، حکمران طبقات وسائل کی بھاری لوٹ گھسوٹ جاری رکھے ہوئے ہیں تو کوئی ایسی اقتصادی اور معاشرتی منصوبہ بندی نہیں ہوسکتی جس سے عام انسانوں کی زندگیاں سہل ہوسکیں، محرومی کا خاتمہ ہو اور محرومی وحسد سے جنم لینے والے تعصبات اور منافرتوں کا قلع قمع ہوسکے۔ یہ منصوبہ بندی صرف ایک ایسے معاشرے میں ممکن ہو سکتی جہاں پیداوار اور ترسیل کا اختیار ’’منڈی‘‘ کے پاس نہ ہو۔ جہاں تمام وافر دولت، حکمرانوں کے لوٹ خزانے اور پوری معیشت معاشرے کی اشتراکی ملکیت اور مزدور ریاست کے مکمل اختیار میں لی جائے۔ جب تک یہ اونچ نیچ اور معاشی نا انصافی کا نظام ختم نہیں ہوتا ایسی ریاست بھی جنم نہیں لے سکتی جو صرف شفاف مردم شماری ہی کرواسکے اور نہ ہی اجتماعی فلاح اور اشتراکی ترقی وخوشحالی کا سماج ممکن ہے۔ وہ منصوبہ بندی جس سے عوام کے دکھ درد کا خاتمہ ہو اورمعاشرے کو حقیقی خوشحالی نصیب ہو صرف انسانی ضروریات کی تکمیل کرنے والی منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

متعلقہ:

مردم شماری: اعداد بدلنے سے حالات نہیں بدلتے!