تحریر: لال خان
ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوب ایشیائی پالیسی کے اعلان نے ایک دفعہ پھر ثابت کیا ہے کہ ایک بحران زدہ نظام میں معاملات جتنے بدلتے ہیں اتنے ہی پہلے جیسے رہتے ہیں۔ اُس نے افغانستان سے فوری انخلا کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کو دہشت گرد گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں دینے کے سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔ ٹرمپ نے اعلان کیا، ’’ہم اب مزید پاکستان کی جانب سے طالبان اور دوسرے گروہوں، جوپورے خطے کے لیے خطرہ ہیں، کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے بارے میں خاموش نہیں رہ سکتے۔ پاکستان کو افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے کا فائدہ اور دہشت گردوں کو مسلسل پناہ دینے کا نقصان ہی ہو گا۔ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر امداد دیتے رہے ہیں جبکہ وہ انہی دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے جن کے خلاف ہم لڑ رہے ہیں۔‘‘
ٹرمپ نے اپنے صدر بننے سے پہلے کے مؤقف سے شرمناک پسپائی اختیار کی ہے، جب اُس نے پرجوش طریقے سے مکمل انخلا کی بات کی تھی۔ اُس نے تسلیم کیا، ’’میرا ابتدائی موقف انخلا کا تھا اور تاریخی طور پر میں اپنے وجدان پر ہی عمل کرتا رہا ہوں لیکن اپنی پوری زندگی میں میں نے سنا ہے کہ جب آپ اوول آفس میں بیٹھتے ہیں تو آپ کے فیصلے پہلے سے مختلف ہوجاتے ہیں۔ ایک تیز انخلا کے نتائج قابل پیشگوئی اور ناقابل قبول ہیں۔ ایک تیز انخلا دہشت گردوں بشمول داعش اور القاعدہ کے لیے خلا پیدا کرے گا جسے وہ پرُ کریں گے، جیسا کہ 11 ستمبر سے پہلے ہوا تھا۔‘‘ ٹرمپ نے افغانستان بھیجے جانے والے فوجیوں کی تعداد نہیں بتائی، تاہم نائب صدر مائیک پینس نے مبینہ طور پر کانگریس کو بتایا تھا کہ 3900 اضافی فوجی بھیجے جائیں گے تا کہ پہلے سے موجود 8400 فوجیوں کی صلاحیت کو بڑھایا جاسکے۔
ٹرمپ میں کم از کم یہ خوبی ضرور ہے کہ امریکی سامراج کے کردار کے بارے میں صاف گو اور منہ پھٹ ہے اور ماضی کے امریکی صدور کی طرح منافقت نہیں کرتا: ’’ہمارا کام ملک کو تعمیر کرنا نہیں ہے بلکہ دہشت گردوں کو مارناہے۔ ہم اب امریکی فوج کو دور افتادہ ملکوں میں جمہوریت قائم کرنے کے لیے استعمال نہیں کریں گے… وہ دن گزر چکے۔ اب ہم اپنے اتحادیوں سے مل کر اپنے مشترکہ مفادات کی حفاظت کریں گے… ‘‘ حتیٰ کہ اُس نے کٹھ پتلی افغان حکومت کو بھی نہیں بخشا: ’’ہماری حمایت کسی بلینک چیک کی طرح نہیں ہے۔ ہمارا صبر لامحدود نہیں ہے۔ ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں گے۔‘‘ یاد رہے اس سال کے آغاز سے ڈھائی ہزار افغان پولیس اور فوجی مارے جا چکے ہیں اور ٹرمپ کے بیان سے چند گھنٹے پہلے کابل کے بھاری سیکیورٹی والے ڈپلومیٹک زون میں ایک میزائل داغا گیا۔ یہ سب طالبان کے بڑھتے اثرورسوخ کی غمازی کرتا ہے۔
ٹرمپ کی تقریر کسی حقیقی پالیسی کی بجائے مایوسی کی غماز ہے۔ اس جارحیت نے پہلے سے برباد افغانستان کو سولہ سال تک مزید تاراج ہی کیا ہے۔ افغان حکومت اب بھی ملک کے بڑے حصے پر اپنا کنٹرول قائم کرنے میں ناکام ہے۔ طالبان حملے کرتے رہتے ہیں لیکن اقتدار میں نہیں آسکتے۔ القاعدہ اب اپنے ماضی کی صرف پرچھائی ہے۔ نام نہاد ’’داعش‘‘ بعض علاقوں میں پنپ رہی ہے لیکن کابل حکومت کی بجائے طالبان اس سے نبرد آزما ہیں۔ ’’طالبان‘‘ اور ’’داعش‘‘ وغیرہ کے ناموں والے ایسے تمام نیٹ ورک اور گروہ منشیات کی تجارت میں حصہ داری پر لڑرہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی پچھلی ایک دہائی سے یہاں سے بھاگنے کی ترکیبیں سوچ رہے ہیں، لیکن کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی انہیں یقین نہیں ہے کہ اُن کے بعد افغان حکومت ٹک پائے گی یا نہیں۔ مزید افواج کے آنے سے بھی تنازعے کی بنیادی کیفیت تبدیل نہیں ہوگی۔
پی جے کراؤلی، جو سابق نائب امریکی وزیر خارجہ ہے، نے ٹرمپ کی تقریر کے بعد کہا، ’’افغان جنگ اتنی جلدی ختم ہونے والی نہیں اور اُس (ٹرمپ) کی پہلی مدت صدارت کے دوران تو بالکل بھی نہیں۔ اُسے امریکی عوام کو بتانا ہوگا کہ امریکہ اور نیٹو 2021ء تک بھی افغانستان میں ہوں گے… طالبان کے لیڈر ملاں عمر اور اسامہ بن لادن دونوں پاکستانی سرزمین پر مرے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں۔ پاکستان کے دوہرے پن سے نبٹے بغیر افغانستان میں کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔‘‘ اِسی طرح روسی وزارت خارجہ کے زمیر کابلوف نے ازوستیا ڈیلی کو بیان دیا، ’’افغانستان میں امریکی مہم ناکام ہوچکی ہے۔ امریکی پریشان ہیں اور پیشہ ور فوجیوں کی جگہ بھاڑے کے سپاہیوں کو لانے کا منصوبہ احمقانہ ہے۔ اس سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا۔ یہ کرائے کے سپاہی بھاگ جائیں گے…‘‘ لیکن سب سے بڑھ کر افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کا کمانڈر جنرل سٹینلے مک کرسٹل ہی تھا جس نے 2009ء میں خطے میں سامراجی جارحیت کی شکست کو تسلیم کیا تھا اور وائٹ ہاؤس نے اُسے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ اِسی امریکی سامراج نے افغانستان میں 1978ء کے ثور انقلاب کے خلاف ڈالر جہاد کا سارا کھلواڑ شروع کروایا تھا، پاکستانی حکمرانوں کے ذریعے بنیاد پرستی کی وحشت کو ابھارا تھا اور اِن سیاہ طاقتوں کی فنانسنگ کے لئے منشیات کا نیٹ ورک بچھایا تھا۔ تاریخ اپنا انتقام ضرور لیتی ہے۔
ٹرمپ کا پاکستان کے بارے مؤقف باعث حیرت نہیں ہے۔ دراصل اُس نے امریکی سامراج کی کمزوری اور پاکستان کی اُس ڈیپ سٹیٹ کی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکامی کا اظہارکیا ہے جس پر امریکی انتظامیہ سالوں سے ڈبل گیم کا الزام لگا رہی ہے۔ یہ تقریر تاریخی زوال کا شکار سامراجی سلطنت کے لیڈر کی کھوکھلی بڑھک ہے۔ ماضی میں بھی پاکستان کی فوجی امداد بند کرنے کا معاملہ محض لفاظی اور دھمکیوں تک ہی محدود رہا ہے ۔
امریکہ کی کمزوری اور اس تنازعے میں اپنی ناگزیریت سے پاکستانی ریاست بخوبی آگاہ ہے۔ بالخصوص چینی سرپرستی کی وجہ سے وہ ٹرمپ کی اِن کھوکھلی دھمکیوں پر کان نہیں دھریں گے۔ نہ ہی وہ اپنی تذویراتی گہرائی کی پالیسی ایسے وقت میں ترک کریں گے جب خطے کے دوسرے ممالک افغانستان (جسے پاکستان اپنا حلقہ اثرتصور کرتا ہے) میں اپنی جڑیں بنا رہے ہیں۔ تاہم اگر امریکی سامراج پاکستانی ریاست کو مکمل مطیع نہیں کر سکتا تو پاکستان کی بحران زدہ سرمایہ دارانہ ریاست کے ادارے بھی چین کی تمام تر سرمایہ کاری اور سرپرستی کے باوجود امریکی امداد کے بغیر نہیں چل سکتے۔ ہندوستان کو اس تنازعے میں شامل کرنے کا ٹرمپ کا نامعقول بیان ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کو شدید تر کرے گا۔ ہندوستان کے حکمران طبقات کے افغانستان میں بالادستی کے اپنے منصوبے ہیں۔تاہم افغانستان میں تیل، گیس، کاپر اور دوسری معدنیات میں سب سے بڑی سرمایہ کاری چین کی ہے۔ لہٰذا چین تنازعے کا سب سے اہم کھلاڑی ہے۔ چین کی جانب سے پاکستان کے خلاف ٹرمپ کے بیان کی فوری مذمت چین کی خطے میں گہری مداخلت اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی طرف اُس کی حساسیت کو واضح کرتی ہے، جس میں اُس نے 900 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ روس، فرانس اور دوسرے یورپی ممالک کے بھی اپنے سامراجی مفادات ہیں۔ ایران کی ملاں اشرافیہ کی جنوبی اور مشرقی افغانستان میں گہری مداخلت ہے جبکہ آل سعود اور قطر جیسے دوسرے خلیجی ممالک بھی اس تنازعے میں حصہ دار ہیں۔
لیکن افغانستان کے غریب اور تباہ حال عوام مزید کتنی ’گریٹ گیمز‘ برداشت کریں گے؟ یہ تمام سامراجی ممالک اپنی اپنی پراکسیوں کے ذریعے افغانستان کو تاراج کر رہے ہیں۔اس ہوس، لوٹ مار اور جبر کے نظام میں کالے دھن پر پلنے والے مذہبی دہشت گرد گروہوں کی وحشت اور علاقائی و غیر علاقائی سامراجی طاقتوں کی خونی چپقلش میں افغانستان کے غریب عوام ہی کچلے جا رہے ہیں۔ ہر جنگ اور ہر مذاکرات سے مزید تباہی ہی جنم لیتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاستیں جبلی طور پر توسیع پسند ہوتی ہیں۔ ان کے اتحاد مفادات کی خاطر بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن افغانستان کے لوگوں کا مقدر صرف یہ بربادیاں اور آفتیں نہیں ہیں۔ اُنہیں اپنی تقدیریں اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے اِس جبر و استحصال کے خلاف اٹھنا ہوگا۔ بنیاد پرستوں، سامراجیوں اور جابر ریاستوں کی دہشت کے خلاف ایک یکجا طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی اِس خطے کے باسی اپنی قومی، طبقاتی اور معاشی آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔