نا اہل نظام کا انتشار

تحریر: اویس قرنی

نواز شریف نااہل قرار پایا، اس پہلے ایک وزیر اعظم گیلانی نااہل ہوا، جس کے بعد پرویز اشرف پر نااہلی کی تلوار لٹکتی رہی۔ یعنی اِن عدالتی فیصلوں اور تاثرات کے مطابق پچھلی ایک دہائی سے پاکستان کے اقتدار پر نااہل حکمران براجمان تھے۔ اِن سے پہلے والوں پر بھی اگر مقدمات بنائے جائیں ( بعض پر چل بھی رہے ہیں) تو تمام کے تمام نااہل قرار پائے جائیں گے اور اب مستقبل میں آنے والوں کے بارے میں کوئی عدالتی مقدمہ چلے یا نہ چلے نااہل وہ بھی ہیں۔ ایک تاخیر زدہ سرمایہ دارانہ نظام میں اہل حکمران ہو ہی کیسے سکتے ہیں۔ ضیا الحقی آرٹیکل 62/63 کے اطلاق سے شاید کئی ایک مزید قربانیاں دینی پڑیں تاکہ بے نقاب ہوتی اِس جمہوریت کے ڈھونگ اور ریاستی عظمت کو معتبر اور قابل قبول بنایا جا سکے۔ کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ مار کی بنیاد پر اور اِنہی کے نام پر دراصل ریاست اور سامراج کے متحارب دھڑے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ لیکن یہ سب حکمران طبقے کی آپسی لڑائیاں ہیں، جو اُنہی کے نظام کے بحران کا اظہار ہیں۔ ایسے شدید فیصلوں سے بھی ’’کرپشن‘‘ کا خاتمہ ہو سکتا ہے نہ محنت کشوں کے کسی ایک سنجیدہ مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
ویسے تو عالمی سرمایہ داری کے بحران اور سامراج کی تاریخی زوال پذیری نے پوری دنیا میں حکمرانوں کی سیاست و ثقافت کو تہہ و بالا کیا ہوا ہے۔ لیکن پاکستان میں تو بالعموم پچھلی کئی دہائیوں اور بالخصوص 2007ء کے بعد سے جو ہو رہا اُسے بیہودہ تماشے کا نام ہی دیا جا سکتا۔ اس سارے کھیل تماشے کے کچھ خوش آئند پہلو بھی ہیں کہ اس میں حکمرانوں کے تمام تر حربے، ریاست و سیاست کے تمام ڈھانچے، تمام ’’ستون‘‘ عوام کی نظروں میں بری طرح بے نقاب ہوئے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ وعدالتی نظام، پارلیمان، میڈیا، مقننہ، فوج، پولیس اور احتسابی اداروں کی تکریم کو جس طرح سے عوامی سوچ اور شعور پر مسلط کیا گیا تھا، حکمرانوں کی ان آپسی لڑائیوں نے اس کا پردہ فاش کر دیا ہے۔ عدالتوں کے باہر روز ہونے والے تماشے اور میڈیا پر اس کی ہر وقت تشہیر سے عوام اب اکتا چکے۔ لوگوں کو اعصابی بیماریوں کا شکار کر دیا گیا۔ کرپشن کاایک لا متناہی شور ہے اور دوسری طرف حادثاتی سانحوں، بم دھماکوں اور معاشی دہشت گردی میں عام عوام لٹتے اور مرتے ہی چلے جارہے ہیں۔ کرپشن کے اس بے ہنگم شو ر میں پہلے احمد پور شرقیہ اور پھر لاہور سمیت کئی دہشت گرد دھماکوں کی گونج، جن میں غریب محکوم مارے گئے، ماند ہی پڑ گئی۔
پاکستان کی حالیہ سیاست میں اِس وقت حکمران جماعت کی قیادت کی کرپشن او ر نااہلی کی بحثوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور اس کرپشن کے خلاف مدعیت میں جتنے بھی سیاسی جماعتوں کی لیڈران تھے وہ خود سر سے پاؤں تک اِسی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ایک طرف سرمایہ داروں کا کلاسیکی نمائندہ نواز شریف ہے، جس کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ اُس کے مدمقابل کالے دھن کے نودولیتوں اور شہری مڈل کلاس کی امیدوں کا محور عمران خان ہے۔ اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو اِس پُر انتشار عہد میں کئی دوسرے ممالک میں اس وقت دائیں بازو کے دھڑوں کا ہی آپس میں مقابلہ ہو رہا ہے، پھر چاہے وہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کاہو یا فرانس میں میرین لی پین اور میکرون کا۔ لیکن اس عہد میں شعور کو جھنجوڑ دینے والے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ امریکہ میں برنی سینڈرز کا ابھار ہوا۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی نے ایک بائیں بازو کے منشور کے ساتھ جیریمی کاربن کی قیادت میں ایک تاریخی واپسی کرتے ہوئے سیاسی نقشے کو ہی یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ جو کہ پوری دنیا کی بائیں بازو کی روایتی پارٹیوں کے لیے ایک پیغام سے زیادہ ایک چتاؤنی ہے کہ اگر محنت کش اپنی پارٹیاں تعمیر کر سکتے ہیں تو پاسوک (یونان) کی طرح اُنہیں تہہ و بالا بھی کر سکتے ہیں اور اگر پارٹیاں محنت کشوں کے لیے آواز بلند کریں جن میں ان کے مسائل کا حل موجود ہو تو لیبر پارٹی جیسی قریب المرگ پارٹیوں کو بھی دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی روایتی پارٹی کا حال اِس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ محنت کشوں پر ظلم و جبر کی انتہا کر دینے والے اور پاکستانی سیاسی تاریخ کے سب سے تاریک باب کے مصنف جنرل ضیاالحق کی تمام تر باقیات اس وقت پارٹی کے فیصلہ ساز عہدوں پر براجمان ہیں۔ محنت کشوں کے سب سے بڑے دشمن ان کی پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں اور جب کو ئی پارٹی قیادت اپنے عوام کی سیاست اور منشور سے منحرف ہوجائے تو وہ محض دوسروں کی کاسہ لیس ہی بن سکتی ہے اورآج کی پاکستان پیپلز پارٹی کی کیفیت نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کا اس وقت کوئی آزادانہ مؤقف منظر عام پر نہیں ہے۔
پاناما کے گرد رچائے گئے اس سارے ڈرامے کو بھی اس کی اساس میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ معاملہ اپنی ظاہریت میں جتنا سادہ نظر آتا ہے اپنی گہرائی میں کہیں زیادہ پیچیدہ معلوم پڑتا ہے۔ وکی لیکس کے مطابق حالیہ پاناما لیکس کی دستاویزات جارج سورس کی فرم ’اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن‘ اور یو ایس ایڈ کی مشترکہ فنڈنگ سے شائع کی گئیں۔ جس کا حتمی مقصد پوری دنیا اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور روس میں امریکی سامراج سے چپقلش رکھنے والی حکومتوں کے خلاف مالیاتی بدعنوانی کے اسکینڈلزکی بنیاد پر انتشار پیدا کرنا تھا۔ ہنگری نژاد امریکی بزنس مین اور بینکر ’جارج سورس‘سامراجی ایما پر مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ میں حکومتوں کی تبدیلیوں کے لیے پہلے بھی کئی بار اپنی خدمات سر انجام دے چکا ہے۔ عام طور پر ایسے دعوے سازشی نظریات کی حدوں تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن بالعموم سازشی نظریات میں بھی سچ کی کچھ رمق موجود ہوتی ہے۔
ایسے میں پاکستان میں بھی حکومت مخالف پارٹیوں، جن میں سر فہرست پاکستان تحریک انصاف ہے، کی پس پردہ قوتوں کا تعاقب کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ یہاں حکومتی حلقوں کی جانب سے پاناما لیکس کو بارہا ’’بیرونی سازش‘‘ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ بالخصوص نواز شریف کی نا اہلی جیسے بڑے اقدام اور دوسرے حالیہ واقعات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو قومی امکان ہے کہ یہ ایک بیرونی چپقلش کا داخلی تسلسل ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی اچانک اور راتوں رات حکومت مخالف حکمت عملی کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ دوسری جانب اِس وقت مشرق وسطیٰ میں ایک عیاش شہزادے نے کہرام مچا رکھا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے بعد سعودیہ میں بڑے پیمانے پر شاہی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سعودی عرب کے خطے میں اپنے بڑے حریف اور ساتھ ہی امریکی سامراج کے اسٹرٹیجک پارٹنر ’’قطر‘‘ کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آیا۔ لیکن محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے پر جہاں امریکی ریاست کا ایک دھڑا خوش ہے وہاں بعض ناراض دھڑا بھی موجود ہے۔ امریکی ریاست خود اس وقت شدید ترین تضادات کا شکار ہے۔ اس لیے جہاں ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر کو دہشت گرد قرار دلوا کر 110 ارب ڈالر کا امریکی اسلحہ سعودی عرب کو بیچا وہاں امریکی سیکرٹری خارجہ’ریکس ٹیلر سن‘نے بھی دوحا کے ساتھ 12 ارب ڈالر کے جنگی اسلحے کی تجارت کی۔ ریکس ٹیلر سن ’ایگزون موبائل کمپنی ‘کا مالک ہے جس کے دنیا بھر میں گیس کے ذخائر رکھنے والے ممالک سے تجارتی معاہدے ہیں اور قطر میں دنیا کے سب سے بڑے گیس کے ذخائر موجو د ہیں۔
امریکی سامراج اپنے حریفوں بالخصوص روس، چین اور ایران کو لگام ڈالنے اور افغانستان میں اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے ایک لمبے عرصے سے پاکستان کی سرزمین، ریاست اور حکومت میں مداخلت کر تا رہا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کی مداخلت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ لیکن نواز دھڑے کے امریکہ کی نسبت چین و روس کی طرف زیادہ جھکاؤ اور ایران و قطر کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے نہ صرف کچھ داخلی ریاستی دھڑے بلکہ سعودی عرب اور امریکہ وغیرہ بھی ناخوش نظر آتے ہیں۔ جس کا معمولی سا اظہار وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا۔ قطر سے ایل این جی کا اربوں ڈالر کا معاہدہ اور نواز لیگ کے لئے ’’قطری شہزادے‘‘ کا مسیحا کا کردار بھی صورتحال پر روشنی ڈالتا ہے۔ یوں اِس سارے معاملے میں سامراجی قوتوں، بالخصوص امریکہ و چین اور سعودی عرب، قطر و ایران کی مداخلت اور تضادات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں سی پیک کے ٹھیکوں پر بندر بانٹ کی داخلی لڑائیاں ایک اور عنصر ہیں جو صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیتی ہیں۔ تاہم آخری تجزئیے میں یہ کوئی اصولی نہیں بلکہ پیسے اور لوٹ مار کی لڑائیاں ہیں جن میں سامراجی قوتوں کی ایما پر ریاست کے اندر دھڑے بندی موجود ہے۔ موجودہ کیفیت میں ایک دھڑا واضح طور پر حاوی نظر آ رہا ہے۔
اس سارے سامراجی کھلواڑ میں پاکستان ایک سیاسی اکھاڑے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ بھلا اس ملک میں کونسا جرنیل، سیاستدان، صحافی، جج، وکیل یا بیوروکریٹ ایسا ہے جس نے امانت اور صداقت کو مد نظر رکھ کے اربوں روپے مالیت کے اثاثے بنا لیے ہیں اور یہاں پر ایسا کونسا حکمران گزرا ہے جس پر کرپشن کے الزامات نہ لگے ہوں۔ یوں یہ ایک لایعنی بحث ہے۔ اقتدار کی ہوس میں حکمرانوں کی آپسی لڑائیوں نے انصاف کے ایوانوں کو عوام کے سامنے ننگا کر دیا ہے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ پوری پاکستانی ریاستی مشینری نواز مخالف ہو گئی تھی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اِن عدالتی گھن چکروں کا سہارا لیے بغیر نواز شریف کی کب کی چھٹی کرا دی گئی ہوتی۔ یوں فیصلے لٹکانے اور ٹالنے نہ پڑتے۔ ہر روز ایک نئی تاریخ دے دی جاتی رہی، کبھی فیصلہ محفوظ کر دیا گیا تو کبھی جے آئی ٹی (جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم) کی تشکیل کی گئی۔ بزنس کے طلبہ جے آئی ٹی (جسٹ اِن ٹائم ) کے اصطلاح سے بخوبی آگا ہ ہوں گے جس کے مطابق اشیا کی طلب کے قوانین کے مطابق اس طرح ترسیل کی جاتی ہے کہ مقابلہ بازی کے اس نظام میں کم سے کم وقت میں صارفین تک رسد کو یقینی بنایا جائے۔ اور اس عدالتی جے آئی ٹی نے بھی ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ کے ساتھ نہایت ہی کم وقت میں شواہد جمع کر کے جے آئی ٹی کے مفہوم کے ساتھ انصاف کیا ہے لیکن اسی مفہوم کی حامل ایک اور جے آئی ٹی بھی تشکیل دی گئی تھی جس نے مشال خان کے قتل کی تحقیقات کرنی تھیں، جس کو آج اخباری سرخیوں سے بھی غائب کر دیا گیا ہے۔ انصاف کے اِس دُہرے معیار سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ زر کے اس نظام میں تعلیم، علاج اور دیگر سہولیات کے ساتھ انصاف کی بھی بولی لگائی جاتی ہے اور جہاں پیسے والوں کے مقدمات ہوں اور پیچھے بھاری ہاتھ ہوں وہاں انصاف کی دوڑیں اور پھرتیاں بھی تیز تر ہو جایا کرتی ہیں۔ سامراجی اور ریاستی تضادات کے پیش نظراچانک عدالت سے فیصلہ دلوایا گیا، لیکن اِس فیصلے کی وجہ سے لٹیروں کے محض ایک ٹولے کی تبدیلی کے سوا اور کیا ہواگا، اقتدار پر جو بھی براجمان ہو ایک چیز یقینی ہے کہ وہ کسی نہ کسی سامراجی دھڑے کی دلالی سے ہی اس منصب تک پہنچ سکتا ہے۔ پچھلے عرصے میں پاکستان میں چین کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے صورتحال مزید پیچیدہ ہی ہوئی ہے۔ یہ انتشار آنے والے دنوں میں کم نہیں ہوگا بلکہ مزید بڑھے گا۔ لیکن پھراب اس سب کے بعد کیا! کیا اب لوگوں کی بربادیوں کا ازالہ ہو جائے گا، کیا سکولوں میں تعلیم اور ہسپتالوں میں علاج کی فراوانی ہوجائے گی، کیا آئندہ کوئی کرپشن نہیں کرے گا؟ یا جو نیا اقتدار سنبھالے گا وہ سچا اورصاف گو ہو گا؟ ایسا ہونا یا ایسا ہونے کی امید رکھنا حماقت کی انتہا ہے جس پر زیادہ تر ٹی وی اینکر براجمان نظر آتے ہیں اور دوسروں کو براجمان کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ جہاں پاکستان کی وسیع آبادی اُس 70 فیصد کالی معیشت سے تعلق رکھتی ہو جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے، وہاں بدعنوانی سے پاک سماج کی تشکیل کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ اور یہ بات بھی درست ہے کہ اگر اس کرپشن اور بدعنوانی کو یکسر ختم کر دیا جائے تو یہ معیشت ہی ختم ہو جائے گی۔
پاکستان کی تازہ ترین معاشی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ پچھلے چارسالوں میں 98 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا ہے جو کہ2016-17ء کے مالی سال میں سب زیادہ 32.5 ارب ڈالر ہے۔ برآمدات میں مسلسل گراوٹ ہورہی، بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک داخلی سیاسی انتشارکی کیفیت میں ہے۔ انفراسٹرکچر کی حالت یہ ہے کہ اس سال ایک لاکھ67 ہزار پاس ہونے والے طلبہ میں سے صرف 60 ہزار کو سرکاری کالجوں کی نشستوں پر داخلہ مل سکاہے، صرف خیبر پختون خواہ میں پچھلے تین ماہ میں 3500 سے زائد بچے علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے جبکہ 150 کے قریب خواتین نئی زندگی کو جنم دیتے جان کی بازی ہار گئیں۔ دوسری طرف سکولوں کالجوں کی جارحانہ نجکاری کے منصوبے جاری کیے جا رہے ہیں۔ ملک کے باقی صوبوں کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ محنت کش مختلف محاذوں پر اپنے حقوق کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ حال ہی میں ہمیں YDA پختونخواہ کی تحریک دیکھنے کو ملتی ہے جو ابھی تک جاری ہے۔ ریلوے ڈرائیورز ایسوسی ایشن کی ہڑتال بھی ہوئی جس کو جبر اور جھوٹے وعدوں سے ختم کرایا گیا، لیکن اس ہڑتال کے کامیاب نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ریلوے کے دیگر شعبوں کے ملازمین کو اِس کے ساتھ نہ جوڑنا تھا۔ مروجہ عدلیہ، صحافت اور سیاست سے عوام بیزار ہو چکے ہیں، نہ وہ ان پر اعتماد کرتے ہیں اور نہ ہی ایوانوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے وہ اپنا کو ئی سروکار سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں جو ٹاک شو میں بیٹھا ہے وہ بھی اتنا ہی بدعنوان ہے جتنے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ۔ محنت کش اس سب سے اسباق سیکھ رہے ہیں ان کے سامنے ان کے سارے دشمن بے نقاب ہو رہے ہیں، ایسے میں اپنے حالات سے اکتائی یہ محنت کش عوام جب کسی سرکشی کی طرف بڑھے گی تو ان حکمرانوں کے تما م ٹولوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے اور اپنی قیادت خود سے تراشتے ہوئے اپنی حاکمیت اور اپنا نظام قائم کرے گی۔